... loading ...
ایک سیاح کسی ملک کے ہوٹل میں گیا۔ کاؤنٹر پر 100 ڈالر کا نوٹ بطور ایڈوانس رکھا اور کمرہ پسند آنے کی صورت میں بکنگ کا کہہ کر کمرہ دیکھنے چلا گیا۔ اتنی دیر میں اس ہوٹل کو گوشت سپلائی کرنے والا قصائی آیا اور اپنے قرضے کے عوض وہی 100 ڈالر کا نوٹ اٹھا کر چلا گیا۔ قصائی اپنے جانوروں کا علاج کرنے والے ڈاکٹر کا مقروض تھا، اس نے وہ نوٹ اس ڈاکٹر کو دے دیا۔ ڈاکٹر کے بیشتر مہمان اسی ہوٹل میں قیام کرتے تھے اور وہ ہوٹل کا مقروض تھا۔ اس نے وہ نوٹ ہوٹل بھجوادیا اور ایک بار پھر اس کاؤنٹر پر وہی 100 ڈالر کا نوٹ پڑا تھا۔ سیاح واپس کاؤنٹر پر آیا اور کمرہ پسند نہ آنے کا کہہ کر اپنا 100 ڈالرکا نوٹ اٹھا کر چلا گیا۔ اس پورے عمل سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوا لیکن کئی لوگوں کا قرضہ ضرور اترگیا۔
یہ قصہ سوشل میڈیا پر بہت مشہور ہے اوراس سے ایک بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر سرمایہ ملک میں آئے گا تو قرضے ضرور اتریں گے، لیکن اگر سرمایہ باہر جائے گا تو قرضے بڑھنے پر تعجب بالکل نہیں ہونا چاہیے۔ جب ملک کے حکمران اپنا سرمایہ باہر لگائیں گے تو باہر سے کون پاکستان آئے گا۔ اس طرح ملک کو’’ایشین ٹائیگر‘‘ تو دور ایشین بلی بھی نہیں بنایا جاسکتا۔
وکی لیکس اور سوئس لیکس کے بعد’’پاناما لیکس‘‘ نے دنیا بھر کے سربراہان مملکت اور دیگر سیاستدانوں کے 60 قریبی رشتہ دار اور رفقا کے نام ‘لیک’ کرکے تہلکہ مچادیا ہے۔ روسی صدر پیوٹن کے قریبی رفقا، چینی صدر کے بہنوئی، یوکرین کے صدر، ارجنٹائن کے صدر، برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے آنجہانی والد اور وزیر اعظم پاکستان کے چار میں سے تین بچوں کا ان دستاویزات میں ذکر موجود ہے۔ آئس لینڈ، برطانیہ سمیت غیر ملکی سربراہ، شہنشاہ، امیتابھ ایشوریا خاندان اور جیکی چن بھی کمپنیوں کے مالک نکلے۔ ایسے لوگ کالے دھن کو سفید کرنے کے لئے ایسی کمپنیوں کا سہارا لیتے ہیں۔ ان کمپنیوں کی تعداد دو لاکھ چودہ ہزار کے قریب ہے۔
تہلکہ خیز انکشافات کے بعد کئی ممالک میں تحقیقات شروع ہوگئی ہیں جبکہ بعض ممالک کی سیاسی جماعتیں بحث اور الزام تراشی میں مصروف ہیں۔ ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات جرمن اخبار ’’سودیوچے زیتنگ‘‘ نے حاصل کیں جس نے انہیں تحقیقاتی صحافیوں کے بین الاقوامی کنسورشیم آئی سی آئی جے کے ساتھ شیئرکیا۔ یہ کنسورشیم 76 ملکوں کی 109 میڈیا آرگنائزیشنز کے صحافیوں پر مشتمل ہے۔ اس میں برطانوی اخبار ’’گارجین‘‘ بھی شامل ہے اور ان دستاویزات کا تجزیہ کرنے میں ایک سال سے زیادہ لگاہے، یہ عجلت میں جاری کی گئی کوئی دستاویزات نہیں ہیں۔ بی بی سی نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ یہ تاریخ کی سب سے بڑی لیکس ہیں جس کے مقابلے میں وکی لیکس بھی چھوٹی ہیں۔ پاناما لیکس میں دو لاکھ 14 ہزار افراد، کمپنیوں، ٹرسٹ اور فاؤنڈیشن کی تفصیلات ہیں۔ پاناما لیکس میں اب تک 200 پاکستانیوں کی نشاندہی کی جاچکی ہے اور یہ گنتی ابھی جاری ہے، مزید کتنے پاکستانی کتنی لا فرمز کا استعمال کرکے غیر ملکی کمپنیوں کی ملکیت اپنے پاس رکھتے ہیں اس کا اندازہ نہیں؛ حالانکہ اب تک محض ایک ہی کمپنی کا ریکارڈ دستیاب ہوا ہے۔ ان دستاویزات میں 1977 سے لے کر دسمبر 2015 تک کی معلومات موجود ہیں۔ ان دستاویزات کا بڑا حصہ ای میلز پر مشتمل ہے، لیکن معاہدوں اور پاسپورٹس کی تصاویر بھی شامل ہیں۔
ٹیکس سے بچنے کے کئی قانونی طریقے ہیں لیکن اس وقت دنیا بھر میں زیادہ تر دولت کے حقیقی مالک کی شناخت چھپانا، دولت حاصل کرنے کے ذرائع کو خفیہ رکھنا اور اس دولت پر ٹیکس نہ دینے جیسے اقدامات کرنا عام ہے۔ آف شور کمپنیاں ظاہری طور پر تو قانونی ہیں لیکن اندر سے کھوکھلی ہوتی ہیں اور دولت کے مالک کی شناخت کو چھپاتی ہیں۔
پاناما لیکس کے اثرات پاکستان پر بھی پڑرہے ہیں۔ عوام کا پیسہ چوری کرکے باہر لے جانے والوں کے ثبوت اب آہستہ آہستہ سامنے آرہے ہیں۔کالے دھن کی بات ہو اور پاکستانی سیاست دانوں کا ذکر نہ ہو، ایسا ممکن ہی نہیں۔ پاناما لیکس نے جہاں دنیا بھرکے سیاستدنواں کا کچھا چٹھا کھول کر سامنے رکھا، وہیں پاکستانی سیاست کے بڑے بڑے ناموں کی ہنڈیا بھی بیچ چوراہے پھوٹ گئی۔کیا نواز! کیا بھٹو! بڑے سیاسی مہرے کالے دھن کی ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔
خفیہ دستاویزات منظر عام پر آنے کے بعد بھٹو اور شریف خاندان سمیت کئی معززین کے ناموں کی دھجیاں اڑ گئیں۔ کالے دھن اور ٹیکس چوری میں صنعت کار، ججز، بینکر بھی شامل ہیں جبکہ پڑوسی ملک بھارت کے بگ بی امیتابھ، حسن کی دیوی ایشوریا اور کے پی سنگھ کی شہرت اور عزت بھی داغ دار ہوگئی ہے۔
بعض حکومتی شخصیات کا کہنا ہے کہ لندن کا مقدمہ لندن میں چلے گا۔ ان سے ایک مودبانہ سوال ہے کہ ایک امریکی اخبار کی خبر پر ایگزیکٹ نامی کمپنی کا نام ونشان ختم کرنے کیلئے ایف آئی اے نے سر دھڑکی بازی کیوں لگائی؟ عمران فاروق کا قتل لندن میں ہوا لیکن ایف آئی آر پاکستان میں کیوں درج ہوئی؟ یہ سب کچھ ہمارے ملک میں قانون کی کمزوری کو ظاہرکرتا ہے۔ یہاں بکری چوری پر تو سزا ہے لیکن عوام کے پیسے کی ہاتھی نما چوری پرکوئی موثر قانون موجود نہیں۔ چیئرمین سینیٹ رضا ربانی صاحب آرٹیکل 6کو تو آئین سے نکالنے کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن تمام خرابیوں کی جڑ اور ان کی اپنی تیار کردہ اٹھارویں ترمیم پر کوئی بات کیوں نہیں کی جاتی۔ پاکستان میں پہلے ہی ’’لوٹ مار‘‘ کم تھی جو اٹھارویں ترمیم کے نا م پر ’’لائسنس ٹو لوٹ‘‘ دے دیا گیا ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان میں ایسی قانون سازی کی جائے کہ سرکاری وسائل کے غلط استعمال اور لوٹ مار کا ’’چانس‘‘ ہی ختم ہو جائے۔ سیاستدان رقوم کے لئے نہیں قوم کے لئے سوچیں۔ قوم کمیشن اور کک بیکس کے بارے میں سوچنے سے نہیں حکمرانوں کی پلاننگ اور پالیسیوں سے بنتی ہے۔ ہمارے یہاں اکثر’’پاورفل ‘‘شخصیات لوٹ مار کی’’کیٹ واک ‘‘میں اپنے’’’ جلوے‘‘ دکھانے کے لئے بے چین رہتی ہیں۔
مہاتیر محمد نے ملائیشیا کو کن بلندیوں پر پہنچا دیا۔ لی کوآن یو نے جب اقتدار سنبھالا تو سنگاپور میں ایک میل لمبی سڑک بھی پکی نہیں تھی، لیکن جب اقتدار چھوڑا توسنگاپور میں ایک فٹ کچی سڑک نہیں تھی۔ لی کوآن یو کی پالیسیوں کے نتیجے میں 18سال کا ہر نوجوان لڑکا یا لڑکی حکومت سے اپنی پسند کا روزگار اور گھر حاصل کرنے کا حقدار تھا، آج بھی سنگاپور میں بچے کی پیدائش کا الاؤنس دیا جاتا ہے۔ ان حکمرانوں نے اپنی منصوبہ بندی سے عوام کی قسمت بدلی کیونکہ انہوں نے کبھی اپنی قسمت بدلنے کا نہیں سوچا۔ اگر وہ اپنی قسمت بدلنے کا سوچتے تو وہاں کے عوام آج پاکستانی عوام جیسی زندگی گزار رہے ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں حکمرانوں کا ذکر آتے ہی وہاں کے عوام کی آنکھیں آج بھی نم ہوجاتی ہیں۔ حکمرانی خدا کا عطیہ ہے اور اسے ذاتی مفاد کے لئے استعمال کرنے والے اکثر حکمرانوں کی قبروں کے قریب سے بھی کوئی نہیں گزرتا۔
پاکستانی حکمرانوں اور سرکاری افسران کو قانون کے ذریعے پابند کیا جائے کہ وہ اقتدار میں آنے سے قبل جو سیاسی حلف اٹھاتے ہیں اس میں یہ جملہ بھی شامل ہو کہ ’’نہ میں خود کوئی مالی کرپشن کروں گا نہ میرے بچے اوررشتہ دارایسا کریں گے‘‘ اور نہ ہی میں کسی کرپٹ شخص کی کوئی مدد کروں گا۔ جس طرح سرکاری ملازم پر یہ پابندی ہوتی ہے کہ وہ ریٹائرمنٹ کے دو سال تک الیکشن نہیں لڑسکتا اسی طرح حکمرانوں پر بھی یہ پابندی ہونی چاہیے کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد کوئی کاروبار نہیں کریں گے۔ بھارت کا کوئی سابق وزیر اعظم یا صدر کسی بیرونی ملک میں رہائش پذیر نہیں ہے، ہمارے اکثر حکمران رہتے بیرون ملک ہیں اور حکومت کرنے پاکستان آتے ہیں۔۔۔۔ ملک کو ایسے’’گردشی‘‘ حکمرانوں سے نجات دلانا ہوگی۔
یہ شاندار بات ہے کہ آپ نے مختصر سفر کے دوران مستحکم معاشی پوزیشن حاصل کرلی،کرسٹین لغرادکا وزیر اعظم سے مکالمہ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹرنے شرح نمو میں اگلے سال مزید کمی ہونے کے خدشات کابھی اظہار کردیا عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لغرادگزشت...
پانامالیکس کی عدالتی کارروائی میں پیش رفت کو حزب اختلاف کے تمام رہنماؤں نے بہت زیادہ اہمیت دی ہے،معاملہ معمول کی درخواستوں کی سماعت سے مختلف ثابت ہوسکتا ہے عمران خان دھرنے میں دائیں بازو کی جماعتوں کولانے میں کامیاب ہوگئے تو یہ دھڑن تختہ کاپیش خیمہ ہوسکتا ہے،متنازعخبر کے معاملے ...
اخبارات میں مختلف خبروں اور تجزیوں کے ذریعے دھرنے کے شرکاکیخلاف سخت کارروائی کے اشارے دیے جائیں گے عمران خان کے لیے یہ"مارو یا مرجاؤ" مشن بنتا جارہا ہے، دھرنے میں اْن کے لیے ناکامی کا کوئی آپشن باقی نہیں رہا مسلم لیگ نون کی حکومت نے تحریک انصاف کے دھرنے کے خلاف ایک طرح سے نفسیا...
ابھی پاناما لیکس کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھا بھی نہ تھا کہ ’’انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس‘‘ (آئی سی آئی جے) نے اس اسکینڈل کی اگلی قسط چھاپ دی، جس میں دنیا بھر کی ایسی شخصیات کے ناموں کے انکشاف کیا گیا ہے، جنہوں نے مبینہ طور پر اپنے ملک میں عائد ٹیکسوں سے بچنے کے لیے جزائ...
تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے حکومت مخالف اور پاناما لیکس پر احتجاج سے حکومت اب کچھ بدحواس نظر آتی ہے۔ کنٹینرز سے احتجاج اور ریلیوں کوروکنے کے عمل نے کہ ثابت کردیا ہے کہ حکومت "نے باگ ہاتھ میں ہے ، نہ پاہے رکاب میں" کی عملی تصویر بنتی جارہی ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی...
ایف بی آر (فیڈرل بورڈ آف ریونیو) نے پاناما لیکس میں سامنے آنے والے افراد سے اُن کی آمدنی کی تفصیلات مانگ لی ہے۔ تفصیلات کے مطابق ایف بی آر نے اس ضمن میں وزیراعظم کے بچوں حسن نواز، حسین نواز اور مریم نواز شریف کو بھی نوٹس ارسال کیے ہیں۔ ایک اطلاع کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشر...
پاناما لیکس پر وزیراعظم نوازشریف کے قوم سے کیے جانے والے وعدے کے بھی ایفانہ ہونے کے بعد مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے نوازشریف اور دیگر متعلقین کے خلاف نااہلی کے ریفرنس دائرکیے گئے ۔جس پر الیکشن کمیشن نے وزیراعظم نوازشریف سمیت دیگر چھ فریقین کو بھی 6 ستمبر کے لیے نوٹس جاری کردیئ...
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے پاناما لیکس کے معاملے پر سپریم کورٹ جانے اور 3 ستمبر سے پاکستان مارچ کا اعلان کردیاہے۔ عمران خان نے بنی گالہ میں ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ نوازشریف نے کرپشن کا پیسہ بیرونِ ملک بھیجا جس کے خلا ف ہم الیکشن کمیشن میں جاچکے ہیں اور اب ع...
پاناما پیپرز کے حوالے سے تحقیقات کے لیے ضوابط کار کے تعین کی خاطر قائم پارلیمانی کمیٹی سے باقی رہ جانے والی معمولی امیدیں بھی اب دم توڑتی نظر آتی ہیں۔ واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ حکومت دراصل ایک غیر موثر کمیشن کے ذریعے اس معاملے کو قالین کے نیچے چھپانا چاہتی ہے۔ متحدہ حزب اختلاف ک...
تحریک انصاف جہاں ایک طرف پاکستان میں نواز حکومت کے خلاف عید الفطر کے بعد تحریک چلانے کی تیاریاں کررہی ہے، وہیں وہ نواز شریف اور اُن کے خاندان کے خلاف لندن کی عدالت سے رجوع کرنے پر بھی اپنے صلاح مشورے مکمل کر چکی ہے۔ اطلاعات کے مطابق تحریک انصاف نے پاناما لیکس کے مسئلے پر لندن ...
خطے کے حالات جس جانب پلٹا کھا رہے ہیں اس کے مطابق افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت پاکستان کے خلاف وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماضی کی کرزئی انتظامیہ کا روپ دھارتی جارہی ہے جس کا مظاہرہ اس وقت کابل انتظامیہ کی جانب سے بھارت اور ایران کے ساتھ مزیدزمینی تعلقات استوار کرنے کی کوششوں کی شک...
پاناما لیکس پر تحقیقات کے لیے ضوابط کار کی تیاری کی خاطر قائم پارلیمانی کمیٹی کی ناکامی پر تحریک انصاف نے سڑکوں پر آنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ حکومت اور حزب اختلاف کے اراکین پر مشتمل اراکین کے سات اجلاس ہونے کے باوجود تاحال تعطل برقرار رہنے کے باعث یہ خیال جڑ پکڑ رہا ہے کہ پارلیمانی ...