... loading ...
سرجن کاشف مصطفیٰ کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے۔ وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں۔ انگلستان سے اعلیٰ تعلیم کے بعد وہ اپنے گرو ڈاکٹر حسنات احمد کے مشورے پر جنوبی افریقا چلے گئے وہیں ملازمت اور سکونت اختیار کرکے ایسا نام کمایا کہ جنوبی افریقا کے مشہور عالَم لیڈر نیلسن منڈیلا کے بھی معالج رہے۔ سیر و سیاحت کے بے حد شوقین ہیں۔ دنیا کو کھلی نظر سے آدھے راستے میں آن کر کشادہ دلی سے گلے لگاتے ہیں۔ ہمارے دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر اپنا اسرائیل کا حالیہ سفر نامہ بطور ِ خاص “وجود” کے لیے لکھنے پر رضامند ہوئے ہیں۔ انہوں نے اس کا ترجمہ اور تدوین کی ہے جو پیش خدمت ہے۔
جب بطور Cardiothoracic Surgeon دوسروں کا دل ٹھیک کرتے کرتے اپنا دل بے قرار ہونے لگتا ہے تو سفر پر نکل پڑتا ہوں۔ ایسی ہی ایک کیفیت کا شکار ہوکر میں نے اعلان کیا کہ میرا اگلا پڑاؤ اسرائیل میں ہوگا تو احباب کو اچھا نہ لگا۔ سب ہی جانتے تھے کہ وہ ایک ایسی سرزمین ہے جس کا جغرافیہ مختصر، تاریخ طویل اور فساد لامتناہی ہے۔ کسی نے اسے سونے کے ایک ایسے پیالے سے بھی تشبہیہ دی تھی جس میں بچھو کلبلا رہے ہوں۔ میں خود بھی سوچ رہا تھا کہ کیا مملکت ہے، ڈیڑھ ہزار سال ہونے کو آئے اس کا ماضی خون میں لتھڑا ہوا، ا حال تصادم میں الجھا ہوا اور جس کا مستقبل غیر یقینی ہے۔ غالب نے کہا تھا کہ ع
میرا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا گو دل میں یہ خواہش یہ تھی کہ ایک رات مسجدالاقصیٰ میں عین اس مقام رفعت پر سجدہ ریز ہوں گا جہاں سے ہمارے نبی کریمﷺ معراج پر تشریف لے گئے تھے۔ میں نے ملامتی عبادہ اوڑھا اور سب کو کہا کہ اب دل کا انڈیانا جونز (ہالی ووڈ کی فلموں کا مشہور کردار ) نہ مانے تو کیا کروں، یارو مجھے معاف کرو!
یروشلم کا قدیم شہر جس کے چار طرف پرانے پتھروں کی ایک دیوار نے گھیرا ڈال رکھا ہے۔ دنیا کے تین بڑے مذاہب کی جولان گاہ رہا ہے۔ ایک کویعنی یہودیت کو وہاں پناہ ملی دوسرے کو یعنی عیسائیت کو جنم اور اسلام وہاں فاتح بن کر آیا اور جس کے پیروکار مفتوح بن کر رہتے ہیں۔ بہت دنوں سے سوچ رہا تھا کہ عقائد کا یہ ایک دوسرے سے الجھتا سنگم کیسا ہے کہ جس کی انسانی شعور پر حکمرانی ایسی ہے کہ سائنسدان، فلسفی اورملحد بے پناہ مخالفت و تنقید کے باوجود اس کے پھیلاؤ کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔ اللہ نے اس نیم بنجر سرزمین پر کیا ایسا کرم کیا ہے کہ انبیاء کی ایک کثیر تعداد نے ہیبرون سے یروشلم کی اس تنگ سی پٹی کو مقام سکونت، دعوت اور رفعت بنایا۔ سوال کئی تھے اور جواب ایک ہی، لہذا سوچا کہ خود چل کر دیکھتے ہیں۔
کئی ماہ کی منصوبہ بندی، مطالعے اور تحقیق سے فرصت ملی تو اپریل کی ایک خوش گوار صبح خود کو ائیر بس میں براجمان پایا جو تل ایبب کی جانب رواں دواں تھی۔ امریکن کافی کے گھونٹ سے شعور جاگا تو احساس ہوا کہ مسافروں کی ایسی کڑی جانچ پڑتال کہیں اور نہیں ہوتی۔ ہر وہ مسافر جو اسرائیلی باشندہ نہ تھا، چبھتی ہوئی نظروں، کھنگالتے ہوئے سوالات اور احتیاط سے ٹٹولتے ہوئے ہاتھوں سے گزر کر ہی جہاز میں اپنی نشست تک پہنچ پایا تھا۔ جہاز میں نظر گھمائی توکوئی بھی ہم سفر ہم نوانہ تھا۔ ایتھوپیا کے یہودیوں کا ایک چھوٹا سا گروپ تھا۔ انہیں اصلی تے گورے یہودی اپنا ہم پلہ نہیں سمجھتے۔ نائیجیریا کے عیسائیوں کا ایک گروہ بھی اپنے خوش گفتار نوجوان پادری کی رہنمائی میں مقامات مقدسہ کی زیارت کے لیے جارہا تھا۔ جنوبی افریقاکے کچھ متمول یہودی خاندان بھی نشستوں پر براجمان تھے۔ جہاز کے ائیل میں سیر کے لیے کھڑا ہوا تو اپنے علاوہ کسی اور کو مسلمان نہ پایا۔ البتہ اپنے دوست کی اس بات کی تصدیق کے لیے کہ لیے کہ کیا اسرائیلی ہوائی کمپنی ایل عال ( آسمانوں کی جانب) میں ہمہ وقت ایک دو کمانڈو ہوتے ہیں۔ اپنا بدن سامنے رکھ کر ہر مردانہ بدن کا بغور جائزہ لیا۔ مایوسی ہوئی۔ نشست پر آن کر بیٹھا تو دل کے رخسار پر نہ سہی کاندھے پر ایک نرم سا ہاتھ اس دعوت کے ساتھ دکھائی دیا کہ ـyour halaal meal sir” ‘‘
کھانے کا ایک لقمہ یقین دلا گیا کہ بے حد بد ذائقہ کھانا ہے۔ دل نے سوچا کاش اس سفر میں اگر نواز شریف ساتھ ہوتے تو کم از کم کھانا تو اچھا مل جاتا، کالے تیتر کا قورمہ، نینی روغن جوش، گشتابہ، دہی بڑے، فجے کے پاوے، تبک ماز، زعفرانی کھیر، دہلی کے حلوائی کی رس ملائی۔ جب فضائی میزبان نے بددلی مگر خاموشی سے کھانے کی ٹرے ہٹائی تو ایتھوپیا کا یہودی ربی جو ہم نشست تھا گویا ہوا کہ ’’ کھانے کو برا سمجھنا اچھی بات نہیں‘‘۔ میں نے غور سے دیکھا تو ایسا لگا کہ فاقہ زدہ سرسید پڑوس میں بیٹھے ہم کلام ہوں۔ چہرے پر ایسی ڈاڑھی، لگے کہ منہ پر ڈاڑھی نہیں بلکہ ڈاڑھی پر منہ رکھ دیا گیا ہے۔ سیاہ کوٹ اور سیاہ ہیٹ پہنے ہوئے، گہری جائزہ لیتی ہوئی نگاہوں۔ مصافحے کے لیے تعارف کراتے ہوئے اپنا ہاتھ بڑھایا کہ ’’ میرانام شائم آمنون ہے‘‘۔ میری نگاہ اب اس کی آنکھوں کی بجائے بالوں کی اس لٹ پر تھی جو کانوں سے بہہ کر بل کھاتی ہوئی ایک بدنصیب ناگن کی طرح اس کے سینے پر پڑی تھی۔
’’اقصی جانے کا ارادہ ہے؟‘‘اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’نہیں یہاں کسی بزنس ٹرپ پر آیا ہوں‘‘مجھے بھی سچ بولنے کی کوئی جلدی نہیں تھی۔ اسے جواب سن کر مایوسی ہوئی اور وہ ادھر ادھر دیکھنے لگا۔
یکایک مجھے احساس ہوا کہ یہودی عالم عام طور پر غیر مسلموں سے گفتگو میں پہل نہیں کرتے۔ یہ ایک سنہری موقع ہے جو میں بے جا احتیاط کے چکر میں ضائع کررہا ہوں۔ میری ایک عمر ان یہودی افراد کے درمیان پیشہ ورانہ خدمات سر انجام دیتے ہوئے گزری تھی۔ میں نے بہت آہستگی سے منقطع سلسلہ پھر سے جوڑ دیا۔ ’’وہاں میری دلچسپی کی کیا شے ہوسکتی ہے؟ــ‘‘
’’کاروبار کے معاملے میں تو میں آپ کو مشورہ نہیں دے سکتا؟‘‘ مجھے لگا کہ اس نے میرا جھوٹ پکڑ لیا ہے۔ اس کے چہرے پر ایک روحانی مسکراہٹ پھیل گئی۔ اسرائیل ایک مقدس سرزمین ہے، آپ کا عقیدہ کچھ بھی ہو، آپ یہاں سے خالی ہاتھ نہیں لوٹتے۔ ‘‘
’’اس کا ادراک مجھے ائیرپورٹ پر ان کے رویے سے ہوگیا تھا۔ ہر طرف خفیہ کارندے۔ ‘‘ میں نے بھی ایک محدود پیمانے کی جنگ چھیڑ دی۔
’’ آپ کا شکوہ صیہونیت سے ہے، اسرائیل سے نہیں۔ اگر ایک طاقتور گروپ مذہب اور کا سسٹم کا اجارہ دار بن جائے تومعاشرہ کمزور اور زوال پذیر ہوجاتا ہے اور اس سسٹم کی بربادی شروع ہوجاتی ہے۔ یہودیت اور صیہونیت دو علیحدہ نظام ہیں۔ ہم کبھی بھیSiamese twins(ایک سر دو دھڑ والے جڑواں بچے) نہیں رہے جیسا کہ دنیا کو باور کرایا جاتا ہے۔ ‘‘ اس کا جواب سن کر مجھے اپنی سماعت پر شک سا ہونے لگا۔
’’پھرصیہونیت کیا ہے؟ ‘‘میں نے سوچا کہ آج اس کی ہم سفری کا لابھ لوں!
صیہون یا Sion کا مطلب سورج کے پجاری ہوتا ہے۔ یہ حضرت یوسف والے علاقے کنعان کا ایک قدیم فرقہ تھا جو ہر حال میں اقتدار پر قابض رہنا چاہتا تھا۔ وہ اپنی وضاحت میں معذرت سے عاری تھا۔
’’ہم غیر یہودی تو دونوں کو ایک سمجھتے ہیں‘‘۔ میں بھی مصر ہی رہا!
