... loading ...
اس بات میں اب کسی شک کی گنجائش نہیں رہی کہ آپریشن ضرب عضب کی صورت میں پاک فوج اور دیگر ملکی سلامتی کے ضامن اداروں نے جس انداز میں وطن عزیز سے عسکری دہشت گردی کے ساتھ ساتھ معاشی دہشت گردی کے گند کو صاف کرنے کا عزم کررکھا ہے اسے پاکستان میں بلا کسی تفریق کے عوامی سطح پر بہت سراہا جارہا ہے بلکہ اب اس آپریشن کو ہی ملکی بقا اور سلامتی اور مستقبل میں ترقی کا ضامن قرار دیا جاچکا ہے۔اس سلسلے میں صرف کراچی کی مثال کوسامنے رکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس طرح ان حالات کو واپس موڑا گیا ہے جو قتل وغارت اور بدامنی کی انتہا کو پہنچ چکے تھے۔لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اب اسی ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں اپنے اپنے دور کی ناقابل یقین کرپشن پر پردہ ڈالنے کے لئے اس آپریشن کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوششیں کررہی ہیں۔ان جماعتوں اور ان سے وابستہ سیاسی لیڈروں اور سیاستدانوں کا یہ عمل اس ملک اور قوم کے لئے کس قدر نقصان دہ ہوگا اس کا اندازہ شاید ابھی کوئی نہیں لگا سکا ہے۔
نائن الیون کے بعد پاکستان میں حکومتوں کے تین ادوار انتہائی معنی خیز ہیں یعنی نئی صدی کے آغاز سے لیکر ابتک گذشتہ سولہ برسوں میں اس ملک کی فکری، معاشی اور معاشرتی بنیادوں کو ہلانے کا کام ایک بین الاقوامی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا۔مشرف دور میں اس ملک کی سیاسی اور فکری ترجیحات کو نوے ڈگری کے زاویہ پر موڑ دیا گیا اس کے بعد زرداری گروپ اور اب شریف خاندان کے دور حکومت میں ملک کی معاشی صورتحال کو ناقابل تلافی نقصان سے دوچار کردیا گیا ہے۔ان حالات میں کس انداز میں زرداری گروپ اور شریف خاندان کے درمیان سیاسی نورا کشتی ہورہی ہے اس سے اب ہر کوئی واقف ہوچکا ہے۔اس تمام صورتحال میں سب سے زیادہ فکرمندی کی بات یہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر حالات جس تیزی کے ساتھ تبدیلی کا رخ اختیار کرچکے ہیں بدقسمتی سے ہمارے سیاستدان اس کا قطعی ادراک نہیں رکھتے۔ انہیں اگر ادراک یا فکر ہے تو یہ کہ کس طرح احتساب کے پھندے سے گردن بچائی جائے۔ اس کام میں غالبا یہ سب سے زیادہ ماہر ہیں۔ دنیا کس طرف جارہی ہے؟ مشرق وسطی کے حالات آنے والے دنوں میں کیا رخ اختیار کرنے والے ہیں؟ افغانستان میں امن مذاکرات کے نام پر قابض قوتیں کس طرح چکمے بازی سے کام لے رہی ہیں؟ افغانستان اور مشرق وسطی کے حالات کے درمیان کیا باہمی ربط ہے؟ پاکستان کو کس انداز میں افغانستان کے معاملات سے الگ کرنے کی کوششیں کی جاری ہیں؟ ان میں سے کسی سوال کا جواب ان سیاستدانوں کے پاس نہیں ملے گا۔۔۔!!
دوسری جانب صورتحال کچھ یوں ہے کہ تازہ اطلاعات کے مطابق روس نے شام میں جنگی اخراجات کا بوجھ بڑھ جانے کی وجہ سے اپنے ہاں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں پر بیس فیصد کٹوتی شروع کردی ہے، روس میں یہ صورتحال اس لئے بھی پیدا ہوئی ہے کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں انتہائی درجے کی گراوٹ نے روسی معیشت کی چولیں ہلا دی ہیں کیونکہ اس کی معیشت کااس وقت خود بڑا انحصار تیل کی سپلائی پر ہے۔ اس لئے عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں گرانے کا بڑا مقصد شام میں روسی کارروائیوں پر معاشی بحران کی شکل میں کاری ضرب لگانا ہے اس لئے اب ہم کو سمجھ آجانا چاہئے کہ یہ سب کچھ اتفاقیہ نہیں کہ 132ڈالر بیرل والا تیل اب محض 27ڈالر فی بیرل کی سطح پر بغیر کسی وجہ کے آچکا ہے یہ سب کچھ ایک بڑے بین الاقوامی کھیل کا حصہ ہے۔
امریکہ یہ سب کچھ ایک خاص مقصد کے تحت کررہا ہے کیونکہ اس سلسلے میں سابق امریکی سیکورٹی انچارج برزنسکی اس جانب اشارہ کرچکا تھا کہ’’ نیو امریکن سنچری‘‘ میں امریکا کو اپنے عالمی اقتدار کے لئے وسطی ایشیا پر مکمل اثررسوخ حاصل کرنا ہوگااور یہ غلبہ اب اس وقت تک ممکن نہیں جب تک پاکستان ایک جوہری طاقت کے طور پر موجود ہے اور افغانستان میں ایک اسلام پسند اور امریکا مخالف حکومت قائم ہونے کے امکانات ہیں۔اس لئے برزنسکی کا تجزیہ موجودہ صورتحال کو مزید واضح کردیتا ہے۔ اسی برزنسکی کی کتاب ’’گرینڈ چیس بورڈ ‘‘میں اس قسم کے تمام منصوبے کی تفصیلات بھی درج ہیں۔ لیکن ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ قدرتی طور پر وسطی ایشیا، مشرق وسطی اور افغانستان کے معاملات میں پاکستان ایک فریق بنتا جارہا ہے اور اس صورتحال میں وطن عزیز ایک ایسی محب وطن اور کرپشن سے پاک قیادت کا متقاضی ہے جو اس مرحلے میں پاکستان کے کردار کو بہترین طریقے سے ادا کرسکے کیونکہ موجودہ ’’سیاسی نظام سقے‘‘ اس صورتحال کو سمجھنے سے ہی قاصر ہیں۔ اس ساری صورتحال کا سب سے اہم پہلو پاکستان کے ساتھ چین کے قریبی اقتصادی، عوامی اور عسکری تعلقات ہیں اور چین اس وقت روس کے ساتھ عالمی معاملات خصوصاً شمالی اوروسطی افریقہ اور مشرق وسطی میں ایک اہم حلیف کے طور پر ابھرا ہے۔ اس لئے پاکستان کے معاملات میں روس بالواسطہ اور بلاواسطہ دونوں طریقوں سے قریب ہونے کی کوشش میں ہے اور غالبا یہی پاکستان کے حق میں بھی ہے۔
2000ء اور 2010ء کے درمیان پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی تعاون کی فضا سات گنا زیادہ بہتر ہوئی تھی۔ اس وقت چینی کمپنیاں پاکستان میں تقریبا 250منصوبوں میں کام کررہی ہیں۔ جس وقت چینی وزیر اعظم پاکستان کے دورے پر آئے تھے تو ان کے ہمراہ 250کے قریب چینی تاجر بھی تھے۔ اس دورے کے اختتام پر دونوں ملکوں کے درمیان توانائی، قدرتی توانائی کے ذخائر، تجارت، زراعت، خوراک، اقتصادی اور بینکنگ کے شعبے میں 35بلین ڈالر کے معاہدوں پر دستخط ہوئے۔ اس کے علاوہ دونوں ملکوں نے جن منصوبوں پر مشترکہ طور پر کام کرنا تھا ان میں تھر کول، شاہراہ قراقرم کی مرمت اور توسیع، بھاشا ڈیم، سینڈک گولڈ اور کاپر منصوبہ شامل تھا اور سب سے بڑھ کر گوادر کی گہرے پانی کی بندرگاہ کا چین کو ٹھیکہ دینا اور سب زیادہ اہم پاک چین اقتصادی راہداری ہے۔
اس بات کو ذہن میں رکھا جائے کہ ڈالر کے معاشی استحکام کے پیچھے مشرق وسطی کاتیل ہے جو 1974ء میں سونے کی جگہ لے چکا تھا۔ اسی لئے ’’پیٹروڈالر‘‘ کی اصطلاح وجود میں لائی گئی تھی یعنی اب تیل کی خرید وفروخت صرف ڈالر میں ہوسکے گی جبکہ اس کے لئے کسی اور کرنسی کا استعمال قانونا جرم ہوگا۔ تیل کو سونے کے متبادل کیوں ڈالر کے استحکام کے لئے استعمال کیا گیا؟ اس کا ایک طویل تاریخی پس منظر ہے جو کسی اور وقت کے لئے چھوڑ دیتے ہیں اس وقت اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ تیل کی قیمتوں میں یہ بین الاقوامی گراوٹ روس کے ساتھ ساتھ امریکا کی معیشت کو بھی متاثر کرے گی تو کیا امریکا اور یورپ کو اپنے عوام کی معاشی مشکلات کی فکر نہیں ہے؟ تو اس کا جواب ناں میں ہے۔ امریکا اور یورپ پر حکومت کرنے والے ’’ماسٹر مائنڈاشرافیہ‘‘ کو اس کی کوئی فکر نہیں کیونکہ ان کے سامنے سب سے بڑا حریف روس ہے۔ ہمیں یاد رہنا چاہئے کہ پہلی جنگ عظیم میں سب سے زیادہ جانی نقصان روس کا ہوا تھا جس میں تین ملین سے زیادہ روسیوں کی جانیں گئی تھی۔ دوسری جنگ عظیم میں بھی سب سے زیادہ جانی نقصان روس کا ہوا جس میں ان ہلاکتوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق پانچ ملین سے بھی تجاوز کرگئی تھی۔ امریکا اور یورپ کی’’صیہونی ماسٹر مائنڈ اشرافیہ‘‘کے معاشی استحکام کے لئے جنگیں ایک ضرورت ہے یہی وجہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد سوویت یونین کے ساتھ ’’سرد جنگ‘‘ کے اغراض ومقاصد میں اپنے ہاں کے عوام کو جنگ سے ڈرا کر جنگی صنعتوں کو فروغ دینا مقصود تھا اور اس تاثر کے ذریعے بے پناہ دولت سمیٹی گئی۔ اب تیسرے مرحلے میں جب سوویت یونین کو افغانستان میں شکست دینے کے بعددوبارہ روس بنوا دیا گیا تو اسے ’’جنگ‘‘ کا اختتام تصور نہیں کیا گیا بلکہ پہلے ’’اسلامی بنیاد پرستی‘‘ کو سوویت یونین کی جگہ حریف کے طور پرلاکھڑا کیا گیا پھر اس کے بعد ’’اسلامی انتہا پسندی اور دہشت گردی‘‘ کاخوف کھڑا کر کے مغربی عوام کو بے وقوف بنایا جانے لگا۔ لیکن اس وقت اس سارے رنگ میں اس وقت بھنگ پڑ گئی جب نائن الیون کے بعد ایک طرف امریکا اور اس کے یورپی اتحادی ’’اسلامی انتہا پسندی‘‘ کے تعاقب کی آڑ میں مشرق وسطی کی تیل کی دولت پر ہاتھ صاف کررہے تھے تو دوسری جانب روس اور چین نے ان سولہ برسوں میں معاشی استحکام کی کئی منزلیں پار کرلیں اور اب روس نے افغانستان میں اپنا کھویا ہوا وقار بحال کرنے کی ٹھانی اور اس مرتبہ جنوب کی بجائے مغرب کی جانب پیش قدمی کرکے دوسری عالمگیر جنگ سے پہلے کے اپنے علاقے کریمیا اور مشرقی یوکرین کو اپنی عملداری میں دوبارہ لے لیا۔
یہ صورتحال امریکا اور یورپ کے لئے خاصی پریشان کن تھی کیونکہ عسکری میدان کے ساتھ ساتھ اسے اب معاشی زوال کا خطرہ بھی سامنے نظر آنا شروع ہوگیا تھا کیونکہ چین اور روس مل کر نیا اقتصادی گروپ تشکیل دے رہے تھے چینی کرنسی یوآن اور روسی روبل جنہیں کبھی پوچھا نہیں جاتا تھا اب ڈالر کے مقابلے میں آتے جارہے تھے اس کے ساتھ ہی امریکا کو بڑا دھچکہ اس وقت لگا جب چین اور اس کے بعد روس نے اپنے زرمبادلہ کے ذخائر ڈالر کی بجائے سونے کی شکل میں جمع کرنے شروع کردیے۔ یہ وہی وقت تھا جب سونا پاکستان میں بائیس ہزار روپے تولہ سے چھلانگ لگاکر 48ہزار روپے تولہ کی حد بھی پھلانگ گیا تھا۔ افسوس کہ اس وقت پاکستان میں کوئی بھی اس قیمت کے یہاں تک پہنچ جانے کی وجہ نہیں سمجھ سکا تھا،بس حیرت سے سب ایک دوسرے کا منہ تکتے تھے۔ دوسری جانب امریکا اور یورپ کی یہ پوزیشن ہوگئی کہ وہ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد اسلام اور مسلمانوں کو بطور نیا حریف چھیڑ چکے تھے تو اگلے دس برسوں میں سوویت یونین کی شکل میں مرا ہوا حریف روس کی شکل میں زندہ ہوگیا نہ صرف زندہ ہوا بلکہ صدام کے بعد قذافی نے بھی پیٹرو ڈالر کو چیلنج کردیا۔صدام نے کہا کہ وہ عراقی تیل ڈالر کی بجائے یورو میں فروخت کرے گا، جس کی سزا اسے کیسے دی گئی، وہ سب کے سامنے ہے اس کے بعد قذافی نے امریکا اور یورپ کو آنکھیں دکھائیں اور لیبیا کے تیل کی قیمت سونے کی شکل میں نہ صرف وصول کرنے کا اعلان کردیا بلکہ اس نے افریقی ممالک کی کرنسی کو سونے کے سکے میں ڈھالنے کا ارادہ بھی ظاہر کردیا۔ یقینی بات تھی کہ یہ اقدامات امریکا اور یورپ کی معاشی موت ہوتے اس لئے لیبیا میں نام نہاد جہادی تحریکوں کو قذافی کے پیچھے لگا دیا گیا اور آخر میں کیا ہوا سب کے سامنے ہے۔عراق اور لیبیا میں مغربی کامیابیاں درحقیقت روس اور چین کو بیک فٹ پر کرنے کے مترادف تھا لیکن ان دونوں مرحلوں پر روس اور چین نے صبر کا دامن نہ چھوڑا، باوجود اس کے کہ وہاں دونوں ملکوں کی کئی بلین ڈالر کی سرمایہ کاری پر پانی پھر چکا تھا۔ اس کے بعد انتہائی منصوبہ بندی سے شام کے محاذ کو گرم کیا گیا اور بشار حکومت کو قذافی حکومت کی طرح جلد بازی میں الٹنے سے گریز کرتے ہوئے اس الاؤ کو ہوا دینے کا منصوبہ بنایا گیا تاکہ روس کا شکار کرنے کے لئے شام کو نوالہ بنایا جاسکے۔
دوسری جانب تیس برسوں سے لگی ایران پر پابندیاں ختم کرکے مذاکرات کا ڈول ڈال دیا گیا جس سے ایران اس مغالطے میں مبتلا ہوگیا کہ شاید امریکا اور یورپ نے اس کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں لیکن عنقریب یہ خام خیالی بھی دور ہوجائے گی۔شام کے محاذ کو گرم کرکے شیطانی منصوبے کے تحت اسے شیعہ سنی جنگ کا نام دے دیا گیا عراق میں ایران کو پوری طرح کھیلنے کا موقع فراہم کیا گیا تاکہ تمام مشرق وسطی میں مسلمانوں کو مسلکوں کی آگ میں جلا دیا جائے، اسی لئے شمال میں شام اور جنوب میں یمن کا محاذ کھول کر عربوں اور ایران کو آمنے سامنے لے آیا گیاتو دوسری جانب ایران نواز لبنانی شیعہ ملیشیا کو شام میں مداخلت کے پورے مواقع فراہم کئے گئے۔ ان کا مقابلہ کرنے کے لئے موجودہ ترک حکومت کی اسلام پسندی کو ڈھال بناکر سنی جہادی تنظیموں کو شام میں داخل کروا دیا گیا تاکہ کوئی براہ راست الزام نہ لگا سکے کہ امریکا ان جہادی تنظیموں کو مدد فراہم کررہا ہے۔ یوں خطے میں خونریزی کا ایک بازار گرم کروا دیا گیا ہے، روس کو مزید دانہ ڈالنے کے لئے داعش نام کی تنظیم اچانک نمودار ہوتی ہے اور شمالی عراق سے لیکر شمالی شام تک آندھی اور طوفان کی طرح مسلط ہو جاتی ہے۔ یہ اپنے ساتھ خلافت کا نظریہ لاتے ہیں اور ایسا اسلام نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کا ذکر اسلامی تاریخ میں بھی نہیں ملتاجس کا بڑا مقصد عرب حکومتوں کی ہوا نکالنا تھا۔اسلام کی اگر باضابطہ فکر کے تحت بھی جائزہ لیا جائے تو داعش کی خلافت کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا یہ فتنہ تو ہوسکتا ہے خلافت نہیں۔داعش نے ایک کام یہ کیا کہ اپنی طوفانی یلغار کو وسطی عراق پر لاکر روک دیا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ اسکرپٹ کے مطابق ہورہا ہے۔ اس یلغار کے دوران اس نے ایران نواز شیعہ ملیشیااور گروپوں سے جنگ تو کی لیکن اس کے ساتھ ساتھ سنی مزاحمتی تنظیموں کو بھی رگڑا دے دیا۔ یہی صورتحال داعش نے شام میں پیدا کردی وہاں اس کی زیادہ جنگ خود سنی جہادی تنظیموں کے خلاف ہے جو علاقے شامی اپوزیشن نے مزاحمت کے دوران حاصل کئے تھے، ان پر اب داعش ہاتھ صاف کرنے کی کوشش کرتی ہے اور اب صورتحال یہ ہے کہ حلیف اور حریف دونوں جانب ایک ہی ماسٹر مائنڈ ہے۔کھیل نہ مذہب کا ہے اور نہ مسلک کا، اصل کھیل عالمی سیادت کے قیام، اسے برقرار رکھنے اور دنیا کے وسائل کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کا ہے جو دجالی قوتیں صدیوں سے کھیل رہی ہیں۔ مسلمانوں میں شیعہ سنی اور دیگر مسالک تودور کی بات، حقیقت تو یہ ہے کہ عام عیسائی اور یہودی بھی اس بین الاقوامی ریشہ دانیوں کا شکار ہوتے ہیں۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ تمام عیسائی غاصب ہیں تو یہ غلط ہے اسی طرح اگرکوئی یہ سمجھتا ہے کہ تمام یہودی غلط ہیں تو یہ بھی بڑی غلطی ہے، یہ ایک ’’بین الاقوامی دجالی اشرافیہ‘‘ ہے جو ادیان اور مسالک کو استعمال کرکے انسانوں کے بیچ نفرت کے بیج بوکر اپنا کام نکال رہی ہے۔اللہ کے دین میں ہے جس نے ایک انسان کو قتل کیا اس نے پوری انسانیت کو قتل کردیا۔اس میں انسان کہا گیا ہے مسلمان نہیں۔ دوسری جانب معاشی دہشت گردی اس لئے عسکری دہشت گردی کی طرح مہلک ہوجاتی ہے کہ اس سے معاشی ناہمواری پیدا ہوتی ہے جس سے انسانوں کے پورے پورے معاشرے تباہی سے دوچار ہوجاتے ہیں۔
مشرق وسطی کی صورتحال میں نیا موڑ آگیا، سعودی عرب اور ایران سفارتی تعلقات بحال کرنے پر رضامند ہو گئے۔ایرانی میڈیا کے مطابق سعودی عرب اور ایران اپنے سفارتخانے کھولنے کی تیاری کررہے ہیں، رکن ایرانی پارلیمنٹ جلیل رحمانی نے گفتگو میں سفارتی تعلقات بحالی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ دونو...
سولہ ستمبر 1977ء کی ایک سرد رات اسرائیلی جنرل موشے دایان پیرس کے جارج ڈیگال ائر پورٹ پر اترتا ہے، وہ تل ابیب سے پہلے برسلز اور وہاں سے پیرس آتا ہے جہاں پر وہ اپنا روایتی حلیہ بالوں کی نقلی وگ اور نقلی مونچھوں کے ساتھ تبدیل کرکے گہرے رنگ کی عینک لگاکر اگلی منزل کی جانب روانہ ہوتا ...
عالم عرب میں جب ’’عرب بہار‘‘ کے نام سے عالمی صہیونی استعماریت نے نیا سیاسی کھیل شروع کیا تو اسی وقت بہت سی چیزیں عیاں ہوگئی تھیں کہ اس کھیل کو شروع کرنے کا مقصد کیا ہے اور کیوں اسے شروع کیا گیا ہے۔جس وقت تیونس سے اٹھنے والی تبدیلی کی ہوا نے شمالی افریقہ کے ساتھ ساتھ مشرق وسطی کا ...
ایران میں جب شاہ ایران کے خلاف عوامی انقلاب نے سر اٹھایا اور اسے ایران سے فرار ہونا پڑاتواس وقت تہران میں موجود سوویت یونین کے سفارتخانے میں اعلی سفارتکار کے کور میں تعینات روسی انٹیلی جنس ایجنسی کے اسٹیشن ماسٹر جنرل شبارچین کو اچانک ماسکو بلایا گیا۔ کے جی بی کے سابق سربراہ یوری ...
جن دنوں امریکامیں نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا تھا اس وقت مسلم دنیا میں کوئی ادارہ یا شخصیت ایسی نہ تھی جو اس واقعے کے دور رس عواقب پر حقیقت پسندانہ تجزیہ کرکے اسلامی دنیا کو آنے والی خطرات سے آگاہ کرسکتی۔مغرب کے صہیونی میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ نے منفی پروپیگنڈے کی وہ دھول ا...
شام کے صدر بشار الاسد نے امریکا اور روس کی مدد سے ہونے والی جنگ بندی سے چند گھنٹے پہلے پورے شام کو دوبارہ اپنی سرکار کے زیر نگیں لانے کا عزم ظاہر کیا۔ قومی ٹیلی وژن نے دکھایا کہ اسد دمشق کے نواحی علاقے داریا کا دورہ کر رہے تھے کہ جو بہت عرصے سے باغیوں کے قبضے میں تھا اور گزشت...
اگر تیل کی قیمتیں بہت جلد نہیں بڑھیں تو روس کی ہنگامی نقد رقم تیزی سے خرچ ہوجائے گی جو 2018ء تک قومی بجٹ کو برقرار رکھنے کے لیے استعمال کرنی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق روس اپنے زر مبادلہ کے ذخائر بڑی خطرناک شرح کے ساتھ بہت تیزی سے خرچ کرتا جا رہا ہے کیونکہ اس کی معیشت میں سب سے...
دنیا میں سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والے دو ممالک سعودی عرب اور روس نے کہا ہے کہ وہ تیل کی قیمتوں کو مستحکم کرنے کے لیے "مل جل کر کام" کریں گے لیکن پیداوار روکنے کے لیے آگے بڑھنے میں ناکام رہے۔ دونوں ممالک نے تعمیری مذاکرات کی اہمیت اور تیل پیدا کرنےوالے دونوں بڑے ممالک کے درم...
دنیا کی معلوم تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ قدرت نے جب کبھی کسی قوم پر احتساب کی تلوار لٹکائی تو اس کی معیشت کو تباہ کردیا گیا۔قران کریم نے بھی چند مثالوں کے ذریعے عالم انسانیت کو اس طریقہ احتساب سے خبردار کیا ہے جس میں سب سے واضح مثال یمن کے ’’سد مارب‘‘ کی تباہی ہے۔ ...
ترکی کے وزیر اعظم بن علی یلدرم نے اعلان کیا ہے کہ ترکی اب دہشت گردی کے خلاف کھلی جنگ کا سامنا کر رہا ہے۔ جمعے کو کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کی جانب سے حملے میں 11 افراد کی ہلاکت کے بعد اپنے بیان میں وزیر اعظم نے کہا کہ وہ ترکی میں دہشت گردی کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کریں گے۔ "کوئ...
شام کے شمالی علاقوں میں داخل ہونے کے ایک روز بعد ترک فوجی دستوں کے منبج شہر کے گرد امریکا کے حمایت یافتہ کرد جنگجوؤں کے خلاف حملے جاری ہیں۔ گو کہ ان حملوں کا آغاز جرابلس کے قصبے سے داعش کو نکالنے کے لیے ہوا تھا لیکن ترک حکام نے واضح کیا ہے کہ اس آپریشن کا بڑا مقصد کردوں کو کچلنا ...
چین بھی شام تنازع میں شامل ہونے کے قریب ہے۔ بیجنگ دمشق کے ساتھ قریبی فوجی تعلقات کا خواہشمند ہے اور اس بحران میں "اہم کردار ادا کرنا چاہ رہا ہے۔" چینی تربیت کاروں کی جانب سے شامی اہلکاروں کی تربیت پر گفتگو ہو چکی ہے اور اس امر پر رضامندی ظاہر کی گئی ہے کہ چینی افواج شام کو ان...