وجود

... loading ...

وجود

سندھ میں جیلوں کی قلت !

منگل 29 مارچ 2016 سندھ میں جیلوں کی قلت !

sukkur_jail_police_front-1419535365-952-640x480

اٹلی اور فرانس کی سرحد پر ایک چھوٹا سا ملک مناکو تھا۔ اِس ملک کا بادشاہ بھی تھا اور فوج بھی، وزیر بھی تھے اور مشیر بھی، تمام اخراجات وہاں قائم صرف جوا خانوں پر ٹیکس وصول کرکے پورے کئے جاتے تھے۔ اٹلی اور فرانس میں جوئے پر پابندی کے باعث وہاں کے شہری جوا کھیلنے مناکو جاتے تھے۔ مناکو کی معیشت کا تمام دار و مدار انہی کی ادا کردہ ٹیکس کی رقم پر تھا۔ وہاں کسی قسم کے لڑائی جھگڑے نہیں تھے، اس لئے صرف ایک پولیس اسٹیشن معہ لاک اپ بنایا گیا تھا۔ معمولات زندگی رواں دواں تھے کہ اچانک ایک دن دو افراد میں جھگڑا ہوا اور ایک قتل ہوگیا۔ معاملہ بادشا ہ تک پہنچا تو وہ غصے میں آگ بگولا ہوگیا اور فوری طور پر سر قلم کرنے کا حکم جاری کیا۔

اس وقت سندھ کی 25 چھوٹی بڑی جیلوں میں 20ہزار پچانوے قیدیوں کو ٹھونسا گیا ہے جبکہ ان جیلوں میں صرف 12ہزار 245 قیدیوں کی گنجائش ہے۔

حکم کی تعمیل میں ایک رکاوٹ آگئی کہ مناکو حکومت کے پاس سر قلم کرنے والی مشین اور تجربہ کار جلاد نہیں تھا۔ پہلے اٹلی کی حکومت سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اس کام کا معاوضہ بیس ہزار فرانک طلب کیا۔ رقم بڑی تھی، وزرا نے سرجوڑ لئے، حساب کتاب لگایا تو یہ ان کی حکومت کے ایک سال کا کل خرچہ تھا۔ فرانس سے رابطہ ہوا تو انہوں نے بھی پندرہ ہزار فرانک مانگے لیکن اتنی ادائیگی کا مطلب مناکو کو دیوالیہ کرنا تھا۔ ایک چالاک وزیر نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ مجرم کی سزا عمر قید میں تبدیل کردیں، اس سے آپ کی رحم دلی بھی ثابت ہوگی اور خرچہ بھی بچے گا۔ ایسا ہی ہوا لیکن مناکو حکومت کے پاس کوئی جیل نہیں تھی۔ دستیاب لاک اپ کے باہر ہی ایک پولیس اہلکار تعینات کردیا گیا، وہی اس قاتل کو کھانا پہنچاتا اور حفاظت بھی کرتا۔ ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے کہ وزرا نے پھر حساب لگایا کہ قیدی کی صحت روز بروز اچھی ہوتی جا رہی ہے اور ابھی یہ بیس سے پچیس سال مزید زندہ رہ سکتا ہے اور اس پر خرچہ جاری رہے گا۔ سکیورٹی پر تعینات پولیس اہلکار ہٹا لیاگیا۔ اب وہ قیدی خود کھانا لینے جاتا اور پھرلاک اپ میں آجاتا۔ بادشاہ کو بتایا گیا کہ قیدی کو موقع بھی دیا گیا ہے لیکن وہ فرار نہیں ہو رہا۔ بادشاہ نے قیدی کو بلایا اور دوہزار فرانک دے کر رہا کردیا کہ وہ کہیں دور چلا جائے اورکوئی کاروبار کرلے۔

