... loading ...
سعودی عرب میں ہونے والی ’’رعد الشمال‘‘ نامی جنگی مشقوں کے بعد اب وطن عزیز میں اس قسم کی خبریں گردش کررہی ہیں کہ سعودی عرب نے نیٹو کی طرز پر ’’مسلم نیٹو‘‘ کے قیام کی تجویز دی ہے اور جنرل راحیل شریف کو ریٹائرمنٹ کے بعد اس مسلم اتحاد میں اہم ذمہ داریاں سونپنے کے عزم کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے سرکاری سطح پر تاحال کوئی ٹھوس بیان سامنے نہیں آیا لیکن اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان اپنے جوہری اثاثوں اور اعلی عسکری تربیت یافتہ فوج رکھنے کی وجہ سے پوری مسلم دنیا میں ایک اہم مقام کا حامل ہے۔عالمی قوتوں نے جان بوجھ کر مشرق وسطی کے حالات کو جس نہج تک پہنچا دیا ہے اس میں صاف نظر آرہا ہے کہ مستقبل قریب میں بھی یہ مسئلہ آسانی سے حل نہیں ہوگا۔جنگی صورتحال کی شکل میں اس وقت سعودی عرب کے گرد واقع تمام خطے میں گویا آگ لگ چکی ہے۔ روس عملاً اس وقت شام میں عسکری کارروائیاں کررہا ہے۔ داعش کے نام سے خطے میں بین الاقوامی مداخلت کا راستہ پہلے ہی ہموار کیا جاچکا ہے جبکہ افغانستان اور پاکستان کسی طور بھی ان حالات سے اپنا دامن نہیں چھڑا سکتے۔
دوسری جانب جبوتی میں چین نے افریقا میں اپنے سب سے بڑے بحری اڈے کوقائم کردیا ہے۔ ایک طرف گوادر اور دوسری جانب مشرق وسطی سے ورے جبوتی میں چینی بحری قوت کی موجودگی امریکااور اس کے علاقائی حواریوں کو آسانی سے ہضم نہیں ہوگی۔دوسری بات جو سب سے اہم ہے وہ پاکستان میں پاک چین راہداری کے کام کو مکمل کرانا ہے اگر یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچ گیا تو پاکستان پر گویا کہ معاشی ترقی کی وجہ سے ہن برسے گا اس لئے اس کے راستے میں آنے والی معاشی اور عسکری دہشت گردی کا خاتمہ انتہائی ضروری ہے اور اسی تناظر میں کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی بقا اور ترقی کے لئے آپریشن ضرب عضب کی کامیابی انتہائی ضروری ہوچکی ہے۔
جبکہ دوسری جانب صورتحال ایسی محسوس ہوتی ہے کہ غازی ممتاز قادری کی سزائے موت پر عملدرآمد کرکے نون لیگ نے اپنے سیاسی تابوت میں کیل ٹھونک دی ہے۔ سابق آمر مشرف نے بھی لال مسجد کا آپریشن اس ترنگ میں آکر کیا تھا کہ امریکا اور یورپ اسے سر آنکھوں پر بٹھا لیں گے اور اس طرح امریکا بہادر کی آنکھوں کا تارا بن جانے سے اسے مزید حکومت کرنے کا لائسنس جاری ہوجائے گا لیکن بعد کے حالات بتاتے ہیں کہ سب کچھ الٹ ہوگیا۔لال مسجد کے معاملات کچھ بھی تھے لیکن وہاں مثبت انداز میں مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا حل نکالا جاسکتا تھا اور اس وقت کی حکمران قاف لیگ کی لیڈرشپ نے اس حوالے سے بہت کوششیں بھی کی اس کے بعد بھی اگر معاملات قابو سے باہر ہوتے تو فوج کو استعمال کرنے کی بجائے پولیس فورس سے بھی کام لیا جاسکتا تھا، لیکن ایسا کرنے سے مشرف کا مغرب کے سامنے ہیرو بننے کا خواب ادھورا رہ جاتا۔ لیکن یہ اقدام مشرف کے ساتھ ساتھ قاف لیگ کو بھی لے بیٹھا تھا۔
اب مشرف لیگ کی اسی روش پرنون لیگ اندھا دھند دوڑے جارہی ہے اور یوں اس سیاسی جماعت کے سیاسی اونٹ کی اس قدر کلیں سامنے آچکی ہیں کہ اندازہ لگانا مشکل ہوچکا ہے کہ نواز لیگ کواب دائیں بازو کی جماعت کہا جائے یا بائیں بازوکی۔۔۔ بنیادی طور پر دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح نون لیگ میں بھی بدترین سیاسی آمریت پائی جاتی ہے بلکہ اب اسے ون مین شو کہا جاسکتا ہے۔ دوسری جانب میاں نواز شریف صاحب کے گرد پاکستان میں بھارت نواز لابی کا مضبوط حصار قائم ہے ، میاں صاحب کو خود بھی مغرب کے سامنے لبرل ثابت کرنے کا جنون سوار ہوچکا ہے اس مقصد کے لئے وہ کیا کیا سیاسی گل کھلاتے ہیں اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
یہ سب کچھ اس وقت ہونے جارہا ہے جب افغانستان میں عالمی قوتیں اہم فیصلے کررہی ہیں ، بھارت اسرائیل کے ساتھ انتہائی قریبی اسٹریٹیجک تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لئے اسے اپنے لانگ رینج میزائل منصوبے سے منسلک کرچکا ہے۔ دوسری جانب اسرائیل اور امریکا شام میں جنگ کو طول دینے کی منصوبہ بندی کر چکے ہیں جبکہ براعظم افریقہ مغربی استعماری کارروائیوں کا اگلا بڑا ہدف قرار پایا ہے مالی میں یورپ کی مشترکہ افواج کی یلغار اس سلسلے کی ابتدائی کڑی ہے۔اس ساری صورتحال میں بنیادی کھلاڑی اسرائیل ہے جس نے ایک طرف امریکا اور یورپ کے ذریعے افغانستان میں بھارت کو بڑا کردار دلوانے میں اہم کردار ادا کیا تھاتو دوسری جانب وہ شام میں مشرق وسطی کی جہادی قوتوں کا زور شام کی سرکاری افواج کے ذریعے توڑنا چاہتا ہے تاکہ اس کے بعد اسد حکومت کو چلتا کرکے یہاں پر ایسی کمزور حکومت کو لایا جائے جو خطے میں اسرائیل کے آئندہ توسیع پسندانہ منصوبوں میں رکاوٹ نہ بن سکے۔ جہاں تک روس کی جانب سے اسد حکومت کی حمایت کا تعلق ہے تو اس غلط فہمی کا ازالہ ہوجانا چاہئے کہ روس کو اسد حکومت سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے بلکہ وہ بحیرہ روم کی جانب شام کی طرطوس کی بندرگاہ کو کسی صورت کھونا نہیں چاہتا کیونکہ اگر ایسا ممکن ہوگیا تو روس کو یورپ کی جانب بحری رسائی حاصل نہیں ہوسکے گی اور اس کا بحری اقتدار صرف بحیرہ بالٹک تک محدود ہوکر رہ جائے گاجہاں سے امریکا نیٹو کی مدد سے اسے باہر نہیں نکلنے دے گا۔ دوسری جانب چین اور روس شام کے علاوہ افریقی ممالک میں اس قدر بھاری سرمایہ کاری کرچکے ہیں کہ وہاں سے نکلنا نہ صرف عسکری طور پر بلکہ اقتصادی طورپر بھی ان کے لئے ہلاکت خیز ہوگا۔ اس سارے منظر نامے میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ امریکا، اسرائیل اور یورپ نے شام میں برسرپیکار اسلامی قوتوں کو روس سے باقاعدہ بات چیت کرنے کا موقع ہی فراہم نہیں کیا کیونکہ اگر شام کی ’’جیش الحر‘‘ کے نمائندے روس کو اس کے عسکری اور اقتصادی مفادات کے تحفظ کا یقین دلا دیتے ہیں تو روس کوئی وقت ضائع کئے بغیر ہی بشار الاسد کو اقتدار چھوڑنے کا مشورہ دے سکتا ہے یہ وہ صورتحال ہے جس کو روکنے کے لئے امریکا اور یورپ ترکی کے ذریعے شامی اسلامی گروپوں کو اپنے ساتھ بات چیت میں الجھا کر رکھنا چاہتے ہیں ۔ روسی اس بات سے بھی باخبر ہیں کہ مقاصد کی بارآوری کے لئے جس وقت امریکا اور اسرائیل کے منصوبے کے مطابق دمشق میں ایک کمزور حکومت تشکیل دے دی جائے گی تو اس وقت کردستان کا مسئلہ اٹھاکر آزادی کی ایک تحریک کا آغاز کروایا جائے گاجسے مغرب کے صیہونی کارپوریٹیڈ میڈیا کی بھرپور حمایت حاصل ہوگی۔ کردستان خطے کے چار ملکوں کے درمیان تقسیم ہے جن میں شام، ایران، عراق اور ترکی شامل ہیں۔ سب سے بڑا حصہ عراق کے پاس ہے جو شمالی عراق کہلاتا ہے اس کے بعد ایران شام اور پھر ترکی کا نمبر آتا ہے۔ ترکی کے ساتھ منسلک کردستان میں پہلے ہی مزاحمت کی تحریک شروع کی جاچکی ہے۔ عراقی کردستان پہلے ہی پکے ہوئے پھل کی طرح ’’آزادی‘‘ کی گود میں گرنے کے لئے تیار بیٹھا ہے ۔ ایرانی کردستان کو ایرانیوں سے حاصل کرنا اس وقت مشکل نہیں رہے گا جب بین الاقوامی دباؤ کے تحت تین ممالک کردوں کی آزادی کے لئے راضی ہوچکے ہوں گے۔خطے کے دیگر عرب ممالک اس لئے کردستان کی آزاد ریاست کے قیام کے لئے راضی ہوں گے کہ اس طرح شمالی عراق اور شام میں داعش سے جان چھوٹ جائے گی۔ ایسا محض اس لئے کیا جارہا ہے تاکہ امریکا اور اسرائیل نے روس کو اس کی سرحدوں تک محدود رکھنے کے لئے جارجیا میں جو منصوبہ بنایا تھا اسے اب وہاں ناکامی کے بعد کردستان میں پورا کیا جاسکے ۔ امریکا اور اسرائیل یورپ کی حمایت سے کردستان میں ’’میزائل شیلڈ‘‘ کو بروئے کار لانا چاہتے ہیں تاکہ جس وقت اسرائیل اپنے دجالی صیہونی منصوبے کے تحت مشرق وسطی میں طاقت اور توانائی کے ذخائر پر ہاتھ صاف کرے تو روس کی جانب سے کسی قسم کی عسکری مزاحمت کو روکا جاسکے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ داعش کو شمالی شام اور عراق میں ابھارنے کا مقصد ہی یہ تھا کہ مستقبل قریب میں عرب ممالک کے پاس کردستان کی ریاست کی حمایت کے سوا کوئی اور آپشن باقی نہ رہے۔
اس وقت مشرقی بحیرہ روم میں ایک طیارہ بردار سمیت روس کے اٹھارہ بحری جنگی جہاز موجود ہیں جن پر 2000سے زائد روسی میرین فوجی تعینات ہیں۔ دوسری جانب اسرائیلی فوجیں اس وقت گولان کے علاقے میں اسرائیلی سرحد کے قریب جنگی پوزیشن میں نقل وحرکت کررہی ہیں دوسری جانب لبنان اور اردن نے اپنی فوجوں کو دریائے اردن کے کنارے پر متحرک کردیا ہے جبکہ ترک فوجوں کو بھی شامی سرحد کے قریب ہائی الرٹ کردیا گیا ہے ۔دوسری جانب امریکانے اپنی فضائیہ کے دو یونٹ جنوبی ترکی کے فضائی اڈے انجرلیک پہنچا ئے تھے۔ اردن کی’’ مفرق ائیر فیلڈ‘‘ میں بھی امریکی خصوصی یونٹ بھی ہالینڈ اور جرمن فوجی یونٹوں کے ہمراہ اتار دی گئی ہیں جبکہ جنوبی ترکی میں شام کی جانب پیٹریاٹ میزائلوں کی متعدد بیٹریاں نصب کردی گئی ہیں۔ امریکی دفاعی ماہرین کا خیال ہے کہ شام کی جانب سے عنقر یب اسلامی دنیا کو ’’پیغام‘‘ دینے کے لئے اسرائیل کو ضرور جواب دیا جائے گا جبکہ لبنان میں موجود حزب اﷲ اور ایران اس جنگ میں اپنا کردار ادا کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔
لیکن اس بات کو بھی مدنظر رکھا جائے کہ اسرائیل اس سارے منظر نامے میں پاکستان کی جانب سے بالکل غافل نہیں ہے۔ اس کا اندازہ اس ایک بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت نے اپنے زمین سے فضا تک مار کرنے والے میزائل پروگرام MRSAMجس کی ابتدا 2009ء میں کی گئی تھی میں اسرائیل کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق اس میزائل پروگرام میں کچھ تکنیکی خرابیاں واقع ہوئی تھیں جن کو درست حالت میں لانے کے لئے اب اسرائیل بھارت کے ساتھ کام کرے گا۔ بھارتی میزائل منصوبہ MRSAM بھارت کے ادارے India’s Defence Research and Development Organisation (DRDO) کے تحت شروع کیا گیا تھا جو اسرائیلی فضائی دفاعی پیداوار کے ادارے Israel Aerospace Industries (IAI) کے ساتھ مشترکہ طور پر کام کرتا رہا ہے۔اس میزائل کا پہلا تجربہ ناکام ہوگیا تھا جس کی تفصیلات سامنے نہیں آسکیں تھیں۔دوسری جانب اسرائیلی ماہرین بھارتی ماہرین کے ساتھ اس کے زمینی حملے میں استعمال ہونے والے پرتھوی میزائل منصوبے کو بہتر سے بہتر بنانے کے لئے شب وروز کام کررہے ہیں۔
یہ وہ صورتحال ہے جو پاکستان کے چاروں طرف تیزی کے ساتھ اپنی منطقی شکل اختیار کرتی جارہی ہے امریکا افغانستان سے جانے کا اعلان کرتا ہے لیکن اپنی شرائط پر جبکہ طالبان کو امریکی شرائط سرے سے منظور ہی نہیں کیونکہ امریکا اپنی یونٹیں افغانستان میں رکھنے کا بندوبست کر رہا ہے ، مشرق وسطی میں پاکستانی دوست ملکوں کے گرد گھیرا تنگ ہورہا ہے افغانستان میں زیادہ سے زیادہ دیر تک امریکا اور اس کے صیہونی صلیبی اتحادیوں کی موجودگی سے فائدہ اٹھاکر اسرائیل کے ساتھ مل کر اپنی دفاعی صلاحتوں کو پاکستان اور چین کے خلاف بروئے کار لانا چاہتا ہے۔ اب جبکہ پاکستان کی جانب سے گوادر کی بندرگاہ کا بندوبست چین کے حوالے کرنے کا اعلان کیا جاچکا ہے تو ان تیاریوں میں تیزی آجائے گی۔ ایسی صورت میں پاکستان میں انتہائی مضبوط قسم کی سیاسی حکومت کا ہونا ناگزیر ہے لیکن پاکستان کے اندر موجود نام نہاد جمہوریت کے علمبردار نئے نئے شوشے چھوڑ رہے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ پاک فوج اور پاکستان کے دفاع کے ضامن دیگر ادارے وطن عزیز کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے خطرات سے بچانے کے لئے تن من سے جدوجہد کررہے ہیں تو ان سیاستدانوں نے امریکا سے طویل اقتدار کا لائسنس لینے کے لئے لبرل فاشسٹوں کو نوازنا شروع کررکھا ہے۔عالمی قوتیں چاہتی ہیں کہ پاکستان کے دفاعی اداروں کو اندر سے ضرب لگائی جائے تاکہ پاکستان کو عالمی مقاصد کے سامنے بے بس کردیا جائے۔ان سیاستدانوں سے کوئی یہ سوال کرے کہ پانچ سالہ ’’جمہوری دور‘‘ میں انہوں نے کون سا تیر مار لیا ہے؟ قوم نے اس سے زیادہ تباہ کن حالات تو مشرف کے بدترین دور میں بھی نہیں دیکھے تھے۔ کیا ان سیاسی شعبدہ بازوں کے خلاف کمیشن نہیں بننا چاہئے جنوں نے قرض اتارو ملک سنوارو کا نعرہ لگا کر قوم کے فارن اکاؤنٹس منجمد کر دیئے تھے۔ کیا بینکوں کو دیوالیہ کردینے والے قرض داروں کے خلاف کمیشن نہیں بننا چاہئے؟ کیا ملکی دولت کو لوٹ کر سوئس بینکوں میں رکھنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لانی چاہئے؟ کیا منافع بخش قومی اداروں کی لوٹ سیل لگانے والوں کو کٹہرے میں نہیں لانا چاہئے؟
اس وقت جبکہ وطن عزیز خارجی اور اندرونی خطرات میں بری طرح گھر چکا ہے تو قومی یکجہتی کا تقاضا ہے کہ پاکستان کے دفاعی اداروں پر تنقید کرنے والوں کا اصل چہرہ بے نقاب کیا جائے جو سیاسی عناصر اپنے بیرونی آقاؤں کے ایجنڈے کے مطابق یہ چاہتے ہیں کہ فوج قبائلی علاقوں میں آپریشن میں الجھی رہے انہیں قوم کے سامنے بے نقاب کیا جائے۔ آنے والا وقت انتہائی نازک ہے عالمی قوتوں نے بھارت کو پاکستانی پانیوں پر بند باندھنے کی کھلی چھٹی دے کر اسے بنجر اور کسی وقت بھی سیلاب میں ڈبونے کی صلاحیت دے دی ہے۔ اپنی ملکی بقا کے لئے اگر کوئی انتہائی قدم بھی اٹھانا پڑے تو اس سے گریز نہ کرنا چاہئے بصورت دیگر خاکم بدہن ہمارے پاس لکیر پیٹنے کے سوا کچھ نہیں بچے گا۔۔
سولہ ستمبر 1977ء کی ایک سرد رات اسرائیلی جنرل موشے دایان پیرس کے جارج ڈیگال ائر پورٹ پر اترتا ہے، وہ تل ابیب سے پہلے برسلز اور وہاں سے پیرس آتا ہے جہاں پر وہ اپنا روایتی حلیہ بالوں کی نقلی وگ اور نقلی مونچھوں کے ساتھ تبدیل کرکے گہرے رنگ کی عینک لگاکر اگلی منزل کی جانب روانہ ہوتا ...
عالم عرب میں جب ’’عرب بہار‘‘ کے نام سے عالمی صہیونی استعماریت نے نیا سیاسی کھیل شروع کیا تو اسی وقت بہت سی چیزیں عیاں ہوگئی تھیں کہ اس کھیل کو شروع کرنے کا مقصد کیا ہے اور کیوں اسے شروع کیا گیا ہے۔جس وقت تیونس سے اٹھنے والی تبدیلی کی ہوا نے شمالی افریقہ کے ساتھ ساتھ مشرق وسطی کا ...
ایران میں جب شاہ ایران کے خلاف عوامی انقلاب نے سر اٹھایا اور اسے ایران سے فرار ہونا پڑاتواس وقت تہران میں موجود سوویت یونین کے سفارتخانے میں اعلی سفارتکار کے کور میں تعینات روسی انٹیلی جنس ایجنسی کے اسٹیشن ماسٹر جنرل شبارچین کو اچانک ماسکو بلایا گیا۔ کے جی بی کے سابق سربراہ یوری ...
جن دنوں امریکامیں نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا تھا اس وقت مسلم دنیا میں کوئی ادارہ یا شخصیت ایسی نہ تھی جو اس واقعے کے دور رس عواقب پر حقیقت پسندانہ تجزیہ کرکے اسلامی دنیا کو آنے والی خطرات سے آگاہ کرسکتی۔مغرب کے صہیونی میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ نے منفی پروپیگنڈے کی وہ دھول ا...
دنیا کی معلوم تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ قدرت نے جب کبھی کسی قوم پر احتساب کی تلوار لٹکائی تو اس کی معیشت کو تباہ کردیا گیا۔قران کریم نے بھی چند مثالوں کے ذریعے عالم انسانیت کو اس طریقہ احتساب سے خبردار کیا ہے جس میں سب سے واضح مثال یمن کے ’’سد مارب‘‘ کی تباہی ہے۔ ...
ترکی کے صدر طیب اردگان نے گزشتہ دنوں امریکی سینٹرل کمانڈ کے چیف جنرل جوزف ووٹیل پر ناکام بغاوت میں ملوث افراد کی معاونت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا کو اپنی اوقات میں رہنا چاہئے۔ اس سے پہلے جنرل جوزف نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ترکی میں بغاوت میں ملوث سینکڑوں ترک...
گزشتہ دنوں مسجد نبوی شریف کی پارکنگ میں خودکش دھماکے نے پوری اسلامی د نیا کو بنیادوں سے ہلا کر رکھا دیا اور شام اور عراق میں پھیلی ہوئی جنگی صورتحال پہلی مرتبہ ان مقدس مقامات تک دراز ہوتی محسوس ہوئی۔ جس نے اسلامی دنیا کو غم غصے کی کیفیت سے دوچار کررکھا ہے لیکن ایک بات واضح ہے کہ ...
امریکی سینیٹر جان مکین کی اسلام آباد آمد سے ایک روز قبل وزیراعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا بھارتی جوہری اور روایتی ہتھیاروں کی تیاری کے حوالے سے بیان خاصا معنی خیز ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ سب کچھ اس وقت ہوا ہے جب امریکی سینیٹر جان مکین ’’ڈو مور‘‘ کی لمبی لسٹ ساتھ لائے جو یقینی بات...
گزشتہ دنوں جب امریکہ کی جانب سے ایک تیسرے درجے کا پانچ رکنی وفد اسلام آباد آیا تھا تو ہم یہ سمجھے کہ شاید امریکہ کو نوشکی میں کی جانے والی واردات پر اظہار افسوس کا خیال آگیا ہے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ وفد جن افراد پر مشتمل تھا ان کی حیثیت بااختیار وفد سے زیادہ ایک ’’ڈاکیے‘‘ کی...
خطے کے حالات جس جانب پلٹا کھا رہے ہیں اس کے مطابق افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت پاکستان کے خلاف وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماضی کی کرزئی انتظامیہ کا روپ دھارتی جارہی ہے جس کا مظاہرہ اس وقت کابل انتظامیہ کی جانب سے بھارت اور ایران کے ساتھ مزیدزمینی تعلقات استوار کرنے کی کوششوں کی شک...
ایک ایسے وقت میں جب طالبان قیادت کی جانب سے بھی کابل انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات میں شامل ہونے کا واضح اشارہ مل چکا تھا اور طالبان لیڈر ملا اختر منصور اس سلسلے میں دیگر طالبان کمانڈروں کو اعتماد میں لے رہے تھے پھر اچانک امریکیوں کو ایسی کیا ضرورت آن پڑی کہ انہوں نے طالبان کے امیر مل...
میڈیا ذرائع کے مطابق امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کا کہنا ہے کہ امریکی فوج نے افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور پر فضائی حملہ کیا اورممکنہ طور پر وہ اس حملے میں مارے گئے ہیں، تاہم حکام اس حملے کے نتائج کاجائزہ لے رہے ہیں۔ امریکی حکام کا کہنا تھا کہ یہ حملہ صدر باراک اوباما کی م...