وجود

... loading ...

وجود

سچ تو یہ ہے

جمعرات 17 مارچ 2016 سچ تو یہ ہے

shahbaz-taseer

چند روز قبل یکے بعد دیگرے دو بڑی خبریں قومی میڈیا پر نشر ہوئیں۔ ایک سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے بیٹے کی بازیابی اور دوسری بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے انتہائی اہم کمانڈر اسلم اچھو کی آپریشن میں ہلاکت۔ شہباز تاثیر کا ساڑھے چار سال بعد کوئٹہ کے نواحی علاقے کچلاک میں ظاہر ہونا یقیناً ایک انوکھا واقعہ ہے۔ ویسے ان کا لاہور کے گلبرگ سے اگست 2011ء کو اغوا ہونا بھی تعجب خیز تھا اور ملک کے اندر سیکورٹی کے نظام پر کئی سوالات اٹھے۔ پشاور یا کوئٹہ سے اغوا ہوتا اور قبائلی علاقوں تک لے جایا جاتا تو عقل مان لیتی، مگر لاہور سے سخت سیکورٹی حصار کے باوجود اتنا طویل فاصلہ طے کرنا اور بڑی کامیابی سے جنوبی وزیرستان منتقلی ہماری سیکورٹی کے نظام کی ناکامی نہیں تو اور کیا ہے، اور ان ساڑھے چار سالوں میں حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کی رہائی کے ضمن میں بالشت برابر جنبش بھی نہ کرسکے۔ گویا اغوا کاروں نے جنہیں طالبان یا ازبکوں کے نام سے پکارا جاتا ہے، ملک کے اداروں کا سرعام تمسخر اڑایا۔ یعنی اس قدر ہائی پروفائل شخصیت کے بیٹے کی اتنی آسانی، دلیری اور حکمت عملی سے اغوا کیا جانا مذاق اڑانا نہیں تو اور کیا ہے۔

شہباز تاثیر کی بازیابی پر حکومت، وزارت داخلہ، آئی ایس پی آر، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے الگ تماشا بنایا۔ شہباز تاثیر 8مارچ کو منظر عام پر آئے اور ہمارے چاق و چوبند ادارے اگلے روز تک عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہے تھے کہ شہباز تاثیر کو ایک کامیاب آپریشن کے بعد اغوا کاروں کے چنگل سے آزاد کرایا گیا۔ اصل میں دانا و چالاک بننے کی بے کار کوشش کبھی لے ڈوبتی ہے جیسا کہ شہباز تاثیر کی رہائی کے معاملے میں ہوا۔ بلوچستان حکومت کے ترجمان تو اگلے روز رات تک پرانی بات دہرا رہے تھے کہ وہ سلیم ہوٹل کے پیچھے ایک کچے مکان میں قید میں رکھے ہوئے تھے۔

کچلاک کوئٹہ شہر سے تقریباً پچیس کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ گنجان آباد علاقہ ہے اور ایک بہت بڑی آبادی افغان باشندوں کی بھی ہے۔ السلیم ہوٹل کچلاک بازار میں واقع ہے۔ یہ ریسٹورنٹ اپنے نمکین گوشت یعنی ’’روسٹ‘‘ کے حوالے سے کوئٹہ بھر میں مدتوں سے مشہور ہے۔ دور دراز سے لوگ یہاں کھانا کھانے آتے ہیں۔ چنانچہ شہباز تاثیر کو جب چھوڑا گیا تو وہ اس ریسٹورنٹ پہنچے۔ کھانا کھایا۔ چائے پی لی۔ کاؤنٹر پر بل ادا کردیا۔ ہوٹل کے مالک سے موبائل طلب کیا۔ اس نے مشکوک جان کر موبائل دینے سے انکار کیا البتہ قریب پبلک کال آفس کا بتایا جہاں جاکر شہباز نے اپنی والدہ سے فون پر بات کی اور جگہ بتا دی۔ یوں ان کے اہلخانہ نے قانون نفاذ کرنے والے اداروں کو آگاہ کردیا جنہوں نے کوئٹہ کو انفارم کردیا۔ اس طرح کوئٹہ سے ٹیم کچلاک بازار گئی اور شہباز تاثیر کو ساتھ لے گئے اور آن میں آپریشن کی دھوم مچادی گئی۔ حتیٰ کہ اسلام آباد سے آئی ایس پی آر اسی طرح چودھری نثار نے بھی کامیاب آپریشن کا مژدہ سنایا۔

آپریشن کا شور سن کر پولیس نے بھی آپریشن آپریشن کہنا شروع کردیا حتیٰ کہ آئی جی پولیس بلوچستان احسن محبوب نے ملک کے ایک موقر انگریزی اخبار (ڈان) سے بات چیت کرلی۔ باقی سب کی جان تو چھوٹ گئی مگر وفاقی وزارت داخلہ نے آئی جی پولیس بلوچستان پر گرفت کرکے کمزور جگہ پر ہاتھ ڈال دیا۔ رپورٹ طلب کرلی کہ کیوں کہا گیا کہ شہباز تاثیر کی رہائی آپریشن کے نتیجے میں عمل میں لائی گئی۔ گویا چودھری نثار نے کافی برہمی دکھائی۔

اس بات کا قوی امکان ہے کہ شہباز تاثیر آپریشن ضرب عضب کے بعد افغانستان میں رکھے گئے تھے۔ تاوان کی رقم وصول کی گئی تو انہیں چھوڑا گیا۔ تاہم اندر کا احوال شہباز تاثیر ہی بتاسکتا ہے کہ آیا اسے پاک افغان بارڈر پر چھوڑا گیا یا کچلاک تک پہنچایا گیا یا رہائی کس طرح ممکن ہوئی۔ اداروں کی کامیابی تب ہوتی جب شہباز تاثیر ان کی طاقت کے بل بوتے پر بازیاب ہوتے۔ گویا قانون نافذ کرنے والے اداروں، پولیس اور صوبائی حکومت نے انتہائی طفلانہ طرز عمل کا مظاہرہ کیا۔

meerak-baloch

دوسری بڑی خبر بی ایل اے کے کمانڈر محمد اسلم عرف اچھو عرف میرک بلوچ کی 9 مارچ کو چھ ساتھیوں سمیت ہلاکت کی ہے۔ یہ حقیقت میں بڑی کامیابی ہے۔ محمد اسلم بی ایل اے کے ترجمان بھی تھے۔ ان کے خلاف سبی کے پہاڑے علاقے سانگان میں بڑے پیمانے پر کارروائی ہوئی جس میں فوج نے بھی حصہ لیا اور دو سپاہی بھی جاں بحق ہوئے۔ اسلم اچھو حیربیار مری کے بااعتماد جنگجو تھے۔ کوئٹہ، ڈیگاری، مارواڑ، مارگٹ، بولان، سبی سمیت کئی علاقے ان کی کمانڈ میں تھے۔ سر کی قیمت 60 لاکھ روپے مقرر تھی۔ پیش ازیں 13فروری کو اسی علاقے میں آپریشن کے بعد ان کی ہلاکت کی خبریں عام ہوئیں۔ دہشت گردی اور تخریب کاری کے ان گنت واقعات میں ملوث تھے۔ کئی بڑے واقعات کے ماسٹر مائنڈ تھے۔ زیارت ریذیڈنسی کو بم دھماکوں سے تباہ کرنے کی حکمت عملی بھی ان کی تھی۔ اسلم اچھو کی ہلاکت سے بلاشبہ بی ایل اے کو نقصان کا سامنا ہوگا۔

اسلم اچھو افغانستان بھی جاتے تھے اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان کی سرزمین بلوچ شدت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہ ہے۔ وہیں ان کی تربیت ہوتی ہے اور افغانستان ہی سے انہیں ہر طرح کی کمک مل رہی ہے۔

وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کوئٹہ میں نہیں تھے چنانچہ صوبائی حکومت کے ترجمان نے انوار الحق کاکڑ نے میڈیا کو ان کی ہلاکت کے حوالے سے بریفنگ دی۔ چنانچہ یہ بھی بتایا گیا کہ اسلم اچھو افغان باشندہ تھا۔ جب نواب مری افغانستان میں تھے تو یہ ان کے خیالات سے متاثر ہو کوئٹہ آیا۔ سچ تو یہ ہے کہ اسلم اچھو اگرچہ نسلاً تاجک ہے لیکن اس کا خاندان بلوچستان کے قدیم باشندے ہیں جن کا افغان سرزمین سے دور دور کا بھی واستہ نہیں ہے۔ اجتماعیت اور قومیت کے لحاظ سے بلوچ تھے۔ گھروں میں بلوچی (براہوی) بولتے ہیں اور بلوچوں میں پوری طرح مدغم ہیں اور رشتہ داریاں بھی ہیں۔ بلوچ قوم پرست تھے چنانچہ جب بلوچستان میں علیحدگی پسند گروہ اٹھے تو اسلم اچھو بھی شدت پسندی کی راہ پر چل پڑے۔ چھ دہائیوں سے تو اس کا خاندان کوئٹہ کے کاسی روڈ پر واقع شارع سلطان میں رہائش پذیر ہے۔ ان کے والد کی پرنس روڈ پر دکان تھی۔ خاندان کے کئی افراد سرکاری ملازمتیں کر رہے ہیں۔ اسلم اچھو بڑا نام تھا اور ان کی ہلاکت فورسز کی پڑی کامیابی ہے۔ یقیناً وہ ایک قاتل اور دہشت گرد تھا لیکن بلوچ مزاحمت کار اپنی تاریخ میں ان کا نام ہماری رائے اور سوچ کے برعکس لکھیں گے۔


متعلقہ خبریں


شہباز تاثیر کی رہائی کا سہرا سجانے کی غلط معلومات کا نوٹس، تحقیقاتی کمیٹی قائم وجود - جمعرات 10 مارچ 2016

شہباز تاثیر بازیاب کرائے گیے یا رہا؟ وجود ڈاٹ کام نے اپنی ابتدائی خبرمیں ہی یہ واضح کردیا تھا کہ اُن کی رہائی کو بازیابی باور کرائی جارہی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے جس طرح شہباز تاثیر کی رہائی کو ایک کامیاب آپریشن قرار دینے کی کوششیں کی گئیں ، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے...

شہباز تاثیر کی رہائی کا سہرا سجانے کی غلط معلومات کا نوٹس، تحقیقاتی کمیٹی قائم

شہباز تاثیر بازیاب ہوئے یا رہا؟ پانچ برس تک ریاستی ادارے کوئی کارکردگی نہیں دکھا سکے! وجود - بدھ 09 مارچ 2016

سابق گورنر سلمان تاثیر کے بیٹے شہباز تاثیر کو تقریباً پانچ سال قبل انتہائی پراسرار حالات میں اغوا کیا گیا تھا۔ اور آج 8 مارچ کو اُن کی رہائی بھی انتہائی پراسرار حالات میں ہوئی ہے۔ تاحال اس حوالے سے کچھ بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ تاوان کے بعد رہا کیے گیے ہیں یا قانون ناف...

شہباز تاثیر بازیاب ہوئے یا رہا؟ پانچ برس تک ریاستی ادارے کوئی کارکردگی نہیں دکھا سکے!

آئینی حقوق کے بجائے سیاسی ڈرامے بازی جلال نورزئی - پیر 25 جنوری 2016

انسداد دہشتگردی کی عدالت نے18جنوری2016ء کو نواب اکبر بگٹی قتل کیس کا آخر کار فیصلہ سنادیا ۔ سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف سمیت سابق وفاقی وزیر داخلہ آفتاب احمد شیر پاؤ اور بلوچستان کے سابق صوبائی وزیر داخلہ شعیب نوشیروانی کو بری کردیا۔ پرویز مشرف ایک بار بھی کوئٹہ کی عدالت میں پیش نہ ہو...

آئینی حقوق کے بجائے سیاسی ڈرامے بازی

دہشت گردی کی جڑیں جلال نورزئی - بدھ 20 جنوری 2016

بدھ 13جنوری2016ء کی صبح ہی شہر کوئٹہ پولیس جوانوں کے خون سے رنگ دیا گیا۔ حملہ خودکش تھا جو سیٹلائٹ ٹاؤن میں حفاظتی ٹیکوں کے مرکز کے سامنے ہوا ، یہاں سے پولیو ٹیموں نے روانہ ہونا تھا۔ ڈسٹرکٹ پولیس اور بلوچستان کانسٹیبلری کے اہلکار ان کی حفاظت کیلئے ساتھ جانے کو تیار تھے۔ کسی ظالم ...

دہشت گردی کی جڑیں

مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر