... loading ...
خیال تھا کہ تیسرا کالم بھی پانامہ لیکس پر ہی لکھیں گے۔خیالات کی بہتی گنگا ہے سبھی ہات دھورہے ہیں۔ دشنام اور الزام تراشی کا موسم ہے ۔ودیا بالّن اور نصیر الدین شاہ کی ایک فلم ’’ڈرٹی پکچر ‘ ‘ کا ڈائیلاگ ہے کہ جب شرافت کے کپڑے اترتے ہیں تو سب سے زیادہ مزہ شریفوں کو ہی آتا ہے۔
آپ خاندان کی اپنی آنکھ کے تاروں اور گفتار کے غازی وزراء کے تضادات بیان کی وجہ سے اعصاب شکن رسوائی ، میڈیا میں بیان کردہ گھریلو لڑائی،بھائی کی حرکات و سکنات اور نومبر کی تبدیلیوں کا اسمائے بابرکات کے حوالے سے سوچیں تو پاکستان کے حالات پر یہ مکالمہ ہاتھ میں دستانے کی مانند فٹ آتا ہے۔
ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ کمزور اور بے نام لوگوں کو اہلیان اقتدار اور نام چیں افراد پر رسوائی کی کنکریاں اچھالنے میں مزا آتا ہے۔میڈیا اسی دودھ مُوت کرنے(پرانی دہلی کے محاورے میں آیا گیری) کی تو کمائی کھاتا ہےگمنام اور عام افراد کی یہ جسارت ان کی حّس شراکت Sense of Participation کو بڑی تسکین بخشتی ہے ۔مصر کی اس ادھیڑ عمر عورت کی طرح جو چرخہ کات کر گزارا کرتی تھی۔
یوسفؑ کے حسن و جوانی کے ْقصے سنے تو نیلام میں خریدار والی بولی دینے اپنی سوت کی دو پونیاں (روئی کی جوف دار بتّی جو کاتنے کے لیے تیار کی جاتی ہے) لے کر پہنچ گئی۔کسی من چلے نے اس کی بے مائیگی کا مذاق اڑایا ۔احساس دلایا کہ یہاں تو ایک سے ایک سرمایہ دار اور سردار کی بیوی سرمایہ دل و جاں اور ذخیرہء جواہرات لے کر آتی ہے تیرا کیا ہوگا ۔مسکرا کر کہنے لگی عمر ہوگی تو لوگ بے وجہ اداسی کا سبب پوچھیں گے تب میں بھی جتلا سکوں گی کہ حضرت یوسف ؑ جب متاع کوچہء و بازار بنے تھے تو ہماری نظر بھی خریدار کی طرح اٹھی تھی۔ بولی لگانے والوں میں ہم بھی وہیں موجود تھے۔
اسی ادھیڑ بن میں ہم لگے تھے کہ ایک کتاب ہاتھ لگ گئی اور پھر یوں ہوا کہ ع
کچھ کتابیں آپ کو اپنے نام سے ہی گرفت میں لے لیتی ہیں۔ سو یہاں بھی وہی معاملہ ہوا کہ کارلا پاؤر کی کتاب کا نام IF OCEAN WERE INK ہی دل و دماغ پر چھا گیا۔ یہ دراصل قرآن الکریم کی آیت کا انگریزی ترجمہ تھا۔سورۃ ال کہف کی آیات نمبر 109 میں ہمارے نبی محمد ﷺ کو حکم دیا گیا ہے کہ ’’کہہ دیجیے کہ اگر میرے رب کے اوصاف بیان کرنے کے لیے سمند ر روشنائی بن جاتا تو اس سے پہلے کہ میرے رّب کے اوصاف کا بیان ختم ہوتا سمندر ختم ہوجاتااگرچہ اس میں ایک اور سمندر کا اضافہ بھی کردیتے‘‘۔
کارلا پاؤر کی اس کتاب کے بارے میں امریکہ کے مقتدر حلقوں کا ترجمان اخبار واشنگٹن پوسٹ کہتا ہے کہ یہ امریکہ کی اس غالب اکثریت کے لیے لازمی کتاب ہے جو اسلام سے قدرے ناواقف ہیں۔امریکہ میں ہی ٹائم میگزین کی ایرانی نژاد رپورٹر آزادے معاونی جو ایرانی نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر شریں عبادی کی شریک قلم کار بھی رہی ہیں اور جن کی کتاب Lipstick Jehad پچھے دنوں خاصی مشہور بھی ہوئی ۔ ان کی رائے ہے کہ جس رچاؤ، رکھ رکھاؤ سے یہ مکالمہ قرآن فہمی میں مدد کرتا ہے وہ اس کتاب کو مطالعے کے لیے ناگزیر بنادیتا ہے۔ انہیں کی مانند مشہور ہندوستانی صحافی فرید ذکریا کہتے ہیں کہ وہ تمام مغربی ا ذہان جو ہر وقت اسلام کو جنگ ،امن ،یہودی، غیر مسلم،عورت ، مرد کے تناظر میں الجھاؤ کی نظر سے دیکھتے ہیں انہیں یہ دو خوش دل دوستوں کا مکالمہ دنیا میں ہونے والے واقعات کو سمجھنے کے لیے ذہانت، کشادہ دلی اور انکشافات سے لبریز دکھائی دے گا۔
یہ دو دوست کون ہیں؟
اس میں اول نام تو کتاب کی مصنفہ کارلا پاؤر کا ہے ۔ایک برطانوی شوہر کی بیوی ، وہ دو بچوں کی ماں اور امریکی شہری ہیں۔والدہ یہودی اور والد عیسائی تھے۔پیشہ صحافت وہ بھی نیوزویک اور ٹائم میگیزین جیسے رسائل سے وابستگی اور افغانستان ، ایران، ہندوستان،مصر میں تا دیر قیام اور دیگر ممالک کی باخبر پیشہ ورانہ سیاحت، یہ سب کوائف ان کا بھرپور پس منظر بیان کرتے ہیں۔آپ اگر بہت متاثر ہوچکے ہیں تو جگر تھام کر بیٹھئے۔اگلا نام مولانا اکرم ندوی کا ہے۔آپ کو یہ جان کر بہت افسوس ہوگا کہ ان کے پائے کا کوئی عالم اس وقت پاکستان میں تو نہیں۔
مولانا ندوی جون پور بھارت کے مدرسے سے پڑھ کر دار العلوم ندوۃ پہنچے ۔یہ مدرسہ مولانا حضرت محمد علی منگیری نے سن 1894 نے لکھنو میں قائم کیا تھا۔وہاں سے اسلامی سائنس کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد لکھنوء یونی ورسٹی سے عربی میں پی ایچ ڈی کیا پھر جامعہ الازہر اور بالآخر آکسفورڈ کے اسلامی ری سرچ سینٹر جاپہنچے۔ ان کو دنیا بھر میں مستند ترین محدث مانا جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ علم الرجال پر سند کا درجہ رکھتے ہیں ۔ دینی علوم میں یہ حدیث بیان کرنے والے افراد کا درست حوالہ دینے کا علم کہلاتاہے۔مولانا ندوی کی ذہانت، ذکاوت اور یاداشت کا یہ عالم ہے کہ وہ روای کی شناخت حدیث کے آخری راوی تک کرسکتے ہیں اس معاملے میں سب سے چھوٹی اور مضبوط ترین سند جو امام اسمعیل بخاری تک پہنچتی ہے وہ بھی کم از کم 14 روایوں پر مشتمل ہے۔
وہ تقریباً 25 کتب کے مصنف ہیں جن میں وہ شہرہ آفاق 57 جلدوں کی ان خواتین کی سوانح عمری ہے جو احادیث کو روایت کرتی رہی تھیں۔عربی زبان میں تحریر اس کتاب کا انگریزی میں ترجمہ محدثات کے نام سے ہوا ہے۔ان کی اس تحقیق پر مغرب اور اسلام کے مشرقی حلقے سبھی ہی چونک کر رہ گئے ان سب کی یہ خام خیالی تھی کہ اسلام کی ترویح میں خواتین کا کوئی قابل ذکر حصہ نہیں اس کے علاوہ ان کی سوانح عمری کا ابتدائی حصہ Madrasah Life : A Student’s Day at Nadwat Al-Ulama … بھی شائع ہوچکا ہے۔ان کی ایک اور کتاب جو انگریزی زبان میں اپنی نوعیت کی واحد کتاب ہے وہ امام ابو حنیفہ ؓ کہ بیان کردہ فقہی نگارشات پر مبنی al-Fiqh al-Islami ہے جس میں حضرت نے نہ صرف ان فتاویٰ اور فقہی اصولوں کو جمع کیا ہے جو قانون کا درجہ حاصل کرسکتے ہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اس بات کی تحقیق کی ہے کہ امام ابو حنیفہ ؓ نے اپنے فتاویٰ کی بنیاد کن شواہد پر رکھی۔
یہ دونوں ہستیاں کیسے اور کہاں ملیں کہ ایسی علم افروز تحریر وجود میں آئی۔ اﷲ کے بھید بھی نرالے ہیں۔ ہم انسان تو بس اندازے ہی لگاتے رہ جاتے ہیں۔ گو یہ بات کتاب میں مذکور نہیں مگر ان کی دوست افغان کینڈین صحافی حمیدہ غفور نے اسے ایک مضمون میں بیان کیا ہے۔ ہوا یوں کہ میکسکو میں کارلا پاؤر کے والد کو جو وہاں یونی ورسٹی میں قانون کے پروفیسر تھے انہیں کچھ بدمعاشوں نے mistaken identity. کی بنیاد پر سن 1993 میں قتل کردیا تھا۔کارلا کو اس کا بہت دکھ تھا دل گرفتہ کارلا کی ملاقات اپنے ایک رفیق کار مولانا محمد اکرم ندوی سے ہوئی ۔ یہ ان کے ساتھ جنوبی ایشیا میں اسلام کے پھیلاؤ پر آکسفورڈ یونی ورسٹی میں ایک ریسرچ پروجیکٹ میں شامل تھیں۔تسلی و تشفی کے کلمات کے دوران ہی مولانا ندوی نے انہیں علامہ اقبال کی نظم والدہ مرحومہ کی یاد میں کے کچھ حصے سنائے تو انہیں لگا کہ یہی جذبات ان کے اپنے دل کی آواز بھی ہیں۔بہت دھاڑس بندھی۔ایک علمی تعلق تو قائم ہوا مگر اس میں دو دہائی یعنی پورے بیس سال کی خلیج تھی۔
مولانا ندوی بدستور آکسفورڈ میں قیام پزیر تھے اسی پرانے ادارے سے وابستہ ۔
اس دوران 9/11کا فتنہ بھی منظر عام پر آچکا تھا۔مغرب میں ہر طرح کی آواز اسلام کے خلاف بلند ہورہی تھی جس میں اپنوں کا کردار بھی کچھ کم نہ تھا ۔ایان علی ہرسی جو ایک ولندیزی امریکی خاتون ہیں ،صومالیہ سے تعلق ہے اور اسلام سے منحرف ہوچکی ہیں انہوں نے اپنی مشہور کتاب Heretic, جسے مغرب میں بہت پذیرائی ملی اس میں کھل کر اسلام دشمنی کا ثبوت دیا اور مصر رہیں کہ اسلام میں بنیادی نوعیت کی اصلاحات کی بہت ضرورت ہے کیوں کہ وہ جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں۔
دوسری جانب کارلا پاؤر تھیں۔ ان کے دل میں اﷲ نے یہ خیال ڈالا کہ سترہ سال سے وہ ایسے واقعات اور حادثات کی شہ سرخیاں بنارہی ہیں جن میں ہر بات کی تان قرآن اور اسلام پر ٹوٹتی ہے ۔انہیں اس کے بارے میں کچھ پتہ نہیں کہ یہ قرآن آخر کیوں ان سب واقعات اور جرائم میں مورد الزام ٹہرایا جاتا ہے۔کیوں نہ وہ شہ سرخیوں سے دو قدم پیچھے ہٹ کر اس مقدس تحریر کا خود مطالعہ کریں اور معاملے کی اصل روح تک پہنچیں بجائے اس کے کہ وہ اس کے بارے میں ایان علی ہرسی ، دولت اسلامیہ اور دیگر دوست دشمن افراد اس کے بارے میں جو کچھ بیان کررہے ہیں اس کو اپنے افکار کی اساس بنائیں ۔ انہوں نے سوچا کہ وہ اگر اس طاقت ور اور مقدس پیغام کو نظر انداز کرتی ہیں تو یہ بالکل ایسا ہی ہوگا کہ جیسے لٹریچر کا پڑھنے والا ہومر اور ہیملیٹ کو نظر انداز کرے
(جاری ہے)
[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...
ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...
[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...
ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...
بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...
[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...
[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...
پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...
[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...
[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...
معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...
میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...