وجود

... loading ...

وجود

گُڈ مہاجر ، بیڈ مہاجر (حصّہ اوّل)

بدھ 16 مارچ 2016 گُڈ مہاجر ، بیڈ مہاجر (حصّہ اوّل)

فیض حیات ہو تے تو کہتے ….

آؤ کہ آج ختم ہو ئی داستانِ عشق
اب ختم ِعاشقی کے فسانے سنائیں ہم

گذشتہ دو ہفتوں سے ماجرا کچھ ایسا ہی ہے ، ’’خَتمِ عاشقی‘‘ کے فسانے ہی کہے جا رہے ہیں ، ہر تیسرے روز سہ پہر تین بجے کوئی نہ کوئی پتنگ کٹ کر ’’خیابان ِ سحر ‘‘پر آگرتی ہے ، اب ہارون بھی ’’باکمال‘‘ہو گئے گویا کرسیوں کی تعداد نصف درجن تک جا پہنچی ہے کہاجا رہا ہے کہ ’’باضمیر ‘‘لوگوں کی تعداد اگلے تین ماہ تک مسلسل بڑھتی رہے گی مگر یہ نہیں بتایا جا رہا کہ اسکے بعد کیا ہو گا۔ جو بھی ہو اسٹیبلشمنٹ کے نظرِ انتخاب کی داد تو دینی ہی چاہئے۔ مصطفی کمال کو روتے دیکھا تو دل نے کہا اس بندے میں دم تو ہے الطاف بھائی کی جگہ لینے والے جراثیم اس میں پوری طرح موجود ہیں ۔بعض’’برقی دانشور‘‘زور مار رہے ہیں کہ مصطفی کمال کیلئے گھر 25فروری کو کرائے پر لیا گیا ، مالک مکان کو بھی معلوم نہ تھا کہ کون یہاں رہے گا ، انہیں ائر پورٹ سے بھی انکے دوست نے تنہا وصول کیا ، پریس کانفرنس ٹی وی پر دیکھنے کے بعد پولیس کی دو موبائلیں حفاظت کیلئے آکھڑی ہوئیں وغیرہ وغیرہ گویا ان دودرویشوں کی جوڑی اپنے زور پر ہی دوبئی سے چل پڑی۔چلیں مان لیتے ہیں ایسا ہی ہے توپھر ذرا یا دداشت پر زور دیجئے اور گزشتہ برس گلشن ِمعمار سے گرفتار ہونے والے ایم کیو ایم کے شعبہ مالیات کے کرتا دھرتا عمیر صدیقی کی گرفتاری کے بعد اس سے کی گئی تفتیش کی روشنی میں جاری کردہ رینجرز کے اعلامیے کے مندرجات یاد کیجئے۔

پاکستان کو جتنا خطرہ الطاف حسین سے ہو سکتا ہے اس سے کہیں زیادہ خطرہ اُس’’سلیکٹو جسٹس‘‘ سے ہے جو ہماری اسٹیبلشمنٹ روا رکھے ہوئے ہے۔

اُس اعلامیے میں بتایا گیا تھا کہ عمیر صدیقی نے اپنے ہی کارکنوں سمیت 120افراد کے قتل کا اعتراف کر لیا ہے ، مزید کہا گیا کہ عمیر صدیقی نے جے آئی ٹی کو بتایا کہ ان وارداتوں کی ہدایات انیس قائم خانی دیا کرتے تھے اور اس کیلئے خورشید بیگم میموریل ہال میں میٹنگز کی جاتی تھیں ، اعلامیے کے مطابق عمیر صدیقی نے یہ اعتراف بھی کیا کہ 2008میں انیس قائم خانی نے کراچی میں بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ قتل و غارت گری کروانے کی ہدایات دی تھیں اور اس مقصد کیلئے کوئٹہ سے اسلحے کی ایک بڑی کھیپ بھی منگوائی گئی تھی جبکہ واردات کے بعد قاتل خورشید بیگم میموریل ہال آکر انیس قائم خانی کے پاس ہی پناہ لے لیا کرتے تھے ۔ اب بتائیے موصوف دندناتے پھر رہے ہیں اور رینجرز کے جوان بھی انکے نام کی چاکنگ کروانے میں مشغول ہیں پھر بھی یار لوگ کہتے ہیں اس میں اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ نہیں، شاید نہ ہو مگر پھر پاؤں تو ضرور ہو گا اور کہتے ہیں نہ کہ ’’ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں‘‘۔اس نئے گروپ کی دیدہ دلیری اس ’’ سلیکٹو جسٹس‘‘ کی ایک برہنہ مثال ہے جو ہماری اسٹیبلشمنٹ کا ’’طرّۂ امتیاز‘‘ ہے یعنی صرف الطاف حسین کی تقریر سننے والے پیشیاں بھگتتے بھریں اور سینکڑوں افراد کے قاتل کے پلانرز کلف لگے کپڑے پہن کر بھاشن دیتے رہیں ۔

