... loading ...
ہمارے ہاں ایک چھوٹا سا طبقہ یہ ثابت کرنے پر تُلا ہوا ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ 11 اگست 1947ء کو سندھ اسمبلی کی موجودہ عمارت میں پیدا ہوئے، اسی دن تحریک پاکستان پورے جوش و خروش کے ساتھ چلی اور چند ہی گھنٹوں میں پاکستان معرض وجود میں آ گیا، اسی دن قائد نے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں ایک خطاب کے ذریعے ریاست پاکستان کی نظریاتی اساس کی اینٹ رکھی اور شام کو وفات پا گئے۔ عقل و خرد کے دعویداروں سے ایسی نا معقولیت کی توقع نہیں کی جا سکتی کہ فکرِ قائد کے بارے کوئی تاثر قائم کرنے کے لیے11 اگست سے قبل اور بعد ان کی تمام زندگی کو فراموش کردیا جائے۔ اس سے قطع مراد یہ نہیں کہ ان کی یہ تقریر سنسرکر دی جائے یا نظر انداز کردی جائے بلکہ اس تقریر کی کوکھ سے سیکولر ازم پیدا کرنے کے بجائے، اس کی تشریح و توضیح قائد اعظمؒ کی پچھلی اور اگلی زندگی سے کی جائے۔ جب ہم ایسا کریں گے تو خود دیکھیں گے کہ قائد محض اپنی تقریروں سے ہی نہیں اپنی عملی زندگی میں کئی مواقع پر سیکولر ازم کے اہم ترین نکات کی نفی کرتے نظر آتے ہیں۔ مثلاً سیکولر ازم محض ریاستی معاملات سے ہی مذہب کو نکالنے کا نظریہ پیش نہیں کرتا بلکہ دوسرے اجتماعی شعبوں سے بھی اسے باہر کرتا ہے۔
نظام تعلیم بھی ایک ایسا ہی شعبہ ہے، تعلیم تاریخ کی ہو یا عمرانیات کی، حیاتیات کی ہو یا طبعیات کی، کیمیاء کی ہو یا جغرافیات کی ، فلسفہ کی ہو یا معاشیات کی، تعلیم کی ہر ہر شاخ کو مذہبی احساسات و اثرات سے پاک رکھنا چاہتا ہے۔ لیکن محمد علی جناح لنکنز ان کو اپنی تعلیم کے لیے منتخب کرنے کی پہلی وجہ مذہبی احساسات کو بناتے ہیں، لندن میں بیرسٹریٹ کی ڈگری کے لیے چار ادارے اعلیٰ شہرت رکھتے تھے، لنکنز اِن، مڈل ٹیمپل، انر ٹیمپل اور گریز اِن۔ قائد اعظمؒ ان اداروں کی تعلیمی سہولیات کا تقابلی جائزہ کرنے کے بجائے اس بنیاد پر لنکنز اِن کو چنتے ہیں کہ اس میں دنیا کے عظیم ترین آئین یا نظام قانون دینے والوں(Greatest Law Givers) کی فہرست میں رسولِ خدا اور مسلمانوں کے سیاسی رہنما حضرت محمد ﷺ کا نام گرامی بھی شامل تھا۔ اس سے قبل وہ اپنی ابتدائی تعلیم بھی سندھ مدرسۃ الاسلام سے حاصل کر چکے تھے حالانکہ ان کے والد کراچی کے مشنری اسکول، مشن ہائی سکول میں پڑھاتے تھے، جہاں عیسائیت کا پرچار کیا جاتا تھا، اگرچہ لندن جانے سے قبل وہ مختصر عرصہ کے لیے مشن ہائی اسکول میں بھی گئے جس کی وجوہات صفحہ تاریخ میں نہیں ملتیں۔ ابتدائی تعلیم میں مذہب کو اہمیت دینا اس لیے قابل غور نہیں سمجھنا چاہیے کیونکہ اُس عمر میں بچے اپنے والدین کے شعور سے ادارے کو چنتے ہیں لیکن لنکنز اِن کے چناؤ میں محمد علی جناحؒ نہ صرف بالغ ہو چکے تھے بلکہ فیصلہ سازی میں بھی آزاد تھے۔
