وجود

... loading ...

وجود

طالبان کا جنگ تیز کرنے کا منصوبہ

بدھ 06 اپریل 2016 طالبان کا جنگ تیز کرنے کا منصوبہ

افغانستان سے ایسی اطلاعات آرہی ہیں کہ افغان طالبان کے عسکری بازو حقانی نیٹ ورک نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ فیصلہ کن معرکے کی تیاری مکمل کر لی ہے۔ ایسا سب کچھ اس وقت سامنے آیا ،جب افغان طالبان نے امریکا کی چھتری تلے ’’امن مذاکرات‘‘ سے انکار کردیا ہے۔ ان مذاکرات میں امریکا خود کے بجائے کابل میں موجود اپنی کٹھ پتلی افغان انتظامیہ کو طالبان کے سامنے مذاکراتی فریق کے طور پر لانا چاہتا تھا ۔ اس سے پہلے دوحہ میں موجود چینی سفارتکاروں نے بھی بیجنگ کی ایماپر افغان طالبان کے آفس سے روابط شروع کردیئے تھے۔ خطے میں قیام امن کے لئے پاکستان کی کوششوں سے بھی انکار ممکن نہیں لیکن افغان طالبان کا موقف ہے کہ اصل جنگ امریکا اور افغان طالبان کے درمیان ہورہی ہے۔ اس لئے مذاکرات کے دو اہم فریق افغان طالبان اور امریکا ہیں اس لئے اگر امریکا مذاکرات میں سنجیدہ ہے تو سب سے پہلے افغانستان سے اپنی افواج نکالے، اس کے بعد مذاکرات کئے جاسکیں گے۔لیکن ان تمام عوامل کے باوجود امریکا کابل میں موجود اشرف غنی انتظامیہ کو سامنے لاکر خود ’’فیس سیونگ‘‘ کرنا چاہتا ہے۔ لیکن اس مرحلے پر بھی طالبان قیادت نے امریکا کی اس کوشش کو ناکام بنا دیا ہے۔

افغان طالبان کے عسکری بازو حقانی نیٹ ورک نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ فیصلہ کن معرکے کی تیاری مکمل کر لی ہے۔

چین کی خواہش ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقے اور بلوچستان کے ساتھ ساتھ افغانستان سمیت تمام خطے میں امن وامان کی صورتحال قائم ہوجائے کیونکہ وہ اس وقت پاکستان میں پاک چین اقتصادی راہ داری کے علاوہ اور بھی بہت سے منصوبوں میں کئی بلین ڈالر لگا چکا ہے۔سرمایہ کاری کی یہ فصل اسی وقت بارآور ثابت ہوسکے گی جب خطے میں قیام امن کی صورت واضح ہو۔ لیکن امریکا اس صورتحال سے خوش دکھائی نہیں دیتا اب اگر وہ پاکستان اور چین کو معاشی ترقی سے روکنے کے لئے افغانستان میں جنگ کو ہوا دیتا ہے تو اسے خود بھی افغانستان میں بڑے نقصان کا سامنا ہوگا اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ افغانستان امریکی گلے کی ہڈی بن چکا ہے جسے آسانی سے نہ نگلا جاسکتا ہے اور نہ اگلا۔اس لئے افغانستان سے آمدہ اس قسم کی خبروں سے آئندہ کی صورتحال کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ افغان طالبان ذہنی طور پر اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ امریکا کا علاج’’ امن مذاکرات‘‘ نہیں بلکہ جارحانہ جنگ ہے اسی لئے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ موسم بہار کی ابتدا پر افغان طالبان امریکاکے خلاف جارحانہ حملوں میں یکدم اضافہ کردیں گے۔

امریکا مذاکرات میں خود کے بجائے کابل میں موجود اپنی کٹھ پتلی افغان انتظامیہ کو طالبان کے سامنے مذاکراتی فریق کے طور پر لانا چاہتا تھا۔

ایسی صورتحال میں امریکا پاکستان پر دباؤ بڑھا سکتا ہے لیکن اس دوران میں پاکستانی انتظامیہ کو بھی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے چین کو ساتھ ملاکرامریکا کوخطے کی نفسیات کے مطابق مسئلے کا حل تلاش کرنے پر مجبور کرنا ہوگا۔ جہاں تک اس پھیلتی جنگ میں امریکا کی اقتصادی صورتحال کا تعلق ہے تو وہ بھی کوئی خوش کن نظر نہیں آتی۔کیونکہ دوسری جانب مشرق وسطی کے حالات کسی وقت بھی ڈرامائی کروٹ لے سکتے ہیں۔ روس کے اچانک شام سے نکلنے کے اعلان نے عالمی ذرائع ابلاغ میں بہت سے سوال اٹھا دیئے ہیں، کوئی بھی صحیح حوالے سے ان معاملات کا درست تعین کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ہم اس سلسلے میں پہلے کہہ چکے ہیں کہ امریکا اور نیٹو نے روس کو شام میں پھنساکر افغانستان کی تاریخ دھرانے کی کوشش کی تھی لیکن اس وقت اچانک پوٹن کی جانب سے انخلاء کے اعلان نے سب کو حیران کردیا ہے۔

امریکا کی عسکری قوت کا بھانڈا نہتے طالبان نے پھوڑ دیا ہے اور جنگ کی طوالت کی بنا پر معاشی صورتحال اس مقام پر پہنچ چکی ہے کہ بڑے بڑے امریکی بینک دیوالیہ ہوچکے ہیں۔

تاریخ انسانیت اس بات کی گواہ ہے کہ جنگوں نے ہمیشہ اقتصادیات کو دیمک کی طرح چاٹا ہے۔ اسکندر اعظم کی کشور کشائی اب ایک افسانوی داستان کا روپ دھار چکی ہے۔ دنیا سکندر مقدونی کی کشور کشائی سے تو اچھی طرح واقف ہے لیکن اس کی مہم جوئی نے بے پناہ ’’مال غنیمت‘‘ کے حصول کے باوجود یونان کو معاشی تباہی کے جس دہانے پر پہنچا دیا تھا، اس سے کم ہی لوگ واقف ہیں۔ اسی طرح ہم ’’رومتہ الکبری‘‘ یا گریٹ رومن ایمپائر کا نام سنتے ہیں لیکن کئی دہائیوں تک دنیا پر اپنی عسکری قوت کی دھاک بٹھانے کی خاطر جاری جنگوں کے نتیجے میں اس عظیم سلطنت کو جس معاشی افراط زر کا سامنا کرنا پڑا، اس نے اس سلطنت کو خود اسی کے قدموں پر ڈھیر کردیا تھا۔ جدید تاریخ میں امریکاکی دریافت کے دوران میں اسپین کو سونے کی جن کانوں کی ملکیت حاصل کرنے کا موقع ملا ،اس نے ہسپانوی قوم کو دنیا کی متمول ترین قوم میں تبدیل کردیا تھا لیکن دیگر خطوں میں عسکری تسلط قائم کرنے کے لئے اسپین نے جن جنگوں کا آغاز کیا، اس نے جلد ہی اس قوم کو قلاش کرکے رکھ دیا اور اس کی جگہ یورپ میں برطانیہ کو حاصل ہوگئی۔ یہی صورتحال بعد میں فرانس کی بھی رہی۔ امریکا میں اپنی نوآبادیوں کو قائم رکھنے اور ان میں مزید اضافے کی خاطر فرانس نے اپنے بے پناہ وسائل فوجی مہمات میں جھونک دیئے جلد ہی کساد بازار ی نے فرانس کو چاروں طرف سے گھیر لیا ۔ یہی حال برطانیہ کو فرانس سے جنگوں میں مبتلا کرکے کیا گیا یہاں تک کہ حالت یہ ہوگئی کہ تاج برطانیہ ایک طرح سے صہیونی ساہو کاروں کے ہاتھوں گروی ہوگیا اس کے بعد سارے یورپ میں جو سماجی اور معاشی تبدیلیاں لائی گئیں وہ تمام کی تمام صہیونی ساہوکاروں کے مطالبات سے مشروط تھیں۔