’’بہت جلد تم دیکھو گے کہ ہم یہ ناخوشگوار بوجھ اپنے وجود سے اُتار پھینکیں گے۔ ساری دنیا کے یہودی بتدریج اس کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ اس نے اپنا پتلا ہاتھ پھیلا دیا۔ پانچ انگلیاں مختلف سائز، مختلف کام مگر ایک ہاتھ۔ ایک وجود۔ اس کی ہم یہودیوں کے ہاں بڑی اہمیت ہے، اسے ہم خمسہ کہتے ہیں‘‘۔ میری سمجھ میں کچھ نہ آیا مگر اس سے پہلے کہ میں اس سے کچھ پوچھتا، وہ اٹھ کر اپنے گروپ کو ہدایات دینے چلا گیا۔
مجھے بھی نیند نے آن لیا۔ آنکھ کھلی تو شائم امنون ساتھ ہی بیٹھا تھا، خاموش اور بہت جدا جدا۔ اسی دوران میں اسپیکر پر اعلان ہوا کہ ہم اسرائیل کی فضائی حدود میں داخل ہوگئے ہیں۔ جہاز میں اس اعلان کے ساتھ دعاؤں کا ایک غلغلہ بلند ہوا، یہودی ربی اٹھے اور جھک جھک کر تعظیم پیش کرنے لگے، مالدار فربہ اندام یہودی خواتین جن کا جنوبی افریقا سے تعلق تھا اور جو اپنی ملازماؤں کے ساتھ اسرائیل جارہی تھیں، سسکیاں لے لے کر رونے لگیں۔ مجھے مسجد تنیم اور میقات یاد آگئے۔ اگلے ہی لمحے ہم بن گوریاں ائیرپورٹ پر اترگئے(بن گوریاں اسرائیل کے پہلے صدر تھے، انہیں صدر فضل الہی چوہدری اور رفیق تارڑبننے کا موقع اس لیے ملا کہ عظیم یہودی سائنسداں آئن سٹائن نے اس عہدے کو قبول کرنا اپنی علمی مصروفیات کی راہ میں رکاوٹ جانا تھا اور انکاری ہوئے تھے۔ )
میرے جنوبی افریقا والے پاسپورٹ کے لیے اسرائیل کا ویزہ لازم نہیں مگر مجھے لگا کہ پاک وطن کی وجہ سے تنگ کریں گے۔ ۔ مجھ سے آگے لائن میں کھڑے تین گوروں کا داخلہ وہ سر کی ایک جنبش سے منسوخ نہ کرتی تو خاتون امیگریشن افسر کی حلاوت اور انداز آپ کو کسی فروٹ پنچ کی یاد دلاتا تھا۔ مشرق و مغرب میں ایسا لگتا تھا اس کے نسوانی سراپے کو دوسری نسل نے دل سے قبول کرلیا تھا۔ گو انگریزی پر فرنچ زبان کی گلابی خواب آویز دھند چھائی ہوئی تھی۔
میری باری آنے پر اس کی ابرو نے ایک خوش گوار کمان کا روپ دھارا ( یہ بدنی زبان میں اظہار قبولیت کی علامت ہے۔ جو لوگ آپ کو ناپسند کرتے ہیں وہ آنکھیں سکیڑ لیتے ہیں) سوال کرتے ہوئے ایسے ہی ہم آہنگ کمان اس کے ہونٹوں نے بھی بنائی۔
’’جائے پیدائش‘‘ ؟’’پاکستان‘‘ میں نے بھی نعرہ تکبیر کی طرح خود اعتمادی کا ثبوت دیتے ہوئے سارے اسرائیل کو بتا دیا۔ بلند لہجے پر وہ مسکرائی۔ منہ میں قلم اور کمپیوٹر پر بٹن دبایا۔ ایک کارڈ نکل کر آیا جس پر میری تصویر، پاسپورٹ نمبر اورقیام کی مدت درج تھیں۔ ایک ادا سے مجھے جب وہ کارڈ اس نے پاسپورٹ سمیت لوٹایا تو کہنے لگی:
“Welcome to Israel Sirجو مجھے پنجابی میں’’ صد بسم اللہ آیا نوں‘‘ ہی لگا!
(جاری ہے)
سلطنت عمان نے اسرائیلی سویلین طیاروں کو دنیا کے مشرقی حصے تک پہنچنے کے لیے اپنی فضائی حدود سے گزرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔عبرانی اخبار نے اسرائیلی سول ایوی ایشن کمپنی کے اگلے دو ماہ میں ہندوستان کے لیے اپنی پروازیں منسوخ کرنے کے فیصلے کا حوالہ دیا ہے۔ اس کی وجہ سلطنت ع...