یہ سوال اہم ہے کہ کراچی کی سیاست کا اگلا منظر نامہ کیا ہے مگر بات آگے بڑھانے سے ذرا قبل اسٹیبلشمنٹ کی ہیئت کی وضاحت ضروری ہے کیونکہ تان آکر یہی ٹوٹنی ہے ۔

’’دی اسٹیبلشمنٹ‘‘ کے تصوّر سے دنیا کو انگریز نے روشناس کرایا برطانوی اصطلاح کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کی تعریف میں ہر وہ گروہ داخل ہے جو عددی اعتبار سے چھوٹا مگر بے تحاشہ طاقتور ہو ، یہ گروہ کسی معاشرے میں عسکری اشرافیہ ، سول سرونٹس، ججز، میڈیا مالکان، شاہی خاندان کے افراد ، طاقتور سیاستدانوں اور امراء پر مشتمل ہو سکتا ہے ۔ یہ دراصل ایک باہم مماثل ذہنی رجحانات رکھنے والے چند طاقتور افراد کے ایک ’’کلوزڈ‘‘گروپ کا آفاقی نام ہے جو ہر معاشرے میں اپنے اراکین خود منتخب کرتا ہے۔ برطانیہ میں تو ’’دی اسٹیبلشمنٹ‘‘ کے زمرے میں ’’چرچ آف انگلینڈ‘‘سے وابستہ اہم مذہبی پیشوا بھی آتے ہیں صورتحال ہمارے یہاں بھی مختلف نہیں البتہ وہاں مذہبی رہنما عیسائی ہوتے ہیں اور ہمارے یہاں مسلمان ۔ خواہ نام کے ہی سہی بہر کیف یہ وضاحت اس لیے ضروری تھی کہ اس سے مصطفی کمال کا مستقبل نتھی ہے اور کراچی کا امن بھی ۔

مارچ 1984میں قائم ہونے والی جماعت ایم کیو ایم دراصل کراچی میں رہائش پزیر مہاجروں کی محرومیوں کا نقطۂ ارتکاز تھی۔ یہ اس مایوسی کا ردّعمل تھی جو قیا م پاکستان کے بعد سے اردو بولنے والوں میں اسٹیبلشمنٹ کے رویے نے پھیلا رکھی تھی ۔ قائد اعظم نے کراچی کو دارالخلافہ متعین کیا مگر ایوب خان اسے کھسکا کر مرگلہ کے پہاڑوں کے پاس لے گئے، محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ سیاسی مخاصمت میں نہایت توہین آمیز سلوک کیا گیا ، بھٹو کے دور حکومت میں منظور کردہ سندھی لینگویج بل اور کوٹہ سسٹم وغیرہ جیسے اقدامات نے ’’آتش ِشوق‘‘ کو مزید ہوادی اور تب تک واضح طور پر تمام پاکستانی سندھی ، پنجابی، بلوچ اور پٹھان بن ہی چکے تھے لہذا اردو بولنے والوں میں سیاسی شناخت سے محرومی کا تصور زور پکڑنے لگا تھا ، اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ جو جنرل ضیاء الحق، انکے عسکری رفقاء، پنجاب میں چند چہیتے سیاستدانوں، سندھ میں سندھو دیش کا نعرہ لگانے والے قوم پرستوں اور ملک کے طول وعرض میں پھیلے جہادی مولویوں پر مشتمل تھی اسے مرکز کی سیاست کرنے والی پیپلز پارٹی کا زور توڑنے کیلئے سندھ کے شہری علاقوں میں لسانی بنیاد پر سیاست کرنے والی جماعت کی شدید ضرورت تھی سو نظر انتخاب مہاجروں کے نام پر سرگرم طالب علم رہنما الطاف حسین پر جا ٹہری ۔ اس کے بعد چل سو چل ۔

