... loading ...
خوشونت سنگھ کی کتاب ـ”The Good ,the Bad and the Ridiculous” میں ویسے تو بیان کردہ ہر خاکہ ہی کچھ نہ کچھ انوکھی معلومات کا خزانہ ہے ۔مثلاً بھارت کے وزیر اعظم من موہن سنگھ جن کا شمار دنیا کے سب سے پڑھے لکھے وزرائے اعظم میں ہوتا تھا ( وہ ڈبل پی ایچ ڈی تھے) انہیں لعل کرشن ایڈوانی جی ’’نکما ‘‘کہتے تھے ۔جب کہ وہ خود یعنی ایڈوانی جی ،خوشونت سنگھ کے مطابق ایک پیکر منافقت اور ہندوستان میں مذہبی رواداری کے سب سے بڑے دشمن تھے ۔انہیں کی لگائی ہوئی آگ کی وجہ سے ہندوستان بھر میں مذہبی فسادات کی ایسی آگ بھڑکی جو تا حال بجھنے کا نام نہیں لے رہی۔
ان مختصر سے خاکوں کو پڑھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ خوشونت سنگھ جی سے اندرا گاندھی کی بہت Love-Hate Relationship تھی۔ان کی یہ نفرت چار دفعہ عود کر آئی۔ پہلی دفعہ جب وہ پاکستانی جنگی قیدیوں کی رہائی کے سلسلے میں ان سے ملے ۔ان کا رویہ اس بارے میں معاندانہ تھا۔ دوسری دفعہ جب انہوں نے اپنے بیٹے سنجے گاندھی کی موت کے بعداپنی بہو مانیکا گاندھی (جو ایک سکھ خاتون ہیں)کے ساتھ انتہائی ناروا رویہ اپنایا ۔تیسری مرتبہ جب انہوں نے ایمرجینسی لگائی اور چوتھی مرتبہ جب انہوں نے سکھوں کے مقدس ترین گردوارے ہری مندر صاحب امرتسر میں فوج کشی کی۔
وہ اندرا گاندھی کو عنفوان شباب سے جانتے تھے ۔ وہ ان کے گھر لاہور میں کشمیر جاتے ہوئے قیام پاکستان سے پہلے آن کر ٹہری تھیں۔مشہور مرد ، کامیاب مرد اور بے حد نکمے مرد ان سب میں یہ قدر بہت مشترک ہوتی ہے کہ ان سے کسی خاتون کی قربت کے بارے میں سوال کیا جائے تو وہ بہت تفاخر محسوس کرتے ہیں۔ ساری دنیا میں مشہور ترین پاکستانی مرد سے بھارتی اداکارہ زینت امان کے متعلق( جو اُن کا ،ان ہی کے ایک دوست کے فلیٹ پر کئی کئی گھنٹے انتظار کرتی تھیں)جب آپ سوال کرتے تو وہ کہتے تھے کہpast is another country ۔ خوشونت سنگھ جی سے محض گفتگو کی چاشنی اور دل لگی کے لیے جب کوئی یہ سوال خود اُ ن کی خوشی کی خاطر یہ بھی پوچھ لیتے کہ کیا ان کے تعلقات کی نوعیت کچھ اور بھی تھی؟ اس کا جواب وہ یہ دیتے تھے کہ ’’ہر گزنہیں‘‘ انہیں چُلبلی اور زندہ دل خواتین پسندہیں۔وہ اُن خواتین میں سے نہ تھیں جو انہیں اچھی لگتی تھیں۔وہ بہت متکبر اور سرد رویوں والی خاتون تھیں۔ ان کی خوبصورتی میں ایک چھاجانے والا، تحقیر آمیز اور قدرے شاہانہ سا انداز تھا۔وہ بلاشبہ خوبصورت تھیں مگر دوسری حسین عورتوں سے انہیں بہت کھلی نفرت تھی ۔
ان کی اس حقارت کا شکار ہونے والی د و بے حد حسین خواتین میں جے پور کی مہارانی گائیتری دیوی اور تارہ کیشوری سنہا (بہار کی مشہور سیاست دان اُن دونوں کی دشمنی پربھارت کے مشہور شاعر اور ڈائیریکٹر گلزارؔ نے فلم آندھی بنائی )کے بارے میں سب ہی کو علم تھا۔ وہ ایک دوہری شخصیت کی مالک تھیں۔بہت کامیاب پبلک لیڈر مگر نجی زندگی میں بہت چھوٹی ذہنیت کی مالک۔اس کے باوجود کچھ لوگ انہیں چاہتے تھے اور ان میں امریکی صدر لنڈن بی جانسن کا شمار ہوتا تھا۔ وہ واشنگٹن میں نسبتاً ایک نچلی سطح کی دعوت میں بن بلائے آگئے تھے اور بوربن کے جام پر جام لنڈھاتے رہے۔یہ بھارت کے سفیر بی کے نہرو نے اندرا گاندھی کے دورے کے موقع پر دی تھی اور اس کے مہمان خصوصی نائب صدر ہیوبرٹ ہمفرے تھے ۔صدارتی عشائیے میں جانسن کی مرضی تھی کہ اندرا گاندھی ان کی ہم رقص ہوں مگر وہ یہ کہہ کر پہلو بچاگئیں کہ اس بے تکلفی کے مظاہرے سے ان کے بارے میں بھارت میں غلط تاثر جائے گا۔
خوشونت سنگھ بنگلہ دیش کی آزادی اور بھارت کی عسکری برتری کا سارا کریڈٹ اندرا گاندھی کو دیتے ہیں۔وہ ،افسانہ نگار کرشن چندر، بھارت میں ہندوستان کے سابق سفیر گگن بھائی مہتا اور افسانہ نگار خواجہ احمد عباس چار افراد کا ایک وفد ان سے بھارت کی تحویل میں موجود 93000 جنگی قیدیوں کی رہائی کی درخواست لے کر اندرا گاندھی سے ملا تھا۔ ان میں سے گگن بھائی مہتا کی تو اندرا گاندھی نے کسی پرانی رنجش کی بنیاد پر کھل کر بے عزتی کی،دونوں ادیبوں کو اپنی عزت پیاری تھی لہذا وہ چپ ہی رہے مگر جب اندرا گاندھی نے اپنی تلخ نوائی کا نشانہ خوشونت سنگھ کو بنانا چاہا تو انہیں ترکی بہ ترکی جواب ملا۔ میٹنگ ایک تلخ جملے پر ختم ہوگئی جس میں انہوں نے خوشونت سنگھ کو سیاست کی ابجد سے ناواقف ہونے کا طعنہ دیا تھا۔
اسی طرح کی ایک میٹنگ میں جب ایمرجنسی میں انتقاماً گرفتار کیے گئے ہوئے اہم افراد کی رہائی کے لیے وہ ایک وفد کے ساتھ اندرا گاندھی سے ملے تو اس میٹنگ کا بھی اختتام خوشونت سنگھ کی جانب سے اس جملے پر ہوا کہــ’’ جو فعل اخلاقاً غلط ہو وہ سیاسی طور پر بھی غلط ہی رہتا ہے ‘‘۔
خوشونت سنگھ کی اندرا گاندھی سے ناراضی کی ایک اور وجہ سکھوں کے مشہور مقدس مقام اکال تخت گردوارہ ہرمندر صاحب (جسے گولڈن ٹیمپل امرتسر کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے) پر فوجی کارروائی کا فیصلہ تھا۔اس آپریشن کا نام آپریشن بلیو اسٹار تھا۔
اب مڑکر دیکھیں تو دور دراز کی ایک مماثلت کسی حد تک اسلام آباد کی لال مسجد والی کارروائی اور آپریشن بلیو اسٹار میں اور ایک مماثلت اندرا گاندھی کے قتل میں اور پنجاب کے گورنرسلمان تاثیر کے ممتاز قادری کے ہاتھوں قتل میں بھی تھی۔دونوں ہی اپنے محافظین کے ہاتھوں مارے گئے۔
اس بے ہنگم اور دور افتادہ مماثلت میں معترض قاری یہ تو کہہ سکتا ہے کہ لال مسجد کا درجہ وہ نہ تھا جو گولڈن ٹیمپل امرتسر کا تھا۔لیکن ادھر اُدھر ریزہ ریزہ واقعات کو آپ سمیٹیں گے تو آپ کو یہ حیرت ہوگی کہ لال مسجد پر فوجی کارروائی جو ایک نادانی کا فیصلہ تھا اس کے اثرات بہت دور تک جاتے دکھائی دیتے ہیں لیکن جب خود راجیو گاندھی کی بیوہ سونیا اور کانگریس پارٹی نے ایک سکھ من موہن سنگھ کو بھارت کا پہلا سکھ وزیر اعظم بنایا تو وہاں ان کی صلاحیت کے علاوہ دونوں جانب سے کشادہ دلی کا بھی بڑا عمل دخل تھا۔سکھ جیسے بھی ہوں وہ سر دست بھارت کو ہی اپنا وطن سمجھتے ہیں جب کہ لال مسجد کی پشت پر افغانستان میں موجود کئی ایسے گروپ تھے جن کی عسکری وابستگی اس مسجد کی قیادت سے بہت گہری تھی۔ شیخ مجیب الرحمن ہوں یا اندرا گاندھی ہوں ،ان کے صاحب زادے راجیو گاندھی یا پھر سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر ان تمام افراد کے قتل میں منصوبہ بندی کی سادگی اور اس کا پریکٹیکل ہونا حیران کن ہے۔راجیو گاندھی کا قتل گو ایک طویل عرصے کی منصوبہ بندی پر محیط تھا ۔یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو تحقیق کا ایک نیا باب کھولتی ہے۔
خوشونت سنگھ سے سکھ لیڈر سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والا شدید ناخوش تھا۔ وہ اسے اکھڑ، بدلحاظ سمجھتے تھے اور اپنے علاوہ دوسروں کے بھی اس کے نام کے ساتھ سنت لکھے جانے پر کھلے عام اعتراض کرتے تھے جب ایک آسٹریلوی صحافی نے بھنڈراں والے کو یہ بتایا کہ خوشونت سنگھ جی تضحیکاً اُسے سکھوں کا گیارہواں گرو کہتے ہیں تو اس نے اسی کے ذریعے یہ کھلی دھمکی دی کہ’’ اگر وہ ایسا کہتا ہے تو میں اس کا اور اس کے خاندان کا نام و نشان مٹادوں گا‘‘۔ جب انہوں نے سکھوں کے سب سے بڑے مذہبی رہنما سنت لونگوال سے ملاقات میں یہ اعتراض کیا کہ انہوں نے جرنیل سنگھ بھنڈراں والے اور اس کی دمدمی ٹکسال کے لوگوں کو اس عبادت گاہ میں پناہ لینے کی اجازت کیوں دی ،جہاں بیٹھ کر وہ ہر روز علی الاعلان سب کے سامنے ہندوؤں کو برا بھلا کہتے ہیں تو انہوں نے کہا کہـ’’ او تے ساڈا ڈنڈا ہے‘‘( وہ تو ہماری طاقت ہے)۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اندرا گاندھی کو سیاست میں تشدد پسند گروپ بنا کر Main Stream پارٹیوں کو نیچا دکھانے کا بہت شوق تھا ۔ اسی لیے انہوں نے پہلے بھنڈراں والے اور بعد میں تامل ٹائیگرز کے سربراہ ویلو پلائے پربھاکرن کو پالا پوسا ،جو ان کے اور ان کے صاحبزادے کی جان لے بیٹھے۔
ایک عام سا دیہاتی مبلغ جرنیل سنگھ بھنڈراں والا اتنا طاقت ور لیڈر کیسے بن گیا؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے خوشونت سنگھ نے بیان کیا ہے کہ پنجاب میں زراعت سے آنے والی خوش حالی کے نتیجے میں شراب، زناکاری ، منشیات اور جوئے جیسی اخلاقی اور سماجی برائیاں سکھ مردوں میں عام ہوگئی تھیں۔ اس کا وہاں کی خواتین اور بچوں پر بہت بُرا اثر پڑا۔جرنیل سنگھ جہاں کہیں جاتا وہ جلسے میں موجود مرد حاضرین سے قسم لیتا کہ وہ اس کے ہاتھ پر ان برائیوں سے بچنے کی بیعت کریں۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دیہاتی خاندانوں کی خوش حالی میں مزید اضافہ ہوگیا اور وہ جرنیل سنگھ بھنڈراں والے کے پہلے سے بھی زیادہ معتقد ہوگئے۔
گولڈن ٹیمپل امرتسر میں باغی سکھ لیڈر سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والا اپنے مسلح ساتھیوں کے ہمراہ اس عبادت گاہ میں پناہ گزیں تھا۔ فوج کے اکثر جرنیل اس آپریشن کے مخالف تھے مگر وزیر اعظم اندار گاندھی صاحبہ بضد تھیں کہ یہ آپریشن کئے بغیر اس کا خاتمہ ممکن نہیں۔
اندرا گاندھی وزیر اعظم ہندوستان نے اس سے نمٹنے کے لیے کئی افراد سے مشورہ کیا ۔ وہ مذہب کے بارے میں غیر متعصبانہ رویہ رکھتی تھیں انہیں مسلمان اور سکھ بُرے نہیں لگتے تھے ۔ اس شورش کے خاتمے کے لیے اپنے سکھ صدر گیانی زیل سنگھ کی بجائے جنرل سندر جی اور جنرل ارون شری دھر ودیا کی رائے کو اہمیت دی جن کا خیال تھا کہ ایک دفعہ فوج اگر اکال تخت میں داخل ہوئی تو بھنڈراں والا ہتھیار ڈال دے گا۔دل چسپ بات یہ ہے کہ اندرا گاندھی نے جب لیفٹیننٹ جنرل ایس کے سنہا وائس چیف آف آرمی سے آپریشن بلیو اسٹار والے حملے کا پلان بنانے کو کہا تو انہوں نے اس کی مخالفت کی کہ سکھوں کے اہم ترین مذہبی مرکز گردوارہ ہرمندر صاحب پر حملے سے سکھ کمیونٹی کے جذبات شدید مجروح ہوں گے۔ یہ مخالفت انہیں پسند نہ آئی جس پر لیفٹیننٹ جنرل ایس کے سنہا،جن کی ترقی بطور چیف ہونا تھی، انہیں برطرف کردیا گیا۔اس آپریشن کی مخالفت کا یہ عالم تھا کہ میجر جنرل شاہ بیگ سنگھ کو اسی حکم عدولی کی پاداش میں ملازمت ختم ہونے سے ایک دن پہلے ہی غبن کا الزام لگا کر ریٹائر کردیا گیا اور وہ ناراض ہوکر خود جرنیل سنگھ بھنڈراں والے کی دمدمی ٹکسال سے جا کر مل گئے اور ہندوستانی فوج کے خلاف لڑے۔
آپریشن کے لیے دن کا انتخاب بھی بہت نامناسب تھا۔5جون سن1984 یہ اکال تخت کے بانی گرو گوبند کی برسی کا دن تھا۔اس وحشیانہ فوجی کارروائی ،جس کا نعم البدل کچھ اور ہوسکتا ،کے نتیجے میں سکھوں کی اس عبادت گاہ اور اس میں موجود تاریخی مقدس حکم ناموں جن پر گرو صاحبان کے دستخط موجود تھے، بہت نقصان پہنچا ۔ سب جل کر خاکستر ہوگئے۔اندرا گاندھی جب آپریشن کے خاتمے پر موقع معائنے کے لیے آئیں تو بہت غمزدہ تھیں۔ انہیں پہلے سے اس ہلاکت اور بربادی کا کوئی اندازہ نہ تھا۔
خوشونت سنگھ نے ان کی اس ناعاقبت اندیشی پر اپنے ایک اداریے میں یہ شعر لکھا تھا جو بعد میں بہت مقبول ہوا کہ ع
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی، صدیوں نے سزا پائی
دلوں میں انتقام کی آگ لیے جب ان کے سکھ محافظین بیونت سنگھ اور ستونت سنگھ نے انہیں ہلاک کیا تو دنیا سے ایک ایسی لیڈر رخصت ہوگئی جن کو انسانی کمزوریوں کے باوجود خوشونت سنگھ باصلاحیت اور قابل تعریف گردانتے تھے۔
[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...
ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...
[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...
ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...
بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...
[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...
[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...
پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...
[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...
[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...
معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...
میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...