... loading ...
سب سے پہلے تو جناب رؤف پاریکھ سے معذرت۔ ان کے بارے میں یہ شائع ہوا تھا کہ ’’رشید حسن خان اور پاکستان میں جناب رؤف پاریکھ کا اصرار ہے کہ اردو میں آنے والے عربی الفاظ کا املا بدل دیا جائے۔‘‘ انہوں نے اس کی سختی سے تردید کی ہے اور کہا ہے کہ وہ خود رشید حسن خان سے متفق نہیں ہیں۔ چلیے، اس طرح ان سے فون پر گفتگو کا اعزاز حاصل ہوگیا۔ رؤف پاریکھ ایک علمی و ادبی شخصیت ہیں جن سے ہم نے بھی بہت کچھ سیکھا ہے۔
رشید حسن خان نے اردو کے لیے بہت کام کیا ہے، املا پر ان کی ایک وقیع کتاب ہے۔ لیکن ان کی ہر بات سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا، خاص طور پر املا کی تبدیلی سے۔ انہوں نے برسوں پہلے یہ مشورہ دیا تھا کہ عربی تراکیب کے استعمال سے پرہیز کیا جائے۔ وارث سرہندی نے 1982ء یعنی تقریباً 33 سال پہلے ہی اس کی گرفت کرتے ہوئے اس مشورے کو غلط بلکہ نقصان دہ قرار دیا تھا اور لکھا تھا کہ یہ مشورہ بھارت کے سیاسی پس منظر کے زیراثر ہوسکتا ہے جو کوئی مصلحت یا جواز رکھتا ہو، کیونکہ وہاں ایک سازش کے تحت اردو سے عربی الفاظ خارج کرکے ہندی اور سنسکرت الفاظ زیادہ سے زیادہ شامل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ گویا اردو میں ’’شدھی‘‘ کی تحریک چلائی جارہی ہے۔ وہاں تو اردو کے عربی رسم الخط کو بھی ختم کرکے دیوناگری رسم الخط کو رواج دینے کی کوشش زور شور سے ہورہی ہے، ہم ان ناپاک عزائم میں ساتھی کیوں بنیں۔ اردو کے جداگانہ تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے چاہیے تو یہ تھا کہ اردو میں ہندی اور سنسکرت الفاظ کے بے جا استعمال کے خلاف آواز اٹھائی جاتی، مگر سیاسی مرعوبیت کے زیراثر ہمیں الٹا یہ مشورہ دیا جارہا ہے کہ ہم اردو میں عربی تراکیب کے استعمال سے پرہیز کریں۔
رشید حسن خان کا تعلق تو بھارت سے تھا، لیکن ہم یہ کررہے ہیں کہ منظم طریقے سے رومن اردو کو بڑھاوا دے رہے ہیں، یعنی اردو انگریزی رسم الخط میں لکھی جارہی ہے۔ کیا یہ بھی اردوکے خلاف سازش نہیں ہے؟ موبائیل فون (ہاتف جوال) پر جو پیغامات اِدھر سے اُدھر ہوتے ہیں وہ عموماً انگریزی رسم الخط میں ہوتے ہیں۔ شاید مجبوری ہو کہ ہر ایک اپنے فون پر اردو ٹائپ نہیں کرسکتا، لیکن ملک بھر میں لگائے گئے اشتہارات، بینرز کو کیا کہیں گے جو رومن اردو میں ہوتے ہیں۔ یہ نہ انگریزی جاننے والوں کے مطلب کے ہیں اور نہ انگریزی سے نابلد اردو دانوں کے لیے قابلِ فہم۔ جو انگریزی پڑھ لیتے ہیں اُن کے لیے اشتہار انگریزی میں ہونا چاہیے، اور جو انگریزی سے واقف نہیں اُن کے لیے اردو میں ہونا چاہیے۔ لیکن یہ اشتہارات جانے کون سی مخلوق کے لیے ہیں مثلاً “EK CUP CHAI”۔ اب جسے انگریزی نہیں آتی وہ کیا خاک سمجھے گا! تو کیا یہ شعوری طور پر اردو سے دور لے جانے کی کوشش نہیں؟
جہاں تک ہندی اور سنسکرت کے الفاظ کا تعلق ہے تو یہ ہندی فلموں اور ڈراموں کے ذریعے بہت تیزی سے ہماری بول چال میں داخل ہورہے ہیں۔ لیکن ایسے بے شمار ہندی الفاظ جو اردو کا حصہ بن گئے ہیں ان کو نہیں نکالا جا سکتا۔ جن الفاظ میں دو چشمی ہ (ھ)، ڈ، ڑ،ٹ جیسے حروف ہیں وہ ہندی ہی سے آئے ہیں جیسے گھوڑا، گدھا، دھوبی، بھنگی وغیرہ…… یا ڈول، ڈبا، ٹوپی، پہاڑ وغیرہ۔ لیکن لغت میں ایسے سب الفاظ اردو کے قرار دیے گئے ہیں۔ ایک مزے کی بات یہ ہے کہ ہندی کو عربی فارسی الفاظ سے ’’پوتر‘‘ کرنے کے باوجود ایسا نہیں ہوسکا، البتہ تلفظ بگاڑ کر رکھ دیا مثلاً گجب (غضب)، گُسہ (غصہ) وغیرہ۔ ایک ستم یہ ہوا کہ ہندی میں ’پھ‘ کو ’ف‘ سے بدل دیا گیا اور پھول ’’فول‘‘، پھل ’’فَل‘‘، پھرتی ’’فُرتی‘‘ ہوگیا۔ اس پر بھارت کے کچھ ادیبوں، شاعروں نے بھی اعتراض کیا ہے، لیکن بھارت کی نئی ہندو نسل کا اپنا تلفظ بگڑ گیا ہے۔ پرانے لوگوں کا تلفظ بالکل صحیح تھا۔
عربی الفاظ کے سلسلے میں بہتر اور محفوظ طریقہ یہی ہے کہ عربی الفاظ اردو میں کسی تغیر و تبدل کے بغیر استعمال کیے جائیں۔ جو الفاظ پہلے ہی اردو میں اپنی اصلی صورت میں استعمال ہورہے ہیں، ان کو نہ چھیڑا جائے اور ان کی اصلی صورت برقرار رکھی جائے مثلاً ادنیٰ، اعلیٰ، اقصیٰ، بشریٰ، تعالیٰ، تقویٰ، دعویٰ جیسے الفاظ کے املا میں کوئی تصرف نہ کیا جائے۔ اگر حتیٰ، علیٰ، الیٰ کا اصل املا برقرار رکھا جاسکتا ہے تو باقی الفاظ کا کیا قصور ہے کہ خواہ مخواہ ان کی صورت مسخ کی جائے! وارث سرہندی کے مطابق جن الفاظ کے املا میں تصرف ہوہی چکا ہے ان کا بھی اصل املا بحال کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اصلی جھگڑ اعلیٰ اور ادنیٰ کا ہے۔ بچوں کا رسالہ نونہال ایک عرصے سے اعلا اور ادنا لکھ رہا ہے۔ اس رشید حسن خانی اختراع سے اور بھی لوگ متاثر ہورہے ہیں۔ کیا پتا کب موسیٰ اور عیسیٰ، موسا اور عیسا ہوجائیں۔ عربی الفاظ کی اصلی صورت برقرار رکھنے میں سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اوّل تو ہمیں عربی سیکھنے میں اس سے مدد ملے گی، دوم ان الفاظ کا ماخذ اور اشتقاق معلوم کرنے میں کوئی الجھن پیدا نہیں ہوگی۔ اگر عربی الفاظ کا املا رشید حسن خان کی تجویز کے مطابق تبدیل کردیا جائے تو اس سے دورنگی پیدا ہوگی کیونکہ ایک ہی لفظ کو ہم اردو میں ایک شکل میں دیکھیں گے اور عربی میں دوسری شکل میں۔ اس طرح ایک طرح کا ذہنی خلجان پیدا ہوگا کہ فلاں صاحب مدیر اعلیٰ ہیں یا مدیر اعلا۔
ہمارے لیے عربی اور فارسی زبانیں سیکھنا اس لیے آسان ہیں کہ ان کے بہت سے الفاظ اردو میں اصلی صورتوں اور حقیقی معانی میں استعمال ہوتے ہیں۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے غالب اکثریت عربی زبان سے مانوس ہے۔ جو مسلمان عربی نہیں سمجھتا وہ بھی کم از کم قرآن کریم ناظرہ ضرور پڑھتا ہے، اس لیے وہ عربی الفاظ کی شکل و صورت سے آشنا ہوتا ہے۔ اس لیے اردو میں عربی الفاظ کو ان کی اصل صورت میں لکھنا ہمارے لیے کوئی مشکل بات نہیں۔ اب نجانے رشید حسن خان اللہ تعالیٰ کیسے لکھتے ہوں گے؟ کیا اللہ تعالا؟
چلتے چلتے ایک لطیفہ…… گزشتہ دنوں پی ٹی وی کی ایک محترمہ خبر سنا رہی تھیں کہ ’’موٹرو۔ ہیکل ٹیکس……‘‘ محترمہ نے موٹر وہیکل کے دو ٹکڑے کردیے۔ حیرت ہے کہ اگر اردو کمزور ہے تو کم از کم انگریزی الفاظ سے تو واقفیت ہوتی۔ ان کا یہ ’’موٹرو۔ ہیکل‘‘ ہر نشریے میں دہرایا گیا، غالباً دوسرے اونگھ رہے تھے۔ اور یہ وہی پاکستان ٹیلی ویژن ہے جس پر کبھی تلفظ پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی، لیکن شاید اب کسی اور چیز پر توجہ ہے۔
اسلام آباد میں جا بیٹھنے والے عزیزم عبدالخالق بٹ بھی کچھ کچھ ماہر لسانیات ہوتے جارہے ہیں۔ زبان و بیان سے گہرا شغف ہے۔ ان کا ٹیلی فون آیا کہ آپ نے ’’املا‘‘ کو مذکر لکھا ہے، جبکہ یہ مونث ہے۔ حوالہ فیروزاللغات کا تھا۔ اس میں املا مونث ہی ہے۔ دریں اثنا حضرت مفتی منیب مدظلہ کا فیصلہ ب...
اردو میں املا سے بڑا مسئلہ تلفظ کا ہے۔ متعدد ٹی وی چینل کھُمبیوں کی طرح اگ آنے کے بعد یہ مسئلہ اور سنگین ہوگیا ہے۔ اینکرز اور خبریں پڑھنے والوں کی بات تو رہی ایک طرف، وہ جو ماہرین اور تجزیہ کار آتے ہیں اُن کا تلفظ بھی مغالطے میں ڈالنے والا ہوتا ہے۔ مغالطہ اس لیے کہ جو کچھ ٹی وی س...
ہم یہ بات کئی بار لکھ چکے ہیں کہ اخبارات املا بگاڑ رہے ہیں اور ہمارے تمام ٹی وی چینلز تلفظ بگاڑ رہے ہیں۔ ٹی وی چینلوں کا بگاڑ زیادہ سنگین ہے کیونکہ ان پر جو تلفظ پیش کیا جاتا ہے، نئی نسل اسی کو سند سمجھ لیتی ہے۔ بڑا سقم یہ ہے کہ ٹی وی پر جو دانشور، صحافی اور تجزیہ نگار آتے ہیں وہ...
علامہ اقبالؒ نے داغ دہلوی کے انتقال پر کہا تھا : گیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے ایم اے اردو کے ایک طالب علم نے اس پر حیرت کا اظہار کیا کہ داغ نے یہ وضاحت نہیں کی کہ کس کے شانے کی بات کی جارہی ہے جب کہ غالب نے صاف کہا تھاکہ: تیری زلفیں جس کے شانوں پر پریشاں ہو گ...
مجاہد بک اسٹال، کراچی کے راشد رحمانی نے لکھا ہے کہ آپ کو پڑھ کر ہم نے اپنی اردو درست کی ہے لیکن 11 اپریل کے اخبار میں مشتاق احمد خان کے کالم نقارہ کا عنوان ’’لمحہ فکریہ‘‘ ہے۔ ہے نا فکر کی بات! صحیح ’لمحہ فکریہ‘ ہے یا ’لمحہ فکر‘؟ عزیزم راشد رحمانی، جن لوگوں نے سید مودودیؒ کو ن...
پچھلے شمارے میں ہم دوسروں کی غلطی پکڑنے چلے اور یوں ہوا کہ علامہ کے مصرع میں ’’گر حسابم را‘‘ حسابم مرا ہوگیا۔ ہرچند کہ ہم نے تصحیح کردی تھی لیکن کچھ اختیار کمپوزر کا بھی ہے۔ کسی صاحب نے فیصل آباد سے شائع ہونے والا اخبار بھیجا ہے جس کا نام ہے ’’ لوہے قلم‘‘۔ دلچسپ نام ہے۔ کسی کا...
لاہور سے ایک بار پھر جناب محمد انور علوی نے عنایت نامہ بھیجا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’خط لکھتے وقت کوئی 25 سال پرانا پیڈ ہاتھ لگ گیا۔ خیال تھا کہ بھیجتے وقت ’’اوپر سے‘‘ سرنامہ کاٹ دوں گا مگر ایسا نہ ہوسکا۔ اگر خاکسار کے بس میں ہوتا تو آپ کی تجویز کے مطابق اردو میں نام بدلنے کی کوشش ...
’’زبان بگڑی سو بگڑی تھی‘‘…… کے عنوان سے جناب شفق ہاشمی نے اسلام آباد کے اُفق سے عنایت نامہ بھیجا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:’’دیرپائیں کے رفیق عزیز کا چار سالہ بچہ اپنے والد سے ملنے دفتر آیا تو لوگوں سے مل کر اسے حیرت ہوئی کہ یہ لوگ آخر بولتے کیوں نہیں ہیں۔ ایک حد تک وہ یقینا درست تھا کہ ی...
عدالتِ عظمیٰ کے منصفِ اعظم جناب انور ظہیر جمالی نے گزشتہ منگل کو ایوانِ بالا سے بڑی رواں اور شستہ اردو میں خطاب کرکے نہ صرف عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کی لاج رکھی بلکہ یہ بڑا ’’جمالی‘‘ خطاب تھا اور اُن حکمرانوں کے لیے آئینہ جو انگریزی کے بغیر لقمہ نہیں توڑتے۔ حالانکہ عدالتِ عظمیٰ کے ا...
عزیزم آفتاب اقبال، نامور شاعر ظفر اقبال کے ماہتاب ہیں۔ اردو سے خاص شغف ہے۔ ایک ٹی وی چینل پر زبان کی اصلاح کرتے رہتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ پروگرام مزاحیہ ہے، چنانچہ ان کی اصلاح بھی کبھی کبھی مزاح کے دائرے میں داخل ہوجاتی ہے۔ گزشتہ اتوار کو ان کا پروگرام دیکھا جس میں انہوں نے بڑا ...
اردو کے لیے مولوی عبدالحق مرحوم کی خدمات بے شمار ہیں۔ اسی لیے انہیں ’’باباے اردو‘‘کا خطاب ملا۔ زبان کے حوالے سے اُن کے قول ِ فیصل پر کسی اعتراض کی گنجائش نہیں۔ گنجائش اور رہائش کے بھی دو املا چل رہے ہیں، یعنی گنجایش، رہایش۔ وارث سرہندی کی علمی اردو لغت میں دونوں املا دے کر ابہام ...
چلیے، پہلے اپنے گریبان میں جھانکتے ہیں۔ سنڈے میگزین (4 تا 10 اکتوبر) میں صفحہ 6 پر ایک بڑا دلچسپ مضمون ہے لیکن اس میں زبان و بیان پر پوری توجہ نہیں دی گئی۔ مثلاً ’لٹھ‘ کو مونث لکھا گیا ہے۔ اگر لٹھ مونث ہے تو لاٹھی یقینا مذکر ہوگی۔ لٹھ کو مونث ہی بنانا تھا تو ’’لٹھیا‘ لکھ دیا ہوتا...