... loading ...
افسوس منفعت بخش رجحانات نے ہمیں بھی کہیں کا نہ چھوڑا!شاعر پر تب وہ گھڑی اُتری تھی جب اُس نے راز فاش کردیا!
شریف خاندان کے حامی دانشوروں کا مسئلہ ’’گندم‘‘ کا نہیں’’غم گندم کا ہے! افسوس، افسوس تاریخ کے بہتے دھارے پر ان کی نگاہ ہی نہیں۔ دسترخوان پر بیٹھے لوگ بوٹیوں اور ہڈیوں پر نگاہ رکھتے ہیں تاریخ پر نہیں۔ شریف خاندان کے متعلق فیصلے کی گھڑی آ پہنچی! گریز کرنے والے بھی گریز نہ کر پائیں گے۔ وہ عمران خان کی مہماتی مخالفت کے نہیں تاریخ کی بے لگام گردشوں کے نرغے میں ہے۔ شریف خاندان کی بصیرت کا یہ حال ہے کہ اُنہیں پاناما رساؤ(لیکس) پر بھی گمان گزرا تھا کہ کہیں یہ پاکستانی اداروں کا کھیل تو نہیں۔ دولت تو اس خاندان نے بے پناہ جمع کی مگر ذہنی افلاس کا عالم وہی رہا ۔ کیا اس بصیرت سے وہ پانامہ رساؤ کے بحران کا سامنا کر سکیں گے جہاں مدتوں تک عالم یہ رہے گا کہ
شریف خاندان کے دفاع میں جو موقف گھڑے جارہے ہیں اگلے انکشافات سے یہ دلائل اُن کے ہی منہ پرواپس جاپڑیں گے! پہلی دلیل تو رسوائی کے گہری کھائی میں جاپڑی ہے۔ شریف خاندان آخر کیا کرتا جب مشرف نے اُن کے لیے سارے دروازے بند کر دیئے تھے۔ جنرل مشرف نے 12اکتوبر 1999ء میں ایک منظم جبر کے ذریعے نوازشریف کو اقتدار سے بے دخل کیا تھا۔ یہ بات بالکل بجا ہے۔ مگر اقتدار کی اس بے دخلی نے اُنہیں یہ اختیار نہیں دیا تھا کہ وہ ریاستی قانون کے خلاف اپنی کارگزاریوں کی گنجائش نکال لیں۔ یہ ایک عجیب وغریب قسم کا طرزِ فکر ہے جو چہرے بدل بدل کر اور چولے پہن پہن کر ہمارے سامنے آتا ہے۔ اب اس طرز فکر نے ملک سے ’’غداری‘‘ تک کا جواز تراش لیا ہے۔ ایم کیوایم کا موقف ہے کہ ریاستی آپریشن کے بعد جب ہمارے لیے کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑی جائے گی تو پھر ہم زندگی کے لیے دستیاب راستوں پر کیوں نہ چلیں۔ کرلیجیے آپ کو اب جو کچھ کرنا ہے!شریف خاندان کے اعمال کے بعد اب آصف علی زرداری کو بھی ’’جناب‘‘ کہنے کا دل چاہتا ہے ۔ جنرل کیانی نے ایک موقع پر’’ جناب‘‘ آصف علی زرداری کو اُن افراد کی جانب متوجہ کیا جو سرکاری اداروں کی لوٹ مار میں حد سے آگے بڑھ رہے تھے۔ آصف علی زرداری کا موقف تھا کہ میرے ساتھیوں پر ظلم کے پہاڑ ٹوٹے ہیں ، جیلیں کاٹی ہیں، بے گناہ ماریں کھائی ہیں ۔ یہ اب اُن کا حق ہے۔ شریف خاندان کے اس طرز فکر کے بعد زرداری کا موقف کیوں کر غلط کہلا سکے گا؟مگر شریف خاند ان کا معاملہ تو اس سے بھی بدتر ہے۔
شریف خاندان نے لندن میں جائیدادیں 12اکتوبر 1999ء کی فوجی بغاوت کے بعد نہ خریدی تھیں۔ اب حقائق سامنے آرہے ہیں۔ یہ اس سے بہت پہلے کا واقعہ ہے۔شریف خاندان نے لندن میں جائیدادیں نوّے کی دہائی میں خریدنا شروع کی ہیں۔ مشرف بغاوت کا اس سے بھلا کیا تعلق ہے؟ مگر نوازشریف نے اپنے خطاب میں یہ عظیم مغالطہ پیدا کیا ہے اور ہمدردی کی لہر اپنے حق میں استوار کرنے کی کوشش کی۔ کوئی دن جائے گاکہ نئے سامنے آنے والے انکشافات کو اُن کے قوم سے ذاتی خطاب میں کیے گیے دعووں کی روشنی میں پرکھاجائے گا اور تضادات عریاں کیے جائیں گے۔ تب وزیر اعظم نوازشریف ہمیشہ کی طرح تاخیر سے غور فرمائیں گے کہ اُنہیں قوم سے خطاب کے لیے دھکا کس نے دیا تھا؟لندن میں جائیدادوں کی خریداری اور اُن کے صاحبزادوں کے نام پر موجود آف شور کمپنیوں کے لیے اُنہوں نے مشرف دور کی جو ڈھال لی تھی وہ اُن کے دفاع میں مکمل ناکام ثابت ہوئی۔ کیونکہ اگلے دن ہی یہ حقائق سامنے آگیے کہ شریف خاندان نے لندن میں 2006ء میں نہیں بلکہ 1993-1996 میں جائیدادیں خریدی تھیں۔ میاں شہباز شریف اور خاندان کے دیگر افراد نے التوفیق نامی کمپنی سے پارک لین میں 16 اے اور 17اے ، ایون فیلڈ پر چار جائیدادیں خریدنے کے لیے تب قرض لیا تھا۔ مشرف کی طرف سے اقتدار پر قبضے سے ایک سال قبل یعنی 1998 میں لندن کی ایک عدالت نے شریف خاندان کو جائیدادوں کے عوض لیے گیے قرض کی ادائی کا حکم دیا۔ جو 32اور 42 ملین ڈالر کا تھا۔ شریف خاندان کے حوالے سے جو سوالات یہاں پیدا ہوتے ہیں ، وہ نہایت سنگین نوعیت کے ہیں۔ اولاً جب یہ جائیدادیں خریدی اور رقوم کی ادائی کی گئی تب شریف خاندان پاکستان میں اپنی آمدنی نہایت کم ظاہر کر رہا تھا۔ جب کہ حقیقتاً ایسا نہیں تھا۔ ثانیاً شریف خاندان کی جانب سے مذکورہ جائیدادیں خریدنے کے عرصے میں پاکستان کے اندر نہایت معمولی ٹیکس ادا کیا گیا۔
اصل بات یہ ہے کہ لندن عدالت نے قرض ادائی میں ناکامی پر شریف خاندان کی مذکورہ جائیدادوں کی ضبطی کا حکم نومبر 1999ء میں دیا تھا۔ جسے نوازشریف مشرف کی طرف سے اقتدار کی بے دخلی کے نتیجے میں جائیداد کی خریداری کے گھن چکر میں الجھا رہے ہیں۔ یہ سوال اپنی جگہ ہمیشہ موجود رہے گا کہ لندن میں جب بھی جائیدادیں خریدی گئیں ، شریف خاندان نے اس کے لیے رقوم کا بندوبست کیسے کیا؟ اور اس کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا گیا؟ بہت جلد یہ انکشافات بھی عوام کے سامنے آجائیں گے۔ سردست تو اس انکشاف سے دل بہلاتے ہیں جو نوازشریف کی جانب سے قوم کے نام خطاب کے بعد سامنے آیا تھا ۔ نوازشریف نے قوم سے خطاب میں کہا تھا کہ پاناما رساؤ میں جن آف شور کمپنیوں کا ذکر ہے اُن میں اُن کا نہیں بلکہ اُن کے بیٹوں کا ذکر ہے اور وہ عاقل وبالغ ہیں ۔ جس کی ذمہ داری اُن کے کاندھوں پر نہیں پڑتیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ برطانیاکے وزیر اعظم کو یہ دلیل نہیں سوجھی اور وہ اپنے باپ کے آف شور کھاتوں کی وضاحت کرتے پھر رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے والد ’’عاقل بالغ‘‘ نہ ہوں۔ مگر وزیراعظم کی قوم سے خطاب میں یہ دلیل بھی تب بے آبرو ہوگئی جب ایک ٹیلی ویژن پر خود میاں نوازشریف کے نام سے قائم دو آف شور کمپنیوں کے کاغذ سامنے آگیے۔ ایک بار پھر دُہراتے ہیں نوازشریف کو قوم سے خطاب کے لیے دھکا کس نے دیا؟مکر ر عرض ہے کہ شریف خاندان اب تاریخ کی بے لگام گردشوں کے نرغے میں ہے ، اور اُن کی بصیرت اس سے نکلنے کی سکت نہیں رکھتی۔
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...
سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیر اعظم نوازشریف اورجہانگیرترین سمیت دیگر سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی کے خلاف درخواست واپس کردی۔ سپریم کورٹ رجسٹرار آفس نے سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون کی جانب سے دائر کردہ درخواست پر اعتراضات لگا کر اسے واپس کرتے ہوئے کہا کہ تاحیات ن...
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ لیکس میں 700 پاکستانیوں کے نام آئے، 2016میں پاناما پیپرزمیں 4500 پاکستانیوں کے نام آئے تھے۔سپریم کورٹ میں پاناما لیکس سے متعلق پٹشنز دائر ہوئیں،ایس ای سی پی ،اسٹیٹ بینک ،ایف بی آر اور ایف آئی اے نے تحقیقات کیں، عدالت ...
پنڈورا پیپرز کا پنڈورا باکس کھلنے لگا۔ پنڈورا کی ابتدائی اطلاعات کے مطابق سات سو سے زائد پاکستانیوں کے نام اس میں نکل آئے۔ پانامالیکس سے زیادہ بڑے انکشافات پر مبنی پنڈورا باکس میں جن بڑے پاکستانیوں کے ابھی ابتدائی نام سامنے آئے ہیں۔ اُن میں وزیر خزانہ شوکت ترین، پاکستانی سیاست می...