... loading ...
ہم نے سوچا آپ کو شریک مطالعہ کرلیں۔
ڈیفنس کراچی کے فیز آٹھ میں چھ ماہ پہلے تک ایک اتوار بازار لگا کرتا تھا، اب نہیں لگتا۔ بازار کا ٹھیکیدار بے ایمان تھا اور مجاز افسران عالی مقام سخت گیر، نازک مزاج۔ خالصتاً عسکری نقطۂ نگاہ رکھنے والے کہ If you are not with us , you are against us۔ (ہم اس کا شاعرانہ ترجمہ احمد فراز کے اس مصرعے سے کیے دیتے ہیں کہ ع جو ہم سے مل کے بچھڑ جائے وہ ہمارا نہیں) یہاں دور دراز سے لوگ آکر خریداری کرلیتے تھے۔ اس ہفتہ وار میلے کے تین بڑے فوائد تھے۔ اوّل تو بہت سے لوگوں کا مہنگائی کے اس دور پر آشوب میں ہفتے بھر کے لیے دال روٹی کا بندوبست ہوجاتا تھا۔ دوم یہ کہ فیملی کی تفریح کا اچھا سامان تھا۔ لوگ دور دراز سے آتے تھے سہ پہر تک وہاں گھوم پھر کر پٹھان دکانداروں کی جھڑکیاں سن کر سستا کھانا کھالیتے تھے۔ ان میں کچھ نوجوانان ملت ایسے بھی ہوتے تھے جو شام کو سمند رکی لہریں گن کر ڈوبتے سورج اور ہرجائی چاند کو دیکھ کر اس کا موازنہ اپنی رفیق حیات، یا غیر منکوحہ دوست، جسے مفتی عبدالقوی نے تو اب آن کر حلال قرار دیا ہے، کے حسن جہاں تاب سے کرتے۔ اسی وارفتگی اور بے اختیاری میں اس کو کبھی ایشوریا رائے تو کبھی سیلینا گومز سے ملاتے تھے (اس موازنہ پر فریب میں یہ فیڈرل بی ایریا اور لیاری کے دل پھینک عاشق قندیل بلوچ کو بھی شامل کرلیتے مگر وہ انگارہ بر زباں تب تک مُنی کی طرح بدنام نہیں ہوئی تھی۔ قندیل کا ارادہ تو پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے لیے جھنڈو بام بننے کا بھی تھا مگر ٹیم کی کارکردگی سے وہ اتنی مایوس ہوئی ہے کہ شکستہ دلی کی کیفیت میں رجوع الی اللہ کی خاطر وینا ملک اور مبشر لقمان سے مولانا طارق جمیل کا فون نمبر مانگ رہی تھی)۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ دکھ کی بات یہ ہے کہ افغانستان کی کرکٹ ٹیم کے پٹھان دیکھ کر کرکٹ سیکھ گئے مگر ہمارے نجم سیٹھی کی آنکھ کے تارے اور شہریار کے راج دلارے کھیل کر بھی کرکٹ نہ سیکھ پائے۔ آپ کی طرح ہم بھی دوسرے فائدے سے زیادہ ہی جڑ گئے۔ سوئم فائدہ یہ تھا کہ یہاں بہت سا ایسا سامان جسے کراچی کے بازاروں میں ڈھونڈنا آسان نہیں ہوتا وہ بآسانی یہاں مل جایا کرتا تھا۔ مثلاً ہمارے ایک دوست نے کوہ پیمائی کے پرانے مگر بے حد اعلیٰ کوالٹی کے سامان کی ایک پوری KIT کل چار ہزار روپے میں خریدی تھی۔ دوسرے وہاں پر وہ کتابیں اور رسالے جو وزن کے حساب سے دنیا بھر سے آتے تھے وہ سستے داموں مل جایا کرتے تھے۔ سنگاپور کی ایک لائبریری کی کئی کتب ایسی تھیں جو زراعت اور معاشیات کے حوالے سے پاکستان میں دستیاب نہ تھیں مگر ہمارے ایک کرم فرما نے اتوار بازار سے کوئی سو کے قریب ایسی کتابیں کل آٹھ ہزار روپے میں خریدیں اور انہیں پنجاب میں مختلف تعلیمی اداروں کو تحفتاً بھجوادیا۔
ڈیفنس اتھارٹی کے ایڈمنسٹریٹر صاحب اور کور کمانڈر صاحب جن کے بارے سنا ہے کہ وہ کتب بینی کے شوقین ہیں۔ ان کے کافی پرانے پیشرو جنرل طارق وسیم غازی سے تو ہماری ایک دفعہ ملاقات لیاری کے ایک ایسے گودام میں ہوئی تھی جو کراچی میں پرانی کتابوں اور رسائل کے لیے بہت عمدہ مگر بے حد گمنام مرکز تھا۔ وہیں ہم نے انہیں ایک ایسا مینوئل ڈھونڈ کر دیا جو Sniper Training کا بڑا جدید کورس تھا۔ وہ وہاں سے اپنے ایک اور شوق بونسائی کے بارے میں بہت کتابیں لیا کرتے تھے۔
کور کمانڈر صاحب اگر مناسب سمجھیں تو اس بازار کے نئے مقام پر دوبارہ انعقاد سے بالخصوص سمندر کے کنارے دو دریا کے سامنے ایسا بہت بڑا خالی علاقہ موجود ہے جہاں یہ اتوار بازار آسانی سے لگایا جاسکتا ہے۔ اس میں ایک حصہ Student Corner ہو تو کیا ہی اچھا ہو۔ اس میں ادارے بھی شریک ہوسکتے ہیں۔ بالخصوص کنسٹرکشن اور فوڈ انڈسٹری سے متعلق جو ڈیفنس میں بہت کثرت سے ہورہی ہے۔ اس میں ایک ماہ کے لیے وہ باقاعدہ طالب علم ہی سیلز مین ہوں جو غریب ہوں۔ پاکستان میں تعلیم یافتہ مڈل کلاس کی تشکیل ایک اہم مسئلہ ہے۔ شاید یہاں کے سیکھے ہوئے سبق یہ طالب علم اپنی تعلیم کی روشنی میں کامیاب زندگی میں ڈھال سکیں۔ ہندوستان کے علاقے بنگلور اور حیدرآباد کے شہر ایسے ہی Entrepreneur کی وجہ سے آج امریکہ کی Silicon Valley پر راج کررہے ہیں۔
سوچئے نا اس ڈیفنس بستی میں چائے خانے جو رات بھر آپ کا ناک میں دم کیے رہتے ہیں، ان کو کھولنے پر کوئی قدغن نہ ہو مگر ایسا میلہ جو بہ یک وقت تفریح، حلال روزگار اور ذہنی نشوونما کا مرکز ہو، اسے ٹھیکیدار کی بدنیتی کی وجہ سے جڑ سے ہی اکھاڑ دیں۔ یہ مناسب نہیں اتھارٹی کے لیے۔
ایک اتوار ہمیں اسی بازار سے خوشونت سنگھ کی چار پانچ کتابوں کا سیٹ مل گیا۔ چونکہ کتابیں دل چسپ اور آسان انگریزی زبان میں تھیں لہذا ہمارے ایک دوست جذباتی ہوکر لے گئے۔ کتاب، کرائے کا مکان اور قرضہ واپس مانگیں تو احباب ناراض ہوجاتے ہیں۔ انہیں مانگتے وقت آپ سائل کا رویہ دیکھا کریں اور لوٹانے کے مطالبے پر ان کی کمینگی کا مظاہرہ بھی، ایک مقام عبرت ہوتا ہے۔ اس کا شکار داغ دہلوی بھی ہوئے تھے جنہوں نے کہا تھا:
خوشونت سنگھ کی انہیں کتابوں میں ایک کتاب تھی جس کا نام تھا ’’اچھے بُرے اور مضحکہ خیز ‘‘” The Good, The Bad and The Ridiculous”۔ اس سے ہم نے کچھ نوٹس محفوظ کرلیے تھے۔ سو درد اب جا کے اٹھا چوٹ لگے دیر ہوئی کے مصداق سوچا اس میں بیان کردہ کچھ خاکوں سے لیے گئے اقتباسات آپ سے شیئر کرلیں۔ وہ تمام لوگ جو خوشونت سنگھ کے حلقۂ احباب میں نہیں رہے انہیں خوش ہونا چاہیے کہ وہ اس میں مذکور نہیں۔ انسانوں کو دیوتا بنانا شاید الیکٹرانک میڈیا نے ہندوستان سے سیکھا ہے۔ کامیاب افراد ہوں یا عمر رسیدہ یا وفات شدگان سب کی بے وجہ تکریم ہم نے اپنے آپ پر لازم کر رکھی ہے۔ جب کہ مغرب میں ایسے افراد جو پبلک لائف میں اس رعایت کے مستحق نہیں ٹہرتے۔ اگر ہمارے ہند وپاک والے معیار سے جانچا جائے تو پھر یزید، حسن بن سبا، مامون الرشید، ہلاکو، محمد شاہ رنگیلا سبھی لائق تعظیم ٹہرتے ہیں۔
خوشونت سنگھ اس لحاظ سے ان چند بے باک صحافیوں میں سے ایک ہیں جن کے ہاں کوئی بلا وجہ لائق تعظیم نہیں ٹہرتا، جو جیسا ہے اسے ویسا ہی بیان کرتے ہیں۔ ان کے انسان سچ مچ کے انسان دکھائی دیتے ہیں جعلی دیوتا نہیں۔ سوچیں ایسے شخص سے آپ سجدۂ تعظیم کی کیسے توقع کرسکتے ہیں جو اپنے والدین کی ایک رات کی جنسی رفاقت بھی اپنی جزئیات سمیت بیان کردے۔ یہ امر اس لیے بھی حیرت کا باعث ہے کہ یہ کتاب لکھنے کی فرمائش ان کی صاحبزادی نے کی تھی۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ چینی قوم کہتی ہے کہ مدھم ترین روشنائی بھی طاقتور ترین یادداشت پر بھاری پڑتی ہے۔
فیض احمد فیض سے خوشونت سنگھ کا تعلق دیرینہ تھا۔ گورنمنٹ کالج کے دنوں کا۔ ان کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ فیض صاحب کو سولہ سال کی عمر سے ہی پزیرائی ملنا شروع ہوگئی تھی۔ جب انہوں نے کسی مشاعرے میں یہ شعر پڑھا ع
اس شعر کو سنتے ہی سخن شناس لوگوں نے ان کے آئندہ کے تیور بھانپ لیے تھے۔ لاہور آن کر وہ اس حلقے میں نشست و برخاست کے حق دار ٹہرے جس میں امتیاز علی تاج، پطرس، صوفی تبسم اور ایم ڈی تاثیر جو سلمان تاثیر مرحوم کے والد اور فیض کے ہم زلف بھی بنے۔ فیض کی رنگت سیاہی مائل جس کی چمک پر تیل کی مالش کا شائبہ ہوتا تھا۔ قد پستہ، بہت ہی کم اور نرم گو اور غیر جذباتی طرز عمل کے مالک، وہ لیڈی کلر نہ تھے مگر اپنی شاعری کی وجہ سے نگاہ بن کر حسینوں کی انجمن میں رہتے تھے۔ وہ بہت انسان دوست تھے ہر قسم کے تعصب سے بلند و بالاتر۔ لیکن ان کی شخصیت ایک عجیب مجموعہ تضاد تھی۔ ایک جانے مانے کمیونسٹ ہونے کے باوجود انہیں سکون روساء اور امرا ء کے حلقۂ احباب میں محسوس ہوتا تھا۔ خدا کے وجود کو نہ ماننے کہ باوجود بھی ان سے زیادہ اللہ کا خوف رکھنے والا انسان کم ہی دیکھنے میں آتا تھا۔ صوفیا کے نزدیک اللہ کا خوف ہی دین کی اصل ہے اور اعمال کی درستگی کی ضمانت ہے۔ اپنی تخلیقات میں وہ معاشرے کے مفلوک الحال اور غربت اور افلاس کے ہاتھوں ستائے ہوئے افراد کا دکھ سمیٹے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ باوجود اس کے کہ ان کا اپنا طرز زندگی شاہانہ تھا۔ ایک دن میں ان کا سگار اور ولایتی شراب کا جو خرچہ تھا وہ ایک مزدور کے گھرانے کو مہینے بھر خوراک مہیا کرسکتا تھا۔
(جاری ہے)
اردو ادب کے معروف انقلابی شاعر فیض احمد فیض کو مداحوں سے بچھڑے 38 برس گزر گئے۔ فیض احمد فیض نے جہاں اپنی شاعری میں لوگوں کے حقوق کیلئے آواز اٹھائی وہیں ان کی غزلوں اور نظموں نے بھی عالمی شہرت حاصل کی۔ اپنی شاعری اور نثری تحریروں میں فیض احمد فیض نے مظلوم انسانوں کے حق میں آواز اٹ...
ملک بھر میں مہنگائی بڑھنے سے خریداروں کے ساتھ دُکاندار بھی پریشان ہوگئے ،ملک میں سستے بازار بھی سستے نہ رہے،ملک میں بڑھتی مہنگائی کے سبب دالیں، انڈے، گوشت اور سبزی سمیت تمام ہی اشیا کی قیمتوں کو پر لگ گئے،نئے سال کے آغاز پر حکومت کے پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ شہریوں کے لی...
سقوطِ ڈھاکہ پر لکھی گئیں۱۶دسمبر۱۹۷۱ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعدپھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعدکب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہارخون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعدتھے بہت بے درد لمحے ختم درد عشق کےتھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعددل تو چاہا پر شکست...
[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...
ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...
[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...
ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...
بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...
[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...
[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...
پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...
[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...