وجود

... loading ...

وجود

شریف خاندان

پیر 11 اپریل 2016 شریف خاندان

افسوس منفعت بخش رجحانات نے ہمیں بھی کہیں کا نہ چھوڑا!شاعر پر تب وہ گھڑی اُتری تھی جب اُس نے راز فاش کردیا!

گندم نے ہمیں خلدِ بریں کا نہیں رکھا
لیکن غمِ گندم نے کہیں کا نہیں رکھا

شریف خاندان کے حامی دانشوروں کا مسئلہ ’’گندم‘‘ کا نہیں’’غم گندم کا ہے! افسوس، افسوس تاریخ کے بہتے دھارے پر ان کی نگاہ ہی نہیں۔ دسترخوان پر بیٹھے لوگ بوٹیوں اور ہڈیوں پر نگاہ رکھتے ہیں تاریخ پر نہیں۔ شریف خاندان کے متعلق فیصلے کی گھڑی آ پہنچی! گریز کرنے والے بھی گریز نہ کر پائیں گے۔ وہ عمران خان کی مہماتی مخالفت کے نہیں تاریخ کی بے لگام گردشوں کے نرغے میں ہے۔ شریف خاندان کی بصیرت کا یہ حال ہے کہ اُنہیں پاناما رساؤ(لیکس) پر بھی گمان گزرا تھا کہ کہیں یہ پاکستانی اداروں کا کھیل تو نہیں۔ دولت تو اس خاندان نے بے پناہ جمع کی مگر ذہنی افلاس کا عالم وہی رہا ۔ کیا اس بصیرت سے وہ پانامہ رساؤ کے بحران کا سامنا کر سکیں گے جہاں مدتوں تک عالم یہ رہے گا کہ

یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکون

شریف خاندان کے دفاع میں جو موقف گھڑے جارہے ہیں اگلے انکشافات سے یہ دلائل اُن کے ہی منہ پرواپس جاپڑیں گے! پہلی دلیل تو رسوائی کے گہری کھائی میں جاپڑی ہے۔ شریف خاندان آخر کیا کرتا جب مشرف نے اُن کے لیے سارے دروازے بند کر دیئے تھے۔ جنرل مشرف نے 12اکتوبر 1999ء میں ایک منظم جبر کے ذریعے نوازشریف کو اقتدار سے بے دخل کیا تھا۔ یہ بات بالکل بجا ہے۔ مگر اقتدار کی اس بے دخلی نے اُنہیں یہ اختیار نہیں دیا تھا کہ وہ ریاستی قانون کے خلاف اپنی کارگزاریوں کی گنجائش نکال لیں۔ یہ ایک عجیب وغریب قسم کا طرزِ فکر ہے جو چہرے بدل بدل کر اور چولے پہن پہن کر ہمارے سامنے آتا ہے۔ اب اس طرز فکر نے ملک سے ’’غداری‘‘ تک کا جواز تراش لیا ہے۔ ایم کیوایم کا موقف ہے کہ ریاستی آپریشن کے بعد جب ہمارے لیے کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑی جائے گی تو پھر ہم زندگی کے لیے دستیاب راستوں پر کیوں نہ چلیں۔ کرلیجیے آپ کو اب جو کچھ کرنا ہے!شریف خاندان کے اعمال کے بعد اب آصف علی زرداری کو بھی ’’جناب‘‘ کہنے کا دل چاہتا ہے ۔ جنرل کیانی نے ایک موقع پر’’ جناب‘‘ آصف علی زرداری کو اُن افراد کی جانب متوجہ کیا جو سرکاری اداروں کی لوٹ مار میں حد سے آگے بڑھ رہے تھے۔ آصف علی زرداری کا موقف تھا کہ میرے ساتھیوں پر ظلم کے پہاڑ ٹوٹے ہیں ، جیلیں کاٹی ہیں، بے گناہ ماریں کھائی ہیں ۔ یہ اب اُن کا حق ہے۔ شریف خاندان کے اس طرز فکر کے بعد زرداری کا موقف کیوں کر غلط کہلا سکے گا؟مگر شریف خاند ان کا معاملہ تو اس سے بھی بدتر ہے۔

شریف خاندان نے لندن میں جائیدادیں 12اکتوبر 1999ء کی فوجی بغاوت کے بعد نہ خریدی تھیں۔ اب حقائق سامنے آرہے ہیں۔ یہ اس سے بہت پہلے کا واقعہ ہے۔شریف خاندان نے لندن میں جائیدادیں نوّے کی دہائی میں خریدنا شروع کی ہیں۔ مشرف بغاوت کا اس سے بھلا کیا تعلق ہے؟ مگر نوازشریف نے اپنے خطاب میں یہ عظیم مغالطہ پیدا کیا ہے اور ہمدردی کی لہر اپنے حق میں استوار کرنے کی کوشش کی۔ کوئی دن جائے گاکہ نئے سامنے آنے والے انکشافات کو اُن کے قوم سے ذاتی خطاب میں کیے گیے دعووں کی روشنی میں پرکھاجائے گا اور تضادات عریاں کیے جائیں گے۔ تب وزیر اعظم نوازشریف ہمیشہ کی طرح تاخیر سے غور فرمائیں گے کہ اُنہیں قوم سے خطاب کے لیے دھکا کس نے دیا تھا؟لندن میں جائیدادوں کی خریداری اور اُن کے صاحبزادوں کے نام پر موجود آف شور کمپنیوں کے لیے اُنہوں نے مشرف دور کی جو ڈھال لی تھی وہ اُن کے دفاع میں مکمل ناکام ثابت ہوئی۔ کیونکہ اگلے دن ہی یہ حقائق سامنے آگیے کہ شریف خاندان نے لندن میں 2006ء میں نہیں بلکہ 1993-1996 میں جائیدادیں خریدی تھیں۔ میاں شہباز شریف اور خاندان کے دیگر افراد نے التوفیق نامی کمپنی سے پارک لین میں 16 اے اور 17اے ، ایون فیلڈ پر چار جائیدادیں خریدنے کے لیے تب قرض لیا تھا۔ مشرف کی طرف سے اقتدار پر قبضے سے ایک سال قبل یعنی 1998 میں لندن کی ایک عدالت نے شریف خاندان کو جائیدادوں کے عوض لیے گیے قرض کی ادائی کا حکم دیا۔ جو 32اور 42 ملین ڈالر کا تھا۔ شریف خاندان کے حوالے سے جو سوالات یہاں پیدا ہوتے ہیں ، وہ نہایت سنگین نوعیت کے ہیں۔ اولاً جب یہ جائیدادیں خریدی اور رقوم کی ادائی کی گئی تب شریف خاندان پاکستان میں اپنی آمدنی نہایت کم ظاہر کر رہا تھا۔ جب کہ حقیقتاً ایسا نہیں تھا۔ ثانیاً شریف خاندان کی جانب سے مذکورہ جائیدادیں خریدنے کے عرصے میں پاکستان کے اندر نہایت معمولی ٹیکس ادا کیا گیا۔