تمدّنی روّیوں اور سماجیات پر کی گئی تحقیق کہتی ہے کہ لوگوں کو انکے دکھ ایک دوسرے کے ساتھ جوڑتے ہیں ،کچھ یہی روّیہ الطاف حسین نے اپنی ’’پولیےٹکل لائن‘‘کے طور پر اختیار کیا ، وہ مہاجر وں کو انکی محرومیاں گنوا گنوا کر اپنے قریب اکٹھاکرتے گئے اور ساتھ ساتھ ان محرومیوں میں اضافے کا ’’خاطر خواہ‘‘بندوبست بھی کرتے رہے 85ء میں ناظم آباد میں سرسید گرلز کالج کی دو اہلِ تشیع طالبات بہنوں بشریٰ زیدی اور نجلہ زیدی کی ٹریفک حادثے میں ہلاکت کو انہوں نے لسّانی رنگ دینے میں بھر پور کامیابی حاصل کی اور پھر کراچی میں پٹھانوں کے خلاف تشدد کی وہ لہر اٹھی کہ خدا کی پناہ ۔ ٹرانسپورٹ کے شعبے میں پٹھان اس وقت چھائے ہوئے تھے اس لئے الطاف حسین نے پٹھانوں کے خلاف اردو بولنے والوں کے جذبات کی آگ پر خوب تیل چھڑکا اور مؤثر ذرائع ابلاغ نہ ہو نے کی وجہ سے لوگوں کی اکثریت نے اسے درست جاناجبکہ اس کیس کی تفتیش کرنے والے جسٹس حئی کمیشن کی گرد آلود ردّی آج بھی گواہ ہے کہ یہ حادثہ ریس لگاتی دو بسوں میں سے ایک کے بریکس فیل ہو جانے کی وجہ سے پیش آیا تھا اور جس بس نے ان دونوں بہنوں کو کچلا اس کا ڈرائیور کوئی پٹھان نہیں بلکہ ارشد حسین نامی ایک بہاری تھا ۔86ء میں چند پٹھانوں نے ردّعمل کے طور پر قصبہ کالونی کے سٹرک سے ملحقہ گھروں پر حملہ کیا اور اردو بولنے والوں کو چھریوں سے نشانہ بنایا، اس واقعے پر بھی خوب سیاست کی گئی اور مہاجروں کو ٹی وی، وی سی آر بیچ کر کلاشنکوف خریدنے کا حکم دے دیا گیا ، کراچی میں اسلحے کی ریل پیل ہو گئی، بچہ بچہ ٹی ٹی اَڑس کر بدمعاش بنا گھومنے لگا ، اس کے بعد کے قصّے اسی پولیٹیکل لائن کا تسلسل ہیں جن پر قلم آرائی پھر کبھی سہی، مگر پتے کی بات تویہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اس سارے کھیل میں تماشائی بنی رہی کیونکہ صورتحال ان کے حق میں جاتی تھی۔الطاف حسین طاقتور ہوتے گئے اور نہ صرف مقامی اسٹیبلشمنٹ بلکہ غیر ملکی طاقتوں کی نظر میں بھی آنے لگے ، انہوں نے ابتداء سے ہی اپنے کارکنوں کی تربیت اس طر ح کی کہ مقتدر حلقوں کے نام سے ہی کارکنان کا لہو گرم ہو نا شروع جائے اور وہ اسٹیبلشمنٹ کو اپنے اوپر ہو نے والے تمام مظالم کا ذمہ دار سمجھتے ہوئے اپنے قائد سے چمٹے رہنے میں ہی عافیت جانیں۔’’ہمیں منزل نہیں رہنما چاہئے‘‘ کا نعرہ اسی سوچ کا عکاس ہے جو 80ء کی دہائی میں متعارف کرایا گیا ۔

90ء کی دہائی کی اسٹیبلشمنٹ کو الطاف حسین ایک آنکھ نہیں بھائے، جنرل ضیاء کے بعد کی یہ اسٹیبلشمنٹ جنرل آصف نواز کے گھر کی لونڈی تھی ، جام صادق سے لیکر غلام اسحاق خان تک اور بریگیڈئیر آصف ہارون سے لیکر جنرل افضل جنجوعہ تک سب ہی الطاف حسین کے دشمن ہو گئے مگر تب تک وہ بہت طاقتور ہو چکے تھے مہاجر قوم یکسو ہو کر انکے پیچھے کھڑی تھی تب اسٹیبلشمنٹ نے وہی پالیسی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا، جو گورا برصغیر پر اپنی 200سالہ حکمرانی کے دوران سکھا کر گیا تھا ، ’’ڈیوائیڈ اینڈ رُول‘‘۔ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے ایم کیو ایم کی صفوں میں موجود اختلافات کو ہوادی اور الطاف حسین سے اصولی اختلاف کرنے والے بعض افراد پر محنت کرنا شروع کی اور پھر ’’گڈمہاجر ، بیڈ مہاجر ‘‘ کی پالیسی شروع ہوئی ۔ ایم کیو ایم حقیقی کے نام سے بننے والی اس نئی سیاسی جماعت کو بھر پور سرپرستی فراہم کی گئی اور ایم کیوایم کے

یونٹ اور سیکٹر آفسز تک پر قبضہ کرایا گیا مگر حیرت انگیز طور پر ایم کیو ایم کے ورکرز اور ووٹرز اسی طرح الطاف حسین سے چمٹے رہے اور آفاق احمد بہر حال وہ کامیابی حاصل نہ کر سکے جسکی امید کی گئی تھی ۔

حکومتیں آئیں اور گئیں پوری ایک دہائی تک اسٹیبلشمنٹ نے گڈ مہاجراور بیڈ مہاجر والی پالیسی جاری رکھی اور پھر پی کے 805سے جنرل پرویز مشرف چلے آئے ، اکیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ساتھ اس نئی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی بھی بدلی اور وہ جو پچھلی اسٹیبلشمنٹ کیلئے ’’گڈ‘‘ تھے وہ اب ’’بیڈ‘‘ اور جو’’بیڈ‘‘ تھے وہ ’’گڈ‘‘ ہو گئے ۔ آفاق احمد پرویز مشرف کے عرصۂ اقتدار کے دوران کراچی سینٹرل جیل کی چکّی کا آٹا کھاتے رہے ، بیت الحمزہ چٹیل میدان بن گیا۔

اب پھر موسم بدلا ہے ، نئی اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں کا تارا بننے مصطفی کمال چلے آئے ہیں ، چہرہ ضرور بدلا ہے مگر پالیسی نہیں ۔ بیسویں صدی کے اختتام تک جو ہوا تھا وہ محض’’انٹرویل‘‘ تھا ،پکچر تو ابھی باقی تھی۔ مگر جو کچھ کراچی میں ماضی میں ہوا وہ دہرائے جانے کے خیال سے ہی جُھرجُھری آتی ہے ۔

معروضی حالات کی بنیاد پر یہ کہنے میں عار نہیں کہ پاکستان کو جتنا خطرہ الطاف حسین سے ہو سکتا ہے اس سے کہیں زیادہ خطرہ اُس’’سلیکٹو جسٹس‘‘ سے ہے جو ہماری اسٹیبلشمنٹ روا رکھے ہوئے ہے۔

فیض ہوتے تویہی پوچھتے …..

تجھ کو کتنوں کا لہو چاہئے اے ارضِ وطن؟
جو تیرے عارضِ بے رنگ کو گلنار کریں
کتنی آہوں سے کلیجہ تیرا ٹھنڈا ہو گا ؟
کتنے آنسو تیرے صحراؤں کو گلزار کریں ؟


متعلقہ خبریں


ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے ساتھ معاہدہ کر کے پچھتا رہے ہیں، ایم کیو ایم پاکستان وجود - منگل 18 اکتوبر 2022

ایم کیو ایم کے رہنما وسیم اختر نے کہا ہے کہ ن لیگ اورپیپلزپارٹی کے ساتھ معاہدہ کیا آج ہم پچھتا رہے ہیں، ہم حکومت چھوڑ دیں یہ کہنا بہت آسان ہے جو بھی وعدے ہم سے کیے گئے پورے نہیں ہوئے۔ ایک انٹرویو میں وسیم اختر نے کہا کہ ایم کیوایم پاکستان کے ساتھ جو مسائل آ رہے ہیں اس کی وجوہات ب...

ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے ساتھ معاہدہ کر کے پچھتا رہے ہیں، ایم کیو ایم پاکستان

نسرین جلیل منہ دیکھتی رہ گئی، کامران ٹیسوری گورنر سندھ تعینات وجود - اتوار 09 اکتوبر 2022

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رہنما کامران خان ٹیسوری سندھ  کے اچانک  گورنر تعینات کر دیے گئے۔ گورنر سندھ  کے طور پرعمران اسماعیل کے استعفے کے بعد سے یہ منصب خالی تھا۔ ایم کیو ایم نے تحریک انصاف کی حکومت سے اپنی حمایت واپس لینے کے بعد مرکز میں پی ڈی جماعتوں کو حمایت دینے کے ...

نسرین جلیل منہ دیکھتی رہ گئی، کامران ٹیسوری گورنر سندھ تعینات

دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو وجود - پیر 19 ستمبر 2022

یہ تصویر غور سے دیکھیں! یہ عمران فاروق کی بیوہ ہے، جس کا مرحوم شوہر ایک با صلاحیت فرد تھا۔ مگر اُس کی "صالحیت" کے بغیر "صلاحیت" کیا قیامتیں لاتی رہیں، یہ سمجھنا ہو تو اس شخص کی زندگی کا مطالعہ کریں۔ عمران فاروق ایم کیوایم کے بانی ارکان اور رہنماؤں میں سے ایک تھا۔ اُس نے ایم کیوای...

دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو

متحدہ نے ڈاکٹر عمران فاروق کو بھلا دیا، شمائلہ عمران کا شکوہ وجود - اتوار 18 ستمبر 2022

متحدہ قومی موومنٹ کے مقتول رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کی اہلیہ شمائلہ عمران نے پارٹی سے شکوہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ متحدہ نے ان کے شوہر کو بھلا دیا ہے۔ متحدہ کے شریک بانی ڈاکٹر عمران فاروق کی 12ویں برسی پر شمائلہ عمران نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ یا رب میرے لیے ایسا دروازہ کھول دے جس کی و...

متحدہ نے ڈاکٹر عمران فاروق کو بھلا دیا، شمائلہ عمران کا شکوہ

کامران ٹیسوری ڈپٹی کنوینئر بحال، ایم کیو ایم کے سینئر ارکان ناراض وجود - هفته 10 ستمبر 2022

ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی میں کامران ٹیسوری کی ڈپٹی کنوینئر کی حیثیت سے بحالی پر کئی ارکان ناراض ہوگئے، سینئر رہنما ڈاکٹر شہاب امام نے پارٹی کو خیرباد کہہ دیا۔ ڈاکٹر شہاب امام نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کو میرا تحریری استعفیٰ جلد بھیج دیا جائیگا۔ انہوں نے...

کامران ٹیسوری ڈپٹی کنوینئر بحال، ایم کیو ایم کے سینئر ارکان ناراض

الطاف حسین دہشت گردی پر اُکسانے کے الزام سے بری وجود - بدھ 16 فروری 2022

بانی متحدہ الطاف حسین دہشت گردی پر اُکسانے کے الزام سے بری ہوگئے۔ برطانوی عدالت میں بانی متحدہ پر دہشت گردی پر اکسانے کا جرم ثابت نہ ہوسکا۔ نجی ٹی وی کے مطابق بانی متحدہ کو دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کے حوالے سے دو الزامات کا سامنا تھا، دونوں الزامات 22 اگست 2016 کو کی جانے والی ...

الطاف حسین دہشت گردی پر اُکسانے کے الزام سے بری

برطانیہ، بانی ایم کیوایم کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کیس کی سماعت مکمل وجود - اتوار 13 فروری 2022

کنگ اپون تھیم کراؤن کورٹ میں دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرنے سے متعلق اشتعال انگیز تقاریر کیس میں بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کے خلاف دلائل مکمل کر لیے گئے، عدالت فیصلہ کرے گی کہ الطاف حسین کو سزا سنائی جائے گی یا الزامات سے بری کردیا جائے گا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق بانی ایم کیو ایم...

برطانیہ، بانی ایم کیوایم کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کیس کی سماعت مکمل

اشتعال انگیز تقاریر، میڈیا ہاوسز حملہ کیس: چشم دید گواہ کی فاروق ستار کے خلاف گواہی وجود - اتوار 13 فروری 2022

انسداد دہشت گردی عدالت میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) قیادت کی اشتعال انگیز تقاریر اور میڈیا ہاؤسز پر حملہ کیس کی سماعت ہوئی۔ مقدمے کے چشم دید گواہ انسپکٹر ہاشم بلو نے ایم کیو ایم رہنما فاروق ستار اور دیگر کے خلاف گواہی دے دی۔ رینجرز کے اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر رانا خالد حسین ...

اشتعال انگیز تقاریر، میڈیا ہاوسز حملہ کیس: چشم دید گواہ کی فاروق ستار کے خلاف گواہی

ایم کیو ایم کی احتجاجی ریلی پر پولیس پِل پڑی وجود - جمعرات 27 جنوری 2022

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم) کی کراچی میں احتجاجی ریلی کے دوران شیلنگ سے زخمی ہونے والے رکن سندھ اسمبلی صداقت حسین کو پولیس نے گرفتا ر کرلیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق ایم کیو ایم پاکستان نے بلدیاتی قانون کے خلاف وزیر اعلی ہاس کے باہر دھرنا دیا جس کے بعد پولیس کی جانب سے ریل...

ایم کیو ایم کی احتجاجی ریلی پر پولیس پِل پڑی

ایم کیوایم پاکستان اور لندن کے تنازع میں خطرناک نتائج کی پیش بینی کی جانے لگی! باسط علی - پیر 03 اکتوبر 2016

پاکستان میں سب سے زیادہ منظم جماعت سمجھے جانے والی ایم کیوایم ان دنوں انتشار کا شکار ہے۔ جس میں ایم کیوایم پاکستان اور لندن کے رہنما ایک دوسرے کو ہر گزرتے دن اپنی اپنی تنبیہ جاری کرتے ہیں۔ تازہ ترین اطلاعات میں ایم کیوایم لندن کے برطانیہ میں مقیم رہنماؤں نے متحدہ قومی موومنٹ پاکس...

ایم کیوایم پاکستان اور لندن کے تنازع میں خطرناک نتائج کی پیش بینی کی جانے لگی!

نئی ایم کیو ایم بنانے کی کوشش، ’’مہاجر مینڈیٹ‘‘ کی کھینچا تانی‘ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ نعیم طاہر - بدھ 28 ستمبر 2016

لندن میں مقیم ایم کیو ایم کے رہنما ندیم نصرت کو بانی تحریک نے جو ٹاسک سونپا ہے وہ اس میں کس قدر کامیاب رہیں گے اور کئی دھڑوں میں تقسیم ایم کیو ایم کا مستقبل کیا ہے ؟ سیاسی مبصرین و تجزیہ کاروں کے ایک بڑے گروہ کی رائے یہ ہے کہ ندیم نصرت اپنے ٹاسک کو اس وقت تک پورا نہیں کرسکیں گے ج...

نئی ایم کیو ایم بنانے کی کوشش، ’’مہاجر مینڈیٹ‘‘ کی کھینچا تانی‘ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

چیلنج قبول کریں میاں صاحب! عبید شاہ - منگل 27 ستمبر 2016

اسپین میں ایک کہاوت ہے ‘ کسی کو دو مشورے کبھی نہیں دینے چاہئیں ایک شادی کرنے کا اور دوسرا جنگ پر جانے کا۔ یہ محاورہ غالباً دوسری جنگ عظیم کے بعد ایجاد ہوااس کا پس ِ منظر یہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں یورپ میں مردوں کی تعداد نہایت کم ہو گئی تھی اور عورتیں آبادی کا بڑا حصہ بن گئی تھی...

چیلنج قبول کریں میاں صاحب!

مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر