... loading ...
افغانستان سے ایسی اطلاعات آرہی ہیں کہ افغان طالبان کے عسکری بازو حقانی نیٹ ورک نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ فیصلہ کن معرکے کی تیاری مکمل کر لی ہے۔ ایسا سب کچھ اس وقت سامنے آیا ،جب افغان طالبان نے امریکا کی چھتری تلے ’’امن مذاکرات‘‘ سے انکار کردیا ہے۔ ان مذاکرات میں امریکا خود کے بجائے کابل میں موجود اپنی کٹھ پتلی افغان انتظامیہ کو طالبان کے سامنے مذاکراتی فریق کے طور پر لانا چاہتا تھا ۔ اس سے پہلے دوحہ میں موجود چینی سفارتکاروں نے بھی بیجنگ کی ایماپر افغان طالبان کے آفس سے روابط شروع کردیئے تھے۔ خطے میں قیام امن کے لئے پاکستان کی کوششوں سے بھی انکار ممکن نہیں لیکن افغان طالبان کا موقف ہے کہ اصل جنگ امریکا اور افغان طالبان کے درمیان ہورہی ہے۔ اس لئے مذاکرات کے دو اہم فریق افغان طالبان اور امریکا ہیں اس لئے اگر امریکا مذاکرات میں سنجیدہ ہے تو سب سے پہلے افغانستان سے اپنی افواج نکالے، اس کے بعد مذاکرات کئے جاسکیں گے۔لیکن ان تمام عوامل کے باوجود امریکا کابل میں موجود اشرف غنی انتظامیہ کو سامنے لاکر خود ’’فیس سیونگ‘‘ کرنا چاہتا ہے۔ لیکن اس مرحلے پر بھی طالبان قیادت نے امریکا کی اس کوشش کو ناکام بنا دیا ہے۔
چین کی خواہش ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقے اور بلوچستان کے ساتھ ساتھ افغانستان سمیت تمام خطے میں امن وامان کی صورتحال قائم ہوجائے کیونکہ وہ اس وقت پاکستان میں پاک چین اقتصادی راہ داری کے علاوہ اور بھی بہت سے منصوبوں میں کئی بلین ڈالر لگا چکا ہے۔سرمایہ کاری کی یہ فصل اسی وقت بارآور ثابت ہوسکے گی جب خطے میں قیام امن کی صورت واضح ہو۔ لیکن امریکا اس صورتحال سے خوش دکھائی نہیں دیتا اب اگر وہ پاکستان اور چین کو معاشی ترقی سے روکنے کے لئے افغانستان میں جنگ کو ہوا دیتا ہے تو اسے خود بھی افغانستان میں بڑے نقصان کا سامنا ہوگا اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ افغانستان امریکی گلے کی ہڈی بن چکا ہے جسے آسانی سے نہ نگلا جاسکتا ہے اور نہ اگلا۔اس لئے افغانستان سے آمدہ اس قسم کی خبروں سے آئندہ کی صورتحال کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ افغان طالبان ذہنی طور پر اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ امریکا کا علاج’’ امن مذاکرات‘‘ نہیں بلکہ جارحانہ جنگ ہے اسی لئے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ موسم بہار کی ابتدا پر افغان طالبان امریکاکے خلاف جارحانہ حملوں میں یکدم اضافہ کردیں گے۔
