... loading ...
ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ بلوچستان کے بزرگ قوم پرست سیاسی رہنما ہیں۔ زمانہ طالبعلمی سے قوم پرست سیاست سے وابستہ ہیں۔ ان کا شمار صوبے کے ان سیاسی قائدین میں ہوتا ہے کہ جن کی جدوجہد کا ایک مقصد معاشرتی و سیاسی فضاء کی ہمواری ہے جو سرداری اور نوابی کے اثرات سے پاک ہو۔ بہرحال ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ سرداروں اور نوابوں کی ہمرکابی سے خود کو دور بھی نہیں کرپائے ہیں۔ پیرانہ سالی میں بھی جوانوں جیسی پھرتی دکھاتے ہیں ، بڑے متحرک ہیں۔ قیادت کرنے کی طمع بھی بہرحال ہے جو انہیں بے چین کرتی ہے ۔ اسی بے چینی نے ان کو ایک بار پھر’’ زقند‘‘ لگانے پر مجبور کیا ۔ یعنی نیشنل پارٹی سے طویل سفر ختم کرکے اپنا دھڑا الگ کردیا۔ یہ اعلان ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ نے28فروری2016ء کو ضلع مستونگ میں ایک اجتماع کے موقع پر کیا۔ اس جماعت کا نام بھی ’’نیشنل پارٹی‘‘ ہوگا اور ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ مرکزی آرگنائزر مقرر ہوئے۔
وہ کہتے ہیں کہ نظریاتی و فکری سیاسی کارکنوں کو دیوار سے لگایا جارہا ہے اور پارٹی کے اندر مخصوص لابی کام کررہی ہے جس پر مجبور ہوکر نظریاتی ورکروں کو پھر سے منظم کرنے کی خاطر اپنا راستہ الگ کردیا۔ ڈاکٹر حئی نے مستونگ کی آرگنائزنگ کمیٹی بھی قائم کردی اور مستونگ ہی میں پہلے عوامی اجتماع کے انعقاد کا اعلان کردیا۔
ڈاکٹر عبدلحئی بلوچ نے اپنے ارادے کو عملی صورت دینے میں کافی دیر کردی حالانکہ نیشنل پارٹی کے اس کنونشن ،جس میں پارٹی انتخابات ہوئے تھے اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ صدر منتخب ہوئے ، تب سے ڈاکٹرحئی کا ذہنی اضطراب محسوس کیا جاسکتا تھا ۔ وہ چاہتے تھے کہ پارٹی صدارت انہیں دی جائے چنانچہ وقتاً فوقتاً جماعتی پالیسیوں پر نکتہ چینی کرتے رہے اور نوبت علیحدگی تک پہنچ گئی۔ نیشنل پارٹی نے الوداع کہہ دیا تو ڈاکٹر عبدالحئی بڑے سیخ پا ہوئے حالانکہ یہ تو ہونا تھا ۔جب الگ جماعت اور تنظیم سازی شروع کی تو نیشنل پارٹی سے تعلق فطری طور پر ٹوٹ گیا ۔ ان کا نیشنل پارٹی کی قیادت پر ’’پرواسٹیبلشمنٹ‘‘ کا الزام ہے۔ دیکھا جائے تو خود بھی اسٹیبلشمنٹ کی چہیتی جماعتوں کے دام محبت میں گرفتار رہے۔ ڈاکٹر صاحب اس سے قبل ایک’’ زقند ‘‘ 1987 میں بھی لگا چکے ہیں ۔ اس وقت وہ پاکستان نیشنل پارٹی سے وابستہ تھے اور مرحوم غوث بخش بزنجو پارٹی کے صدر تھے۔ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ نے اپنے ہم خیال ساتھیوں کے ساتھ ملکر بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ کے نام سے تنظیم قائم کردی۔ اس عذر و جواز کے ساتھ کہ ایسا نوجوانوں کو متحرک اور منظم کرنے کی غرض سے کیا گیا۔ یہ جواز پی این پی یا غوث بخش بزنجو کو قبول نہ تھا چنانچہ متوازی تنظیم کے قیام کی بنیاد پر ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ اور ان کے سیاسی دوستوں کی رکنیت ختم کردی ۔ ظاہر ہے کہ الگ جماعت کی گنجائش تھی ا ور نہ ہی پارٹی آئین اس کی اجازت دیتا تھا۔ دراصل ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ نے ایسا جان بوجھ کر کیا ، وہ چاہتے تھے کہ ان کا اخراج ہو کیونکہ انہوں نے الگ سیاسی جماعت کے قیام کا فیصلہ کرلیا تھا اور اگلے لمحے بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ کا باقاعدہ سیاسی جماعت کے طور پر اعلان کیا ۔ انہیں بلوچ طلباء کی حمایت حاصل تھی یا یو ں سمجھئے کہ اس دور میں ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کا سیاسی سفر بلندیوں پر تھا۔ پاکستان نیشنل پارٹی کو ضرب لگی ،1988ء کے عام انتخابات میں پی این پی کے مقابلے میں بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ (یعنی بلوچستان نیشنل الائنس )کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ جب پاکستان نیشنل پارٹی جنرل ضیاء الحق کے دور میں نگراں حکومت کا حصہ بنی تب ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کی جماعت کو مزید چار چاند لگ گئے۔ ویسے اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور آمرمخالف سیاست کا رجحان بلوچ نیشنل ازم کے اندر معروف تھا۔ یہی طرز سیاست ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ بھی فطری طور پر اپنائے ہوئے تھے۔ یہ امر پیش نظر ر ہے کہ ان کی فکر اور نظریاتی اساس پر مصلحتیں بھی غالب آتی رہی ہیں۔ عبدالحئی بلوچ کی سیاسی رقابت نواب اکبر خان بگٹی اور سردار اختر مینگل سے بڑھی۔ اس طرح بلوچستان نیشنل پارٹی الائنس تشکیل پا گئی۔ یعنی1988ء کے عام انتخابات میں اسی الائنس کے تحت حصہ لیا گیا اور گیارہ نشستوں کے ساتھ بلوچستان اسمبلی میں نمائندگی کرلی اور قومی اسمبلی کی تین نشستیں حاصل ہوئیں۔ ظفر اﷲ جمالی کی حکومت میں الائنس حکومت کا حصہ نہیں تھی ۔ اسمبلی ٹوٹ گئی بعد ازاں ہائی کورٹ کے حکم پر بحال ہوئی۔ یوں الائنس ، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے باہم ملکر حکومت بنالی۔ نواب اکبر بگٹی وزیراعلیٰ منتخب ہوئے۔ اس حکومت میں اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) بھی شامل تھا۔ آگے جاکر بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ نے سالانہ کنونشن میں ’’بلوچستان نیشنل موومنٹ‘‘ کا روپ دھار لیا۔ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کا پیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے مسئلے پر نواب اکبر بگٹی سے اختلاف پیدا ہوا تو راہیں الگ ہوگئیں۔ انہی دنوں نواب بگٹی نے جمہوری وطن پارٹی کے نام سے الگ جماعت قائم کرلی۔ سردار اختر مینگل بھی علیحدہ ہوگئے۔ ڈاکٹر حئی کی جماعت نواب ذوالفقار علی مگسی کے ساتھ حکومت میں شامل ہوئی ۔ نواب مگسی نواز شریف کی مسلم لیگ سے وابستہ تھے۔گویا ان کی جماعت اپنے وجود تک ہر حکومت کا حصہ بنی رہی۔ نیشنل پارٹی کو2013ء میں جب وزارت اعلیٰ ملی اور نواز لیگ کے ساتھ مخلوط حکومت میں شامل ہوئی تو ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ انہیں کوستے رہتے۔ چنانچہ مختلف نشیب و فراز دیکھ کر ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ پھر سے میر غوث بخش بزنجو کے سیاسی وارثوں کی جماعت سے انضمام پر مجبور ہوئے۔ یعنی 2004ء میں غوث بخش بزنجو کے صاحبزادے میر حاصل بزنجو کی ’’بلوچستان نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی‘‘ اور’’بلوچستان نیشنل موومنٹ ‘‘باہم ضم ہوکر نئی جماعت، نیشنل پارٹی وجود میں لائی گئی ۔ اور پہلے ٹرم کیلئے ڈاکٹر عبدالحئی صدر منتخب ہوئے ۔آخرکار ڈاکٹر عبد الحئی بلوچ نے اپنی راہیں جدا کر لیں ، سو ان کی نئی سیاسی جماعت کو بلوچ عوام میں پھر سے پزیرائی ملتی ہے یا نہیں؟ یہ ایک الگ بحث ہے ، البتہ یہ لمحہ نیشنل پارٹی کی قیادت کیلئے پریشانی کا باعث ضرور ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی اپنی انتہا پر ہے ۔بھارت اس کشیدگی میں مزید اضافے کا ارادہ رکھتا ہے ۔ممکن ہے کہ وہ کسی تصادم سے بھی گریز نہ کرے ۔چنانچہ ضروری ہے کہ پاکستان اپنے اندر کے مسائل و تنازعات کے فوری حل پر تو جہ دے ۔بلوچستان کا مسئلہ بھی حل طلب ہے ۔ یہ سوچنا ہو گا کہ ا...
چین پاکستان اقتصادی راہداری ہر لحاظ سے ’’گیم چینجر‘‘ منصوبہ ہے۔ دونوں ممالک یعنی چین اور پاکستان سنجیدہ ہیں اور سرعت کے ساتھ ان منصوبوں کو آگے بڑھایا جارہا ہے۔ پاک آرمی پوری طرح اس پر نگاہ رکھی ہوئی ہے اور یقینا اس بات کی ضرورت بھی ہے۔ فوج اور تحفظ کے ا دارے فعال نہ ہوں تو منفی ق...
پاکستان اور افغانستان کے عوام کے درمیان تمام تر رنجشوں کے باوجود ایثار اور محبت کا رشتہ ختم نہیں کیا جاسکا ہے۔ اگر چہ غنیم یہی چاہتا ہے ۔ یہ والہانہ تعلق صدیوں پر مشتمل ہے۔ برصغیر پر انگریز راج کے بعد بالخصوص برطانوی ہند کے مسلمان رہنماؤں کے ساتھ افغان امراء کا انس و قربت کا کوئ...
قومی اسمبلی کے 9؍اگست کے اجلاس میں محمود خان اچکزئی کی تقریر بہت ساروں پر بجلی بن کر گری ، برقی میڈیا پر محمود خان اچکزئی کی کچھ یوں گرفت ہوئی کہ جیسے سول ہسپتال جیسا ایک اور سانحہ رونما ہوا ہو۔اور تواتر کے ساتھ غداری کے فتوے آنے شرو ع ہو گئے۔ حالانکہ ملتے جلتے رد عمل کا اظہار ع...
کوئٹہ کے نوجوان باکسر محمد وسیم نے ورکنگ باکسنگ کونسل انٹرنیشنل سلور فلائی ویٹ ٹائٹل جیت کر عالمی شہرت حاصل کرلی۔ یہ مقابلہ جنوبی کوریا کے شہر سیؤل میں ہوا۔ مد مقابل فلپائن کا باکسر’’ جیتھر اولیوا‘‘ تھا جس کو آسانی سے مات دیدی گئی۔ محمد وسیم یہ ٹائٹل جیتنے والا پہلا پاکستانی باکس...
8 اگست 2016 کا دن کوئٹہ کے لئے خون آلود ثابت ہوا۔ ظالموں نے ستر سے زائد افراد کا ناحق خون کیا ۔یہ حملہ در اصل ایک طویل منصوبہ بندی کا شاخسانہ تھا جس میں وکیلوں کو ایک بڑی تعداد میں موت کے گھاٹ اُتارنا تھا ۔یو ں دہشت گرد اپنے غیر اسلامی و غیر انسانی سیاہ عمل میں کامیاب ہو گئے۔ اس ...
ملک میں جمہوریت یرغمال ہے۔ بلوچستان کے اندر سرے سے منظر نامہ ہی الگ ہے۔ جمہوریت کا ورد کر کے حکمران اتحادی جماعتیں قوم کے جذبات کو ٹھیس پہنچا رہی ہیں۔سوچ سمجھ کر خطرناک کھیل کا حصہ بنی ہیں۔ جب حاکم اندھے، گونگے اور بہروں کی مثال بنیں تو لا محالہ تشہیر کسی کی ہی ہو گی۔ بالخصوص پشت...
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے جون کے مہینے کے آخری عشرے میں ایک غیر ملکی ریڈیو (مشال) کو انٹرویو میں کہا کہ’’ خیبر پشتونخوا تاریخی طور پر افغانستان کا حصہ ہے۔ افغان کڈوال (مہاجرین )سے پنجابی، سرائیکی، سندھی یا بلوچ تنگ ہیں تو انہیں پشتونخوا وطن کی طرف بھی...
وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اﷲ زہری نے23سے29اپریل تک چین کا دورہ کیا۔ وفاقی وزیر ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال وفد کے قائد تھے۔ سینیٹر آغا شہباز درانی، چیئرمین گوادر پورٹ اتھارٹی دوستین جمالدینی، بلوچستان بورڈ آف انوسٹمنٹ کے وائس چیئرمین خواجہ ہمایوں نظامی اور وفاقی سیکرٹری مواص...
افواج پاکستان کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے فوج کے گیارہ اعلیٰ افسران کو بد عنوانی ثابت ہونے کے بعد ملازمتوں سے برطرف کر دیا۔یہ افسران مزید صرف میڈیکل اور پنشن کی مراعات سے مستفید ہو سکیں گے۔ باقی تمام مراعات سزا کے طور پر لے لی گئی ہیں۔فوج کے افسران کے خلاف کارروائی یقینا ایک قوم...
ساٹھ اور ستر کی دہائی میں افغانستان میں پشتونستان تحریک کو سرکاری سرپرستی میں بڑھاوا دیا جاتا رہا ہے۔ سال میں ایک دن ’’یوم پشتونستان‘‘ کے نام سے منایا جاتا۔ یہی عرصہ خیبر پشتونخوا(صوبہ سرحد) اور بلوچستان میں تخریب اور شرپسندی کا تھا۔ پاکستان سے علیحدگی کی بنیاد پر ایک خفیہ تحریک ...
یوم پاکستان اس بار بھی بھر پور طریقے سے منایا گیا۔اس دن گویا بلوچستان بھر میں فوج اور فرنٹیئر کور نے تقریبات کا اہتمام کیا۔ صوبائی دار الحکومت کوئٹہ دن بھر پاکستان زندہ بادکے ملی نغموں سے گونجتا رہا۔ وادی زیارت کی قائداعظم ریزیڈنسی میں فوج اور حکومت نے پرچم کشائی کی تقریب منعقد ک...