... loading ...
قاضی فضل اللہ لاڑکانہ کے سیاستدان تھے۔ ذوالفقارعلی بھٹو بھی ان سے سیاست سیکھا کرتے تھے۔ مرحوم قاضی فضل اللہ نے مرتے دم تک کوئی جاگیر یا حویلی نہیں بنائی۔ اِس باکردار سیاسی رہنما کے لیے مشہور ہے کہ ایوب خان کی حکمرانی میں وہ وزیرداخلہ بنے تو ڈاکو اور جرائم پیشہ سندھ چھوڑگئے تھے۔ سندھ کے موجودہ وزیرداخلہ سہیل انور سیال کا تعلق بھی لاڑکانہ سے ہے لیکن ان کے دور میں آئی جی سندھ پولیس غلام حیدر جمالی کو کرپشن اور مجرموں کی سرپرستی کے الزام میں ’’عدالتی حکم‘‘ پر عہدے سے ہٹایا گیا ہے۔
آج راجن پور کے چھوٹو گینگ نے ریاست کو للکار کر پنجاب حکومت کو ناکوں چنے چبوادیئے ہیں۔ اس کی پشت پر جنوبی پنجاب کے بڑے جاگیردار اور تمن دار ہیں، چھوٹو گینگ نے ریاست کے اندر ریاست قائم کررکھی ہے جو خوف ودہشت کی علامت ہے۔ بدقسمتی سے موجودہ پولیس قاضی فضل اللہ یا میاں ممتاز دولتانہ کے دور کی پولیس نہیں ہے جس کے اہلکار کی چھڑی دیکھ کر جرائم پیشہ سہم جاتے تھے۔ چھوٹو ڈاکو کو ’’بڑا‘‘ بنانے میں موجودہ نظام شریک ہے۔ چھوٹو کے حوالے سے ملنے والی رپورٹ کے مطابق رحیم یار خان اور راجن پور میں پولیس کو 48 مقدمات میں مطلوب خوف ودہشت کی علامت ڈکیت غلام رسول عرف چھوٹو کے سر کی قیمت 20 لاکھ روپے مقرر ہے۔ جس نے کچے کے علاقے میں اپنی بادشاہت قائم کر رکھی ہے۔
پنجاب اور سندھ میں ڈکیت گروہوں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ ایک وقت میں یہ متوازی حکومت بھی چلاتے رہے ہیں۔ ان کی سرپرستی علاقے کے با اثر زمیندار ، منشیات اور اسلحہ کے اسمگلر کرتے ہیں۔ ضلع راجن پور صوبہ پنجاب کا دور افتادہ اور آخری ضلع ہے جو صوبہ سندھ کے آخری ضلع کشمور سے ملحقہ ہے۔ دریائے سندھ کے مشرقی جانب کے وسیع و عریض علاقے کو کچے کا علاقہ کہا جاتا ہے۔ جبکہ اس کے مغرب کی جانب کوہ سلیمان کا طویل پہاڑی سلسلہ ہے جس کے ساتھ صوبہ بلوچستان کے سرحدی علاقے شامل ہیں۔ یہاں چھوٹو گروپ جنوبی پنجاب کے سیاستدانوں کے لیے صولت مرزا یا عزیر بلوچ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس لئے پنجاب حکومت نے عجلت میں اس گروپ کے خلاف آپریشن ترتیب دیا جو اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا اور بالآ خر فوج کی مدد لے لی گئی ہے۔
جرائم پیشہ عناصر کی محفوظ پناہ گاہیں عرصے سے موجود ہیں جو سندھ اور پنجاب کے میدانی علاقوں میں آ کر لوٹ مار کر کے بحفاظت واپس چلے جاتے ہیں۔ مگر اب یہ علاقہ پاک چین اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ کی گزرگاہ بننے والا ہے۔ اس لئے اس کی سیکورٹی ترجیح بن چکی ہے۔ اور اس علاقے کو گینگسٹرز سے واگزار کرانے کے عمل کا آغاز ہو چکا ہے۔ جن میں سب سے اہم گروپ کا نام چھوٹو گروپ ہے۔ بلوچستان میں جاری حالیہ یورش کی وجہ سے بلوچستان لبریشن آرمی کا نام بھی چھوٹو گینگ کے ساتھ لیا جا رہا ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ کچے کا علاقہ بی ایل اے کے لیے بھی جائے پناہ ہے۔ جہاں بھارتی ایجنسی ’’را ‘‘کے لوگ بھی موجود ہیں۔ اس طرح چھوٹو گینگ جو پہلے اغوا برائے تاوان ، ڈکیتی اور دیگر جرائم میں ملوث تھا اب وہ ملکی سلامتی کے لیے بھی ایک چیلنج کے طور پر موجود ہے۔ پنجاب حکومت نے چھوٹو گینگ کے خلاف آپریشن کا فیصلہ گلشن اقبال لاہور کی دہشت گردی کے بعد کیا۔ اگرچہ یہ بتایا نہیں گیا کہ اس واقعہ میں بھی چھوٹو گینگ ملوث ہے یا نہیں تاہم اچانک کچے کے علاقے کو ڈکیت گروہوں سے پاک کرنے کا مقصد پورے علاقے میں پولیس کی عملداری قائم کرنا اور دہشت گردوں کی کمین گاہوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اس سے قبل پولیس پانچ بار چھوٹو گینگ کے خلاف آپریشن کر چکی ہے اور ہر بار اہداف کے حصول میں ناکام رہی ہے۔ یہ چھٹا آپریشن ہے جس میں درجن بھر پولیس اہلکار شہید ہو چکے ہیں اور دو درجن کے قریب یر غمال ہیں۔ جو گینگ اینٹی ایئرکرافٹ گنوں اور مارٹر گولوں سے لیس ہو اس کے مقابلے کے لیے اگر فی اہلکار ڈیڑھ سو گولیاں دے کر میدان میں اتارا جائے گا تو یہ بذات خود ایک مجرمانہ فعل ہے۔ بہرحال اس آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے پاک فوج کے کمانڈوز میدان میں اتر چکے ہیں جن کی مدد کے لیے گن شپ ہیلی کاپٹر بھی موجود ہیں۔
ڈکیت غلام رسول عرف چھوٹو کا تعاقب، چار اضلاع کی پولیس برسوں سے کر رہی ہے۔ اس پر کئی پولیس اہلکاروں کے قتل کا الزام ہے۔ بیسیوں زمینداروں اور مالدار شخصیات کو اغوا ء کر کے کروڑوں روپے تاوان وصول کر چکا ہے۔ گلگت سے گوادر تک کے جرائم پیشہ افراد کے ساتھ رابطے ہیں۔ کئی بار پولیس کے گھیرے میں آیا مگر فرار ہو نے میں کامیاب ہو گیا جس پر کہا گیا کہ اس کو پولیس کے اندر سے معلومات مل جاتی ہیں۔
چھوٹو گینگ کی ابتدا 2001ء میں رحیم یار خان میں ہوئی۔ شروع میں اس نے اغوا برائے تاوان کی وارداتیں کیں تب اسے بوسن گینگ کہا جاتا تھا۔ کیونکہ اس کا سرغنہ طارقی بوسن تھا۔ یہ گینگ شروع میں چوری اور ڈکیتی کی معمولی وارداتوں میں ملوث تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس گینگ میں اور بھی جرائم پیشہ لوگ شامل ہوتے رہے۔ چھوٹی موٹی وارداتوں سے اس گینگ کی حوصلہ افزائی ہوتی رہی آخر کار یہ ایک مضبوط گروپ کی شکل اختیار کر گیا۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے بدنام زمانہ ڈاکو مریدا نتکانی نے جب اس گروپ میں شمولیت اختیار کی تو جدید اسلحہ کی فراہمی کو یقینی بنایا یہیں سے اس گروپ میں بی ایل اے کا عمل دخل بھی بڑھ گیا۔ بلوچستان میں سرگرم بی ایل اے کے لیے کچے کا علاقہ عارضی پناہ گاہ بن گیا۔ اغوا برائے تاوان اور ڈکیتی کی وارداتیں جنوبی پنجاب کے چار اضلاع راجن پور، مظفر گڑھ ، ڈیرہ غازی خان اور رحیم یار خان میں بہت بڑھ گئیں۔ پھر ایک وقت ایسابھی آیا جب یہ گروپ دو دھڑوں میں تقسیم ہو کر ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہو گیا۔ ایک دھڑا طارقی بوسن کا تھا اور دوسرا عقیلا بوسن کا۔ 7 نومبر 2003ء کو بیٹ بوسن میں مبینہ پولیس مقابلہ میں عقیلا بوسن مارا گیا۔ اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں رقم کے اختلاف پر غلام رسول چھوٹو اور طارقی بوسن بھی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے۔ 9 نومبر 2005ء کو چھوٹو نے طارقی بوسن کو تاوان کی رقم لینے کے لیے صادق آباد کے نزدیک کچے کے علاقے میں بلوایا اور فائرنگ کر کے طارقی بوسن اور اس کے ساتھیوں کو ہلاک کر دیا۔ یہ بات بھی عام تھی کہ چھوٹو نے نشہ آور چیز کھلا کر پولیس کو اطلاع کر دی پولیس نے نشہ کی حالت میں طارقی بوسن اور اس کے ساتھیوں پر گولیاں چلادیں جس سے وہ سب کے سب مارے گئے۔ طارقی بوسن کے مارے جانے کے بعد کچے کے تمام ڈاکو مختلف علاقوں میں پھیل گئے۔ چھوٹو نے ان ڈاکوں سے رابطے کیے اور چھوٹو گینگ کے نام سے ایک مضبوط گینگ بنا لیا۔ یہیں سے اس گروپ کی بالادستی کا آغاز ہوا۔ علی پور کے کچے سے تعلق رکھنے والے خدا بخش المعروف کھدلی بھنڈ کو چھوٹو نے بھنڈ گینگ کا سرغنہ بنایا اور یہ گینگ بھی جنوبی پنجاب میں خطرناک شکل اختیار کر گیا۔ 15 مارچ 2010ء کو کھدلی بھنڈ بھی چھوٹو کی مخالفت کی نذر ہو گیا۔ چھوٹو نے کچے کے علاقے میں کھدلی بھنڈ اور اس کے ساتھیوں کو موت کے گھاٹ اتار کر پولیس کو اطلاع دے دی۔ پولیس نے کھدلی بھنڈ کی موت کو بھی پولیس مقابلے کا نام دیا۔ چھوٹو نے کھدلی بھنڈ گینگ کے بچے کچھے ڈاکوں کو اپنے گینگ میں شامل کرلیا۔
2010ء میں اغوا برائے تاوان کی وارداتیں اتنی بڑھی کہ شہریوں نے گھر سے نکلنا ہی چھوڑ دیا جس پر پنجاب حکومت نے کچے میں آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے راجن پور میں سہیل ظفر چٹھہ اور رحیم یار خان میں سہیل حبیب تاجک ڈی پی اوز تعینات کر دیے گئے۔ آپریشن کی قیادت اس وقت کے آر پی او بہاولپور سید عابد قادری نے کی۔ 30 مارچ 2011ء کو راجن پور کی پولیس کچے کے نوگو ایریا کچہ کراچی ، کچہ عمرانی اور کچی جمال میں داخل ہو گئی۔ غلام رسول چھوٹو کے گھر پر بھی پولیس نے چوکی بنا دی کچہ میں پولیس کی22 چوکیاں بنیں۔ 25 مئی 2011ء کو رانا پٹ نے اپنے ساتھی ڈاکو کے ہمراہ عمرانی چوکی پر ہلہ بول دیا۔ اس حملے کے دوران پولیس مقابلہ ہوا۔ جس میں رانا پٹ مارا گیا اور ایک اے ایس آئی راجن پور پولیس ندیم بالا چانی شہید ہوا۔ ڈاکو جاتے ہوئے سات پولیس اہلکار بھی اغوا کر کے اپنے ساتھ لے گئے۔ بعد میں روجھان کی بااثر سیاسی شخصیات کے ذریعے ان ڈاکوں کے ساتھ پولیس کے مذاکرات ہوئے اور ڈاکوں نے پولیس اہلکار بااثر سیاسی شخصیات کے حوالے کر دیے۔ ڈاکو کچے کے علاقہ سے صحیح سلامت بچ نکلے کے بعد منظم ہونا شروع ہو گئے اور بلوچستان سے ان کو جدید اسلحہ ملتا رہا۔ ایک بار چھوٹو اپنے ساتھیوں کے ساتھ نیشنل ہائی وے پر سفر کر رہا تھا، جب احمد پور شرقیہ کے ٹول پلازے پہ پہنچا تو پولیس نے ایک مرتبہ پھر چھوٹو کو بھاگنے کا موقع دیا۔ چھوٹو پولیس کی بھاری نفری کے باوجود فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا اس کے تین ساتھی بہاولپور پولیس نے گرفتار کر لیے۔ 