اصل بات یہ ہے کہ لندن عدالت نے قرض ادائی میں ناکامی پر شریف خاندان کی مذکورہ جائیدادوں کی ضبطی کا حکم نومبر 1999ء میں دیا تھا۔ جسے نوازشریف مشرف کی طرف سے اقتدار کی بے دخلی کے نتیجے میں جائیداد کی خریداری کے گھن چکر میں الجھا رہے ہیں۔ یہ سوال اپنی جگہ ہمیشہ موجود رہے گا کہ لندن میں جب بھی جائیدادیں خریدی گئیں ، شریف خاندان نے اس کے لیے رقوم کا بندوبست کیسے کیا؟ اور اس کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا گیا؟ بہت جلد یہ انکشافات بھی عوام کے سامنے آجائیں گے۔ سردست تو اس انکشاف سے دل بہلاتے ہیں جو نوازشریف کی جانب سے قوم کے نام خطاب کے بعد سامنے آیا تھا ۔ نوازشریف نے قوم سے خطاب میں کہا تھا کہ پاناما رساؤ میں جن آف شور کمپنیوں کا ذکر ہے اُن میں اُن کا نہیں بلکہ اُن کے بیٹوں کا ذکر ہے اور وہ عاقل وبالغ ہیں ۔ جس کی ذمہ داری اُن کے کاندھوں پر نہیں پڑتیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ برطانیاکے وزیر اعظم کو یہ دلیل نہیں سوجھی اور وہ اپنے باپ کے آف شور کھاتوں کی وضاحت کرتے پھر رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے والد ’’عاقل بالغ‘‘ نہ ہوں۔ مگر وزیراعظم کی قوم سے خطاب میں یہ دلیل بھی تب بے آبرو ہوگئی جب ایک ٹیلی ویژن پر خود میاں نوازشریف کے نام سے قائم دو آف شور کمپنیوں کے کاغذ سامنے آگیے۔ ایک بار پھر دُہراتے ہیں نوازشریف کو قوم سے خطاب کے لیے دھکا کس نے دیا؟مکر ر عرض ہے کہ شریف خاندان اب تاریخ کی بے لگام گردشوں کے نرغے میں ہے ، اور اُن کی بصیرت اس سے نکلنے کی سکت نہیں رکھتی۔


متعلقہ خبریں


رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

مبینہ ملاقات وجود - پیر 19 ستمبر 2022

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...

مبینہ ملاقات

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ وجود - جمعه 16 ستمبر 2022

پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ

رفیق اور فریق کون کہاں؟ وجود - منگل 23 اگست 2022

پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...

رفیق اور فریق کون کہاں؟

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں وجود - پیر 14 فروری 2022

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں

سپریم کورٹ کا اعتراض، تاحیات نااہلی کے خلاف درخواست واپس وجود - منگل 01 فروری 2022

سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیر اعظم نوازشریف اورجہانگیرترین سمیت دیگر سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی کے خلاف درخواست واپس کردی۔ سپریم کورٹ رجسٹرار آفس نے سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون کی جانب سے دائر کردہ درخواست پر اعتراضات لگا کر اسے واپس کرتے ہوئے کہا کہ تاحیات ن...

سپریم کورٹ کا اعتراض، تاحیات  نااہلی کے خلاف درخواست واپس

پینڈورا لیکس میں شامل افراد کے اثاثے ضبط کرنے کا مطالبہ،ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کاوزیراعظم کو خط وجود - جمعه 08 اکتوبر 2021

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ لیکس میں 700 پاکستانیوں کے نام آئے، 2016میں پاناما پیپرزمیں 4500 پاکستانیوں کے نام آئے تھے۔سپریم کورٹ میں پاناما لیکس سے متعلق پٹشنز دائر ہوئیں،ایس ای سی پی ،اسٹیٹ بینک ،ایف بی آر اور ایف آئی اے نے تحقیقات کیں، عدالت ...

پینڈورا لیکس میں شامل افراد کے اثاثے ضبط کرنے کا مطالبہ،ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کاوزیراعظم کو خط

پنڈورا پیپرز کا پنڈورا باکس کھل گیا وجود - اتوار 03 اکتوبر 2021

پنڈورا پیپرز کا پنڈورا باکس کھلنے لگا۔ پنڈورا کی ابتدائی اطلاعات کے مطابق سات سو سے زائد پاکستانیوں کے نام اس میں نکل آئے۔ پانامالیکس سے زیادہ بڑے انکشافات پر مبنی پنڈورا باکس میں جن بڑے پاکستانیوں کے ابھی ابتدائی نام سامنے آئے ہیں۔ اُن میں وزیر خزانہ شوکت ترین، پاکستانی سیاست می...

پنڈورا پیپرز کا پنڈورا باکس کھل گیا

مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر