... loading ...
تحریک آزادی کشمیر کے عظیم رہنما اور مقبول بٹ شہید کے دست راست امان اﷲ خان طویل علالت کے بعد 26اپریل کو ہم سے جدا ہوئے ۔یہ جدائی اگرچہ خلاف فطرت نہیں ،لیکن میرے لئے اس حد تک تکلیف دہ تھی کہ دل نا تواں پر قابو پانا انتہائی مشکل ہوگیا۔آنکھوں سے خود بخود عقیدت و محبت کے آنسو ٹپکنے لگے۔یوں لگا جیسے میں ماں کی ما متا اور والد صاحب کی شفقت سے ،مہاجرت کے اس صبر آزما دور میں پھر ایک بار محروم ہوگیا۔
مجھے یا د آرہا ہے کہ1999ء میں اپنے ایک دوست اور مربی ایس ایم افضل کی وساطت سے قبلہ امان صاحب سے ملاقات ہوئی اور پھر ان ملا قاتوں کا سلسلہ آخری سانس تک جاری رہا۔پہلی ہی ملا قات میں مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ یہ کو ئی عام انسان نہیں ،اسے اﷲ نے نہ صرف حکمت و دانائی سے نوازا ہے بلکہ یہ عزم و ہمت کی ایک علامت بھی ہیں ۔اگر چہ وہ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے سربراہ تھے ،لیکن میں نے انہیں اسی دائرے میں مقید نہیں دیکھا۔میرے نزدیک وہ تحریک آزادی کے رہنما تھے ،اس تحریک آزادی کے جو1947ء سے جاری ہے اور جس میں اب تک پانچ لاکھ لوگوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے ہیں ۔میں نے امان اﷲ خان کو بہت قریب سے دیکھا،اتنے قریب سے شا ید کسی اور چا ہنے والے نے نہیں دیکھا ہوگا،انہوں نے زندگی کا ہر لمحہ صرف اور صرف تحریک آزادی کی کا میابی کیلئے وقف رکھا۔وہ ہر اس شخص کے ساتھ محبت رکھتے تھے،جسے تحریک آزادی سے وابستگی تھی ۔ہاں وہ زہر ہلاہل کو قند کہنے کا مشورہ دینے والوں کیلئے نا پسندیدہ شخصیت تھے۔جہاں وہ نام نہاد اندرونی خود مختاری کومذاق سے کم اہمیت نہیں دیتے تھے ،وہیں انہوں نے چا رنکا تی فارمولے کو بھی نہ صرف یکسر مسترد کردیا بلکہ اسے تحریک آزادی کشمیر کی پیٹھ میں چھرا گھو نپنے کے مترادف قرار دیا۔راضی رہے رحمان بھی اور خوش رہے بھگوان بھی ،کے نسخے پر عمل کرنے والوں کے ساتھ اسے شدید نفرت تھی اور اس کا وہ برملا اظہار بھی کرتے تھے۔ ایک دور میں قائد تحریک حریت سید علی گیلانی سے انہیں سخت اختلاف بھی تھا اور اس کی وجہ ان کی انتخابی سیاست میں شرکت تھی،لیکن جب گیلانی صاحب نے مشرف فارمولے کو مسترد کیا اور کھلے عام اس کی مخالفت کی تو میری وساطت سے انہوں نے گیلانی صاحب کو پیغام بھیجا کہ ’’اﷲ تمہاری حفاظت فرمائے ،آپ کی عزم و ہمت کو سلام ،اسی سوچ اور اسی استقامت سے کھڑا رہنے کی ضرورت ہے ” 2007میں گیلانی صاحب دہلی کے ہسپتال میں انتہائی شدید علالت کے باعث داخل ہوئے تو اپنے معتمد خاص حا فظ انو ر سماوی کے ذریعے فون پرنیک خواہشات کا یہ پیغام دیا “کہ اﷲ آپ کو صحت دے ،محکوم و مظلوم کشمیری قوم کو آپ کی ضرورت ہے” ۔سماوی صاحب فون پر بات کرتے کرتے شدت جذبات کو کنٹرول نہ کرسکے اور رو پڑے۔قبلہ امان صاحب خود بیمار ہو نے کی وجہ سے بات نہ کرسکے لیکن اس منظر کو خود دیکھ رہے تھے۔حزب سربراہ اور متحدہ جہاد کو نسل کے چیر مین سید صلاح الدین کے ساتھ میں نے پہلی ملاقات طے کروائی ،اس کے بعد ایک ایسامحبت کا رشتہ ان کے درمیان قائم ہوا ،جو الحمد ﷲ آخر دم تک قائم رہا۔ رحلت سے دو دن پہلے ان سے ہسپتال میں آخری ملاقات کا شرف حاصل ہوا،میرا ایک ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر اسما اور اماں کے سامنے ایک ایسی گفتگو شروع کی،جس سے ایک جذباتی صورتحال پیدا ہوئی، پر نم آنکھوں سے ان کی پیشانی اور ان کے ہاتھ چو منے کی سعادت حاصل ہوئی۔ایک ایسا قائد ہم سے جدا ہو جس نے ا پنے پیچھے کوئی جائیداد نہیں چھوڑی،جو کچھ تھا تحریک آزادی میں لٹا دیا اور اگر کچھ بچا بھی تو وہ اپنی پارٹی کے نام کردیا۔ کشمیر اور کشمیر یوں کے اس عاشق کی کہانی مختصر نہیں ،بہت طویل ہے زندگی رہی تو وہ کہانی تاریخ کا ایک زریں باب ضرور بنے گی اور اﷲ نے چا ہا تو مورخ کا انتظا ر کئے بغیر ،میں خود اس کہانی کو منظر عام پر لانے میں اپنا حصہ ضرو ڈالوں گا۔