ایسی صورتحال میں امریکا پاکستان پر دباؤ بڑھا سکتا ہے لیکن اس دوران میں پاکستانی انتظامیہ کو بھی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے چین کو ساتھ ملاکرامریکا کوخطے کی نفسیات کے مطابق مسئلے کا حل تلاش کرنے پر مجبور کرنا ہوگا۔ جہاں تک اس پھیلتی جنگ میں امریکا کی اقتصادی صورتحال کا تعلق ہے تو وہ بھی کوئی خوش کن نظر نہیں آتی۔کیونکہ دوسری جانب مشرق وسطی کے حالات کسی وقت بھی ڈرامائی کروٹ لے سکتے ہیں۔ روس کے اچانک شام سے نکلنے کے اعلان نے عالمی ذرائع ابلاغ میں بہت سے سوال اٹھا دیئے ہیں، کوئی بھی صحیح حوالے سے ان معاملات کا درست تعین کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ہم اس سلسلے میں پہلے کہہ چکے ہیں کہ امریکا اور نیٹو نے روس کو شام میں پھنساکر افغانستان کی تاریخ دھرانے کی کوشش کی تھی لیکن اس وقت اچانک پوٹن کی جانب سے انخلاء کے اعلان نے سب کو حیران کردیا ہے۔
تاریخ انسانیت اس بات کی گواہ ہے کہ جنگوں نے ہمیشہ اقتصادیات کو دیمک کی طرح چاٹا ہے۔ اسکندر اعظم کی کشور کشائی اب ایک افسانوی داستان کا روپ دھار چکی ہے۔ دنیا سکندر مقدونی کی کشور کشائی سے تو اچھی طرح واقف ہے لیکن اس کی مہم جوئی نے بے پناہ ’’مال غنیمت‘‘ کے حصول کے باوجود یونان کو معاشی تباہی کے جس دہانے پر پہنچا دیا تھا، اس سے کم ہی لوگ واقف ہیں۔ اسی طرح ہم ’’رومتہ الکبری‘‘ یا گریٹ رومن ایمپائر کا نام سنتے ہیں لیکن کئی دہائیوں تک دنیا پر اپنی عسکری قوت کی دھاک بٹھانے کی خاطر جاری جنگوں کے نتیجے میں اس عظیم سلطنت کو جس معاشی افراط زر کا سامنا کرنا پڑا، اس نے اس سلطنت کو خود اسی کے قدموں پر ڈھیر کردیا تھا۔ جدید تاریخ میں امریکاکی دریافت کے دوران میں اسپین کو سونے کی جن کانوں کی ملکیت حاصل کرنے کا موقع ملا ،اس نے ہسپانوی قوم کو دنیا کی متمول ترین قوم میں تبدیل کردیا تھا لیکن دیگر خطوں میں عسکری تسلط قائم کرنے کے لئے اسپین نے جن جنگوں کا آغاز کیا، اس نے جلد ہی اس قوم کو قلاش کرکے رکھ دیا اور اس کی جگہ یورپ میں برطانیہ کو حاصل ہوگئی۔ یہی صورتحال بعد میں فرانس کی بھی رہی۔ امریکا میں اپنی نوآبادیوں کو قائم رکھنے اور ان میں مزید اضافے کی خاطر فرانس نے اپنے بے پناہ وسائل فوجی مہمات میں جھونک دیئے جلد ہی کساد بازار ی نے فرانس کو چاروں طرف سے گھیر لیا ۔ یہی حال برطانیہ کو فرانس سے جنگوں میں مبتلا کرکے کیا گیا یہاں تک کہ حالت یہ ہوگئی کہ تاج برطانیہ ایک طرح سے صہیونی ساہو کاروں کے ہاتھوں گروی ہوگیا اس کے بعد سارے یورپ میں جو سماجی اور معاشی تبدیلیاں لائی گئیں وہ تمام کی تمام صہیونی ساہوکاروں کے مطالبات سے مشروط تھیں۔
ان حالات کا مشاہدہ ہم موجودہ دور میں بھی کرسکتے ہیں امریکا اس کی تازہ مثال ہے۔ جس وقت امریکا افغانستان پر حملہ آور ہوا تھا وہ نہ صرف عسکری بلکہ معاشی میدان میں ایک ناقابل شکست قوت کا حامل تصور کیا جاتا تھا لیکن آج تقریبا پندرہ برس بعد صورتحال کچھ اس طرح سے ہے کہ اس کی عسکری قوت کا بھانڈا نہتے طالبان نے پھوڑ دیا ہے اور جنگ کی طوالت کی بنا پر معاشی صورتحال اس مقام پر پہنچ چکی ہے کہ بڑے بڑے امریکی بینک دیوالیہ ہوچکے ہیں۔ امریکی حکومت صہیونی بینکوں کے ہاتھوں اپنے اثاثے گروی رکھ چکی ہے اور امریکی عوام سے سوشل اور میڈیکل کی سہولیات کہیں ختم اور کہیں کم کرکے ان پر بھاری ٹیکس لگائے جارہے ہیں تاکہ حکومت اور ملک کا کاروبار چلایا جاسکے۔