بات یہیں نہیں رکتی، سیکولرازم ریاستی قوانین میں شریعت کو دخل در ‘معقولات’ نہیں سمجھتا، پھر اس سے بھی بڑھ کر کہ ریاستی جائیداد کو کسی ایسے مقصد کے لیے وقف سمجھے جو مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، لیکن ایسا ہی ایک قانون وقف علی الاولاد ہے جس کی بنیاد شریعت اسلامیہ نے رکھی ہے، آج کے کارپوریٹ کلچر میں تو ایسا قانون سیکولرازم کی آنکھ کا شہتیر ہے جب اہم وقف جائیدادات پرائم لوکیشنز پر آ چکی ہوں، قانونی طور گنجائش موجود ہے کہ ایسی جائیداد کو کمرشل مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن اس کا مکمل منافع وقف علی الخیر ہو جو شریعت متعین کرتی ہے۔ 15 دسمبر 1894ء میں پریوی کونسل نے نظر ابو الفتح کیس میں وقف علی الاولاد کی قانونی جوازیت کو ختم کردیا، مولانا شبلی نعمانیؒ نے اس کی شرعی حثیت کو بحال کروانے کے لیے سترہ سالہ طویل قانونی جدوجہد کی، 1910ء میں قائد اعظمؒ امپیریل لیجسلیٹو کونسل (اعلیٰ ترین قانون ساز اسمبلی) کے رکن منتخب ہوتے ہیں، انہوں نے بطور مسلمان ممبر پہلی بار وقف علی الاولاد کا شرعی بل پیش کیا جو ان کی مسلسل محنت اور کوشش سے قانون بن گیا۔
آگے بڑھیے، 1918ء میں قائد اعظمؒ کی شادی بمبئی کی ممتاز شخصیت سر ڈنشا پیٹٹ کی بیٹی رتن بائی (رتی) سے ہوئی۔ سر ڈنشا پیٹٹ قائد اعظمؒ کے قریبی دوستوں میں شمار کیے جاتے تھے، وہ ان کے بنگلے پر اکثر قوم پرست ہندوستانی لیڈروں کی محافل میں بیٹھا کرتے تھے، لمبے قد اور صاف رنگت کے چھریرے جسم والے قائد اعظمؒ کی پرمغز بحثوں نے رتی کو اپنے سحر میں جکڑ لیا۔ رتی بھی حسن کی مالا تھی، محمد علی جناحؒ بھی ان سے کشش محسوس کرنے لگے۔ لیکن کوئی غیر شرعی تعلق قائم کرنے کے بجائے سر ڈنشا سے اس کا رشتہ مانگ لیا۔ قائد اعظمؒ اس وقت چالیس کو عبور کر رہے تھے، اور رشتہ مانگنے کی ہمت اور حوصلہ بھی سر ڈنشا کی ہی ایک بات سے پیدا ہوا جب انہوں نے کہا کہ جب تک ہمارے ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم نہیں ہوتی تب تک فسادات ہوتے رہیں گے اس لئے بین المذاہب شادیاں ہونی چاہئیں۔ لیکن چالیس سالہ قائد اعظمؒ کی اس جرات نے سر ڈنشا کو آگ بگولا کر دیا۔ قائدؒ اور رتی پر پابندیاں عائد کر دی گئیں، قائد اعظمؒ نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا، ایک سال بعد رتی کے بالغ ہونے پر شادی کی اجازت ملی۔ پیار کی شدت کے باوجود قائد اعظمؒ کی مذہبی حمیت نے گوارا نہ کیا کہ رتی کو اس کے مذہب کے ساتھ قبول کر لیں، آج زندہ ہوتے تو لبرل ازم کی بنیادوں پر بنے قانون تحفظ نسواں کی زد میں آتے اور کڑا پہنے دکھائی دیتے۔ رتی سے شادی کے واقعے میں قائد اعظمؒ کی شخصیت کا ایک اور وصف بھی سامنے آتا ہے کہ آپ مذہبی فرقہ پرستی سے بالاتر مسلمان تھے۔ گھریلو پس منظر میں وہ اسماعیلی شیعہ تھے اگرچہ بعد میں 12 اماموں کے قائل ہو گئے۔ شادی سے قبل رتی کو مذہب تو تبدیل کرواتے ہیں لیکن اپنی مرضی کا فرقہ اس پر نہیں تھوپتے۔ اس لیے سنی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے مولانا نذیر احمد صدیقی (مولانا شاہ احمد نورانی کے تایا) رتن بائی کو کلمہ پڑھواتے ہیں اور محمد علی جناحؒ نے ان کا اسلامی نام مریم نام رکھ دیا۔
مریم جناح جو قائد کی پہلی محبت تھی، اس کی آخری نشانی ان کے بطن سے پیدا ہونے والی انکی بیٹی دینا جناح تھیں۔ دنیا جناح نے کسی مسلمان لڑکے کے بجائے ایک پارسی نوجوان نیوائل واڈیا سے شادی رچا لی تو قائد اعظمؒ نے اسے قرآنی تعلیمات سے انحراف سمجھا اور اکلوتی اولاد سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تعلق توڑ لیا آج بھی ہمارے یہاں لبرل سوچ رکھنے والے آدھے پونے اسلام پر گزارہ کر لیتے ہیں اور قرآنی احکامات سے انحراف کرتے ہوئے اپنی منحرف اولادوں سے سماجی تعلق نبھاتے رہتے ہیں، لیکن قائد اعظمؒ نے دینا کو ایسے بھلایا کہ پھر کبھی بھول کر بھی یاد نہ کیا۔ شادی کے بعد دنیا جناح نے اپنے والد کو کئی خطوط لکھے، آپؒ نے ان خطوط کا جواب لکھتے ہوئے ڈیئر دینا یا ڈیئر ڈاٹر کے بجائے مسز واڈیا کے نام سے مخاطب کیا۔ پاکستان بننے کے بعد دینا جناح کی شدید خواہش تھی کہ وہ پاکستان جائیں اور اپنے والد سے ملیں، انہوں نے آپؒ کے دوستوں کی وساطت سے اجازت چاہی لیکن قائد اعظمؒ نے انکار کر دیا چنانچہ وہ آپؒ کی وفات پر تشریف لائیں اور مرحوم باپ کی میت پر آنسو بہا کر واپس چلی گئیں۔
قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی زندگی کے یہ چار غیر معمولی واقعات ہیں جو ان کی پوری زندگی کا عکس ہیں۔ ہم ان کے سیاسی بیانات اور خطبات کے متعلق تو یہ دعویٰ تو جرات پیدا کر کے کر سکتے ہیں کہ وہ محض سیاسی لفاظی تھی جو 11 اگست کی صبح قائد ردی کی ٹوکری میں ڈال آئے تھے، لیکن ان کی اس زندگی کو کیسے سیاسی چال بازی کے اوراق میں لپیٹ سکتے ہیں جو نہ صرف سیکولرازم اور لبرل ازم کے بجائے مذہب کو اس کا درست مقام دے رہی ہے بلکہ اس کی تمام سیاسی جدوجہد کی تائید کرتی دکھائی دیتی ہے۔ معلوم نہیں یہ طبقہ مطالعہ پاکستان کو جھوٹ قرار دے کر کونسا سچ لکھنا چاہتا ہے۔ بات یہ نہیں کہ قائد اعظمؒ کی زندگی اس خودساختہ سچ سے تضاد کا منبع بنانے کی پُرخلوص کوشش ہو رہی ہے، لیکن اس زمینی سچائی کو جھوٹ کہہ رہے ہیں جس کو دیکھ کر ایک عام پاکستانی بھی محسوس کر سکتا ہے کہ برصغیر کی مسلمان اکثریت کانگریس اور مولانا آزاد کے سیکولرازم کو مسترد کرتے ہوئے پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ کا نعرہ لگاتے ہوئے ایک اسلامی ریاست کے لیے کمر بستہ ہو گئی اور ان کی رہنمائی کرنے والے قائداعظمؒ بھی عزم کرتے رہے کہ
“مسلمانوں میں نے دنیا کو بہت دیکھا، دولت، شہرت اور عیش و عشرت کے بہت لطف اٹھائے اب میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ میں مسلمانوں کو آزاد اور سربلند دیکھوں۔ میں چاہتا ہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میرا خدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی…. میں آپ کی داد اور شہادت کا طلب گار نہیں ہوں۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ مرتے دم میرا اپنا دل‘ ایمان اور میرا ضمیر گواہی دے کہ جناح تم نے مدافعت اسلام کا حق ادا کر دیا‘ جناح تم مسلمانوں کی حمایت کا فرض بجا لائے۔ میرا خدا یہ کہے کہ بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبے میں علم اسلام کو سربلند رکھتے ہوئے مسلمان مرے (روزنامہ انقلاب۔22 اکتوبر 1939ء)
جس اجتماعی کوشش سے پاکستان معرض وجود میں آیا، اسی کے تسلسل میں ایک عوامی امنگوں کے مطابق قرارداد مقاصد پاس ہوتی ہے تو یہ کسی خودساختہ سچ سے اب مزید الجھائی نہیں جا سکتی۔
مسلم معاشرے میں اعلیٰ صلاحیتوں اور نمایاں اوصاف کے حامل افراد کو ان کی شخصیت سے مختص وصف و صلاحیت کے اعتراف کے طور پر خطاب و القاب دینے کی روایت قدیم و دیرینہ رہی ہے۔ دورِ رسالت مآبؐ میں بھی کئی ایسے صحابہؓ موجود تھے جن کو ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے القابات ...
بنگلا دیش کی حکمران جماعت ملکی آئین کو سیکولر ازم کی جانب واپس لے جانے کی تیاری کررہی ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق حکومتی وزیر مراد حسن نے بتایاکہ1972 کے سیکولر آئین کی طرف پلٹنے کیلئے نئی ترمیم جلد پارلیمنٹ میں پیش کی جائے گی، اس ترمیم کے بغیر کسی رکاوٹ کے ایوان سے منظور ہو...
سیکولرزم اور لبرلزم میں فرق کو مختلف اسالیب میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ مختصراً عرض ہے کہ یہ دونوں تحریک ِتنویر کی جڑواں اولاد ہیں اور جدیدیت کی پیدا کردہ مغربی تہذیب میں ایک ساتھ پروان چڑھے ہیں۔ اب سیکولرزم سٹھیا گیا ہے اور لبرلزم پوپلا گیا ہے۔ تنویری اور جدید عقل نئے انسان اور...
فرانس کی اعلیٰ ترین عدالت نے مسلمان خواتین کے لیے تیار کیے گئے تیراکی کے لباس "برقینی" پر عائد سرکاری پابندی کے خلاف تاریخی فیصلہ دے دیا ہے اور اس پابندی کو "بنیادی آزادی کی سنگین اور کھلم کھلا غیر قانونی خلاف ورزی قرار دیا۔" یہ مقدمہ انسانی حقوق کے ادارے 'ہیومن رائٹس لیگ' نے...
اس وقت مسلم دنیا جن حالات میں ہے، وہ معلوم ہیں اور روزمرہ مشاہدے اور تجربے میں ہیں۔ واقعاتی سطح پر حالات کے بارے میں ایک عمومی اور غیررسمی اتفاق پایا جاتا ہے کہ بہت خراب ہیں، اور یہ امکان بھی ظاہر کیا جاتا ہے کہ مزید خرابی کی طرف جا رہے ہیں۔ لیکن اس بارے میں آرا بہت زیادہ مختلف ہ...
سوئٹزرلینڈ نے دو مسلمان لڑکیوں کی شہریت کی درخواست محض اس بنیاد پر رد کردی ہے کہ انہوں نے اپنے اسکول میں تیراکی سیکھنے کے دوران لڑکوں کے ساتھ سوئمنگ پول میں اترنے سے انکار کردیا تھا۔ امریکی اخبار 'یو ایس اے ٹوڈے' کے مطابق 12 اور 14 سال کی ان لڑکیوں کو تیراکی کے لازمی اسباق لینے ت...
مسلمان معاشروں کے اندر جب بھی سیکولر ازم آیا ہے، نیچے سے نہیں ابھرا بلکہ جبر، دباؤ اور ضد کے بل پر اوپر سے مسلمانوں پر نافذ کیا گیا ہے، ایسے لوازمات کے ساتھ جو چیز بھی آتی ہے اس میں خردمندی سے زیادہ انتہا پسندی کی جھلک دکھائی دیتی ہے، انتہا پسند سوچیں جس چیز کا قتل سب سے پہلے کرت...
[caption id="attachment_34856" align="aligncenter" width="594"] حیدرآباد کے قریب سکندر آباد میں ایک پالتو چیتے کے ساتھ چند گورے افسران [/caption] ہمارے یہاں جنرل مشرف کے دور میں مارکیٹ سے اٹھائے ہوئے ایک افسر ایف بی آر کے چیئرمین جالگے۔ ایک رات ایوان صدر میں تقریب میں درجہ دوم...
درآمد شدہ نظریات جب کسی اجنبی معاشرے میں آتے ہیں تو پہلا مسئلہ جو انہیں درپیش آتا ہے وہ اپنی پروڈکٹ کا نام اور خصائص کو مقامی زبان میں پیش کرنے کا ہے، ظاہر ہے ایک ایسا شہر جس میں سب گنجے آباد ہوں، اس کے بازار میں کنگھے کے نام سے کوئی چیز نہیں بک سکتی، چہ جائیکہ کنگھے کا نام بدل ک...
قائد اعظم محمد علی جناح کی یہ تقریر دسمبر 1946ء میں ریکارڈ کی گئی تھی جو ہندوستان کی تقسیم کے حوالے سے ان کی نظریے کو واضح طور پر پیش کرتی ہے۔ وڈیو کے ساتھ ان کی تقریر کا مختصر اردو ترجمہ بھی ذیل میں پیش ہے۔ "آپ جانتے ہیں کہ ہندوستان میں بہت سارے عقائد، نسل اور مذاہب سے ت...
مسلمانانِ ہند کے لئے دوقومی نظریئے کے تحت عظیم جدوجہد کے بعد الگ ملک حاصل کرنے والے بانئ پاکستان بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کا 139واں یوم ولادت ملک بھر میں آج ملی جوش و جذبے کے ساتھ منایا جارہا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح 25 دسمبر 1876 کو سندھ کے موجودہ دارالحکومت کراچ...
سات سمندر دور کینیڈا اور اس کے نو منتخب وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کی طرف دیکھنے سے پہلے ہم کیوں نہ اپنے ارد گرد کے ماحول کا ہی جائزہ لے لیں۔ ہماری مشرقی سرحد کے ساتھ جو آہنی لکیر ہے اسکی دوسری طرف ہندوستان ہے اور اس سے کچھ آگے بنگلادیش۔ ان دونوں ممالک کے ساتھ ہمارا جغرافیائی، تاریخی، ...