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی ایک رپورٹ میں مطالبہ کیا ہے کہ فلسطینیوں کو نسلی امتیاز کا نشانہ بنانے پر اسرائیل کو جوابدہ ہونا چاہیئے۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ایمنسٹی انٹرنیشنل نے فلسطین کی صورت حال پر ایک 35 صفحات پر مشتمل رپورٹ شائع کی جس میں اسرائیل کے وحشیانہ جبر اور غیر قان...
برطانوی اداکارہ ایما واٹسن نے فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کی جس پر اسرائیلی حکام اور حمایت یافتہ افراد آگ بگولا ہوگئے۔برطانوی اداکارہ نے ایک روز قبل سماجی رابطے کی ویب سائٹ اور فوٹو ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم انسٹاگرام پر فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے ایک تصویر پوسٹ کی جو گزشتہ...
اسرائیل میں ماہرین آثار قدیمہ نے 900 سال پرانی صلیبی جنگوں کے دور کی ایک بڑی تلوار دریافت کی ہے۔غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق آثار قدیمہ محکمے کے ایک افسر نے بتایا کہ کو چند روز قبل ایک شخص کو تیراکی کرتے ہوئے تلوار ملی ہے۔ انہوں بتایا کہ ایک شوقیہ غوطہ خور کچھ دن پہلے اسرائیلی ب...
آئرش مصنفہ سیلی رونی کی پہلی دو کتابوں کے عبرانی پبلشر مودان پبلشنگ کے ترجمے کے بعد کہا ہے کہ مصنفہ نے اپنی نئی کتاب کے عبرانی میں ترجمے سے روک دیا ہے۔ اس کی وجہ آئرلینڈ کی مصنفہ کی طرف سے اسرائیل کا ثقافتی بائیکاٹ ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق آئرش مصنفہ کی نئی کتاب خوبصورت دنیا ، آپ ...
اسرائیلی وزارت خارجہ نے وزیر خارجہ یسرایل کاٹز کے ایما پر''مقبوضہ بیت المقدس''میں ترک حکومت کی سرگرمیوں اور ترکی کے تعاون سے چلنے والے منصوبوں پر پابندی لگانے کا منصوبہ تیار کر لیا۔اسرائیلی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مقبوضہ بیت المقدس میں ترکی کی سماجی اور ترقیاتی سرگر...
ایران کے پاسداران انقلاب کے کمانڈر انچیف میجر جنرل حسین سلامی نے اسرائیل کو غیرقانونی ریاست قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ روایتی حریف کی تباہی قابل حصول ہدف بن گیا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق میجرجنرل حسین سلامی نے کہا کہ یہ ناجائز ریاست کو نقشے سے ضرور ختم کردیا جائے گا اور یہ دور نہیں، ...
غزہ میں اسرائیل نے 2014 کے بعد فلسطینیوں کے 2ہزار مکانات مسمار کر دیئے ۔فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی پر اسرائیلی ریاست کی طرف سے مسلط کردہ محاصرے کے خلاف سرگرم کمیٹی کے سربراہ جمال الخضری غزہ میں ایک پریس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی فوج نے 2014 کے بعد مختلف کارروائیو...
جنوبی افریقہ میں مقیم پاکستانی نژاد سرجن کاشف مصطفیٰ طب کے عالمی حلقوں کی ایک معروف ترین شخصیت ہیں۔جو نیلسن منڈیلا اور افریقہ کی مقتدرر شخصیات کے معالج رہے ہیں۔اُنہوں نے جنوبی افریقہ کی ایک کانفرنس میں صحت سے متعلق ایک تقریر فرمائی۔جسے عوامی حلقوں میں بہت پسندکیا گیا۔ قارئین کے ل...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...