11 اپریل 2013ء کو بنیادی مرکز صحت کے ڈاکٹر خان وزیر لاہور سے واپس آ رہے تھے کہ راستے میں ملتان کے نزدیک بستی ملوک سے ڈسپنسر نذیر اور ڈاکٹر کے بیٹے جہانزیب کو اغوا کر لیا گیا چھوٹو نے ڈاکٹر خان وزیر کی بازیابی اپنے ساتھیوں کی رہائی کے ساتھ مشروط کر دی لیکن جب چھوٹو اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوا تواْس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ 6 جولائی 2013ء کی شب کچی جمال کی پولیس چوکی پر حملہ کر دیا اور 9 پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا۔ اس دوران ڈاکوؤں نے پنجاب پولیس کو للکارا اور 45 گنیں جن میں ایس ایم جی اور جی تھری شامل ہیں سات ہزار گولیوں کے ساتھ چھین لیں۔ چھوٹو گینگ کی اس غیر معمولی کارروائی کا مقصد پولیس چوکیوں کا خاتمہ اوران کے ساتھیوں عبدالرزاق، بشیراحمد اوراسحاق سمیت خواتین بچوں جو پولیس کے زیر حراست تھے کو چھڑوانا مطلوب تھا۔ کچی جمال پر حملے کی اطلاع پر چار اضلاع کشمور، گھوٹکی ، راجن پور اور رحیم یار خان کی پولیس نے کچے کے تمام علاقے کو گھیر لیا۔ پولیس نے مذاکرات کے ذریعے پولیس اہلکاروں کو چھڑوانے کی کوشش کی لیکن مذاکرات ناکام رہے۔ چھوٹو نے اپنے تین ساتھیوں کی رہائی کے ساتھ کچے سے پولیس چوکیاں ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ پولیس نے جب چھوٹو کے مطالبات نہ مانے تو چھوٹو نے ایک ایک پولیس اہلکار کو گولی مار کر شہید کر دیا پھر اچانک چھوٹو چالیس ڈاکوں اور پولیس مغویان کے ساتھ پولیس کی بھاری نفری کی موجود گی میں کچے کے علاقے سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔
چھوٹو گینگ کے پاس جدید اسلحہ ہے جبکہ پولیس کے پاس روایتی ہتھیار ہیں اس لئے پولیس اہلکار کچے کے علاقے میں چیک پوسٹوں پر ڈیوٹی سر انجام دینے سے ہچکچاتے ہیں۔ ان حالات میں جب وزیر داخلہ چوہدری نثار نے جنوبی پنجاب کے سرداروں جن میں ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی سردار شیر علی گورچانی، انکے والد سردار پرویز اقبال خان گورچانی مزاری قبیلے کے سرداروں کو بلا کرکہا کہ آپ لوگ ڈاکوؤں کی سرپرستی ختم کر دیں کیونکہ فوج ان کے خلاف آپریشن کرنے والی ہے یہ نہ ہو کہ ان کی حمایت پر آپ لوگ بھی زیر عتاب آ جائیں جس پر سردار پرویزاقبال خان گورچانی نے ملٹری پولیس کو مخبری کی اور غلام رسول مزاری عرف آصف چھوٹوکے گینگ کے اہم ملزم علی گلبازگیر گورچانی اور اس کے بھائی پندی کو پناہ دینے کے بہانے بلا کر ان کے سر تن سے جد اکر دیئے اور پھر پولیس کو بلا کرنعشیں ان کے حوالے کردیں۔ جس پر چھوٹو گروپ کے سرغنہ نے خود کو فوج کے حوالے کرنے کی آفر بھی کی تھی۔ لیکن خیال کیا جا رہا ہے اگر ایسا ہو گیا تو چھوٹو گروپ جنوبی پنجاب کے سیاستدانوں کے لیے صولت مرزا یا عزیر بلوچ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس لئے پنجاب حکومت نے عجلت میں اس گروپ کے خلاف آپریشن ترتیب دیا جو اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا اور بالآ خر فوج کی مدد لی گئی ہے۔ اگر غلام رسول المعروف چھوٹو زندہ پکڑا گیا تو ایوانوں میں بیٹھے کئی سیاستدانوں پر لرزہ طاری ہو جائے گا۔
پیپلزپارٹی کراچی ڈویژن کے سابق صدر اور سابق رکن اسمبلی عبدالقادر پٹیل نے از خود جلاوطنی سے کراچی واپسی پر رینجرز کے روبرو اہم انکشافات کئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ لیاری گینگ وار جو بھتہ جمع کرتی تھی اس میں آدھی رقم ایک اہم شخصیت کو بھیجی جاتی تھی، جس کے بدلے گینگ وار کے کسی بھی کارکن کو گرفتار نہ کرنے کے احکامات جاری کئے گئے تھے۔ شہر میں گینگ وار کی مدد سے انہوں نے 6 پیٹرول پمپس، 7 سی این جی اسٹیشن سستے داموں پر خریدے۔ ماڑی پور، حب اور شہر کے دیگر علاقوں میں زمینوں پر قبضے کرکے اپنے نام پر کروائی، جس کے ڈاکومینٹس بھی انہوں نے رینجرز کی تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش کئے۔ لیاری میں نبیل گبول سمیت دیگر مخالفین اور ان کے ہمدردوں کو ڈرادھمکا کر لیاری سے بھاگنے پر مجبور کیا جاتا تھا اور جو آنکھیں دکھاتے تھے، انہیں گینگ وار کے ذریعے قتل کروایا جاتا تھا۔
عام انتخابات 2013 کے دوران عزیر بلوچ کو راضی رکھنے کے لیے پارٹی ٹکٹ جاری کیا گیا تھا۔ پارٹی قیادت گینگ وار کی جانب سے جمع ہونے والی بھتے کی رقم میں حصہ بڑھانے پر پریشر ڈالتی تھی، یہی بات عزیر بلوچ نہیں مانتا تھا، جس کی وجہ سے پارٹی قیادت اور ہمارے درمیان اختلافات بڑھ گئے اور مجھے پارٹی عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ قادر پٹیل نے لیاری گینگ وار کے مرکزی کردار عزیر بلوچ کو پی پی کے سابق وزیر داخلہ سندھ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی جانب سے ہزاروں اسلحہ لائسنس کی فراہمی کابھی پول کھول دیا اور بتایا کہ مذکورہ اسلحہ لائسنس بھی گینگ وار سرغنہ عزیر بلوچ کو اپنے سب سے بڑے مخالفین متحدہ دہشت گردوں سے لڑنے کے لیے جاری کئے گئے اور گینگ وار کے عسکری ونگ میں شامل خواتین کے تمام معاملات لیاری سے تعلق رکھنے والی پی پی کی خاتون رہنما ثانیہ بلوچ دیکھتی تھیں۔
پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں گینگ وار کے لیے کام کرنے والے لوگوں کو سندھ پولیس میں بھرتی کیا گیا۔ کراچی آپریشن کے دوران لیاری گینگ وار کے لیے کام کرنے والے کئی پولیس اہلکاروں کی گرفتاری بھی عمل میں لائی گئی، جنہوں نے دوران تفتیش انکشاف کیا ہے کہ ان کو پولیس میں قادر پٹیل کی سفارش پر بھرتی کیا گیا اور گینگ وار میں ایک ونگ بنایا گیا تھا جو گینگ وار دہشت گردوں کو پولیس یونیفارم اور پولیس نما طرز سے شہر کے مختلف علاقوں سے اپنے مخالفین اور اردو بولنے والے نوجوانوں کو اغواء کرنے کے بعد انہیں قتل کرکے لاشیں لیاری کے متصل علاقوں میں پھینکی جاتی تھیں۔ عزیر بلوچ کے حریف ارشد پپو اور اس کے بھائی کو بھی پولیس وردی میں ملبوس اہلکاروں نے پکڑ کر قتل کیا تھا اور لیاری میں ان کے سروں سے فٹ بال کھیلی گئی تھی۔
پیپلزپارٹی کے کراچی میں اہم رہنما عبدالقادرپٹیل کے ان انکشافات نے پارٹی قیادت کے لیے مزید مسائل پیدا کردیئے ہیں، کئی عالی’’ مرتبت‘‘ سیاستدانوں کے لیے ایسے انکشافات ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں لیکن ان کااثرورسوخ، طاقت اور پیسہ ہر جگہ ڈھال بن کر ان کی حفاظت کے لیے آگے آجاتا ہے۔
آج پاناما لیکس کا بڑا شوروغوغا ہے۔ اس سے قبل2010ء میں وکی لیکس کی طوفانی ہواؤں نے کئی چہروں سے نقاب الٹے تھے۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین آصف علی زرداری سے بھی سرے محل اور کئی اسکینڈل منسوب ہوئے تھے لیکن پاکستان کا حکمران طبقہ ہر ’’بے عزتی‘‘ سے ’’باعزت‘‘ باہر آتا رہاہے۔ اس کا بنیادی سبب نیم جاگیردارانہ، نیم سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ 1973ء کے دستور کی 18 ویں ترمیم نے لوٹ مار کے اس نظام کو مزید تقویت عطا کردی ہے جس کے تحت موجودہ یا سابق حکمرانوں اور ارکان اسمبلی کے خلاف پارلیمانی کمیٹی کی منظوری کے بغیر کوئی کارروائی ممکن نہیں ہے اور بیشتر پارلیمانی کمیٹیوں کے اجلاس آج تک منعقد نہیں ہوئے ہیں۔
حکمران طبقے کی سب سے بڑی کمزوری احتساب اور سزا ہے، پاکستان کے جاگیردارانہ معاشرے میں صرف فوج ہی وہ ادارہ ہے جس میں جاگیرداروں اور بدعنوان سرمایہ داروں پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت، جرأت اور طاقت ہے۔ آج حکمران طبقے کے سرخیل لندن میں جمع ہیں۔ ان کے اثرورسوخ اور دولت میں اضافے کے لیے ان کے ’’فرنٹ مین‘‘ آف شور کمپنیاں اور چھوٹو جیسے ڈاکو دن رات کام میں مصروف ہیں۔ آج لیاری کے عزیر بلوچ کا تذکرہ ہے تو کل رحمان ڈکیت اور بھوپت ڈاکو یہی کردار ادا کرتے تھے۔ ڈاکو اور طوائف جاگیردارانہ معاشرے کی پیداوار ہیں۔ آج کی ایان علی والا کردار کل شبنم عثمان جیسی ماڈل انجام دیا کرتی تھیں۔ چوروں، لٹیروں، ڈاکوؤں، بدعنوانوں کے خاتمے کے لیے دستور کو بدلناہوگا اور نیا آئین لانا ہوگا جس میں حقوق سے محروم تمام آبادی کو اس کا جائز حق دینا ہوگا, ورنہ موجودہ نظام کی کوکھ سے چھوٹو ڈاکو اور رحمان ڈکیت پیدا ہوتے رہیں گے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیر اعظم نوازشریف اورجہانگیرترین سمیت دیگر سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی کے خلاف درخواست واپس کردی۔ سپریم کورٹ رجسٹرار آفس نے سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون کی جانب سے دائر کردہ درخواست پر اعتراضات لگا کر اسے واپس کرتے ہوئے کہا کہ تاحیات ن...
47 سال قبل نواب محمد احمد خان قصوری کا قتل ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی وجہ کیسے بنا،کیا11 نومبر کی تاریک رات میں سینئروکیل احمد رضاخان قصوری کے والد کے قتل کی اس واردات کے اصل محرکات پر کبھی روشنی پڑے گی؟یہ سوال آج بھی جواب کا منتظر ہے ،برطانوی نشریاتی ادارے نے اس بارے میں ایک...
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ لیکس میں 700 پاکستانیوں کے نام آئے، 2016میں پاناما پیپرزمیں 4500 پاکستانیوں کے نام آئے تھے۔سپریم کورٹ میں پاناما لیکس سے متعلق پٹشنز دائر ہوئیں،ایس ای سی پی ،اسٹیٹ بینک ،ایف بی آر اور ایف آئی اے نے تحقیقات کیں، عدالت ...
پنڈورا پیپرز کا پنڈورا باکس کھلنے لگا۔ پنڈورا کی ابتدائی اطلاعات کے مطابق سات سو سے زائد پاکستانیوں کے نام اس میں نکل آئے۔ پانامالیکس سے زیادہ بڑے انکشافات پر مبنی پنڈورا باکس میں جن بڑے پاکستانیوں کے ابھی ابتدائی نام سامنے آئے ہیں۔ اُن میں وزیر خزانہ شوکت ترین، پاکستانی سیاست می...
یہ شاندار بات ہے کہ آپ نے مختصر سفر کے دوران مستحکم معاشی پوزیشن حاصل کرلی،کرسٹین لغرادکا وزیر اعظم سے مکالمہ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹرنے شرح نمو میں اگلے سال مزید کمی ہونے کے خدشات کابھی اظہار کردیا عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لغرادگزشت...
پانامالیکس کی عدالتی کارروائی میں پیش رفت کو حزب اختلاف کے تمام رہنماؤں نے بہت زیادہ اہمیت دی ہے،معاملہ معمول کی درخواستوں کی سماعت سے مختلف ثابت ہوسکتا ہے عمران خان دھرنے میں دائیں بازو کی جماعتوں کولانے میں کامیاب ہوگئے تو یہ دھڑن تختہ کاپیش خیمہ ہوسکتا ہے،متنازعخبر کے معاملے ...
اخبارات میں مختلف خبروں اور تجزیوں کے ذریعے دھرنے کے شرکاکیخلاف سخت کارروائی کے اشارے دیے جائیں گے عمران خان کے لیے یہ"مارو یا مرجاؤ" مشن بنتا جارہا ہے، دھرنے میں اْن کے لیے ناکامی کا کوئی آپشن باقی نہیں رہا مسلم لیگ نون کی حکومت نے تحریک انصاف کے دھرنے کے خلاف ایک طرح سے نفسیا...
منصوبہ خطرناک تھا‘ پاکستان کو برباد کرنے کیلئے اچانک افتاد ڈالنے کا پروگرام تھا‘ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں فوجی آپریشن سے قبل کراچی‘ سندھ اور بلوچستان میں بغاوت اور عوامی ابھار کو بھونچال بنانے کا منصوبہ بنایا تھا تاکہ مقبوضہ کشمیر میں اس کی سفاکی اور چیرہ دستیاں دفن ہوجائیں اور ...
تحریک انصاف حکومت کے خلاف پانامالیکس کے معاملے پر تحریک چلارہی ہے‘ پیپلزپارٹی بھی اس تحریک میں ان کے ساتھ ہے‘ نیم دلی کے ساتھ اعتزازاحسن بڑھ بڑھ کر حکومت پر حملے کررہے تھے مگر پھر عمران خان نے تحریک میں تیزی لانے کا فیصلہ کیا جس کے بعد ایک ایک کرکے سب ہی جدا ہوتے گئے۔ شیخ رشید نے...
بغاوت کامیاب ہوجائے تو انقلاب اور ناکام ہو توغداری کہلاتی ہے۔ ایم کوایم کے بانی الطاف حسین کے باغیانہ خیالات اور پاکستان مخالف تقاریر پر ان کی اپنی جماعت متحدہ قومی موومنٹ سمیت پیپلزپارٹی‘ تحریک انصاف‘ مسلم لیگ (ن) اور فنکشنل مسلم لیگ نے سندھ اسمبلی میں ان کے خلاف قرارداد منظور ک...
ابھی پاناما لیکس کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھا بھی نہ تھا کہ ’’انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس‘‘ (آئی سی آئی جے) نے اس اسکینڈل کی اگلی قسط چھاپ دی، جس میں دنیا بھر کی ایسی شخصیات کے ناموں کے انکشاف کیا گیا ہے، جنہوں نے مبینہ طور پر اپنے ملک میں عائد ٹیکسوں سے بچنے کے لیے جزائ...
کراچی میں ’’آپریشن کلین اپ‘‘ کے ذریعے شہر قائد کو رگڑ رگڑ کر دھویا جارہا ہے۔ پاکستان کے اس سب سے بڑے شہر اور اقتصادی حب کا چہرہ نکھارا جارہا ہے۔ عروس البلاد کہلانے والے اس شہر کو ایک بار پھر روشنیوں کا شہر بنایا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ قومی ایکشن پلان کا حصہ ہے۔ پاکستان کے عظیم اور ق...