یہ قصہ نیدرلینڈ کی جیلوں کی ایک خبر پڑھ کر یاد آیا۔ یورپی ملک نیدر لینڈ میں 2013 میں 19جیلوں کو اس لیے بند کیا گیا کہ ملک میں اتنے مجرم ہی نہیں تھے جن سے انہیں بھرا جاسکتا۔ اب موسم گرما کے اختتام تک مزید پانچ جیلوں کو اسی وجہ سے بند کیا جا رہا ہے۔ ڈچ روزنامے ٹیلیگراف کی ایک رپورٹ کے مطابق جیلوں کو بند کرنے کا رجحان 2004 کے بعد سے جرائم کی شرح میں نمایاں کمی کے بعد سامنے آیا۔ جیلوں میں خالی کمروں کا مسئلہ گزشتہ سال ستمبر میں اتنا بڑا ہوگیا کہ نیدر لینڈ کو ناروے سے 240 قیدی درآمد کرنا پڑے تاکہ یہ جگہیں کچھ تو بھر سکیں۔ نیدرلینڈکے وزیر انصاف آر ڈوینڈر اسٹیوار نے پارلیمنٹ میں اعلان کیا تھا کہ خالی جیلوں کی دیکھ بھال کے اخراجات اس چھوٹے ملک کے لیے بھاری ثابت ہو رہے ہیں۔ نیدر لینڈ نے جرائم پر قابو پانے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں، جن میں سزا کے مقابلے میں ملزمان کی شخصیت میں تبدیلی لانے پر توجہ اور پیروں میں الیکٹرانک مانیٹرنگ سسٹم کی تنصیب بھی ہے جس سے جرائم کی شرح میں 50 فیصد تک کمی آئی اور نیدرلینڈ میں سزا پانے والے مجرموں کو جیلوں میں وقت ضائع کرنے کی بجائے معاشرے کو بہتر بنانے کا موقع دیا جاتا ہے۔ نیدرلینڈ کی آبادی ایک کروڑ 70 لاکھ ہے اور وہاں صرف 11 ہزار سے زائد افراد ہی جیلوں میں قید ہیں۔ یہ شرح ایک لاکھ میں 69 قیدی بنتی ہے۔ اس کے مقابلے میں امریکا میں یہ شرح ایک لاکھ پر 716 ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔

نیلسن مینڈیلا نے کہا تھا کہ’’ہمارے ملک‘‘ میں لیڈر پہلے جیل جاتے ہیں اور پھر صدر بن جاتے ہیں۔ پاکستان کی صورت حال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں، یہاں بھی جیل جانے والے صدر مملکت بن چکے ہیں، لیکن نہ ملک کے حالات بدلے اور نہ جیلوں کے حالات میں تبدیلی آئی۔ سندھ کی جیلوں کی بات کریں تویہاں جرائم اور کرپشن جتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے جیلیں کم پڑتی جا رہی ہیں۔ اب تو جیلوں میں توسیع اور نئی جیلوں کے قیام کا مطالبہ بھی بڑھ رہا ہے ۔ کراچی آپریشن کی کامیابی کا ایک ثبوت سندھ حکومت کا وفاق سے یہ مطالبہ ہے کہ سندھ میں چھ نئی جیلوں کی تعمیر کے لئے فنڈز دیے جائیں۔ وفاق سے فنڈز مانگنا اوربلدیات کے فنڈز روکنا سندھ حکومت کی پرانی عادت ہے۔ سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ سندھ کی جیلوں میں قیدیوں کا دباؤ بڑھ رہا ہے، اس لئے سندھ کے چھ ڈویژنوں میں موجود جیلوں کی توسیع کے لئے فنڈز دیے جائیں۔ اس وقت سندھ کی 25 چھوٹی بڑی جیلوں میں 20ہزار پچانوے قیدیوں کو ٹھونسا گیا ہے جبکہ ان جیلوں میں صرف 12ہزار 245 قیدیوں کی گنجائش ہے۔ سندھ حکومت کی جانب سے وفاق سے نئی جیلوں کی تعمیر اور توسیع کے لئے فنڈز کا مطالبہ انوکھا نہیں ہے۔ کراچی میں ہر صوبے کے جرائم پیشہ افراد دندناتے پھر رہے ہیں اور انہوں نے کچی آبادیوں میں اپنی کمین گاہیں بنا رکھی ہیں۔ وہ اکثر انہی کچی آبادیوں میں گم ہوجاتے ہیں اور پھر آسانی سے پکڑ میں نہیں آتے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں میں فنڈز کی جو ریل پیل ہوئی ہے اس کے بعد وفاق کا دروازہ کھٹکھٹانا اور وفاقی وسائل سے جیلیں وسیع کرنا کوئی منفرد بات نہیں۔ سندھ حکومت کا حق بنتا ہے کہ وہ جیلوں کی توسیع کے لئے وفاق سے فنڈز مانگے، بلکہ اگر قانون اور آئین اجازت دے توآئی ایم ایف سے بھی مالی مدد لے کرنئی جیلیں بنائی سکتی ہیں۔ سندھ حکومت نیدر لینڈ کی حکومت سے بات کرکے وہاں کی خالی جیلیں بھی کرائے پر لے سکتی ہے۔ حال ہی میں ناروے کی جیلوں کو دنیا کی نمبر ون جیلیں قرار دیا گیا ہے۔ وہاں کے قیدی جیل سے باہر آنے کو تیار نہیں ہوتے۔ ہماری جیلوں میں بھی ایسا ہوچکا ہے جب معروف سماجی رہنما عبدالستار ایدھی نے صدقے کے بکرے جیلوں میں بھجوائے تو مٹن کھانے والے قیدی آپس میں لڑ جھگڑ کر اپنا ریکارڈ خراب کرنے لگے تاکہ سزا میں کمی کا آپشن ختم ہوجائے۔ یہاں تو مڈل کلاس طبقہ بھی بکرے کا گوشت نہیں کھا سکتا، جیل میں ایسی نعمت کون ٹھکرائے گا۔

کراچی کی سینٹرل جیل کبھی شہر سے باہر تھی، شہر ایسا پھیلا کہ جیل کو چھوتا ہوا بہت آگے تک نکل گیا۔ اب یہ جیل شہر کے لئے ایک دھبہ بن گئی ہے اور اسے ایک بار پھر شہر سے باہر نکالا جانا ناگزیر ہو چکا ہے۔ اس کے اطراف کے علاقے بھی جیل بنتے جا رہے ہیں کیونکہ جب سے موبائل جیمرز لگائے گئے ہیں، ان کی وجہ سے حیدرآباد کالونی غوثیہ کالونی اور نیوٹاؤن سمیت اطراف کے علاقے ’’غیراعلانیہ‘‘ جیل میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ کئی اہل نظر کا یہ کہنا ہے کہ سنٹرل جیل کو مسمار کرکے یہاں میوزیم یا تھیم پارک بنادیا جائے، لیکن چونکہ مطالبہ کرنے والوں نے پلاٹ بناکربیچنے کی تجویز نہیں دی اس لئے عوامی مفاد کے اس مطالبے پر کسی نے توجہ دینا بھی گوارا نہیں سمجھا۔

سندھ کی جیلوں کو پاکستان میں بہت تاریخی اہمیت حاصل ہے۔ ان جیلوں میں سابق صدر آصف زرداری سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اورموجودہ وزیر اعظم میاں نوازشریف بھی رہ چکے ہیں۔ تحریک پاکستان کے دنوں میں بھی سندھ کی جیلوں میں’’شمع آزادی ‘‘کے پروانوں نے قیام فرمایا۔ سندھ کی جیلیں عالمی معیارکی نہیں ہیں لیکن ان جیلوں نے اپنا بھرپورکردار ادا کیا ہے، اس لئے وفاق کی ذمہ داری ہے کہ وہ سندھ میں جیلوں کا جال بچھانے کے لئے اپنا بھرپورکردار بھی ادا کرے۔

ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں انگریزوں کے دور کی جیل کو توڑنے کا حکومتی فیصلہ ہوا۔ ابھی ایک آدھ دیوار ہی گرائی گئی تھی کہ اخبارات میدان میں آگئے اور کہا کہ ’’اس تاریخی عمارت‘‘ کو کوئی نہیں گرا سکتا، یہ ہمارا قومی اثاثہ ہے چونکہ کوالالمپورکے اخبارات ٹینڈر نوٹس کے سامنے’’سجدہ ریز ‘‘نہیں ہوتے اس لئے حکومت سے اپنی بات منوانے میں کامیاب ہوگئے اور آج اس جیل کو میوزیم کا درجہ دے کرسیاحوں کے لئے وقف کردیا گیا ہے۔


متعلقہ خبریں


ایم کیو ایم اور مائنس پلس کا کھیل؟؟ الیاس شاکر - جمعه 02 ستمبر 2016

ایم کیو ایم کی حالت اِس وقت ایسی ہے جو سونامی کے بعد کسی تباہ شدہ شہر کی ہوتی ہے... نہ نقصان کا تخمینہ ہے نہ ہی تعمیر نو کی لاگت کا کوئی اندازہ ...چاروں طرف ملبہ اور تصاویر بکھری پڑی ہیں۔ ایم کیو ایم میں ابھی تک قرار نہیں آیا... ہلچل نہیں تھمی... اور وہ ٹوٹ ٹوٹ کر ٹوٹ ہی رہی ہے۔ ...