بینکوں کے قرضوں کی بنیاد پر لاکھوں امریکیوں نے گھر حاصل کئے تھے اب وہ ان گھروں سے بے دخل ہوکر سڑکوں پر آنے پر مجبور ہیں۔یہ صورتحال صرف امریکا ہی کی نہیں ہے بلکہ افغانستان اور عراق کی جنگوں میں امریکاکے صہیونی صلیبی اتحاد نیٹو کے یورپی ممالک بھی اسی معاشی کساد بازاری کا شکار ہیں۔ اسپین، یونان، اٹلی اور پرتگال میں معاشی تباہی نے ہلچل مچا دی تھی جبکہ بڑے یورپی ممالک اپنے آپ کو معاشی زوال سے بچانے کی سر توڑ کوششوں میں ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ امریکی اقتصادیات یا ڈالرسے ان کا منسلک ہونا تھا جب امریکی اقتصادیات زوال پذیر ہونا شروع ہوئی تو ان یورپی ممالک میں بھی اس کے واضح اثرات سامنے آنے لگے، اس کے علاوہ یہ ممالک خود امریکی جنگوں میں ایک اتحادی کا کردار ادا کررہے تھے اس لئے بھی ان حالات نے انہیں گھیر لیا۔
ایک اندازے کے مطابق امریکا گزشتہ پندرہ برس کی افغان جنگ میں 800بلین ڈالر جھونک چکا ہے۔ امریکی ادارہ برائے اقتصادی احتساب کے مطابق اگلے ایک یا دو برسوں کے دوران افغانستان سے اپنی فوجیں اور جنگی ساز وسامان واپس امریکا لانے کے لئے اسے 6.7بلین ڈالر کی ضرورت ہے۔جبکہ امریکا اور عراق کی جنگوں کے اخراجات کے طور پر امریکی حکومت پر ایک ٹریلین ڈالر سے زائد کا قرضہ چڑھ چکا ہے۔ ان جنگوں کی ابتدا میں امریکی اقتصادیات کی مضبوطی کا اندازہ اس ایک بات سے لگایا جاسکتا تھا کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ امریکی حکومت نے افغانستان اور عراق کی جنگوں کے لئے امریکی عوام پر کوئی اضافی جنگی ٹیکس عائد نہیں کیا تھا۔ لیکن کچھ عرصہ قبل حالت یہ ہوچکی تھی کہ اوباما انتظامیہ اور کانگریس کے درمیان اس ایک بات پر مذاکرات ہورہے تھے کہ حکومتی اخراجات کو کم کرکے معاشی خسارے کو پورا کیا جاسکے لیکن اس کے باوجود امریکی اقتصادی ماہرین کا کہنا تھاکہ ان کٹوتیوں سے کئی بلین ڈالر پر مشتمل ان اخراجات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا جو افغانستان سے فوجوں کی واپسی کے لئے ادا کرنا ہوں گے۔یہ تمام مذاکرات اس وقت ہوئے جب ایک ماہ بعد امریکی کانگریس ادائیگیوں کے لئے قرضوں کی شرح حد بڑھانے پر غور کررہی تھی اور اس سلسلے میں ایک بل لانے والی تھی۔
اس کے بعد امریکی وزارت دفاع پینٹاگون نے ایک تخمینہ پیش کیا تھا جس کے مطابق اس وقت افغانستان میں امریکی سازوسامان کی کل تعداد تقریبا 75000کے قریب تھی جس کی مالیت 36بلین ڈالر کے قریب ہے۔ ان میں 50000 جنگی اور دیگر گاڑیاں اور اور 90000کے قریب بحری جہازوں کے ذریعے سامان کی نقل وحمل کرنے والے کنٹینرز تھے۔2011ء میں امریکا نے شمالی افغانستان کی جانب سے 42000کنٹینروں کے ذریعے 268000ٹن جنگی سامان افغانستان میں بھیجا تھا۔ یہ سامان زمینی راستے سے افغانستان پہنچایا گیا تھا جس کے لئے روڈ اور ریل کا راستہ اختیار کیا گیا تھا۔ یہ سامان پاکستان کی جانب سے نیٹو سپلائی پر پابندی لگانے کے بعد پہلے یورپ اور وہاں سے وسطی ایشیا کے ذریعے سے افغانستان بھیجاگیاتھا۔افغانستان میں جنگی سازوسامان کو ٹھکانے لگانے کے لئے امریکی محکمہ دفاع کے پاس اس وقت تین راستے تھے۔ پہلا یا تو اس سامان کو امریکا یا کسی اور ملک منتقل کیا جائے۔دوسرے اس سامان کو افغانستان میں ہی تباہ کردیا جائے۔یا پینٹاگون کے زیر اثر کسی اور علاقے میں منتقل کر دیا جائے۔ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں امریکیوں نے افغانستان میں دس مقامات پر بڑے اسٹور قائم کئے جہاں پر اس سامان کو محفوظ رکھ کر باقاعدہ اس کی پڑتال کی جاسکے گی جہاں سے مناسب وقت پر انہیں امریکا منتقل کیا جاسکے گا۔
عراق سے انخلاء اور افغانستان سے انخلاء دو الگ اور مختلف چیزیں ہیں۔عراق سے انخلاء کے لئے امریکیوں نے چار برس قبل ہی خفیہ منصوبہ بندی کرلی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ اسے وہاں پر ’’مقامی مدد ــ ‘‘ کی سہولت بھی حاصل تھی۔ لیکن افغانستان میں اس قسم کی کوئی صورت موجود نہیں ہے اور اگر کہیں ایسا کچھ ہے بھی تو امریکیوں کے لئے قابل اعتبار نہیں۔اس لئے عراق کی نسبت افغانستان سے انخلاء انتہائی مشکل اور مہنگا عمل ہے۔عراق میں امریکیوں کو شاہراہوں پرسے گزر کر ام قصر کی بندرگاہ تک پہنچنے میں آسانی تھی ۔اس کے ساتھ ساتھ عراقی سرحد کے قریب ہی کویت میں موجود امریکی عسکری اڈے بھی موجود تھے۔ اس طرح یہاں سے عسکری سامان کو اردنی اور کویتی بندرگاہوں تک پہنچانا انتہائی آسان تھا۔جبکہ سپلائی کے حوالے سے بڑاروٹ صرف پاکستان کی جانب سے ہی تصور کیا جاتاہے ۔اس کے ساتھ ساتھ امریکا کو شمال کی جانب سے کھلے راستے کا بھی بندوبست کرنا ہے تاکہ مستقبل میں افغانستان کی جانب سے کوئی ایسی عسکری کارروائی نہ ہو جس کے لئے ان راستوں کو استعمال کیا جاسکے ۔
اس سارے معاملے میں پاکستان کو کیا حاصل وصول ہوا ؟ صرف بیس بلین ڈالر، سو بلین ڈالر سے زیادہ کا نقصان ،پچاس ہزار سے زائد فوجی جوانوں اور شہریوں کی لاشیں، معاشی نظام کی تباہی، وطن عزیز میں دہشت گردی کا خانہ جنگی کی شکل اختیار کرجانا، بلوچستان ، کراچی اور خیبر پختون خوا میں غیر ملکی ایجنسیوں کی مداخلت سے تباہ کاری، قوم اور پاک فوج کے درمیان دوری کی کوششیں اور بین الاقوامی سطح پر وطن عزیز کے امیج کو ناقابل تلافی نقصان۔ اس کے باوجود اس ملک کے نام نہاد حکمران کہتے ہیں کہ ’’دہشت گردی‘‘ کی جنگ ہماری جنگ ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ چاہتا ہے کہ جب تک افغانستان میں پائیدار اور باعزت طور پر نکلنے کی کوشش کامیاب نہیں ہوتی پاکستان میں اس کی جانب سے مسلط کردہ این آر او زدہ ٹولہ حکمرانی میں رہے۔
یہ ایک قدرتی امر ہے کہ اسلام آباد کابل کے حالات سے بے خبر نہیں رہ سکتا یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا ہے بلکہ اس تاثر کی جڑیں تاریخ میں پیوست ہیں۔اس لئے اگر عسکری اور معاشی دہشت گردوں کی کارروائیوں سے متاثر ہوکر پاکستان اس قابل نہیں رہتا کہ وہ افغانستان میں کوئی مثبت کردار ادا کرسکے تو یہ بات بھی افغانستان کے مستقبل کے لئے صحیح ثابت نہیں ہوسکتی۔ اس لئے پاکستان کی حفاظت کے ضامن اداروں کو سنجیدگی سے اس جانب غور کرنا چاہئے کہ امن کی کوئی بھی راہ کسی بھی قیمت پر اختیار کی جائے۔ کیونکہ خطے میں امن جتنا افغانستان کے لئے ضروری ہے اس سے کہیں زیادہ پاکستان کے لئے بھی ناگزیر ہے کیونکہ افغانستان کی اس جنگ کی وجہ سے پاکستان کے اقتصادی علاقوں میں دشمن نے ضرب لگائی ہے اور کراچی جیسے اقتصادی شہر کو دہشت گردی کی روز مرہ کی وارداتوں سے مفلوج کرکے پاکستان کی معاشیات کو مفلوج کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔نہ صرف تاریخ میں بلکہ اگر جدید تاریخ میں بھی جنگوں کا موازانہ کیا جائے تو پہلے سوویت یونین اور اس کے بعد امریکا اور اس کے صہیونی صلیبی اتحادیوں کا حشر ہمیں سامنے رکھنا چاہے۔ اس بات سے بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ اس کیفیت سے ہی فائدہ اٹھاکر ہمارے ازلی دشمن بھارت نے پاکستان کے پانی پر ڈاکا ڈالا ہے اور ہم اس کا تاحال کچھ بگاڑ نہیں سکے ہیں۔ لیکن مستقبل قریب میں یہ مسئلہ ہمارے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ بن جائے گا اور تمام دنیا میں پھیلے ہوئے پاکستان اور اسلام دشمن ملک اس معاملے میں بھارت کا ساتھ دیں گے۔ اس آنے والی قیامت خیز صورتحال سے نمٹنے کے لئے ضروری ہے کہ افغانستان میں جنگ کا خاتمہ ہو اور وہاں پر افغان عوام کی امنگوں کے مطابق ایک نمائندہ حکومت قائم ہو اس کے بعد ہی پاکستان میں بھی پائیدار امن قائم ہوسکے گا اور پاکستان کے اندر بیٹھے پاکستان اور اسلام دشمن عناصر کا سر کچلا جاسکے گا۔ اس کے بعد ہی ہم اس قابل ہوسکیں گے کہ بھارت سے اپنا چھینا ہوا حق دوبارہ حاصل کرسکیں۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی سے متعلق سوال پر تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان نااہلی پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے، پاکستان کی اندرونی سیاست میں دخل اندازی نہیں کر سکتے۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے ایک ب...
افغان طالبان نے امریکا کو یقین دہانی کرائی ہے کہ افغان سرزمین کسی کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے جبکہ امریکی حکام نے بھی طالبان کو یقین دہانی کرائی کہ وہ افغانستان میں کسی عسکری گروہ کی مالی امداد نہیں کریں گے۔ افغان طالبان کے اعلیٰ سطح کے وفد نے دوحہ میں امریکی حکام س...
امریکا میں چار بہنوں نے 389 سال کی مجموعی عمر کا گینیز عالمی ریکارڈ اپنے نام کر لیا ہے۔ امریکی ریاست جنوبی ڈکوٹا شہر سیو فالز سے تعلق رکھنے والی چاروں بہنوں کی مجموعی عمر 22 اگست کے مطابق 389 سال اور 197 دن ہے۔ ان بہنوں میں 101 سالہ آرلووین جانسن، 99 سالہ مارسین جانسن، 96 سالہ ڈو...
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے پاکستان اورکالعدم تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) کے درمیان کابل میں دو دن قبل مذاکرات مکمل ہوگئے ہیں، ممکن ہے پاکستان اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کسی نتیجے پر پہنچ جائیں، مذاکرات ناکام ہوئے تو کسی کو افغان سرزمین پاکستان ...
پاکستان نے آئی سی سی کی تازہ ترین ون ڈے رینکنگ میں ایک درجہ مزید ترقی کرتے ہوئے آسٹریلیا سے تیسری پوزیشن چھین لی۔ گزشتہ روز سری لنکا نے دوسرے ایک روزہ میچ میں آسٹریلیا کو 26 رنز سے شکست دے کر 5 ایک روزہ میچوں کی سیریز ایک، ایک سے برابر کردی تھی، سری لنکا کے ہاتھوں شکست کے بعد آسٹ...
پاکستان نے چین سے دو ارب ڈالر کے قرض کی واپسی کی مدت میں ایک بار پھر توسیع کی درخواست کر دی۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں 4 ارب ڈالر کے چینی قرض اور کم از کم 3 ارب ڈالر کے آئی ایم ایف قرض کو شامل نہیں کیا، چین کے چار میں سے دو ارب ڈالر کے قرض کی واپسی ک...
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے عالمی برادری سے چین کو روکنے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد ہونے کی اپیل کی ہے۔ روس فوری خطرہ ہے لیکن چین سے عالمی نظام کو زیادہ سنگین خطرات لاحق ہیں۔ میڈیارپورٹس کے مطابق جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں تقریر کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلن...
چین نے کہا ہے کہ سپر پاورز خلا میں تسلط قائم نہ کرنے کا عہد کریں۔ چینی ریڈیو کے مطابق چین کے سفیر برائے تخفیف اسلحہ لی سونگ کی قیادت میں چینی وفد نے جنیوا میں اقوام متحدہ کے خلا کے لیے ذمہ دارانہ ضابطہ اخلاق کے اوپن ورکنگ گروپ کے اجلاس میں شرکت کی۔ سفیر لی سونگ نے خلا میں سلامتی ...
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ نے کہا کہ ملک میں سیکیورٹی تب آتی ہے جب ہر شہری ذمہ داری لیتا ہے، سیکیورٹی فوج نہیں عوام دیتی ہے، امریکا کے وزیر خارجہ کا بیان ہے کہ بھارت کو کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ ایک آزاد ملک ہے، توپھر ہم کیا ہیں؟ طاقتور ملک ہم پر غصہ ہو گیا جس نے کہا کہ آپ...
وزیراعظم عمران خان نے قوم سے خطاب میں مراسلے والے ملک کا ذکر کرتے ہوئے امریکا کا نام لے لیا۔وزیراعظم عمران خان نے قوم سے براہ راست خطاب کیا اور اس دوران انہوں نے خارجہ پالیسی پر بات کی۔وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں مراسلے والے ملک کا ذکر کرتے ہوئے امریکا کا نام لیا اور پھر غلطی کا ...
افغان طالبان نے ملک بھر کے تمام سرکاری دفاتر پر امارات اسلامیہ افغانستان کا سفید رنگ کا پرچم لہرانے کا حکم جاری کردیا۔میڈیارپورٹس کے مطابق سرکاری حکم نامے میں کہا گیا کہ افغانستان کے تین رنگوں والے پرچم کی جگہ امارات اسلامیہ افغانستان کا پرچم لہرایا جائے۔ یاد رہے کہ طالبان کے افغ...
یوکرینی حکومت نے شہریوں سے گوریلا جنگ کا آغاز کرنے کی اپیل کردی۔ غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق یوکرینی حکومت نے شہریوں سے گوریلا جنگ کا آغاز کرنے کی اپیل کر دی ۔یوکرینی صدر کے مشیر نے لوگوں کو کہا ہے کہ روس کے پچھلے دستے کمزور ہیں، اگر ہم ان کو بلاک کر دیں تو یہ جنگ جیت سکتے ہیں...