ان حالات کا مشاہدہ ہم موجودہ دور میں بھی کرسکتے ہیں امریکا اس کی تازہ مثال ہے۔ جس وقت امریکا افغانستان پر حملہ آور ہوا تھا وہ نہ صرف عسکری بلکہ معاشی میدان میں ایک ناقابل شکست قوت کا حامل تصور کیا جاتا تھا لیکن آج تقریبا پندرہ برس بعد صورتحال کچھ اس طرح سے ہے کہ اس کی عسکری قوت کا بھانڈا نہتے طالبان نے پھوڑ دیا ہے اور جنگ کی طوالت کی بنا پر معاشی صورتحال اس مقام پر پہنچ چکی ہے کہ بڑے بڑے امریکی بینک دیوالیہ ہوچکے ہیں۔ امریکی حکومت صہیونی بینکوں کے ہاتھوں اپنے اثاثے گروی رکھ چکی ہے اور امریکی عوام سے سوشل اور میڈیکل کی سہولیات کہیں ختم اور کہیں کم کرکے ان پر بھاری ٹیکس لگائے جارہے ہیں تاکہ حکومت اور ملک کا کاروبار چلایا جاسکے۔بینکوں کے قرضوں کی بنیاد پر لاکھوں امریکیوں نے گھر حاصل کئے تھے اب وہ ان گھروں سے بے دخل ہوکر سڑکوں پر آنے پر مجبور ہیں۔یہ صورتحال صرف امریکا ہی کی نہیں ہے بلکہ افغانستان اور عراق کی جنگوں میں امریکاکے صہیونی صلیبی اتحاد نیٹو کے یورپی ممالک بھی اسی معاشی کساد بازاری کا شکار ہیں۔ اسپین، یونان، اٹلی اور پرتگال میں معاشی تباہی نے ہلچل مچا دی تھی جبکہ بڑے یورپی ممالک اپنے آپ کو معاشی زوال سے بچانے کی سر توڑ کوششوں میں ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ امریکی اقتصادیات یا ڈالرسے ان کا منسلک ہونا تھا جب امریکی اقتصادیات زوال پذیر ہونا شروع ہوئی تو ان یورپی ممالک میں بھی اس کے واضح اثرات سامنے آنے لگے، اس کے علاوہ یہ ممالک خود امریکی جنگوں میں ایک اتحادی کا کردار ادا کررہے تھے اس لئے بھی ان حالات نے انہیں گھیر لیا۔

ایک اندازے کے مطابق امریکا گزشتہ پندرہ برس کی افغان جنگ میں 800بلین ڈالر جھونک چکا ہے۔ امریکی ادارہ برائے اقتصادی احتساب کے مطابق اگلے ایک یا دو برسوں کے دوران افغانستان سے اپنی فوجیں اور جنگی ساز وسامان واپس امریکا لانے کے لئے اسے 6.7بلین ڈالر کی ضرورت ہے۔جبکہ امریکا اور عراق کی جنگوں کے اخراجات کے طور پر امریکی حکومت پر ایک ٹریلین ڈالر سے زائد کا قرضہ چڑھ چکا ہے۔ ان جنگوں کی ابتدا میں امریکی اقتصادیات کی مضبوطی کا اندازہ اس ایک بات سے لگایا جاسکتا تھا کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ امریکی حکومت نے افغانستان اور عراق کی جنگوں کے لئے امریکی عوام پر کوئی اضافی جنگی ٹیکس عائد نہیں کیا تھا۔ لیکن کچھ عرصہ قبل حالت یہ ہوچکی تھی کہ اوباما انتظامیہ اور کانگریس کے درمیان اس ایک بات پر مذاکرات ہورہے تھے کہ حکومتی اخراجات کو کم کرکے معاشی خسارے کو پورا کیا جاسکے لیکن اس کے باوجود امریکی اقتصادی ماہرین کا کہنا تھاکہ ان کٹوتیوں سے کئی بلین ڈالر پر مشتمل ان اخراجات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا جو افغانستان سے فوجوں کی واپسی کے لئے ادا کرنا ہوں گے۔یہ تمام مذاکرات اس وقت ہوئے جب ایک ماہ بعد امریکی کانگریس ادائیگیوں کے لئے قرضوں کی شرح حد بڑھانے پر غور کررہی تھی اور اس سلسلے میں ایک بل لانے والی تھی۔

اس کے بعد امریکی وزارت دفاع پینٹاگون نے ایک تخمینہ پیش کیا تھا جس کے مطابق اس وقت افغانستان میں امریکی سازوسامان کی کل تعداد تقریبا 75000کے قریب تھی جس کی مالیت 36بلین ڈالر کے قریب ہے۔ ان میں 50000 جنگی اور دیگر گاڑیاں اور اور 90000کے قریب بحری جہازوں کے ذریعے سامان کی نقل وحمل کرنے والے کنٹینرز تھے۔2011ء میں امریکا نے شمالی افغانستان کی جانب سے 42000کنٹینروں کے ذریعے 268000ٹن جنگی سامان افغانستان میں بھیجا تھا۔ یہ سامان زمینی راستے سے افغانستان پہنچایا گیا تھا جس کے لئے روڈ اور ریل کا راستہ اختیار کیا گیا تھا۔ یہ سامان پاکستان کی جانب سے نیٹو سپلائی پر پابندی لگانے کے بعد پہلے یورپ اور وہاں سے وسطی ایشیا کے ذریعے سے افغانستان بھیجاگیاتھا۔افغانستان میں جنگی سازوسامان کو ٹھکانے لگانے کے لئے امریکی محکمہ دفاع کے پاس اس وقت تین راستے تھے۔ پہلا یا تو اس سامان کو امریکا یا کسی اور ملک منتقل کیا جائے۔دوسرے اس سامان کو افغانستان میں ہی تباہ کردیا جائے۔یا پینٹاگون کے زیر اثر کسی اور علاقے میں منتقل کر دیا جائے۔ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں امریکیوں نے افغانستان میں دس مقامات پر بڑے اسٹور قائم کئے جہاں پر اس سامان کو محفوظ رکھ کر باقاعدہ اس کی پڑتال کی جاسکے گی جہاں سے مناسب وقت پر انہیں امریکا منتقل کیا جاسکے گا۔

عراق سے انخلاء اور افغانستان سے انخلاء دو الگ اور مختلف چیزیں ہیں۔عراق سے انخلاء کے لئے امریکیوں نے چار برس قبل ہی خفیہ منصوبہ بندی کرلی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ اسے وہاں پر ’’مقامی مدد ــ ‘‘ کی سہولت بھی حاصل تھی۔ لیکن افغانستان میں اس قسم کی کوئی صورت موجود نہیں ہے اور اگر کہیں ایسا کچھ ہے بھی تو امریکیوں کے لئے قابل اعتبار نہیں۔اس لئے عراق کی نسبت افغانستان سے انخلاء انتہائی مشکل اور مہنگا عمل ہے۔عراق میں امریکیوں کو شاہراہوں پرسے گزر کر ام قصر کی بندرگاہ تک پہنچنے میں آسانی تھی ۔اس کے ساتھ ساتھ عراقی سرحد کے قریب ہی کویت میں موجود امریکی عسکری اڈے بھی موجود تھے۔ اس طرح یہاں سے عسکری سامان کو اردنی اور کویتی بندرگاہوں تک پہنچانا انتہائی آسان تھا۔جبکہ سپلائی کے حوالے سے بڑاروٹ صرف پاکستان کی جانب سے ہی تصور کیا جاتاہے ۔اس کے ساتھ ساتھ امریکا کو شمال کی جانب سے کھلے راستے کا بھی بندوبست کرنا ہے تاکہ مستقبل میں افغانستان کی جانب سے کوئی ایسی عسکری کارروائی نہ ہو جس کے لئے ان راستوں کو استعمال کیا جاسکے ۔

اس سارے معاملے میں پاکستان کو کیا حاصل وصول ہوا ؟ صرف بیس بلین ڈالر، سو بلین ڈالر سے زیادہ کا نقصان ،پچاس ہزار سے زائد فوجی جوانوں اور شہریوں کی لاشیں، معاشی نظام کی تباہی، وطن عزیز میں دہشت گردی کا خانہ جنگی کی شکل اختیار کرجانا، بلوچستان ، کراچی اور خیبر پختون خوا میں غیر ملکی ایجنسیوں کی مداخلت سے تباہ کاری، قوم اور پاک فوج کے درمیان دوری کی کوششیں اور بین الاقوامی سطح پر وطن عزیز کے امیج کو ناقابل تلافی نقصان۔ اس کے باوجود اس ملک کے نام نہاد حکمران کہتے ہیں کہ ’’دہشت گردی‘‘ کی جنگ ہماری جنگ ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ چاہتا ہے کہ جب تک افغانستان میں پائیدار اور باعزت طور پر نکلنے کی کوشش کامیاب نہیں ہوتی پاکستان میں اس کی جانب سے مسلط کردہ این آر او زدہ ٹولہ حکمرانی میں رہے۔

یہ ایک قدرتی امر ہے کہ اسلام آباد کابل کے حالات سے بے خبر نہیں رہ سکتا یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا ہے بلکہ اس تاثر کی جڑیں تاریخ میں پیوست ہیں۔اس لئے اگر عسکری اور معاشی دہشت گردوں کی کارروائیوں سے متاثر ہوکر پاکستان اس قابل نہیں رہتا کہ وہ افغانستان میں کوئی مثبت کردار ادا کرسکے تو یہ بات بھی افغانستان کے مستقبل کے لئے صحیح ثابت نہیں ہوسکتی۔ اس لئے پاکستان کی حفاظت کے ضامن اداروں کو سنجیدگی سے اس جانب غور کرنا چاہئے کہ امن کی کوئی بھی راہ کسی بھی قیمت پر اختیار کی جائے۔ کیونکہ خطے میں امن جتنا افغانستان کے لئے ضروری ہے اس سے کہیں زیادہ پاکستان کے لئے بھی ناگزیر ہے کیونکہ افغانستان کی اس جنگ کی وجہ سے پاکستان کے اقتصادی علاقوں میں دشمن نے ضرب لگائی ہے اور کراچی جیسے اقتصادی شہر کو دہشت گردی کی روز مرہ کی وارداتوں سے مفلوج کرکے پاکستان کی معاشیات کو مفلوج کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔نہ صرف تاریخ میں بلکہ اگر جدید تاریخ میں بھی جنگوں کا موازانہ کیا جائے تو پہلے سوویت یونین اور اس کے بعد امریکا اور اس کے صہیونی صلیبی اتحادیوں کا حشر ہمیں سامنے رکھنا چاہے۔ اس بات سے بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ اس کیفیت سے ہی فائدہ اٹھاکر ہمارے ازلی دشمن بھارت نے پاکستان کے پانی پر ڈاکا ڈالا ہے اور ہم اس کا تاحال کچھ بگاڑ نہیں سکے ہیں۔ لیکن مستقبل قریب میں یہ مسئلہ ہمارے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ بن جائے گا اور تمام دنیا میں پھیلے ہوئے پاکستان اور اسلام دشمن ملک اس معاملے میں بھارت کا ساتھ دیں گے۔ اس آنے والی قیامت خیز صورتحال سے نمٹنے کے لئے ضروری ہے کہ افغانستان میں جنگ کا خاتمہ ہو اور وہاں پر افغان عوام کی امنگوں کے مطابق ایک نمائندہ حکومت قائم ہو اس کے بعد ہی پاکستان میں بھی پائیدار امن قائم ہوسکے گا اور پاکستان کے اندر بیٹھے پاکستان اور اسلام دشمن عناصر کا سر کچلا جاسکے گا۔ اس کے بعد ہی ہم اس قابل ہوسکیں گے کہ بھارت سے اپنا چھینا ہوا حق دوبارہ حاصل کرسکیں۔


متعلقہ خبریں


عمران خان نااہلی پاکستان کا اندرونی معاملہ، دخل اندازی نہیں کرسکتے، امریکا وجود - منگل 25 اکتوبر 2022

امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی سے متعلق سوال پر تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان نااہلی پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے، پاکستان کی اندرونی سیاست میں دخل اندازی نہیں کر سکتے۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے ایک ب...

