... loading ...
ایک ہفت روزہ کے سرورق پر سرخی ہے ’’پیپلزپارٹی تتّر بتّر ہوسکتی ہے‘‘۔ یعنی دونوں جگہ ’ت‘ پر تشدید ہے۔ پڑھ کر خوشگوار حیرت ہوئی، کیونکہ عموماً لوگ بغیر تشدید کے تتربتر کردیتے ہیں جب کہ تشدید کے ساتھ ہی صحیح ہے۔ فرہنگ آصفیہ، فیروزاللغات وغیرہ میں بھی اسی طرح ہے، اور اردو کی کلاسیکی کتاب باغ و بہار میں بھی دونوں ٹکڑوں میں ’ت‘ پر تشدید ہے۔ رشید حسن خان کے مطابق جو لوگ بغیر تشدید کے تتربتر کہتے ہیں، یہ بھی درست ہے۔
ایک جملہ عموماً استعمال کیا جاتا ہے ’’لگ گیا تیر، نہیں تو تکّا‘‘۔ یہ تکّا کیا ہے؟ قارئین کی دلچسپی کے لیے عرض ہے کہ تکّا بغیر پھل (نوک) کے تیر کو کہتے ہیں۔ اس میں نوک کے بجائے گھنڈی ہوتی تھی اور تیراندازی کی مشق کے کام آتا تھا۔ تکّا قیاس، اندازہ، اٹکل کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اب تو تیراندازی اور اس کی مشق ہی ختم ہوگئی۔ اب تو تیر اور تکّا محاوروں، مثالوں میں رہ گئے۔
فرائیڈے اسپیشل کے ایک شمارے کے سرورق پر جنرل راحیل شریف کو ’’سپہ سالارِ اعلیٰ‘‘ لکھا گیا ہے۔ جسارت کے ایک مضون نگار نے ان کو سپہ سالارِ اعظم کہا ہے۔ یعنی صرف سپہ سالار کہنے اور لکھنے سے تسلی نہیں ہوتی۔ اگر سالارِ اعلیٰ ہے تو کوئی سالارِ ادنیٰ بھی ہوگا۔ ہم نے تو فوج کا سپہ سالار بھی پڑھا ہے اور جیّد قسم کے مضمون نگاروں کی تحریروں میں دیکھا ہے۔ شاید انہیں معلوم نہ ہو کہ سپہ یا سپاہ کس کو کہتے ہیں۔
روزنامہ جسارت کی 9 فروری کی اشاعت میں صفحہ 2 پر ایک دلچسپ سرخی ہے ’’خلافِ ضابطہ غیر معمولی ترقیاں و مراعاتیں……‘‘ یہ مراعاتیں کیا ہے؟ شاید کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مراعات کی جمع مراعاتیں ہیں، اور ایک صاحب نے تو اس کا واحد ’’مراعت‘‘ تلاش کرلیا تھا۔ برسوں پہلے مشفق خواجہ (مرحوم) نے اپنے مشہور کالم ’’سخن در سخن‘‘ میں اپنے مخصوص انداز میں موصوف کی خبر لی تھی۔
ہم تو خبر ہی دے سکتے ہیں۔ مراعاتیں بالکل ہی مہمل ہے۔ مُراعات عربی کا لفظ اور مصدر ہے۔ اردو میں یہ مونث استعمال ہوتا ہے۔ یہ واحد اور جمع دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ لغت میں اس کے ذیل میں ایک اور لفظ ہے ’’مُرعی‘‘۔ یہ بھی عربی ہے اور مطلب ہے: رعایت کیا گیا، لحاظ کیا گیا، عائد کیا گیا، حکومت کیا گیا۔ مراعات عموماً رعایت، سلوک، مروت، لحاظ، توجہ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے، تاہم اس کا ایک مطلب ہے ’’جانوروں کا باہم مل کر چرنا، نگاہ رکھنا، کنکھیوں سے دیکھنا‘‘۔ ادب میں ایک اصطلاح مُراعات النظیر (عربی) کی ہے، یہ علم بدیع کی ایک صنعت ہے جس میں کئی چیزیں جن میں باہم مناسبت ہو ایک جگہ جمع کرتے ہیں، رعایتِ لفظی۔ عربی میں رعایت دیکھ بھال کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ عرب ممالک میں اسپتالوں کے باہر لکھا ہوتا ہے کہ یہاں فلاں مرض کی رعایت کی جاتی ہے۔ معنوی اعتبار سے یہ بالکل صحیح ہے، تاہم اردو میں کمی اور تخفیف کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں حفاظت، بچاؤ، نگہداشت، مناسبت، لحاظ، خیال، سہولت، طرف داری، مہربانی، توجہ، رحم، نرمی وغیرہ کے معنوں میں رعایت استعمال کی جاتی ہے۔ ’’رعایتی قیمت‘‘ کا جھانسہ بھی دیا جاتا ہے۔ اسی سے رعایا، راعی، رعیت وغیرہ ہیں۔ رعایا رعیت کی جمع ہے لیکن اردو میں بہ طور واحد استعمال ہوتا ہے۔ دوسری طرف عوام کسی طرح جمع مذکر ہونے پر تیار نہیں اور عموماً عوام کو واحد مونث لکھا جارہا ہے۔
ٹی وی چینلوں پر آج کل جمع الجمع بنانے کا رواج عام ہورہا ہے۔ مثلاً الفاظوں، جذباتوں، تصاویروں وغیرہ۔ شاید اسی رو میں مراعات کی جمع بنادی گئی۔
کراچی سے راشد رحمانی نے خبر دی ہے کہ معروف صحافی جناب ہارون رشید نے اپنے کالم (28 جنوری) میں جو شعر درج کیا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ کالم میں یہ شعر یوں ہے:
راشد رحمانی کے مطابق پہلا مصرع یوں ہے ’’اندر بھی زمیں کے روشنی ہو‘‘۔ یہ شعر عبیداﷲ علیم کا ہے۔
بھائی رحمانی، یہ شعر کم از کم وزن میں تو ہے، بس کچھ ترتیب بدل گئی ہے۔ شعروں میں عموماً ایسا ہو جاتا ہے، تاہم باذوق افراد بے وزن شعر نہیں لکھتے۔ لیکن ایک صاحب جو بڑی پابندی سے اخبار جنگ میں شائع ہوتے ہیں، پروفیسر بھی ہیں، ان کو شعر بے وزن کرنے میں کمال حاصل ہے۔ وہ یہ کام بڑی کوشش سے کرتے ہیں۔ مرحوم عابد علی عابد کا ایک بہت خوبصورت شعر ہے جو نہ صرف حاصلِ غزل ہے بلکہ ممکن ہے کہ یہ شعر ان کی پوری شاعری پر بھاری ہو، اس کو بھی بے وزن کردیا۔ شعر یہ ہے
حضرت پراسرار بخاری نے ’’وقت‘‘ کی جگہ ’’دم‘‘ کرکے شعر کا دم ہی نکال دیا۔ یہ کمال انہوں نے برسوں کی ریاضت کے بعد حاصل کیا ہے۔
پنجاب میں زراعت کے تعلق سے ایک اصطلاح نظر سے گزری جو ہمارے لیے نئی ہے اور ممکن ہے بہت سے لوگوں کے لیے بھی نئی ہو۔ یہ ہے ’’برداشت‘‘ کا استعمال۔ ویسے تو عوام ہی بہت کچھ برداشت کررہے ہیں اور صورتِ حال پر برداشتہ خاطر (بیزار، اداس، آزردہ) بھی ہیں۔ لیکن ایوب زرعی تحقیقاتی ادارے، فیصل ...
فارسی کی ایک مثل ہے ’’خودرا فضیحت دیگراں را نصیحت‘‘۔ یعنی خود تو غلط کام کرنا، دوسروں کو نصیحت کرنا۔ فضیحت کا مطلب رسوائی، ذلت، بدنامی بھی ہے۔ یہ محاورہ یوں یاد آیا کہ کچھ قارئین غلطیوں کی نشاندہی کرکے یہی مثل سنا دیتے ہیں۔ اب ہم کیا کریں کہ اپنے جن صحافی ساتھیوں کی زبان درست کرن...
گزشتہ تحریر میں ہم نے ’دارو‘ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’یاد رہے دارو گیر میں بھی دارو موجود ہے لیکن یہ ایک الگ لفظ ہے۔ دارو گیر کا دارو سے کیا تعلق ہے، یہ ماہرین ہی بتاسکتے ہیں‘‘۔ یہ معاملہ ازراہِ تفنن ہم نے ماہرین پر چھوڑ دیا تھا۔ چنانچہ سب سے پہلے تو جسارت کے پروف ریڈر گزجن...
علامہ طاہر اشرفی علماء کے سرخیل ہیں۔ انہوں نے غالباً عربی بھی پڑھی ہوگی، ورنہ اردو تو ضرور پڑھی ہوگی۔ اب اگر اتنے کلّے‘ ٹھلے کے اور جسیم عالم بھی ملک کو ’’مولک‘‘ کہیں تو تھوڑی سی حیرت تو ہوگی۔ اگر پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اﷲ علم کو ’’ایلم‘‘کہیں تو یہ اُن کو زیب دیتا ہے بلکہ ا...
جناب پرویز رشید وفاقی وزیر اطلاعات ہیں اور اس لحاظ سے تمام صحافیوں کے سرخیل ہیں۔ ان کا فرمانا ہمارے لیے سند ہے۔ لاہور کا معرکہ جیتنے پر وہ فرما رہے تھے کہ فلاں کی تو ضمانت تک ضَبَطْ (بروزن قلق‘ شفق‘ نفخ وغیرہ یعنی ضَ۔بَط) ہوگئی۔ اب جو مثالیں ہم نے دی ہیں نجانے ان کا تلفظ وہ کیا ک...
ہمارے وفاقی وزیر چودھری نثار تو ذمہ داری کو ذمہ واری کہتے رہیں گے، انہیں ان کی ذمہ واری پر چھوڑتے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب جناب شہبازشریف شمسی توانائی کی کارکردگی پر وضاحت پیش کرتے ہوئے ’’اوسط‘‘ کو بروزن دوست‘ گوشت وغیرہ کہتے رہے اور بار بار کہتے رہے۔ لیکن یہ تو حکمران طبقہ ہے۔ اسے ز...
آئیے، آج ایک بچے کے خط سے آغاز کرتے ہیں جو غالباً بچوں کے رسالے ’ساتھی‘ کا قاری ہے۔ برخوردار نے لکھا ہے کہ ’’انکل‘ آپ ہمیں تو سمجھاتے ہیں کہ ’’لالچ‘‘ مونث نہیں مذکر ہے، لیکن سنڈے میگزین (6 تا 12 ستمبر) میں ایک بڑے قلمکار نے صفحہ 6 پر اپنے مضمون میں کم از کم چھ بار لالچ کو مونث لک...
عدالتِ عظمیٰ کے حکم پر آئین کے مطابق قومی زبان اردو کو اس کا جائز مقام دینے کی کوششیں شروع ہوگئی ہیں۔ 1973ء کے آئین میں اردو کو سرکاری زبان بنانے کے لیے غالباً 10 سال کی مدت طے ہوئی تھی۔ ایسے کئی دس سال گزر گئے۔ لیکن اب عدالت نے نہ صرف حکم جاری کیا ہے بلکہ نئے منصفِ اعلیٰ نے اپنا...
محترم عمران خان نیا پاکستان بنانے یا اسی کو نیا کرنے کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ایک نیا محاورہ بھی عنایت کردیا ہے۔10 اگست کو ہری پور میں خطاب کرتے ہوئے سانحہ قصور کے حوالے سے انہوں نے پُرجوش انداز میں کہا ’’میرا سر شرم سے ڈوب گیا‘‘۔ انہوں نے دو محاوروں کو ی...
عزیزم آفتاب اقبال معروف شاعر ظفر اقبال کے ’’اقبال زادے‘‘ ہیں۔ اردو سے محبت اپنے والد سے ورثے میں پائی ہے۔ ایک ٹی وی چینل پر پروگرام کرتے ہیں۔ پروگرام کی نوعیت تو کچھ اور ہے تاہم درمیان میں آفتاب اقبال اردو کے حوالے سے چونکا دینے والے انکشافات بھی کر جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں انہوں نے ...
چلیے، آغاز اپنی غلطی سے کرتے ہیں اور اس یقین کے ساتھ کہ آئندہ بھی کریں گے۔ پچھلے شمارے میں سرزد ہونے والے سہو کی نشاندہی روات سے ایک ذہین شخص ذہین احمد نے کی ہے۔ روات اسلام آباد کے قریب ایک چھوٹا سا قصبہ تھا، ممکن ہے اب بڑا شہر ہوگیا ہو، اسلام آباد کی قربت کا فائدہ ضرور ہوا ہوگا۔...
صوبہ خیبرپختون خوا کے شہر کرک سے ایک اخبار ’’دستک‘‘ کے نام سے شائع ہوتا ہے۔ زبان کے حوالے سے یہ سلسلہ وہاں بھی شائع ہورہا ہے، جس کا فائدہ یہ ہے کہ پشتو بولنے والے اُن بھائیوں سے بھی رابطہ ہورہا ہے جو اردو میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اردو کو قومی سطح پر تو اب تک رائج نہیں کیا گیا لیکن ا...