... loading ...
ایک بہت عمدہ شعر ہے، ایم کیوایم والے شعیب بخاری ایڈوکیٹ جنہیں ڈاکٹر صغیر احمد اور پیپلز پارٹی کے ایڈوکیٹ رفیق انجینئر سمیت، ایک دفعہ ہمارے وزیر ہونے کا اور کئی مرتبہ ناراض ہونے کا شرف حاصل رہا وہ اسے میر تقی میر کا شعر کہتے تھے مگر ہم تصدیق نہیں کرپائے ع
بر صغیر پاک و ہند میں ا یف ۔ آئی ۔آر کے حوالے سے بھی معاملہ کچھ ایسا ہی ہے۔معید الدین ولد یار محمد ساکن کٹرہ شیش محل (دہلی میں محلے کو پنجابی اورمقامی محاورے میں کٹرہ کہتے تھے) اپنی ایف آئی آر کٹواکر جانے کس قبرستان میں فرشتوں سے سوال جواب کرتے اور قیامت کے منتظر ہوں گے ۔ لیکن ان کے بعد ہر ایف آئی آر جو ہندوستان پاکستان میں درج ہوئی وہ ع جلاد سے پوچھے، کوئی جلاد کا عالم ،قسم کی ایک داستان بن گئی ہے کہ کہی جارہی ہے سنی جارہی ہے۔
آپ کی یاد دہانی کے لیے عرض ہے ان بے چار ے ادھیڑ عمر کے معید الدین کے آستانہ ء دلفریب سے کوئی چور ان کی قلفی ، قلفی رکھنے کا برتن ، حقہ اور جواں سال بیگم کی کرتی، غرارے سمیت چوری کرگیا تھا۔ حضرت چور کی اس ناپاک جسارت پر تاؤ کھاگئے اور اس مال مسروقہ جس کی مالیت کل پونے تین روپے کے قریب بنتی تھی اس پر مورخہ 18 اکتوبر 1861 کو ایف آر کٹوا بیٹھے۔چور بھی گرفتار ہوا ، بیگم بھی بدنام نہ ہوئیں اور مال مسروقہ بھی برآمد ہوا ۔ یہ تمام اشیا سوائے قلفی کے پرانی دہلی کے تھانہ سبزی منڈی کے مال خانے میں اب بھی اپنی جگہ محفوظ ہیں ۔
یہ ایف آئی آر ضابطہ فوجداری ہند کی دفعہ 154 کی بجائے انڈین پولیس ایکٹ مجریہ1861 کے تحت اردو زبان میں کاٹی گئی تھی۔۔ ان دنوں ضابطہ فوجداری Indian Criminal Procedure Cod نافذ نہ ہواتھا۔ 1857 کی جنگ آزادی کے اسباب بغاوت کا جائزہ لیتے ہوئے انگریز نے جان لیا کہ ہند میں حکمرانی کے پرانے جابرانہ انداز بدلنے ہوں گے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اس نے ایسے ادارے تشکیل دینا شروع کردیے جو برطانیہ میں بہت کامیابی سے فرائض انجام دے رہے تھے۔اس مقصد کے حصول کے لیے اس نے قانون سازی کرکے کانگریس اور عدالتیں قائم کرنا شروع کردیں۔ لارڈ میکالے نے انگریز ذہن اور دیسی حالات کو سامنے رکھ کر تعزیرات (جرائم اور سزا ) کا بنیادی قانون جسے Substantive Criminal Law کہتے ہیں Indian Penal Code بنایا جسے بائیس سال بعد نافذ کردیا ۔دشواری یہ تھی کہ اس کو نافذ کرنے کے لیے کوئی Universal Corpus Procedure یعنی ہمہ جہت ضابطہ نہ تھا۔سن 1882تک ہندوستان میں کوئی مشترکہ ضابطہ فوجداری موجود نہ تھا۔ چھوٹے چھوٹے سے کئی ضابطے موجود تھے جو صوبوں میں عدالتیں مقدمات میں استعمال کرتی تھیں۔
آپ ہندوستان میں انگریز کی عرق ریزی، انصاف کے حوالے سے احتیاط پسندی اور دور اندیشی کی داد اس بات سے دے سکتے ہیں کہ اس نے جرم و سزا کا بنیادی قانون تو ایک شخص میکالے کی ذہانت اور علمیت پر بھروسہ کرتے ہوئے برطانوی پارلیمنٹ سے منظور کرکے 1861 میں نافذ کردیا مگر اسے ضابطے کے مختلف صوبوں میں مروجہ قوانین کو یکجا کرکے ان پر برطانوی پارلیمنٹ میں بحث کرکے نافذ کرنے میں 27 سال یعنی 1898 ء تک انتظار کرنا پڑا ۔وہ جانتا تھا کہ ضابطے کی کارروائی ٹھیک ہوگی تو انصاف کا حصول بذریعہ عدالت آسان ہوگا ۔ اس کے برعکس پاکستان میں عدلیہ کو پولیس اور تفتیشی اداروں سے بنیادی شکایت یہ ہی رہی ہے کہ یہ سب مقدمے کے اندراج سے چالان کی تکمیل اور اور مقدمے کی پیروی تک بہت غفلت، کم علمی اور غیر پیشہ ورانہ رویوں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔اس کا فائدہ ہمیشہ ملزم کو پہنچتا ہے۔
اس کے وضع کردہ قانون کی مناسبت سے سن 1993 تک ( جب انتظامیہ کو عدلیہ سے علیحدہ کردیا گیا ) عدالتوں میں ایسی نوعیت کے جرائم جن کی سزا تین سال اور جرمانہ پندرہ ہزار روپے تک ہوتا تھا وہ اس کے سب ڈویژن مجسٹریٹ یا ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ (اسسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر ) کی عدالت میں چلتے تھے۔ تھانوں میں وہ انسپکٹر کی سطح تک مقامی دیسی افراد رکھتے تھے۔ انسپکٹر کو ڈی ایس پی بننے کے لیے بہت پاپڑ بیلنے پڑتے تھے ۔ پچاس پچپن کے پیٹے میں وہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر پہنچتا تو تب کہیں اس مصرعہ تر کی صورت نظر آتی تھی۔ ا س کے اوپر کے تمام عہدوں پر مقابلے کے امتحان کے ذریعے منتخب ہونے والے پولیس افسران ہوتے تھے ۔ جن سے یہ سب ماتحت لرزہ بر اندام رہتے تھے۔ ان سب کی جان پھر ہوم ڈیپارٹمنٹ سے جاتی تھی۔ضیا الحق کے رہزن مارشل لاء تک ہمیں یاد ہے، ان دنوں مظہر رفیع ہوم سیکرٹری ہوتے تھے گریڈ بیس کے ، ارباب ہدایت اﷲ آئی جی ہوتے تھے ،گریڈ اکیس کے اور ہمایوں فرشوری گریڈ اٹھارہ کے ڈپٹی سیکریٹری پولیس ہوتے تھے ۔ان دنوں کبھی یہ نہ ہوا کہ آئی جی صاحب میٹنگ میں آنے کے لیے پہلے ڈپٹی سیکرٹری پولیس کے کمرے میں حاضر نہ ہوئے ہوں جب کہ آئی جی آفتاب نبی پرویز مشرف کے دورمیں ہوم سیکرٹری کے دفتر آنے سے صاف انکاری ہوتے تھے ۔
اس نظام کی خوبی یہ تھی کہ علاقے کا سب ڈویژنل مجسٹریٹ اپنے علاقے کے حالات و واقعات سے دور افتادہ (Ivory Tower) قسم کے کمرہ عدالت میں براجمان سول جج اور سیشن جج کی نسبت زیادہ بہتر طور پر واقف ہوتا تھا۔ اس کو آپ یوں سمجھ لیں کہ
ایک پولیس افسر کے قریبی عزیز نے لیاقت تھانے کی حدود میں اپنی ملازمہ کی کسی کم سن لڑکی کو ریپ کردیا ،لڑکی کے گھرانے کا مسلک پولیس افسر کے مجرم رشتہ دار سے جدا تھا۔تھانے پر مقدمہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 376 درج تو ہوا مگر پولیس نے نہ تو ملزم کا مزید ریمانڈ مانگا نہ ہی ضمانت کی درخواست کی عدالت میں پیٹی بھائی کا عزیز ہونے کی وجہ سے مخالفت کی ۔نتیجہ یہ نکلا کہ اس شہزادے کی دو روز بعد ہی ضمانت پر جیل سے رہائی ہوگئی۔
ایک شام سب ڈویژنل مجسٹریٹ نے کیا دیکھا کہ محرم سے دو روز قبل ایک طرف سے سڑک بند کرکے تین ہٹی سے لیاقت کی طرف ایک چھوٹا سے ناچتا کودتا ہجوم ملزم کو کاندھے پر بٹھائے ہار پہنائے ڈھول کی تھاپ پر لیے چلا آتا ہے ۔ اُسے چونکہ اس مقدمے کی جزئیات کا بخوبی علم تھا لہذا اس نے خلق خدا میں مزید فساد کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے پولیس موبائل منگواکر ملزم کو نقض امن کے تحت ضباطہ فوجداری کی دفعات 107/117, 151 کے تحت گرفتار کیا۔ایسے کیس تھانے پر ہر روز ہی پولیس اپنا وجود جتلانے کے لیے قائم کرتی رہتی تھی، علاقہ معززین بھی اس میں مقید جب کسی ملزم کو چھڑالاتے تو علاقہ میں ان کی واہ واہ ہوجاتی ۔یہ ایم کیو ایم کے ابتدائی ایام تھے۔ چیئرمین عظیم طارق سے لے کر اس کے اہم Ideolouge دانشور سید اختر حسین رضوی تک ایس ڈی ایم کے بلاوے پر میں صدقے میں واری کہہ کر حاضر خدمت ہوجاتے تھے۔
ایسے مقدمات میں پولیس سے تسلی کرکے یا علاقہ معززین یا منتخب نمائندے کی امن برقرار رکھنے کی یقین دہانی پر فون پر یا شناختی کارڈ پر ہی ضمانت دے دی جاتی تھی۔اگلے دن جب وکیل صاحبان آئے تو ان کا خیال تھا کہ اس علاقے کے ایس ڈی ایم کی عدالت سے ملزم کو واک اوور مل جائے گا مگر ایسا نہ ہوا مجسٹریٹ نے ضمانت کی درخواست کو رد کرنے کا جو فیصلہ لکھا وہ ہائی کورٹ تک بحال رہا۔ فیصلہ تھا کہ موجودہ محرم منتخب حکومت کا پہلا بڑا چیلنج ہے اور ملزم کی اس گھناؤنے جرم میں ملوث ہونے کے باوجود کہ جس جرم کی سزا دس سے پچیس سال تک ہے ،فوری رہائی سے علاقے میں اشتعال پایا جاتا ہے۔ علاقہ انتظامیہ اس بات کو بہتر تصور کرتی ہے علاقے میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے اسے چہلم تک جیل کی سلاخوں میں رکھا جائے بصورت دیگر امن وامان کی خرابی کی تنہا انتظامیہ ہی ذمہ دار نہ ہوگی۔ملزم کو خیر سے دو ماہ بعد رہائی ملی وہ بھی بڑی عدالت سے۔
FIRجو First Information Report کا مخفف ہے۔اس ابتدائی دستاویز کوقانون کی خلاف ورزی کی پہلی اطلاع مانا گیا ، مگر اس کے ساتھ گرفتاری مشروط نہ تھی۔ اگر ایسا ہوتا تو پاکستان میں قانوناًکئی ایسے ملزمان بھی ہیں جن کے خلاف ایف آئی آروں کا طومار بندھا ہوا ہے ۔ اس حوالے سے حکومت کا تجاہل عارفانہ ہندوستان کے فلمی شاعر سورگیئے ( جنت مکانی) شیلندر کے بقول ع
کئی ایف آئی آر تو ایسی ہیں کہ ملک کے ایک اہم سیاسی رہنما کے خلاف کٹی ہوئی ہیں۔ان کی بے اثری دیکھ کر آپ کو ایک گیت کی یاد آجائے گی جس میں سسکتی ہوئی لتا کہتی ہے کہ ع مٹی سے کھیلتے ہو بار بار کس لیے ۔وہ بڑے نادان ہوتے ہیں جو اقتدار کو نشانہء تضحیک بناتے ہیں۔حکومت آنکھ پھیر لے تو زمین غیر ہوجاتی ہے، آسمان بدل جاتا ہے ۔ مشہور سیاسی رہنما اور چوہدری شجاعت کے والد چوہدری ظہور الہی کو ظالم پولیس نے ایک طرف بھینس کی چوری پر ایف ۔آئی ۔ آر کاٹ کر بند کردیا تھا تو چند دن پہلے ملک کی مشہور ماڈل کے ایک تفتیشی افسراعجاز چوہدری کی ہلاکت کو دفعہ 324 ت۔پ کے تحت داخل دفتر کردیا۔ یہ مقدمہ ضرب خفیف برائے قتل عمد کے زمرے میں داخل کیا گیا جو قابل ضمانت جرم ہے ۔ تھانہ وارث خان کے ایس ایچ او کا اس طرح کی بے ضررایف آئی آر درج کرنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ یہ ثابت کرسکیں کہ مرنے والے کو جاں دینے میں جتنی جلدی تھی اتنی قاتلوں کو انہیں ہلاک کرنے میں نہ تھی۔ جس کے نتیجے میں وہ اشک شوئی کے لیے معطل بھی ہوئے ۔معاف کرنے پر اترآئے تو پرویز مشرف کی حکومت سا فیاض بھی کوئی نہ ہو جس نے ایک آرڈی نینس کے ذریعے 5 اکتوبر سن 2007 کو قاتلوں، لٹیروں سمیت 8041 افراد جو مختلف جرائم میں ملوث تھے ۔ان سب کی ایف آئی آروں کو مفاہمت کے تیزاب میں ڈال کر ان سب ملزمان کو تمام جرائم سے پاک قرار دے دیا، سپریم کورٹ نے چار سال بعد گو اس قانون کو منسوخ کرکے از سر نو کارروائی کا حکم دیا مگر انگریزی میں ایک محاورہ ہے جسے Honor Among Thieves کہتے ہیں، (اسے آپ لٹیروں میں آنکھ کی شرم اور پیشے کا لحاظ مان لیں )یاد رکھیے ایک حاکم گروپ کبھی اپنے ہم پیشہ افراد کا احتساب نہیں کرتا وہ چاہے سیاست دان ہوں، جرنیل ہوں ، ، جج ہوں یا بیورکریٹ ہوں ،ساوک اور تودے پارٹی،افغان صدر نجیب اﷲ اور اسکے بھائی رومانیہ کے چاؤ ششکو اور اس کی خوش پوش بیوی کو سولی پر لٹکانے فائرنگ اسکواڈ کا آئینہ دکھانے اور سبق سکھانے کے لیے بے رحم، برق رفتار ،انقلابی قیادت کی ضرورت ہوتی ہے ۔
آپ نے سوچا کہ ایسا کیا ہے کہ تیزی سے سر اٹھاتا ہوا ایک میڈیا ہاؤس اور اس کے تیز گفتار سر براہ تو اڑنے سے پہلے ہی گرفتار ہوگئے ۔ ان کی ایف آئی آر بھی بعد میں کٹی۔اس کے برعکس ایک میڈیاہاؤس کے سربراہ جن کے خلاف نہ صرف ہر چھوٹے بڑے شہر میں کل ملا کر 75 ایف آئی آر درج ہیں بلکہ گلگت کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کے محترم جج شہباز خان نے جیو اور جنگ گروپ کے روح رواں میر شکیل الرحمن، پروگرام کی میزبان شائستہ واحدی، دولہا بشیر اور دلہن وینا ملک کو توہین دین و رسالت کے تحت 26 سال قید بامشقت اور تیرہ لاکھ روپے جرمانے کی سزا بھی سنائی ہے مگرکسی سپاہی اﷲ دتا نے کبھی ان کی گرفتاری کی جسارت نہیں کی جب کہ یہ سب پانچ ستارہ ہوٹلوں سے لے کر ہرائیر پورٹ کی غلام گردشوں سے ملک بھر کی خفیہ اور بظاہر ایجنسیوں کے سامنے سے مسکرا مسکرا کرمعزز معاشرے میں یوں رہتے ہیں جسے آنکھ میں کاجل ۔انہیں پر کیا موقوف کراچی میں سرکار کی نگاہ ناز میں پرورش پاتی ایک نئی سیاسی اکائی میں شامل ایک صاحب ایسے بھی ہیں جو ہر پریس کانفرنس میں موجود ہوتے ہیں، نماز جمعہ پر چلے جاتے ہیں مگر عدالت کے جاری کردہ ناقابل ضمانت وارنٹ لے کر گھومتے افسر تفتیش کو انہیں گرفتار کرنے کا یارا نہیں ہوتا ۔
کراچی کے تھانہ جوہر آباد کا گرگ باراں دیدہ سب انسپکٹر صوبہ خان جس کے سامنے علاقے کے مہاجر لڑکے برگ لرزاں بنے رہتے تھے اس سے جب ہم بطور علاقہ مجسٹریٹ ایف آئی آر ہوتے ہوئے بھی خالد شہنشاہ اور شعیب خان جو ہمارے علاقہء انتظام کے مشہور ڈشکرے ( پنجابی زبان میں بدمعاش) تھے۔ ان کو گرفتار نہ کرنے کی وجہ پوچھتے تو وہ پنجابی میں کہا کرتا تھا:
’’ میرا ابا کہندا سی اوئے صوبیا ساڈے ملک وچ اے قانون تے ، اے ایف آئی آراں گشتی رن وانگو ں ہوہین۔۔۔طاقت ہوئے تے اے سارے تہاڈی داشتہ کمزور ہوؤتے اے چڑیل بن کے تہانوں کھاجاندے نے‘‘
(ہمارے ملک میں اوئے صوبے ،یہ قانون اور ایف آئی آر خراب عورت کی طرح ہوتے ہیں آپ طاقتور ہوں تو یہ سارے آپ کی داشتہ اور آپ اگر کمزور ہوں تو یہ چڑیل بن کر آپ کو کھاجاتے ہیں۔)
عمر گزری اب سوچتے ہیں تو سب انسپکٹر صوبہ خان کا یہ درس دانش ہمیں علامہ اقبال کے ایک مصرعہ کا خلاصہ لگتا ہے کہ ع ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات ۔یا پھر وہ جو حضرت ناز خیالوی نے اپنی مشہور قوالی تم اک گورکھ دھندا ہو میں کہا ہے نا کہ ع
پاکستان میں کٹنے والی ابتدائی ایف آئی آر آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ بھارت کے مانویئے ( مشہور ) نیتا ایل کے ایڈوانی کے خلاف کراچی کے تھانہ جمشید کوارٹر کراچی میں محمد علی جناح کے قتل کی سازش میں ملوث ہونے کے حوالے سے سن 1947کٹی تھی۔ تب تک یہ حضرت تھانہ جمشید کوارٹر کی حدود میں واقع پارسی کالونی میں رہا کرتے تھے۔اس ایف آئی آر کا بھی وہی حال ہوا جو طاقت ور افراد کے خلاف درج دیگر ایف آئی آر کا ہوتا ہے، موصوف بہت خاموشی سے بھارت شررنارتھی بن کرسدھارگئے اور بی جے پی کے اہم رہنما بن گئے۔
آپ کی حیرت میں اس وقت اور بھی اضافہ ہوگا جب سن 2002 میں جنرل پرویز مشرف بھارتی وزیر اعظم واجپائی سے مذکرات کر نے آگرہ پہنچے تو لال کشن آڈاونی نے جو ان دنوں معدنیات اور کوئلے کے وزیر تھے ،رنگ میں بھنگ ڈالنے والی یہ بات چھیڑ دی کہ پاکستان بھارت کے انتہائی مطلوب ملزمان کو اپنے ہاں پناہ دیے ہوئے ہے ،بہتر ہوگا کہ کسی مناسب معاہدے سے پہلے انہیں وہ بھارت کے حوالے کرے ۔اس کی یہ بات سن کر مشہور اور بے باک ترین ارد شیر کاؤس جی جو پاکستان کے وفد کے ممبر بھی تھے اور جن کی سابق بھارتی وزیر اعظم آئی ۔ کے ۔گجرال سے بہت دوستی تھی ،انہوں نے اس مرد بردبار گجرال سے یہ سرگوشی کی کہ ’’ ابھی میں نے جنرل کو بتادیا کہ اس کے آڈوانی کے خلاف بھی 1947 کی ایف آئی آر پاکستان میں کٹے لی( کٹی ہوئی) ہے تو بہت لفڑا ہوجائے گا۔ ہمارا جنرل گھیلا(پاگل ) ہے ۔ ایڈاونی اور ایشوریا رائے دونوں کو پکڑ کر پاکستان لے جائے گا۔جس پر گجرال صاحب نے مسکرا کر کہا کہ ایک کو لے جانے پر تو باجپائی کو شاید کوئی اعتراض نہیں ہوگا مگر دوسری ہماری ہیلن آف ٹرائے ہے ۔ اس کو لے جانے کی بات کی تو جنگ ہوجائے گی۔
جنرل مشرف کا خیال تھا کہ مذاکرات کو سبو تاژ کرنے میں ایڈوانی کا اور اس وقت کی وزیر اطلاعات ششما سوراج کابہت ہاتھ تھا۔ یہ ہی انکشاف اے۔ ایس۔ دُلّت جو اس زمانے میں بھارتی خفیہ ایجنسی ـ’’را‘‘ کے چیف تھے ،انہوں نے بھی اپنی کتاب میں کیاہے۔
یہ دونوں وزیر اور بی جے پی کے اہم رہنما یعنی ششما جی اور ایڈوانی جی وزیر اعظم بننے کے پرائیوٹ عزائم سینے میں چھپائے پھرتے تھے۔ ان غافلان ہوس و جاہ کو یہ خبر نہ تھی کہ ان دونوں کے ان دیرینہ عزائم کو برباد کرنے کے لیے وہ دشمن جاں مودی جی گجرات میں اپنے ہم زباں سرمایہ کاروں کے لیے سہولتوں کے لیے مصر کا بازار سجاکر اپنی روٹی پر چپکے چپکے وزات عظمی کی دال گھسیٹ رہے ہیں۔
ایف آئی آر اور قانون میں بہتری کا موضوع کار جہاں کی مانند دراز ہے اور ہمارا دل چاہتا ہے کہ اسے ادھورا ہی چھوڑ دیں مرحوم صادقین نے کہا تھا کہ
سو آپ بھی اس ادھوری کہانی پر گزارا کریں فیض احمد فیض بھی تو کہتے تھے نا کہ کام عشق کے آڑے آتا رہا اور عشق کام سے الجھتا رہا۔۔ آخر تنگ آکر ہم نے ، دونوں کو ادھورا چھوڑ دیا۔
[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...
ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...
[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...
ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...
بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...
[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...
[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...
پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...
[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...
[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...
معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...
میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...