عمران خان نااہلی پاکستان کا اندرونی معاملہ، دخل اندازی نہیں کرسکتے، امریکا

افغان طالبان اور امریکا کی ایک دوسرے کو یقین دہانیاں وجود - منگل 18 اکتوبر 2022

افغان طالبان نے امریکا کو یقین دہانی کرائی ہے کہ افغان سرزمین کسی کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے جبکہ امریکی حکام نے بھی طالبان کو یقین دہانی کرائی کہ وہ افغانستان میں کسی عسکری گروہ کی مالی امداد نہیں کریں گے۔ افغان طالبان کے اعلیٰ سطح کے وفد نے دوحہ میں امریکی حکام س...

افغان طالبان اور امریکا کی ایک دوسرے کو یقین دہانیاں

چار بہنوں کا 389 سال کی مجموعی عمر کا عالمی ریکارڈ وجود - منگل 27 ستمبر 2022

امریکا میں چار بہنوں نے 389 سال کی مجموعی عمر کا گینیز عالمی ریکارڈ اپنے نام کر لیا ہے۔ امریکی ریاست جنوبی ڈکوٹا شہر سیو فالز سے تعلق رکھنے والی چاروں بہنوں کی مجموعی عمر 22 اگست کے مطابق 389 سال اور 197 دن ہے۔ ان بہنوں میں 101 سالہ آرلووین جانسن، 99 سالہ مارسین جانسن، 96 سالہ ڈو...

چار بہنوں کا 389 سال کی مجموعی عمر کا عالمی ریکارڈ

پاکستان ، کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات مکمل ، نتیجہ خیز ہونے کا امکان ہے، ترجمان افغان طالبان وجود - هفته 18 جون 2022

افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے پاکستان اورکالعدم تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) کے درمیان کابل میں دو دن قبل مذاکرات مکمل ہوگئے ہیں، ممکن ہے پاکستان اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کسی نتیجے پر پہنچ جائیں، مذاکرات ناکام ہوئے تو کسی کو افغان سرزمین پاکستان ...

پاکستان ، کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات مکمل ، نتیجہ خیز ہونے کا امکان ہے، ترجمان افغان طالبان

ون ڈے رینکنگ: پاکستان نے آسٹریلیا سے تیسری پوزیشن چھین لی وجود - هفته 18 جون 2022

پاکستان نے آئی سی سی کی تازہ ترین ون ڈے رینکنگ میں ایک درجہ مزید ترقی کرتے ہوئے آسٹریلیا سے تیسری پوزیشن چھین لی۔ گزشتہ روز سری لنکا نے دوسرے ایک روزہ میچ میں آسٹریلیا کو 26 رنز سے شکست دے کر 5 ایک روزہ میچوں کی سیریز ایک، ایک سے برابر کردی تھی، سری لنکا کے ہاتھوں شکست کے بعد آسٹ...

ون ڈے رینکنگ: پاکستان نے آسٹریلیا سے تیسری پوزیشن چھین لی

پاکستان کی چین سے دو ارب ڈالر قرض واپسی کی مدت میں پھر توسیع کی درخواست وجود - اتوار 12 جون 2022

پاکستان نے چین سے دو ارب ڈالر کے قرض کی واپسی کی مدت میں ایک بار پھر توسیع کی درخواست کر دی۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں 4 ارب ڈالر کے چینی قرض اور کم از کم 3 ارب ڈالر کے آئی ایم ایف قرض کو شامل نہیں کیا، چین کے چار میں سے دو ارب ڈالر کے قرض کی واپسی ک...

پاکستان کی چین سے دو ارب ڈالر قرض واپسی کی مدت میں پھر توسیع کی درخواست

روس کے مقابلے میں چین زیادہ بڑا، طویل المدتی خطرہ ہے،امریکا وجود - هفته 28 مئی 2022

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے عالمی برادری سے چین کو روکنے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد ہونے کی اپیل کی ہے۔ روس فوری خطرہ ہے لیکن چین سے عالمی نظام کو زیادہ سنگین خطرات لاحق ہیں۔ میڈیارپورٹس کے مطابق جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں تقریر کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلن...

روس کے مقابلے میں چین زیادہ بڑا، طویل المدتی خطرہ ہے،امریکا

سپر پاورز خلا میں تسلط قائم نہ کرنے کا عہد کریں، چین وجود - جمعرات 12 مئی 2022

چین نے کہا ہے کہ سپر پاورز خلا میں تسلط قائم نہ کرنے کا عہد کریں۔ چینی ریڈیو کے مطابق چین کے سفیر برائے تخفیف اسلحہ لی سونگ کی قیادت میں چینی وفد نے جنیوا میں اقوام متحدہ کے خلا کے لیے ذمہ دارانہ ضابطہ اخلاق کے اوپن ورکنگ گروپ کے اجلاس میں شرکت کی۔ سفیر لی سونگ نے خلا میں سلامتی ...

سپر پاورز خلا میں تسلط  قائم نہ کرنے کا عہد کریں، چین

اچکنیں سلوانے والے کہہ رہے تھے ہمیں امریکا کو ناراض نہیں کرنا چاہیے، وزیراعظم وجود - جمعه 01 اپریل 2022

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ نے کہا کہ ملک میں سیکیورٹی تب آتی ہے جب ہر شہری ذمہ داری لیتا ہے، سیکیورٹی فوج نہیں عوام دیتی ہے، امریکا کے وزیر خارجہ کا بیان ہے کہ بھارت کو کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ ایک آزاد ملک ہے، توپھر ہم کیا ہیں؟ طاقتور ملک ہم پر غصہ ہو گیا جس نے کہا کہ آپ...

اچکنیں سلوانے والے کہہ رہے تھے ہمیں امریکا کو ناراض نہیں کرنا چاہیے، وزیراعظم

وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں مراسلے والے ملک کا ذکر کرتے ہوئے امریکا کا نام لے لیا وجود - جمعه 01 اپریل 2022

وزیراعظم عمران خان نے قوم سے خطاب میں مراسلے والے ملک کا ذکر کرتے ہوئے امریکا کا نام لے لیا۔وزیراعظم عمران خان نے قوم سے براہ راست خطاب کیا اور اس دوران انہوں نے خارجہ پالیسی پر بات کی۔وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں مراسلے والے ملک کا ذکر کرتے ہوئے امریکا کا نام لیا اور پھر غلطی کا ...

وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں مراسلے والے ملک کا ذکر کرتے ہوئے امریکا کا نام لے لیا

تمام سرکاری دفاتر سے افغانستان کا جھنڈا اتارنے کا حکم وجود - پیر 21 مارچ 2022

افغان طالبان نے ملک بھر کے تمام سرکاری دفاتر پر امارات اسلامیہ افغانستان کا سفید رنگ کا پرچم لہرانے کا حکم جاری کردیا۔میڈیارپورٹس کے مطابق سرکاری حکم نامے میں کہا گیا کہ افغانستان کے تین رنگوں والے پرچم کی جگہ امارات اسلامیہ افغانستان کا پرچم لہرایا جائے۔ یاد رہے کہ طالبان کے افغ...

تمام سرکاری دفاتر سے افغانستان کا جھنڈا اتارنے کا حکم

یوکرینی حکومت کی شہریوں سے گوریلا جنگ کا آغاز کرنے کی اپیل وجود - جمعه 04 مارچ 2022

یوکرینی حکومت نے شہریوں سے گوریلا جنگ کا آغاز کرنے کی اپیل کردی۔ غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق یوکرینی حکومت نے شہریوں سے گوریلا جنگ کا آغاز کرنے کی اپیل کر دی ۔یوکرینی صدر کے مشیر نے لوگوں کو کہا ہے کہ روس کے پچھلے دستے کمزور ہیں، اگر ہم ان کو بلاک کر دیں تو یہ جنگ جیت سکتے ہیں...

یوکرینی حکومت کی شہریوں سے گوریلا جنگ کا آغاز کرنے کی اپیل

مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر