وجود

... loading ...

وجود

’’مہاجرنظریہ‘‘ اور پاکستان

منگل 22 مارچ 2016 ’’مہاجرنظریہ‘‘ اور پاکستان

18مارچ کو ایم کیوایم کا32واں یوم تاسیس حیران کن تھا‘ متحدہ کے قائد الطاف حسین کی علالت سے جنم لینے والی افواہوں اور قیاس آرائیوں سے لے کر پارٹی سے علیحدہ ہوکر اپنی پارٹی بنانے والے سابق میئر کراچی مصطفےٰ کمال اور انیس قائم خانی کے اطراف جمع ہونے والے ’’باغیوں‘‘ تک عام تاثر یہ تھا کہ ’’پارٹی ازِ اوور‘‘ (پارٹی ختم ہوچکی ہے) لیکن یومِ تاسیس پر متحدہ کے مرکز نائن زیرو پر اتنا ہی ہجوم اور اسی قدر جوش وجذبہ دیکھ کر مخالف تجزیہ کاروں کے ہوش اڑگئے۔ اس سے ایک بات تو پھر ثابت ہوگئی کہ ’’نظریہ کبھی نہیں مرتا‘‘ شخصیات آتی جاتی رہتی ہیں‘ نظریہ وقت‘ حالات اور ماحول سے جنم لیتا ہے‘ جب تک یہ سب موجود ہوں‘ نظریہ زندہ رہتا ہے‘ یہ دبانے سے مزید ابھرتا ہے‘ کمزور کرنے سے اور طاقتور ہوتا ہے‘ اس میں تراش خراش تو ہوسکتی ہے لیکن بنیاد کبھی ختم نہیں ہوتی جب تک کہ وہ حالات تبدیل نہ ہوجائیں۔ سندھ میں ’’مہاجر نظریہ‘‘ آج کی پیداوار نہیں ہے‘ یہ حقیقت تو تاریخ کا حصہ ہے کہ قیام پاکستان کی تحریک برصغیر کے ان علاقوں میں چلائی گئی جو آج پاکستان میں شامل نہیں ہیں۔1947ء کی تقسیم کے نتیجے میں خون خرابہ اور تبادلہ آبادی ہوا ہے‘25سے30لاکھ افراد مارے گئے‘ سندھ سے ہندو بھارت چلے گئے جہاں وہ ’’شرنارتھی‘‘ کہلاتے ہیں۔ بھارت سے مسلمانوں کی کثیر تعداد ہجرت کرکے سندھ میں آبسے جو قیام پاکستان کو70سال گذرنے کے بعد بھی ’’مہاجر‘‘ کہلاتے ہیں۔ ابتدائی برسوں میں ان ’’مہاجروں‘‘ کی سیاسی نمائندگی حیدرآباد میں مولانا عبدالقیوم کانپوری‘ فیض محمد صندل اور حافظ مبارک علی شاہ کرتے تھے جو نابینا ہونے کے باوجود سیاست کا بھرپور ادراک رکھتے تھے‘ کراچی میں یہی کام مرزا جواد بیگ‘ محمودالحق عثمانی‘ رئیس امروہوی‘ سید محمد تقی اور ایم ایم بشیر جیسی شخصیات انجام دیتی تھیں۔ یہ تمام شخصیات وفاقی پارٹیوں مسلم لیگ‘ جماعت اسلامی‘ نیشنل عوامی پارٹی وغیرہ میں شامل تھیں۔ مولانا شاہ احمد نورانی اور پروفیسر شاہ فریدالحق جمیعت علماء پاکستان کے پلیٹ فارم سے مذہبی سطح پر اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ پاکستان کے قیام کے چند سال گزرے تو بھارت سے ہجرت کرنے والے ’’مہاجروں‘‘ کو احساس ہوا کہ وہ تو اپنی جڑ بنیاد ہی ختم کرآئے ہیں‘ آبائی علاقے اور آباؤ اجداد کی قبریں دشمن ملک میں چھوڑ آئے ہیں۔ محرومیاں بڑھنے لگیں‘ ملازمتوں اور درس گاہوں میں نظر انداز کیاگیا تو احساس محرومی مزید شدت اختیار کرگیا‘ ان کی تعداد بلوچستان کے بلوچوں سے زیادہ تھی لیکن اپنا کوئی خطہ اور سرزمین نہیں تھی‘ اس بے سروسامانی پر ’’شاعر وجودیت‘‘ رئیس امروہوی نے کہا ؂

ہرعہد کی شہریت سے محروم ………… ہر شہر میں بے وطن ہیں ہم لوگ

ان حالات میں حیدرآباد کے ’’مہاجر‘‘ نواب مظفر حسین خان نے1970ء کی دھائی میں ’’مہاجر‘ پنجابی‘ پٹھان متحدہ محاذ‘‘ کی بنیاد رکھی تاکہ پنجابیوں اور پختونوں کو ساتھ ملاکر سندھ میں اپنی کمیونٹی کے حقوق کا تحفظ کیا جائے لیکن اس وقت تک ’’مہاجر‘‘ وفاقی جماعتوں مسلم لیگ‘ پیپلزپارٹی‘ جے یو پی اور جماعت اسلامی میں تقسیم تھے۔ اس لئے نواب مظفرکوئی بہت بڑی تحریک پیدا نہ کرسکے البتہ ذوالفقار بھٹو کی حکومت سے وہ ایک مطالبہ منوانے میں کامیاب ہوگئے جس کے تحت سندھ کے اضلاع میں اگر کمشنر سندھی تو ڈپٹی کمشنر ’’مہاجر‘‘ اور ایس پی مہاجر تو ڈی ایس پی سندھی ہوگا۔ متبادل شکل میں یہ ترتیب تبدیل ہوجائے گی۔ اس کیلئے سندھ اسمبلی سے چونکہ کوئی قانون سازی نہیں کرائی گئی لہذا فارمولا کچھ ہی عرصہ میں دم توڑ گیا۔ بعدازاں ملک غلام سرور اعوان نے سندھ بالخصوص کراچی میں آباد پنجابیوں‘ پختونوں اور کشمیریوں کو پنجابی پختون اتحاد کی شکل میں یکجا کرنے کی کوشش کی لیکن ان کے انتقال کے بعد ان کے صاحبزادے ملک ایوب اعوان یہ کام جاری نہ رکھ سکے۔ کسی بھی نظریہ کی کامیابی کیلئے ٹھوس فکری بنیادوں اور زمینی حقائق کا یکجا ہونا ضروری ہے۔ بھارت سے ہجرت کرنے والے ’’مہاجر‘‘ چونکہ اپنی سرزمین‘ گھر‘مکان اور کھیت کھلیان بھارت میں ہی چھوڑآئے تھے لہذا ان میں ’’بے گھری‘‘ کا احساس زیادہ تھا۔ ان کی آمد سے قبل سندھ کے مسلمانوں کی حالت انتہائی پسماندہ تھی۔ ہندوؤں نے زندگی کے ہر میدان پر قبضہ جماکر ان کی تعلیم وترقی کے تمام دروازے بند کردیئے تھے۔ ان کی حالت زار کا اندازہ1924ء میں حیدرآباد میں منعقد ہونے والی ’’ محمدن ایجوکیشن کانفرنس‘‘ کی مرتب کردہ رپورٹ سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ سندھ کے مسلمانوں کی87فیصد زمین ہندؤں کے پاس گروی ہوچکی تھی جس کا تذکرہ معروف خاتون دانشور ڈاکٹر حمیدہ کھوڑو نے اپنی کتاب میں بھی کیا ہے۔ ان کے والد خان بہادر ایوب کھوڑو نے سندھ کی ممبئی سے علیحدگی اور قیام پاکستان کے بعد ون یونٹ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ پاکستان کی مرکزی حکومت نے مئی1948ء میں دستور ساز اسمبلی کے توسط سے کراچی کو سندھ سے الگ کرکے اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔ اس فیصلے کو گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح کی مکمل حمایت اور پشت پناہی حاصل تھی۔ کراچی پورے پاکستان کا دارالخلافہ بھی تھا لیکن مسلم لیگ سندھ کونسل اس فیصلے کے خلاف تھی۔ 11جون1948ء کومرکزی حکومت کے اس فیصلے کے خلاف ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں سندھ کے وزیروں کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ کراچی کے سلسلے میں مرکزی حکومت کا ساتھ نہ دیں اور مستعفی ہوکر دوبارہ انتخاب لڑیں۔ سندھی اخبارات نے کراچی کی علیحدگی کے خلاف اداریئے بھی تحریر کئے۔ کہا جاتا ہے کہ ایوب کھوڑو نے ون یونٹ کی حمایت اس نظریہ سے کی تھی کہ مغربی پاکستان کے12یونٹوں پر مشتمل ون یونٹ جب کبھی ٹوٹے گا تو کراچی پھر سندھ میں شامل ہوجائے گا اور آگے جاکر یحیٰی خان کے دور میں ان کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوگیا۔ صدر یحییٰ خان نے کراچی اور حیدرآباد کے ’’مہاجر‘‘ اکابرین سے مشاورت بھی کی کہ کراچی کی ون یونٹ سے قبل کی پوزیشن (وفاقی علاقہ) بحال کردیں لیکن وہ اس پر آمادہ نہیں ہوئے۔ 1972ء میں ذوالفقار علی بھٹو برسراقتدار آئے تو انہوں نے کراچی کو سندھ سے الگ کرکے صوبہ بنانے کے الزام میں مرزا جواد بیگ اور کئی رہنماؤں کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا۔1977ء میں بھٹو حکومت کا تختہ الٹ کر جنرل ضیاء الحق برسراقتدار آئے تو ’’مہاجر‘‘ پاکستان قومی اتحاد کی اس تحریک کا حصہ تھے جس کے نتیجے میں پیپلزپارٹی اقتدار سے محروم ہوئی تھی۔ جنرل ضیاء الحق مرحوم نے اپنا اقتدار مضبوط کرنے کیلئے پی این اے کے ٹکڑے کردیئے۔ کراچی کے نشترپارک میں قرآن مجید پر ساتھ رہنے کا حلف اٹھانے والوں کی اکثریت وزارتوں پر بک گئی۔ ’’مہاجر‘‘ پھر بے یارمددگار رہ گئے۔ برصغیر کی تقسیم کے معاہدے کی رُو سے سندھ میں کلیم کی زمینیں حاصل کرنے والے ’’مہاجر‘‘ 1972ء کے لسانی ہنگاموں کے سبب اندرون سندھ ملنے والی زمینوں اور گھر بار سے تو پہلے ہی محروم ہوچکے تھے‘ پی این اے نے بھی دھوکہ دیا۔ قربانیاں پھر رائیگاں چلی گئیں اس محرومی اور مایوسی کے دور میں الطاف حسین نے جامعہ کراچی میں آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس کی بنیاد رکھی تو گویا جذبوں کو زبان مل گئی‘ مایوسی میں امید کی کرن نظر آئی تو حوصلے مزید بڑھے۔1984ء میں اے پی ایم ایس او نے مہاجر قومی موومنٹ کی شکل اختیار کرلی۔ ’’مہاجروں‘‘ نے وفاقی جماعتوں سے علیحدگی اختیار کرکے سارا وزن ایم کیوایم کے پلڑے میں ڈال دیا۔ الطاف حسین تحریک کے سپہ سالار بن گئے۔ نئی تاریخ رقم ہونے لگی۔ ایم کیوایم کا مرکز نائن زیرو اتحاد ویکجہتی کی علامت بن گیا۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ صلح اور جھگڑا ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ تنازعہ بڑھا تو1992ء میں آفاق احمد کی سربراہی میں ایم کیوایم کے بطن سے ایک اور مہاجر قومی موومنٹ وجود میں آگئی‘ الطاف حسین کی ایم کیوایم پہلے ہی متحدہ قومی موومنٹ بن چکی تھی ان کی پارٹی کے خلاف سخت قسم کا آپریشن ہوا‘ دونوں گروپوں میں گھمسان کا رن پڑا۔ الطاف حسین اور مرکزی کابینہ کے کئی لوگ لندن چلے گئے اور آج بھی وہاں ہیں۔ جیلیں اور حوالات بھرگئے‘ قتل وغارت کے دوران خون کی ندیاں بہہ گئیں لیکن آفاق احمد کامیاب نہیں ہوئے۔ متحدہ قومی موومنٹ پھر اقتدار میں آگئی۔ اب نئے سرے سے اسے ڈبے میں بند کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مصطفےٰ کمال اور انیس احمد قائمخانی بڑے طمطراق اور الزامات کی پوری کتاب لے کر میدان میں آئے ہیں‘ الطاف حسین کی شخصیت پر یہ الزامات پہلے بھی لگتے رہے ہیں پھانسی پانے والے صولت مرزا کے ٹی وی پر اعترافات اور الزامات ان سے زیادہ سنگین تھے لیکن کراچی‘ حیدرآباد‘ میرپورخاص‘نوابشاہ اور سکھر کے شہری علاقوں میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں ووٹ پھر بھی الطاف حسین اور متحدہ قومی موومنٹ کو پڑا۔ اس کے اسباب اور عوامل ہیں۔ 1947ء کی تقسیم سے بے خانماں برباد ہونے والے ’’مہاجر‘‘ آج بھی اسی طرح سے بے گھر بلکہ دربدر ہیں۔ سندھ کے شہری نوجوان زراعت سے بے خبر ہیں۔ ملازمت اور کاروبار ان کا وسیلۂ روزگار ہیں لیکن بدامنی اور میرٹ کے قتل نے ان پر زندگی کے دروازے بند کررکھے ہیں ان مشکل اور مایوس کن حالات میں ایم کیوایم ‘ الطاف حیسن اور مرکز نائن زیرو پر انہیں امید کی کرن اور استحکام کا ذریعہ نظر آتے ہیں۔ بلوچستان کے بلوچوں کی آبادی ان سے کم ہے لیکن وہاں بلوچوں کی پوری حکومت قائم ہے۔ یہاں سندھ حکومت ایم کیوایم کے میئر کو بھی اختیارات دینے سے گریزاں اور انکاری ہے۔ مصطفےٰ کمال اور انیس قائمخانی سب سے آگے پاکستان کانعرہ لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے قومی پرچم کو اپنی نئی پارٹی کا جھنڈا قرار دیا ہے۔اطلاعات کے مطابق ان کی نئی پارٹی کا نام بھی ’’پاکستان قومی موومنٹ‘‘ تجویز کیاگیا ہے جس کا اعلان 23مارچ ’’یوم پاکستان‘‘ کے موقع پر کیا جائے گا۔ انیس احمد خان ایڈوکیٹ نے بھی ان کے قافلے میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔ جو میرپورخاص سے قومی اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں۔ مصطفےٰ کمال اور ان کے ساتھی وہ راستہ اختیار کررہے ہیں جو1960ء کی دھائی کے آخری برسوں میں ذوالفقار علی بھٹو نے اختیار کیا تھا۔ انہوں نے پاکستان پیپلزپارٹی کے نام سے نئی جماعت قائم کرکے ’’پاکستان‘‘ کے نام پر1970ء کا الیکشن جیتا اور سب سے زیادہ کامیابی پنجاب سے حاصل کی تھی۔ اس کامیاب سیاست کے ذریعے انہوں نے پاکستان کے جغرافیے میں دس فیصد سندھی آبادی کو پورے پاکستان کی حکمرانی حاصل کرکے دی تھی۔ اب تک 5 بار وزارت عظمیٰ اور ایک بار پاکستان کی صدارت سندھ کے حصے میں آچکی ہے۔ مصطفےٰ کمال اور ان کے ساتھیوں نے بھی پاکستان کی سیاست شروع کی ہے۔ ان کا تعلق ’’مہاجر کمیونٹی‘‘ سے ہے لیکن وہ پاکستانی پرچم اٹھاکر سیاسی میدان میں اترے ہیں۔2013ء کے عام انتخابات میں عمران خان کی پارٹی تحریک انصاف نے سندھ میں8لاکھ ووٹ حاصل کئے تھے۔ یہ ووٹرز عمران خان کی بدلتی پالیسیوں اور سندھ کے مسائل سے لاتعلقی کے باعث مطمئن نہیں ہیں۔ ووٹرز کا یہ وسیع حلقہ پاکستان کے نام پر مصطفےٰ کمال کو مل سکتا ہے۔ صوبے سے باہر بھی ان کی پذیرائی ہوسکتی ہے‘ انیس احمد ایڈوکیٹ نے ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین پر الزامات کی بوچھاڑ کرنے کی بجائے نسبتاً مصالحانہ اور مشورانہ رویہ اختیار کیا ہے۔

بات چل نکلی ہے……………… اب دیکھیں کہاں تک پہنچتی ہے۔


متعلقہ خبریں


جنگ سے پہلے بھارتی شکست مختار عاقل - پیر 03 اکتوبر 2016

منصوبہ خطرناک تھا‘ پاکستان کو برباد کرنے کیلئے اچانک افتاد ڈالنے کا پروگرام تھا‘ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں فوجی آپریشن سے قبل کراچی‘ سندھ اور بلوچستان میں بغاوت اور عوامی ابھار کو بھونچال بنانے کا منصوبہ بنایا تھا تاکہ مقبوضہ کشمیر میں اس کی سفاکی اور چیرہ دستیاں دفن ہوجائیں اور ...

جنگ سے پہلے بھارتی شکست

وفادار اور غدار! مختار عاقل - پیر 26 ستمبر 2016

بغاوت کامیاب ہوجائے تو انقلاب اور ناکام ہو توغداری کہلاتی ہے۔ ایم کوایم کے بانی الطاف حسین کے باغیانہ خیالات اور پاکستان مخالف تقاریر پر ان کی اپنی جماعت متحدہ قومی موومنٹ سمیت پیپلزپارٹی‘ تحریک انصاف‘ مسلم لیگ (ن) اور فنکشنل مسلم لیگ نے سندھ اسمبلی میں ان کے خلاف قرارداد منظور ک...

وفادار اور غدار!

ڈاکٹر فاروق ستار کا امتحان مختار عاقل - پیر 19 ستمبر 2016

کراچی میں ’’آپریشن کلین اپ‘‘ کے ذریعے شہر قائد کو رگڑ رگڑ کر دھویا جارہا ہے۔ پاکستان کے اس سب سے بڑے شہر اور اقتصادی حب کا چہرہ نکھارا جارہا ہے۔ عروس البلاد کہلانے والے اس شہر کو ایک بار پھر روشنیوں کا شہر بنایا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ قومی ایکشن پلان کا حصہ ہے۔ پاکستان کے عظیم اور ق...

ڈاکٹر فاروق ستار کا امتحان

کیا ایم کیوایم قائم رہے گی! مختار عاقل - پیر 12 ستمبر 2016

کیا متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین سے واقعی کراچی چھن گیا ہے‘ ایم کیوایم کے سینئر رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کو ایم کیوایم کے نئے سربراہ کی حیثیت سے قبول کرلیاگیا ہے۔ کراچی کے ضلع ملیر میں سندھ اسمبلی کی نشست پر منعقد ہونے والے ضمنی الیکشن میں ایم کیوایم کی نشست پر پیپلزپارٹی ک...

کیا ایم کیوایم قائم رہے گی!

کوٹہ سسٹم کی بازگشت مختار عاقل - پیر 05 ستمبر 2016

قومی اسمبلی میں پاکستان پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر اورقائد حزب اختلاف سیدخورشیدشاہ کہتے ہیں کہ ایم کیوایم کو قائم رہنا چاہئے تواس کا یہ مقصدہرگز نہیں ہوتا کہ انہیں سندھ کی دوسری سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی متحدہ قومی موومنٹ سے کوئی عشق یا وہ اسے جمہوریت کیلئے ضروری سمجھتے ہیں۔ اگ...

کوٹہ سسٹم کی بازگشت

سندھ میں نئی سیاسی صف بندی مختار عاقل - منگل 23 اگست 2016

پاکستان میں اقتدار کی کشمکش فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ ایک وسیع حلقہ اس بات کا حامی ہے کہ فوج آگے بڑھ کر کرپشن اور بدانتظامی کے سارے ستون گرادے اور پاکستان کو بدعنوانیوں سے پاک کردے۔ دوسرا حلقہ اس کے برعکس موجودہ سسٹم برقرار رکھنے کے درپے ہے اورمملکت کے انتظام وانصرام میں ...

سندھ میں نئی سیاسی صف بندی

فوج اور سول حکمران مختار عاقل - منگل 16 اگست 2016

وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے بالآخر پاکستان پیپلزپارٹی کے عقابوں کو مجبو رکر ہی دیا کہ وہ اپنے نشیمن چھوڑ کر میدان میں آجائیں اور مسلم لیگ (ن) کو للکاریں۔ چوہدری نثار علی خان نے انکشاف کیا ہے کہ ماڈل ایان علی اور ڈاکٹر عاصم حسین کی رہائی کے عوض پی پی پی کی اعلیٰ قیادت ...

فوج اور سول حکمران

جب کراچی وفاقی علاقہ تھا! مختار عاقل - پیر 08 اگست 2016

سندھ کا وزیراعلیٰ بننے سے سید مرادعلی شاہ کی ’’مراد‘‘ تو پوری ہوگئی لیکن صوبے کے عوام بدستور اپنے آدرش کی تلاش میں ہیں ۔رشوت اور بدعنوانیوں سے پاک ’’اچھی حکمرانی‘‘ تو جیسے خواب بن کر رہ گئی ہے۔ اوپر سے رینجرز کی تعیناتی کا تنازع‘ جو حل ہونے میں نہیں آرہا ہے‘ وزیراعلیٰ کے آبائی عل...

جب کراچی وفاقی علاقہ تھا!

سندھ میں وزیراعلیٰ کی تبدیلی مختار عاقل - منگل 02 اگست 2016

سندھ کے میدانوں‘ ریگزاروں اور مرغزاروں سے لہراتا بل کھاتا ہوا شوریدہ سر دریائے سندھ کے کناروں پر آباد باشندے اس عظیم دریا کو ’’دریابادشاہ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ دریائے سندھ نہ صرف صوبے کی زمینوں کو سیراب کرتا ہے بلکہ ’’بادشاہت‘‘ بھی بانٹتا ہے۔ پہلے دریا کے دائیں کنارے پر آباد شہر خیرپور...

سندھ میں وزیراعلیٰ کی تبدیلی

سید قائم علی شاہ کی رخصتی مختار عاقل - بدھ 27 جولائی 2016

نپولین کاشمار دنیا کے مشہورترین جرنیلوں میں ہوتا ہے اس کی جرأتمندی اور بہادری مثالی تھی۔ ’’ناممکن‘‘ کا لفظ اس کی ڈکشنری میں نہیں تھا۔ فرانس میں اس کی حکومت کے خلاف سازش کامیاب ہوئی‘ اقتدار سے محروم ہوا تو معزول کرکے جزبرہ ’’البا‘‘ میں قید کردیاگیا۔ لیکن جلد ہی وہاں سے بھاگ نکلا۔ ...

سید قائم علی شاہ کی رخصتی

ترکی سے پاکستان تک مختار عاقل - منگل 19 جولائی 2016

15 جولائی 2016 ء کی شب گزشتہ 48 سال کے دوران چوتھی مرتبہ ترکی میں ’’فوجی انقلاب‘‘ کی کوشش کی گئی جو ناکام ہوگئی۔ بغاوت کا المیہ ہے کہ اگر کامیاب ہوجائے تو انقلاب اور ناکام ہو تو غداری کہلاتی ہے۔ 15 جولائی کا فوجی اقدام چونکہ ناکام ثابت ہوا لہٰذا باغیوں کے سرخیل 5 جرنیل اور 29 کرن...

ترکی سے پاکستان تک

حکمرانوں کے لیے سبق مختار عاقل - منگل 12 جولائی 2016

عالمی شہرت یافتہ عظیم پاکستانی سماجی کارکن عبدالستار ایدھی بھی جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے۔ ان کا جنازہ کسی نیک دل اور خوش خصال شہنشاہ سے کم نہیں تھا۔ پاکستان کے صدرمملکت ممنون حسین‘ تینوں مسلح افواج کے سربراہان جنرل راحیل شریف‘ ایئرمارشل سہیل امان‘ ایڈمرل ذکاء اﷲ‘ سندھ وپنجاب کے وز...

حکمرانوں کے لیے سبق

مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر