... loading ...
مولانا ندوی سے جب کتاب کی مصنفہ کی ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ حضرت نے صرف ژان پال سارتر اور ارسطو جیسے جدید اور قدیم فلسفیوں کا دار العلوم ندوۃ میں اپنے نصاب میں مطالعہ کررکھا ہے۔(دیو بند اور دار العلوم ندوۃ میں ایک واضح فرق یہ ہے کہ دیوبند اب بھی درس و تدریس کے حوالے سے قدامت پسند سمجھا جاتا ہے جب کہ ندوۃ میں جدید علوم بھی پڑھائے جاتے ہیں ۔یہ الگ بات ہے کہ دیو بند میں داخلہ کے لیے مقابلہ ہمارے سی ایس پی کے امتحانی مقابلے جیسا کڑا ہوتا ہے۔) بلکہ مولانا اردو، فارسی، کلاسیکی عربی، ہندی، اردو اور انگریزی کے بھی شناور ہیں۔مدینہ ا لمنورہ اور دمشق میں بھی پڑھا چکے ہیں۔
ایک اور بات جس نے انہیں مولانا اکرم ندوی کو اپنا شیخ اور درس قرآن کے لیے استاد بنانے کی جانب راغب کیا وہ ان کا خواتین کے بارے میں مختلف طرز عمل اور رائے تھی ۔چھ عدد صاحب زادیوں کے والد ہونے کے ناطے اور دین کی اس قدر سمجھ بوجھ رکھنے کے باوجود وہ عام مذہبی افراد اور علماء کی نسبت بہت کشادہ دل اور باعزت طرز عمل کے مالک تھے۔اس کتاب میں اس کا اجمالی ذکر ان کے چند ابواب میں شامل ہے۔ یہ ابواب ان اعلی کردار خواتین کی علمی اور دینی خدمات کے بارے میں ہیں جن سے نہ صرف مغرب ناواقف ہے بلکہ اپنی اس ناواقفیت کو اپنا تفاخر اور نکتہ تضحیک بنا کر اسلام کو ایک پس ماندہ اور طرز بود و باش کے جدید تقاضوں سے ناآشنا خواتین پر ظلم کرنے والا دین ظاہر کرتا ہے۔
مصنفہ کے علم میں یہ بات تھی کہ مولانا اکرم ندوی نے پندرہ سال پہلے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کے بارے میں انہیں بتایا تھا کہ ان سے 2,210 احادیث کا تحفظ اور روایتیں منسوب ہے اور وہ اس کو سامنے رکھ کر ایک پمفلٹ لکھ رہے ہیں جو مسلم خواتین کی علم دوستی اور علم کے فروغ کا بیان ہوگا۔مولانا ندوی کو اس وقت یہ محدود سا گمان تھا کہ یہ سارا تذکرہ ایک اوسط ضخامت کے پمفلیٹ میں بآسانی سما جائے گا۔
تحقیق کا آغاز ہوا تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ پچھلے 1,400 سال میں9,000 کے قریب ایسی خواتین موجود رہی ہیں جو نہ صرف احادیث کی ترویج اور فتاویٰ کے اجرا میں مصروف رہیں بلکہ وہ کئی مسلمان خلفاء کی مجالس شوریٰ کا بھی حصہ رہی ہیں ان میں چند جلیل القدر خواتین تو ایسی تھیں کہ مدینہ منورہ میں انہی میں سے ایک خاتون تو مسجد نبوی میں جو درس دیتی تھیں اس میں حج پر آنے والے علماء اور عمائدین بھی استفادہ کے لیے شریک ہوتے تھے۔یہ نیک اور باعلم خواتین علم کے فروغ کے لیے دور دراز کا ان دشوار دنوں میں سفر بھی کرتی تھیں۔ مولانا ندوی ان احادیث اور فتاویٰ کی روایت کو خواتین کے حوالے سے اس لیے مستند مانتے ہیں کہ ان خواتین پر بیرونی دباؤ اور انتشار خیال بہت کم ہوتا تھا اور یوں بھی روایت کی صحت، یاداشت کی بنا پر خواتین کے ہاں بہتر تسلیم کی جاتی ہے ۔اب یہ Biographic Dictionary جسے’’ المحدثات ‘‘کا نام دیا گیا ہے۔ان کی یہ تصنیف جسے آپ بلا شبہ magnum opus ( کسی عالم یا فنکار کا وہ شہ پارہ جو اس کا بہترین کام تصور کیا جائے ) کا درجہ دے سکتے ہیں۔یہ اب 57 جلدوں تک جاپہنچی ہے۔
کتاب کا مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ دو ستوں کی ایک ایسی صبر آزما، انقلابی کاوش ہے جس میں دو مختلف مذاہب کے ماننے والے اپنے اپنے عقیدے کا ایک دوسرے کی نظر سے جائزہ لیتے ہوئے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ان تعصبات اور غلط فہمیوں کا بھی ادراک فراہم کرتے ہیں جو ایک عالم میں چند خاص واقعات اور شخصیات کی وجہ سے نفرت اور تشدد کی بنیاد بنیں۔اس پورے عمل میں وہ کھلے دل اور دماغ سے ،نرم لہجے اور باعلم طریقے سے ان تعصبات کو ایک ایسی آپ بیتی میں بدل لیتے ہیں جو آپ کو نہ صرف دھیمے دھیمے نیند کی مانند اپنی آغوش میں سمیٹ لیتی ہے۔
کتاب میں چند باتیں ایسی بھی بیان ہیں جو افغانستان اور ایران میں سن1980 کے ہونے والے واقعات اور دین میں جبر اور جہاد بالسیف اور ڈالر کا جو پھیلاؤ آپ کو ضیاء الحق کے دور سے عالم اسلام اور بالخصوص پاکستان میں دکھائی دیتا ہے جہاں باہمی رواداری اور انسانی تعلقات سے بڑھ کر مخصوص قسم کی فرقہ واریت اور عدم برداشت نے غلبہ پالیا ہے وہاں انہیں آسانی سے قبول کرنا مشکل ہو کیوں کہ یہ مروجہ خیالات سے بادی النظر میں متصادم دکھائی دیں گی لیکن جانچ پڑتال کرنے پر حقیقت کے قریب دکھائی دیتی ہیں۔ مصنفہ کو ان کے پاس آنے والے بے شمار مغربی مسلمانوں سے جو سلمان رشدی کی Satanic Verses سے لے کر ڈنمارک اور فرانس میں شائع ہونے والے کارٹونز پر رائے اور ردعمل لینے آتے ہیں ان کا جواب سن کر حیرت ہوتی ہے ۔
وہ کہتے ہیں اس طرح کی بے ہودہ خرافات کو نظر انداز کرنے میں اسلام کا فروغ ہے۔اس کی مثال وہ نبی کریم ﷺ کی اپنی حیات مبارکہ سے دیتے ہیں کہ انتہائی برے سلوک، تکالیف ،دشنام طرازی پر آپﷺ نے کبھی احتجاج نہیں کیا،نہ کسی کا گھر جلایا ، نہ کسی کو جواباً ضرر پہنچایا بلکہ اپنا دامن بچا کر دین اسلام کی تبلیغ کرتے رہے۔طائف، مکہ کی زندگی اور فتح مکہ پر آپ کا دشمنوں سے سلوک اس کی واضح مثالیں ہیں۔
اﷲ اور اسلام کو آپ کے دفاع کی ضرورت نہیں بلکہ اعمال صالح جو دوسروں کے لیے قابل تقلید ہوں وہی درست دعوت اسلامی ہے۔ان سے جب پوچھا جاتا ہے کہ کیا مدینہ اسلامی ریاست تھی ،تو وہ کہتے ہیں ہرگز نہیں۔یہ انتہائی غلط تصور ہے جو عام ہوگیا ہے۔ نبی کریمﷺ نے مکہ بادل نخواستہ اس لیے چھوڑا تھا کہ دشمن آپ کو دین کے کام سے روک رہے تھے۔وہ ایک علاقے اور ریاست کے تلاش میں وہاں نہیں گئے تھے۔ندوی صاحب کا خیال ہے کہ دنیا میں ہمارا قیام عارضی ہے جب کہ اسلام اس سے بہت بڑا تقاضا ہے، اسے وقتی دنیاوی حصول میں گنوانا اس دین کی روحِ اساس سے بغاوت ہے بلکہ اسے اخلاق، کردار، خود احتسابی اور ادنیٰ و اعلیٰ کی انسانی تقسیم سے بڑھ کر تقویٰ اور جد و جہد کے لیے مشعل راہ بنانا چاہیے۔
ان کے پہلے درس کا آغاز بھی بہت دل چسپ اور معنی آفریں ہے۔Nosebag Resturant جو شیخ اکرم کے دفتر کے نزدیک تھا وہاں کارلا پاؤر صاحبہ نے اپنی کم مائیگی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ قرآن الکریم کے نسخے موجود ہوتے ہوئے بھی کبھی انہوں نے سنجیدگی سے اس کا مطالعہ نہیں کیا۔ ان کا خیال تھا کہ یہ اعتراف شاید شیخ کو گراں گزرے گا مگر وہ مسکرا کر کہنے لگے ’’یہ تو کوئی ایسی انوکھی بات نہیں مسلمانوں کی ایک غالب اکثریت بھی یہی کچھ کرتی ہے۔قرآن کو پڑھتے ضرور ہیں سمجھتے بہت کم ہیں۔ یہ ان کے لیے اجنبی صحیفہ ہے۔انہیں لگا کہ یہ بہت ہی اچنبھے کی بات ہے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ جو بے شمار حفاظ ہیں وہ تو اس کا لازماً فہم رکھتے ہوں گے۔شیخ کہنے لگے جونپور کے مدرسے سے لے کر کسی بھی مدرسہ میں قرآن فہمی کا نصاب میں بہت ہی کم دخل ہے۔
احادیث اور فقہ پر بہت زور ہے۔اب فقہ کا معاملہ یہ ہے کہ یہ انسان کا بنایا ہوا مذہبی ڈھانچہ ہے(یاد رہے کہ مولانا ندوی دنیا بھر میں امام ابو حنیفہ پر سند مانے جاتے ہیں اور ان کی کتابAbu Hanifah: His Life, Legal Method & Legacy ان کی مستند ترین سوانح عمری سمجھی جاتی ہے۔وہ آپ کو یہ بھی حیرت کن انکشاف کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کو کل سترہ احادیث یاد تھیں۔فقہ کے یہ مختلف اسکول یعنی حنفی، مالکی ، شافعی، حنبلی اور جعفریہ جو نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد وجود میں آئے وہ نماز کی ادائیگی میں قیام و سجود، زکوۃ کے نصاب، سے لے کر جھینگا کھانے تک پر ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہیں۔یہ سب ائمہ اپنی سزاؤں میں قرآن کے بیان کردہ معیار سے زیادہ سخت رویہ رکھتے ہیں اور ان کا خواتین کے بارے میں رویہ بھی بہت ہی کڑا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ اپنے ایام میں یونانی فلاسفہ بالخصوص ارسطو کے فلسفے سے بہت متاثر ہوچکے تھے جو عورت کو ایک لازمی گناہ مانتا تھا اور اسے ثانوی حیثیت دینے کا قائل تھا۔
کیا یہ لازم ہے کہ مسلمان کسی نہ کسی فقہ کی پیروی کریں کیوں نہ براہ راست قرآن سے استفادہ کیا جائے۔؟ کارلا پاؤر نے پوچھا
’’عوام کی اکثریت ذہنی طور پر کاہل ہوتی ہے۔علماء کی تقلید آسان ہے بجائے اس کے کہ خود کھوج لگایا جائے۔دنیائے اسلام میں اب یہ چھوٹی باتیں غالب آگئی ہیں ۔اس سے عقیدے کا توازن بگڑ گیا ہے۔قرآن الکریم اور نبی پاکﷺ تو ہر بار روح کی اصلاح ،قلب کی پاکیزگی اور کردار کی عملی بلندی کی بات کرتے ہیں۔اس کے برعکس چور کے ہاتھ کاٹنے کی سزا جو صرف ایک دفعہ بیان کی گئی ہے وہ کچھ لوگوں کے لیے دین و ایمان کالازمی جز بن گئی ہے۔
[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...
ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...
[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...
ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...
بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...
[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...
[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...
پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...
[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...
[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...
معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...
میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...