... loading ...
چند روز قبل یکے بعد دیگرے دو بڑی خبریں قومی میڈیا پر نشر ہوئیں۔ ایک سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے بیٹے کی بازیابی اور دوسری بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے انتہائی اہم کمانڈر اسلم اچھو کی آپریشن میں ہلاکت۔ شہباز تاثیر کا ساڑھے چار سال بعد کوئٹہ کے نواحی علاقے کچلاک میں ظاہر ہونا یقیناً ایک انوکھا واقعہ ہے۔ ویسے ان کا لاہور کے گلبرگ سے اگست 2011ء کو اغوا ہونا بھی تعجب خیز تھا اور ملک کے اندر سیکورٹی کے نظام پر کئی سوالات اٹھے۔ پشاور یا کوئٹہ سے اغوا ہوتا اور قبائلی علاقوں تک لے جایا جاتا تو عقل مان لیتی، مگر لاہور سے سخت سیکورٹی حصار کے باوجود اتنا طویل فاصلہ طے کرنا اور بڑی کامیابی سے جنوبی وزیرستان منتقلی ہماری سیکورٹی کے نظام کی ناکامی نہیں تو اور کیا ہے، اور ان ساڑھے چار سالوں میں حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کی رہائی کے ضمن میں بالشت برابر جنبش بھی نہ کرسکے۔ گویا اغوا کاروں نے جنہیں طالبان یا ازبکوں کے نام سے پکارا جاتا ہے، ملک کے اداروں کا سرعام تمسخر اڑایا۔ یعنی اس قدر ہائی پروفائل شخصیت کے بیٹے کی اتنی آسانی، دلیری اور حکمت عملی سے اغوا کیا جانا مذاق اڑانا نہیں تو اور کیا ہے۔
شہباز تاثیر کی بازیابی پر حکومت، وزارت داخلہ، آئی ایس پی آر، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے الگ تماشا بنایا۔ شہباز تاثیر 8مارچ کو منظر عام پر آئے اور ہمارے چاق و چوبند ادارے اگلے روز تک عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہے تھے کہ شہباز تاثیر کو ایک کامیاب آپریشن کے بعد اغوا کاروں کے چنگل سے آزاد کرایا گیا۔ اصل میں دانا و چالاک بننے کی بے کار کوشش کبھی لے ڈوبتی ہے جیسا کہ شہباز تاثیر کی رہائی کے معاملے میں ہوا۔ بلوچستان حکومت کے ترجمان تو اگلے روز رات تک پرانی بات دہرا رہے تھے کہ وہ سلیم ہوٹل کے پیچھے ایک کچے مکان میں قید میں رکھے ہوئے تھے۔
کچلاک کوئٹہ شہر سے تقریباً پچیس کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ گنجان آباد علاقہ ہے اور ایک بہت بڑی آبادی افغان باشندوں کی بھی ہے۔ السلیم ہوٹل کچلاک بازار میں واقع ہے۔ یہ ریسٹورنٹ اپنے نمکین گوشت یعنی ’’روسٹ‘‘ کے حوالے سے کوئٹہ بھر میں مدتوں سے مشہور ہے۔ دور دراز سے لوگ یہاں کھانا کھانے آتے ہیں۔ چنانچہ شہباز تاثیر کو جب چھوڑا گیا تو وہ اس ریسٹورنٹ پہنچے۔ کھانا کھایا۔ چائے پی لی۔ کاؤنٹر پر بل ادا کردیا۔ ہوٹل کے مالک سے موبائل طلب کیا۔ اس نے مشکوک جان کر موبائل دینے سے انکار کیا البتہ قریب پبلک کال آفس کا بتایا جہاں جاکر شہباز نے اپنی والدہ سے فون پر بات کی اور جگہ بتا دی۔ یوں ان کے اہلخانہ نے قانون نفاذ کرنے والے اداروں کو آگاہ کردیا جنہوں نے کوئٹہ کو انفارم کردیا۔ اس طرح کوئٹہ سے ٹیم کچلاک بازار گئی اور شہباز تاثیر کو ساتھ لے گئے اور آن میں آپریشن کی دھوم مچادی گئی۔ حتیٰ کہ اسلام آباد سے آئی ایس پی آر اسی طرح چودھری نثار نے بھی کامیاب آپریشن کا مژدہ سنایا۔
آپریشن کا شور سن کر پولیس نے بھی آپریشن آپریشن کہنا شروع کردیا حتیٰ کہ آئی جی پولیس بلوچستان احسن محبوب نے ملک کے ایک موقر انگریزی اخبار (ڈان) سے بات چیت کرلی۔ باقی سب کی جان تو چھوٹ گئی مگر وفاقی وزارت داخلہ نے آئی جی پولیس بلوچستان پر گرفت کرکے کمزور جگہ پر ہاتھ ڈال دیا۔ رپورٹ طلب کرلی کہ کیوں کہا گیا کہ شہباز تاثیر کی رہائی آپریشن کے نتیجے میں عمل میں لائی گئی۔ گویا چودھری نثار نے کافی برہمی دکھائی۔
اس بات کا قوی امکان ہے کہ شہباز تاثیر آپریشن ضرب عضب کے بعد افغانستان میں رکھے گئے تھے۔ تاوان کی رقم وصول کی گئی تو انہیں چھوڑا گیا۔ تاہم اندر کا احوال شہباز تاثیر ہی بتاسکتا ہے کہ آیا اسے پاک افغان بارڈر پر چھوڑا گیا یا کچلاک تک پہنچایا گیا یا رہائی کس طرح ممکن ہوئی۔ اداروں کی کامیابی تب ہوتی جب شہباز تاثیر ان کی طاقت کے بل بوتے پر بازیاب ہوتے۔ گویا قانون نافذ کرنے والے اداروں، پولیس اور صوبائی حکومت نے انتہائی طفلانہ طرز عمل کا مظاہرہ کیا۔
دوسری بڑی خبر بی ایل اے کے کمانڈر محمد اسلم عرف اچھو عرف میرک بلوچ کی 9 مارچ کو چھ ساتھیوں سمیت ہلاکت کی ہے۔ یہ حقیقت میں بڑی کامیابی ہے۔ محمد اسلم بی ایل اے کے ترجمان بھی تھے۔ ان کے خلاف سبی کے پہاڑے علاقے سانگان میں بڑے پیمانے پر کارروائی ہوئی جس میں فوج نے بھی حصہ لیا اور دو سپاہی بھی جاں بحق ہوئے۔ اسلم اچھو حیربیار مری کے بااعتماد جنگجو تھے۔ کوئٹہ، ڈیگاری، مارواڑ، مارگٹ، بولان، سبی سمیت کئی علاقے ان کی کمانڈ میں تھے۔ سر کی قیمت 60 لاکھ روپے مقرر تھی۔ پیش ازیں 13فروری کو اسی علاقے میں آپریشن کے بعد ان کی ہلاکت کی خبریں عام ہوئیں۔ دہشت گردی اور تخریب کاری کے ان گنت واقعات میں ملوث تھے۔ کئی بڑے واقعات کے ماسٹر مائنڈ تھے۔ زیارت ریذیڈنسی کو بم دھماکوں سے تباہ کرنے کی حکمت عملی بھی ان کی تھی۔ اسلم اچھو کی ہلاکت سے بلاشبہ بی ایل اے کو نقصان کا سامنا ہوگا۔
اسلم اچھو افغانستان بھی جاتے تھے اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان کی سرزمین بلوچ شدت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہ ہے۔ وہیں ان کی تربیت ہوتی ہے اور افغانستان ہی سے انہیں ہر طرح کی کمک مل رہی ہے۔
وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کوئٹہ میں نہیں تھے چنانچہ صوبائی حکومت کے ترجمان نے انوار الحق کاکڑ نے میڈیا کو ان کی ہلاکت کے حوالے سے بریفنگ دی۔ چنانچہ یہ بھی بتایا گیا کہ اسلم اچھو افغان باشندہ تھا۔ جب نواب مری افغانستان میں تھے تو یہ ان کے خیالات سے متاثر ہو کوئٹہ آیا۔ سچ تو یہ ہے کہ اسلم اچھو اگرچہ نسلاً تاجک ہے لیکن اس کا خاندان بلوچستان کے قدیم باشندے ہیں جن کا افغان سرزمین سے دور دور کا بھی واستہ نہیں ہے۔ اجتماعیت اور قومیت کے لحاظ سے بلوچ تھے۔ گھروں میں بلوچی (براہوی) بولتے ہیں اور بلوچوں میں پوری طرح مدغم ہیں اور رشتہ داریاں بھی ہیں۔ بلوچ قوم پرست تھے چنانچہ جب بلوچستان میں علیحدگی پسند گروہ اٹھے تو اسلم اچھو بھی شدت پسندی کی راہ پر چل پڑے۔ چھ دہائیوں سے تو اس کا خاندان کوئٹہ کے کاسی روڈ پر واقع شارع سلطان میں رہائش پذیر ہے۔ ان کے والد کی پرنس روڈ پر دکان تھی۔ خاندان کے کئی افراد سرکاری ملازمتیں کر رہے ہیں۔ اسلم اچھو بڑا نام تھا اور ان کی ہلاکت فورسز کی پڑی کامیابی ہے۔ یقیناً وہ ایک قاتل اور دہشت گرد تھا لیکن بلوچ مزاحمت کار اپنی تاریخ میں ان کا نام ہماری رائے اور سوچ کے برعکس لکھیں گے۔
شہباز تاثیر بازیاب کرائے گیے یا رہا؟ وجود ڈاٹ کام نے اپنی ابتدائی خبرمیں ہی یہ واضح کردیا تھا کہ اُن کی رہائی کو بازیابی باور کرائی جارہی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے جس طرح شہباز تاثیر کی رہائی کو ایک کامیاب آپریشن قرار دینے کی کوششیں کی گئیں ، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے...
سابق گورنر سلمان تاثیر کے بیٹے شہباز تاثیر کو تقریباً پانچ سال قبل انتہائی پراسرار حالات میں اغوا کیا گیا تھا۔ اور آج 8 مارچ کو اُن کی رہائی بھی انتہائی پراسرار حالات میں ہوئی ہے۔ تاحال اس حوالے سے کچھ بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ تاوان کے بعد رہا کیے گیے ہیں یا قانون ناف...
انسداد دہشتگردی کی عدالت نے18جنوری2016ء کو نواب اکبر بگٹی قتل کیس کا آخر کار فیصلہ سنادیا ۔ سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف سمیت سابق وفاقی وزیر داخلہ آفتاب احمد شیر پاؤ اور بلوچستان کے سابق صوبائی وزیر داخلہ شعیب نوشیروانی کو بری کردیا۔ پرویز مشرف ایک بار بھی کوئٹہ کی عدالت میں پیش نہ ہو...
بدھ 13جنوری2016ء کی صبح ہی شہر کوئٹہ پولیس جوانوں کے خون سے رنگ دیا گیا۔ حملہ خودکش تھا جو سیٹلائٹ ٹاؤن میں حفاظتی ٹیکوں کے مرکز کے سامنے ہوا ، یہاں سے پولیو ٹیموں نے روانہ ہونا تھا۔ ڈسٹرکٹ پولیس اور بلوچستان کانسٹیبلری کے اہلکار ان کی حفاظت کیلئے ساتھ جانے کو تیار تھے۔ کسی ظالم ...