ایم کیو ایم اور مائنس پلس کا کھیل؟؟

فاروق ستار کی دوستانہ بغاوت۔۔۔؟ الیاس شاکر - جمعه 26 اگست 2016

کراچی میں دو دن میں اتنی بڑی تبدیلیاں آگئیں کہ پوراشہر ہی نہیں بلکہ ملک بھی کنفیوژن کا شکار ہوگیا۔ پاکستان کے خلاف نعرے لگے، میڈیا ہاؤسز پر حملے ہوئے، مار دھاڑ کے مناظر دیکھے گئے، جلاؤ گھیراؤنظر آیا اور بالآخر ایم کیو ایم کے اندر ایک بغاوت شروع ہوگئی۔ فاروق ستار نے بغیر کسی مزاحم...

فاروق ستار کی دوستانہ بغاوت۔۔۔؟

وزیر اعظم صاحب !!کراچی کا کیا قصورہے؟؟ الیاس شاکر - بدھ 24 اگست 2016

وزیراعظم صاحب نے ایک بار پھر یاد دلادیا کہ کراچی لاوارث یتیم لاچاراوربے بس شہر ہے...کراچی کے مختصر ترین دورے کے دوران نواز شریف صاحب نے نہ ایدھی ہاؤس جانے کی زحمت گوارا کی نہ امجد صابری کے لواحقین کودلاسہ دیا۔ جس لٹل ماسٹر حنیف محمد کو پوری دنیا نے سراہا ،نواز شریف ان کے گھر بھی ...

وزیر اعظم صاحب !!کراچی کا کیا قصورہے؟؟

کراچی کی بارش اور سندھ حکومت الیاس شاکر - جمعه 12 اگست 2016

ماضی کا ایک مشہور لطیفہ ہے۔ ایک افغان اور پاکستانی بحث کر رہے تھے۔ پاکستانی نے افغان شہری سے کہا: ’’تم لوگوں ‘‘کے پاس ٹرین نہیں تو ریلوے کی وزارت کیوں رکھی ہوئی ہے؟ افغان نے جواب دیا: ''تم لوگوں کے پاس بھی تو تعلیم نہیں پھر تمہارے ملک میں اس کی وزارت کا کیا کام ہے۔ کراچی اور ح...

کراچی کی بارش اور سندھ حکومت

سندھ تقسیم ہوگیا۔۔۔!! الیاس شاکر - پیر 08 اگست 2016

نئے وزیر اعلیٰ مرادعلی شاہ کے تقرر سے سندھ عملی طور پردو حصوں میں تقسیم ہوگیا ہے۔۔۔۔۔سندھ میں ’’خالص سندھی حکومت‘‘قائم ہوچکی ہے۔۔۔۔۔پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے 1972ء کے لسانی فسادات کے بعد یہ تسلیم کیا تھا کہ سندھ دو لسانی صوبہ ہے اور سندھ میں آئندہ اقتدار کی تقسیم ا...

سندھ تقسیم ہوگیا۔۔۔!!

نئے وزیراعلیٰ کی ضرورت کیوں؟ الیاس شاکر - پیر 01 اگست 2016

سندھ حکومت کو مشورہ دیا گیا کہ وزیرداخلہ کو فارغ کردو، اس پر فلاں فلاں الزام ہے۔ الزامات کا تذکرہ اخبارات میں بھی ہوا۔ لاڑکانہ میں رینجرز نے وزیر داخلہ کے گھر کے باہر ناکے بھی لگائے، ان کے فرنٹ مین کو قابو بھی کیاگیا، لیکن رینجرزکی کم نفری کا فائدہ اٹھاکر، عوام کی مدد سے، سندھ...

نئے وزیراعلیٰ کی ضرورت کیوں؟

رینجرز کے اختیارات اور شرائط الیاس شاکر - جمعرات 28 جولائی 2016

پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے خورشید شاہ نے ایک عجیب و غریب اور ناقابل یقین بیان دیا کہ سندھ میں امن پولیس نے قائم کیا ہے اور باقی کسی ادارے کا اس میں کوئی کردار نہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ رینجرز کو اختیارات ضرور دیں گے مگر قانون اور قواعد کی پابندی کرتے ہوئے، انہوں نے رینجرز ...

رینجرز کے اختیارات اور شرائط

کراچی آپریشن اوراسلام آباد کی حکمت عملی!! الیاس شاکر - پیر 18 جولائی 2016

عید گزر گئی ۔۔۔۔۔کہا جارہا تھا کہ ’’کراچی آپریشن‘‘کی رفتار ’’بلٹ ٹرین‘‘کی طرح تیز ہوجائے گی ۔۔۔۔۔دہشت گردوں کا گھر تک پیچھا کرکے انہیں نیست و نابود کردیا جائے گا لیکن ایسا ’’گرجدارآپریشن ‘‘فی الحال ہوتا نظر نہیں آرہا۔۔۔۔۔ پھر یہ بھی کہا گیا کہ وفاق میں ’’سیاسی آپریشن‘‘ہوگا۔۔۔۔۔ ا...

کراچی آپریشن اوراسلام آباد کی حکمت عملی!!

غریبوں کا جرنیل....ایدھی!! الیاس شاکر - بدھ 13 جولائی 2016

عبدالستارایدھی کی وفات نے کراچی میں خوف کی فضا طاری کردی ۔ غم کے بادل چھا گئے ہیں ۔پورا شہر ہکا بکا ہے کہ اس شخص کا سوگ کیسے منائیں جو اپنا نہیں تھا لیکن اپنوں سے بڑھ کر تھا ۔ اس کی موجودگی سے ایک آسرا تھا، ایک امید بندھی ہوئی تھی۔عبدالستار ایدھی ایک شخص کا نام نہیں، کراچی میں اس...

غریبوں کا جرنیل....ایدھی!!

تھوڑی بارش‘ تباہی زیادہ… یہ ہے کراچی!! الیاس شاکر - هفته 02 جولائی 2016

کراچی میں دو دن بارش کیا ہوئی‘ سندھ حکومت کی کارکردگی ’’دھل‘‘ کر سامنے آگئی۔ برسوں سے بارش کو ترسے کراچی والے خوش تھے کہ بارش ہو گئی... شہر چمک جائے گا... آئینہ بن جائے گا‘ لیکن افسوس صد افسوس! عوام کے ارمان خاک میں مل گئے۔ بارش میں نہانے کے خواب... سیر و تفریح کے منصوبے... شاپنگ...

تھوڑی بارش‘ تباہی زیادہ… یہ ہے کراچی!!

امجد صابری کاقتل کراچی کے امن کا امتحان!! الیاس شاکر - پیر 27 جون 2016

کبھی حکیم محمد سعید تو کبھی مولانا یوسف لدھیانوی، کبھی مفتی نظام الدین شامزئی تو کبھی علامہ حسن ترابی، کبھی چوہدری اسلم تو کبھی سبین محمود،کبھی پروین رحمن تو کبھی پروفیسر شکیل اوج، کبھی ولی خان بابر تو کبھی پروفیسر یاسر رضوی ،اور اب امجد فرید صابری کراچی کی سڑکوں پر رقص کرتی موت ...

امجد صابری کاقتل کراچی کے امن کا امتحان!!

کراچی کے منہ میں 10ارب روپے کا زیرہ۔۔۔۔!! الیاس شاکر - اتوار 19 جون 2016

لاوارث یتیم لاچار بے بس اور احساس محرومی کے شکار شہرکراچی کو ایک اور ''جھٹکادے دیا گیا۔سندھ کابجٹ تو آیا لیکن سرکاری ملازمین اور پینشنرز کے علاوہ اس میں کسی کے لئے کوئی اچھی خبر نہیں تھی۔۔۔نہ کوئی ترقی اور نہ ہی ترقیاتی بجٹ۔کراچی کے ساتھ سوتیلا سلوک ایک نئی توانائی کے ساتھ نہ صرف...

کراچی کے منہ میں 10ارب روپے کا زیرہ۔۔۔۔!!

مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر