... loading ...
اپنے معمول کے کاموں میں مصروف، دکانوں پر مول تول کی تکرار کرتے ، قہوہ خانوں پر استراحت آراء اوربازار سے گزرتے سب ہی لوگوں نے پکار سنی ۔
’’اے اہل قریش ادھر آؤ۔‘‘
بار بار پکار ا جا رہا تھا لوگ چل پڑے، جمع ہوئے تو دیکھا ،عبدالمطّلب کا پوتا محمدﷺ کوہ ِصفا پر چڑ ھا نِدا لگا رہا ہے ۔ مجمع نے پکارے جانے کی وجہ پوچھی تو اﷲ کے رسول ﷺنے پوچھا۔
’’تم نے مجھے کیسا پایا ‘‘
مجمع یک زبان ہو کر بولا۔’’ہم نے آپ کو صادق اور امین پایا ‘‘۔
آپﷺ نے پھر پوچھا۔
’’اگر میں تمہیں خبردوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک لشکر جرار چھپا بیٹھا ہے، تو کیا تم میری بات کو سچ مان لو گے ؟‘‘
لو گوں نے جواب دیا ۔
’’ہاں ہم آپکی بات کو سچ مانیں گے کیونکہ آپ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا ‘‘۔
قبیلہ ہاشم کا ایک سردار ابو لہب بھیڑ کو چیرتا ہو ا دوسری سمت چل پڑا ، آپ ﷺ نے اسے پکارا کہ ابو لہب کہاں چلے ٹہرو۔ ابو لہب بولا میں اپنی تلوار لیکر آتا ہوں، میں لشکر کا سامنا ہتھیار کے بغیر کرنا نہیں چاہتا۔ اﷲ کے آخری نبیﷺ نے پوچھا کہ اگر تم پہاڑ کی دوسری جانب اترو اور لشکر نہ پاؤ تو ؟۔ابو لہب نے کہا کہ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آئے گا کیونکہ آپ نے آج تک کبھی جھوٹ نہیں بولا ۔ روئے ارض کے تمام مؤرخیں متفق ہیں کہ یہ انسانی تاریخ کا وہ سب سے بڑا امتحان تھا جس کے لئے رسول اکرمﷺ نے خود کو پیش کیا اور اس میں سرخرو ہوئے۔ ورنہ تاریخ میں کبھی کسی کو ہمت نہ ہوئی کہ وہ اپنے مخالفین کو اپنے کردار کی گواہی دینے کی دعوت دے ۔ ظاہر ہے کہ کردار کی یہ بلندی اور پختگی ہی آپﷺ کا بنیادی امتیاز ہے ۔ بقول شاعر
پاکستان میں پانامہ لیکس کے حوالے سے پیدا شدہ تازہ ہیجان کا اب اس تناظر میں جائزہ لیں ۔ مخالفین کو تو چھوڑئیے! کیا بیگم کلثوم نواز بھی کبھی حلف اٹھا کر یہ کہہ سکتی ہیں کہ ان کے شوہر نے اپنے ایام اقتدار میں آج تک کبھی کوئی بد عنوانی اور بد دیانتی نہیں کی ۔ قطعاً نہیں ۔ جنرل پرویز مشرف کے دورِ اقتدار کے دوران اپنے شوہر کی رہائی کی تحریک میں ایک موقع پر انہوں نے امیر الاسلام ہاشمی کی یہطنز یہ نظم پڑھی تھی۔
بیگم کلثوم کا یہ ’’مومن‘‘اور ان کے شوہر نامدار کس طرح مختلف ہیں ،یہ کوئی ان سے ہی پوچھے۔ خیر سے میاں صاحب وطن واپس آپہنچے ہیں ، ان کی صاحبزادی کو خوشی دیدنی ہے ، لگتا ہے صدیوں کے بچھڑے ملے ہیں ، میاں صاحب کی طبعیت بھی خوب ہے صرف’’چیک اپ‘‘ سے ہی ٹھیک ہو گئی ورنہ وزیر داخلہ تو ’’پورا ‘‘علاج کرانے پر تلے بیٹھے تھے ۔ میاں صاحب نے بدخواہوں کے منہ بند کرنے کیلئے صاحبزادے کے ہمراہ رولیکس کے شوروم کا ’’تفریحی‘‘ دورہ کرتے ہوئے تصویر بھی بنوائی اور اپنی صحت سے متعلق افواہوں کا دم نکال ڈالا ۔ وطن واپسی سے قبل انہوں نے من چاہے ’’صحافی نما کارکنوں‘‘کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے ایک بار پھر ’’رنڈی رونا‘‘ رویا کہ ہمارا خاندان خود 1972سے مشکلات کا شکار ہے، اس کا بھی کسی کو احساس ہو نا چاہئے۔ نواز شریف بھی ایک عجوبہ ہی ہیں کہ ان پر ہر دور میں ظلم ہوتا رہا مگر انکی دولت بڑھتی ہی رہی ، کبھی کبھی تو یوں محسوس ہو تا ہے کہ وہ خود بینظیر انکم سپورٹ کارڈ بنوا نے کے مستحق ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے بچے ماشاء اﷲ میٹرک کرنے سے بھی پہلے ارب پتی ہو چکے تھے، معلوم نہیں کیوں میاں صاحب 300ارب کے خسارے سے دوچارپاکستان اسٹیل مل کونجکاری سے قبل کچھ عرصے کے لئے اپنے بچوں کے حوالے نہیں کر دیتے ۔کم سے کم قوم کو انکی ’’صلاحیتوں ‘‘کا کچھ تو فائدہ ہو ، شاید اس لئے کہ انکے بچے پاکستان میں کاروبار کرنا ہی نہیں چاہتے۔ میاں صاحب واقعی عجیب ہیں ۔ بچے ملک سے باہر ، کاروبار ملک سے باہر ، علاج ملک سے باہر اور حکومت ملک کے اندر۔
پانامہ لیکس کے انکشافات کی تحقیقات کیلئے کمیشن کا خاکہ بن چکا ہے ، جسٹس (ر) سرمہ جلال عثمانی تحقیقات کریں گے ، شکار کے شوقین یہ موصوف اب رائے ونڈ کے فارم پر شکار کیا کریں گے ، شہباز شریف کہتے ہیں کہ ہماری آزادی کے بعد سے سے تمام معاملات کی چھان بین ہو گی۔ وہ اس بار بھی قوم کو ’’بول بچّن ‘‘ دے کر پتلی گلی سے نکل جانے کے چکر میں ہیں ، ملک کو گوڈے گِٹّوں تک قرض میں پھنسا دیا ہے اور انگلی نچا نچا کر حبیب جالب کے اشعار سناتے ہیں ۔ پروین شاکر نے کہا تھا۔
شریف خاندان کے خلاف تحقیقات پہلی بار 1993میں شروع ہوئیں ،23سال قبل انکی حکومت کے خاتمے کے بعد ان پر بد عنوانی ،غیر قانونی دولت کمانے ، اثاثے چھپانے ، غیر قانونی بھرتیوں اور منی لانڈرنگ سمیت 13الزامات کے تحت علیحدہ علیحدہ انکوائریز شروع کی گئیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ لندن میں پہلی پراپرٹی جو انکی زیر ملکیت بتائی جاتی ہے وہ خریدی بھی 1993میں گئی تھی مگر پرویز رشید اور دانیال عزیز کہانی 70سال پیچھے سے شروع کرکے بھٹو دور تک لے آتے ہیں اور بھٹو دورِحکومت میں دھرنا دیکر بیٹھ جاتے ہیں ۔ ان سے کوئی پوچھے کہ بھٹو کی جانب سے اتفاق فونڈری قومیائے جانے کے بعد کیا ان کے قائد لکڑیوں سے مقناطیس باندھ کر لوہا کھینچا کرتے تھے ؟ کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ انکے قائد کی نواسی نے حال ہی میں اپنی شادی پر 7کروڑ روپے مالیت کا ہار پہنا تھا وہ کہاں سے آیا؟ ان کے ٹیکس گوشواروں کے مطابق تو ان کے پاس اتنے پیسے ہی نہیں اور نہ انکی بیٹی کے پاس جو ان کے پاس ہی رہا کر تی ہیں ۔
پانامہ لیکس کی تحقیقات کے حوالے سے میاں صاحب کی حکمت عملی واضح ہے کہ وہ دیگر 200پاکستانیوں کے پیچھے چُھپنا چاہتے ہیں اسی لئے ’’سمدھی صاحب‘‘ نے ارشاد فرمایا کہ کمیشن تمام پاکستانیوں کی تحقیقات کرے گا ۔ گویا ٹائیں ٹائیں فش۔ سوال یہ ہے کہ کیا باقی پاکستان بھی ہمارے حکمراں ہیں ؟ ٹھیک ہے تحقیقات انکے خلاف بھی ہونی چاہئے، مگر حکمرانوں پر لگنے والے الزامات اپنی سرشت میں نہایت سنگین ہوا کرتے ہیں ۔ پیپلز پارٹی، اے این پی ، جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے تحقیقا ت کروانے پر متفق ہوچکی ہیں جبکہ عمران خان ان تحقیقات کیلئے ’’فرانسک آڈٹ‘‘کا لفظ استعمال کر رہے ہیں ۔
فوجداری و سول مقدمات میں فرانسک سائنس کا مطلب دراصل شواہد کی سائنسی بنیادوں پر جانچ پڑتال ہے ،فرانسک کا لفظ انگریزی میں لاطینی زبان سے درآمد کیا گیا ہے جہاں اس لفظفرانسس(Fransis) کا صحیح مطلب ہے ’’کھلی عدالت میں ‘‘(In Open Court)لیکن اب جدید تفتیشی نظام میں اسکا مطلب شواہد کو سائنسی طریقوں سے عدالت کیلئے قابل قبول بنانا لیا جاتا ہے ۔ انیسویں صدی تک قانون گواہیوں کا محتاج تھا ۔ تاہم بیسویں صدی میں ہونے والی وسعت پذیری نے قانون کو گواہیوں کی محتاجی سے باہر نکال کھڑا کیا ہے اور اب قانون سائنسی تفتیش کے سہارے اپنا راستہ بناتا ہے مگر یہ بات دعوے سے کہی جا سکتی ہے کہ پانامہ لیکس کو کسی فرانسک آڈٹ سے بھی ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ اسکی دو وجوہات ہیں اوّل تو یہ کہ جس فرم سے یہ کاغذ ات چوری ہو کر طشت ازبام ہوئے وہ فرم پانامہ میں ہے موزیک فونسیکا نامی یہ لاء فرم کسی بھی قانون کے تحت اپنے موکلان کی تفصیلات حکومت پاکستان یا کسی کمیشن سے باضابطہ طور پر (Officially) شیئر کرنے کی پابند نہیں اور پھر ان دستاویزات سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ کس کس شخص نے اس فرم کی خدمات حاصل کرکے ’’کنارہ کمپنیاں‘‘ بنائیں لیکن ان کمپنیوں کے اثاثے کتنے ہیں اور کس بینک میں ان کا کتنا پیسہ پڑا ہے اس سے اس لاء فرم کا براہ راست کوئی تعلق نہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان آف شور کمپنیوں کے اثاثے جن ممالک میں ہیں ان ممالک کے ساتھ بھی حکومت پاکستان کا اس طر ح کی کسی معلومات کے تبادلے کا کوئی معاہدہ نہیں ۔ لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ پانامہ لیکس کے انکشافات قانون کے سامنے ’’سنی سنائی بات‘‘ (Hear and say) سے زیادہ کچھ نہیں ۔ یہ تحقیقات خواہ سالہا سال کیوں نہ چلتی رہیں انکا کوئی نتیجہ بر آمد نہیں ہو سکتا اور اگر کسی ایک مخصوص ٹائم فریم میں تحقیقات کو انجام تک پہنچانے کی پابندی عائد کی گئی تو اس کمیشن کی رپورٹ انتخابی دھاندلی والے کمیشن کی رپورٹ سے مختلف نہ ہو گی یعنی میاں صاحب کو ’’کلین چٹ ‘‘ مل جائے گی مگر دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ جمہوری حکومتیں دراصل اپنے اخلاقی جواز پر قائم ہوتی ہیں۔
1789کاانقلاب ِفرانس کرۂ ارض کی جدید سیاسی تاریخ کے چند اہم ترین واقعات میں سے ہے، اس انقلاب کی جدوجہد کرنے والوں میں ایک نمایاں نام جین جیکوئیس روسو کا ہے ۔ روسو (Rossaeu)نے 1762میں ’’سماجی معاہدے ‘‘کا سیاسی نظریہ پیش کیا ۔ اسے ’’تھیوری آف سوشل کنٹریکٹ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ اس نے یہ خیال پیش کیا کہ بادشاہ اور رعایا کے درمیان حکمرانی و رعےّت کا ایک سماجی معاہدہ ہوا کرتا ہے اور ہمارا بادشاہ اپنی بداعمالیوں کے ذریعے یہ معاہدہ توڑ چکا ہے، لہذا اسے ہم پر حکمرانی کا مزید حق حاصل نہیں ۔ اس وقت کے بادشاہ نے روسو کے وارنٹ گرفتاری جاری کئے اور وہ 1778میں اپنے انتقال تک مفرور و روپوش رہا ۔مفروری کے دوران دَردَر بھٹکتے اس نے جینوا میں دم توڑا ، فرانس میں انقلاب اس کے مرنے کے 11سال بعد آیا ۔ بعد ازاں اسی روسو کی باقیات جنیواا سے لاکر پیرس کے پینتھٔون قومی میوزیم میں باعزت طور پر رکھی گئیں، جہاں وہ آج بھی موجود ہیں۔
نواز شریف کا ماجرا بھی فرانس کے بادشاہ لوئس سے زیادہ مختلف نہیں ، حقیقت یہی ہے کہ وہ پاکستان کے عوام پر حکمرانی کا حق کھو چکے ہیں۔پانامہ پیپرز کے افشاء ہونے کے بعد آئس لینڈسمیت کئی ممالک کے عوام کو اپنا سوشل کنٹریکٹ توڑے جانے کا احساس فوراً ہو گیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستانی عوام کو اس معاہدے کے خاتمے کا احساس کب ہوتا ہے ۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیر اعظم نوازشریف اورجہانگیرترین سمیت دیگر سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی کے خلاف درخواست واپس کردی۔ سپریم کورٹ رجسٹرار آفس نے سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون کی جانب سے دائر کردہ درخواست پر اعتراضات لگا کر اسے واپس کرتے ہوئے کہا کہ تاحیات ن...
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ لیکس میں 700 پاکستانیوں کے نام آئے، 2016میں پاناما پیپرزمیں 4500 پاکستانیوں کے نام آئے تھے۔سپریم کورٹ میں پاناما لیکس سے متعلق پٹشنز دائر ہوئیں،ایس ای سی پی ،اسٹیٹ بینک ،ایف بی آر اور ایف آئی اے نے تحقیقات کیں، عدالت ...
پنڈورا پیپرز کا پنڈورا باکس کھلنے لگا۔ پنڈورا کی ابتدائی اطلاعات کے مطابق سات سو سے زائد پاکستانیوں کے نام اس میں نکل آئے۔ پانامالیکس سے زیادہ بڑے انکشافات پر مبنی پنڈورا باکس میں جن بڑے پاکستانیوں کے ابھی ابتدائی نام سامنے آئے ہیں۔ اُن میں وزیر خزانہ شوکت ترین، پاکستانی سیاست می...
اسپین میں ایک کہاوت ہے ‘ کسی کو دو مشورے کبھی نہیں دینے چاہئیں ایک شادی کرنے کا اور دوسرا جنگ پر جانے کا۔ یہ محاورہ غالباً دوسری جنگ عظیم کے بعد ایجاد ہوااس کا پس ِ منظر یہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں یورپ میں مردوں کی تعداد نہایت کم ہو گئی تھی اور عورتیں آبادی کا بڑا حصہ بن گئی تھی...
ابھی پاناما لیکس کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھا بھی نہ تھا کہ ’’انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس‘‘ (آئی سی آئی جے) نے اس اسکینڈل کی اگلی قسط چھاپ دی، جس میں دنیا بھر کی ایسی شخصیات کے ناموں کے انکشاف کیا گیا ہے، جنہوں نے مبینہ طور پر اپنے ملک میں عائد ٹیکسوں سے بچنے کے لیے جزائ...
تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے حکومت مخالف اور پاناما لیکس پر احتجاج سے حکومت اب کچھ بدحواس نظر آتی ہے۔ کنٹینرز سے احتجاج اور ریلیوں کوروکنے کے عمل نے کہ ثابت کردیا ہے کہ حکومت "نے باگ ہاتھ میں ہے ، نہ پاہے رکاب میں" کی عملی تصویر بنتی جارہی ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی...
ایف بی آر (فیڈرل بورڈ آف ریونیو) نے پاناما لیکس میں سامنے آنے والے افراد سے اُن کی آمدنی کی تفصیلات مانگ لی ہے۔ تفصیلات کے مطابق ایف بی آر نے اس ضمن میں وزیراعظم کے بچوں حسن نواز، حسین نواز اور مریم نواز شریف کو بھی نوٹس ارسال کیے ہیں۔ ایک اطلاع کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشر...
یہ طے کرنا مشکل ہے کہ زیادہ قصور وار کون ہے سول حکمران یا فوجی آمر ۔ جمہوریت عوام کی حکمرانی پر مبنی نظام کا نام ہے اور مارشل لاء ایک آمر کی اپنے چند حواریوں کے ہمراہ زبردستی قائم کی گئی نیم بادشاہت کا ۔ پاکستان جمہوریتوں اور آمریتوں کے تجربات سے بار بار گزر ا ہے مگر یہ ایک تلخ ح...
پاناما لیکس پر وزیراعظم نوازشریف کے قوم سے کیے جانے والے وعدے کے بھی ایفانہ ہونے کے بعد مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے نوازشریف اور دیگر متعلقین کے خلاف نااہلی کے ریفرنس دائرکیے گئے ۔جس پر الیکشن کمیشن نے وزیراعظم نوازشریف سمیت دیگر چھ فریقین کو بھی 6 ستمبر کے لیے نوٹس جاری کردیئ...
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے پاناما لیکس کے معاملے پر سپریم کورٹ جانے اور 3 ستمبر سے پاکستان مارچ کا اعلان کردیاہے۔ عمران خان نے بنی گالہ میں ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ نوازشریف نے کرپشن کا پیسہ بیرونِ ملک بھیجا جس کے خلا ف ہم الیکشن کمیشن میں جاچکے ہیں اور اب ع...
آپ نے کبھی دنیا کا نقشہ غور سے دیکھا ہے ، پاکستان اور ایران کے درمیان پچکا ہوا سا ایک خطّہ دکھائی دیتا ہے ،اسی کا نام افغانستان ہے ، سرزمین ِافغانستان کے بارے میں خود پشتونوں میں ایک کہاوت ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ ساری دنیا بنا چکا تو اس کے پاس چٹانوں اور پتھروں کا ایک ڈھیر رہ گیا ، اس...
پاناما پیپرز کے حوالے سے تحقیقات کے لیے ضوابط کار کے تعین کی خاطر قائم پارلیمانی کمیٹی سے باقی رہ جانے والی معمولی امیدیں بھی اب دم توڑتی نظر آتی ہیں۔ واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ حکومت دراصل ایک غیر موثر کمیشن کے ذریعے اس معاملے کو قالین کے نیچے چھپانا چاہتی ہے۔ متحدہ حزب اختلاف ک...