... loading ...
یہ کہانی اسلام آباد کے میلوڈی پارک سے شروع نہیں ہوتی۔
یہ لاہور کی زنانہ جیل کے ڈیتھ سیل سے بھی شروع نہیں ہوتی البتہ اس جیل کا صدر دروازہ وہ مقام ضرور ہے جہاں سے کہانی میں’’ ٹوئسٹ‘‘ آیا۔
کہانی شروع ہو تی ہے لاہور سے 30میل دور پنجاب کے ضلع شیخو پورہ کے نواحی علاقے’’اِتاّں والی‘‘سے۔ اب یہ کہانی ممتاز ملک اعوان سے منسوب ہو چکی۔ جی ہاں وہی سپاہی ملک ممتاز اعوان جسے 4جنوری2011کے بعد سے آپ’’غازی ممتاز قادری‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ کردار کہانی میں بعد میں داخل ہوا مگر دوسرے تمام کرداروں پر حاوی ہو گیا۔ کہانی کا حسن اسکے ’’فلیش بیک‘ ‘ میں ہے۔
سال 2010کے وسط میں انسانی حقوق کے حوالے سے سرگرم بین الاقوامی تنظیموں بشمول ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ وغیرہ نے لاہور ہائی کورٹ میں دائر ایک اپیل میں دلچسپی لیتے ہوئے اس حوالے سے تفصیلات جمع کرنا شروع کیں۔ یہ پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ تھا۔ یہ توہین رِسالتﷺ کا مقدمہ تھا اور ملزمہ ایک خاتون تھی۔ 39سالہ عیسائی خاتون آسیہ نورین۔ لاہور جیل کی آٹھ بائی دس کی کال کوٹھری میں قید یہ خاتون عدالتی ریکارڈ کے مطابق اہانتِ رسول ﷺ کی مرتکب ہوئی تھی اور شیخوپورہ کی ضلعی عدالت کے ایڈیشنل سیشن جج نے اسے موت کی سزاسنائی تھی۔ اسکے شوہر 51سالہ عاشق مسیح نے لاہور ہائی کورٹ میں سزا کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی تھی۔ مغربی ذرائع ابلاغ نے مقدمے کی تفصیلات شائع کرنا شروع کیں، ذرائع ابلاغ کی رپورٹس پر متوجہ ہوتے ہوئے پوپ بینڈکٹ نے آسیہ نورین کیلئے رحم کی اپیل کی۔ پوپ کی اپیل پر اس وقت کے صدر آصف زرداری نے اس وقت کے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو معاملے کی تحقیق پر مامور کیا۔ خفیہ اداروں نے تفصیلی چھان بین کے بعد واقعے کے پس منظر کی مکمل رپورٹ تیار کی جو صدر کو پیش کر دی گئی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ ملزمہ خود کھیتوں میں مزدوری کرتی تھی اور اسکا شوہر عاشق مسیح اینٹوں کے بھٹّے پر مزدوری کرتا تھی۔ انکے دو بچے ہیں اور یہ اپنے گاؤں کا واحد مسیحی جوڑا ہے۔ ایک روز آسیہ کھیتوں میں کام کر رہی تھی اور ساتھی مسلمان خواتین کے کہنے پر قریبی ٹیوب ویل سے گھڑے میں پانی بھرنے کیلئے گئی وہاں پہلے سے اسکی پڑوسن موجود تھی جسکے ساتھ آسیہ کے تعلقات خاصے ناخوشگوار تھے، دونوں میں تلخ کلامی ہوئی، آسیہ کھیتوں میں واپس آئی تو اسکی پڑوسن بھی پیچھے پیچھے چلی آئی اور دوسری مسلمان عورتوں سے کہا کہ اس نے آسیہ کو گھڑے سے منہ لگا کر پانی پیتے دیکھا ہے، اس پر مسلمان عورتیں بھڑک اٹھیں کہ آسیہ نے گھڑے کو ناپاک کر دیا۔ ان کے درمیان بدکلامی ہو ئی اور بحث نے مذہبی رنگ اختیار کرلیا، آسیہ نے بہر حال پسپا ہونے میں عافیت جانی اور مزدوری چھوڑ کر گھر چلی گئی، مگر اسکی پڑوسن دوسری خواتین کو اپنے ساتھ ملا کر گاؤں کی مسجد جاپہنچی اور پیش امام کو بتایا کہ آسیہ نے ان سب کے سامنے رسول اکرمﷺ کی شان میں گستاخی کی ہے۔ پیش امام نے شام تک گاؤں کے لوگوں کو اکٹھا کیا اور پھر آسیہ کے گھر پر دھاوا بول دیا، اسے اور اسکے شوہر کو بری طرح مارا پیٹا گیا اور پھر پولیس بلوا کر آسیہ کو گرفتا ر کر وادیا گیا، پولیس نے اسکے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295سی کے تحت مقدمہ درج کرلیا۔ تفتیش کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ مسجد کے پیش امام نے واقعے سے قبل دو مرتبہ آسیہ بی بی سے کچھ ایسا مطالبہ کیا تھا جس کے لیے وہ راضی نہ ہوئی تھی اور پیش امام کو اس بات کا بھی غصّہ تھا۔
انکوائری رپورٹ موصول ہوئی۔ گورنر پنجاب نے صدر مملکت سے مشورہ کیا۔ صدر نے ملزمہ کی مدد پر رضامندی ظاہر کی اور گورنر صاحب اپنی بیٹی شہر بانو کے ہمراہ لاہور جیل جا پہنچے۔ آسیہ نورین سے ملاقات کی، واقعات کی تصدیق کی اور ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے نا انصافی کا ازالہ کرنے کی یقین دہائی کرائی۔ باہر نکلے تو صحافی موجود تھے۔ انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ آسیہ بی بی سے ملنے آئے تھے اور وہ اس کیلئے صدارتی معافی حاصل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، سلمان تاثیر نے اس موقع پر توہین رسالت کے قانون کے نقائص اور غلط استعمال پر بھی تنقید کی اور کہا کہ اس میں چند تبدیلیوں کی ضرورت ہے، اس قانون کے تحت یہ شرط ہونی چاہئے کہ جو کسی پر توہین رسالت ﷺ کا جھوٹا الزام لگائے جھوٹ ثابت ہو نے پر اسکے خلاف بھی توہین رسالت ﷺ کے ہی جرم کے ارتکاب کا مقدمہ درج کیا جائے۔ اگلے روز لاہور کے ایک اخبار نے گورنر کے اس بیان کی یہ سرخی جمائی۔ ’’گورنر پنجاب نے توہین ِرسالت ﷺ کے قانون کو کالا قانون قرار دے دیا ‘‘۔ اس کے بعد جو ہوا وہ سب جانتے ہی ہیں۔
مجھے سلمان تاثیر سے کبھی کوئی ہمدردی نہیں رہی مگر اس پس منظر کو جاننے کے بعد سینے میں تاسّف کے سوا کسی شے کا وزن محسوس نہیں ہوتا۔ اس وقت ہم بحیثیت قوم دو دھڑوں میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ ایک وہ جو سلمان تاثیر کو ’’مردود‘‘اور ’’جہنمی ‘‘سمجھتا ہے اور ’’غازی تیرے جان نثار بے شمار بے شمار‘‘ کے نعرے لگارہا ہے جبکہ دوسرا وہ جو اسے ’’شہید انسانیت ‘‘سمجھتا ہے اور اس کے نام کے آگے ’’آر آئی پی ‘‘ لکھتا ہے اس دھڑے کے لوگ خوشی میں جام لُنڈ ھار ہے ہیں کہ سلمان تاثیر کو انصاف مل گیا۔ سلمان تاثیر جنت میں گیا یا جہنم کا ایندھن بنا، واللہ اعلم۔ ملک ممتاز اعوان نے اپنے کئے کی سزا پالی لہذا گمان یہی ہے کہ اللہ اس کے ساتھ درگزر کا ماجرا فرمائے گا، ویسے بھی ہم نہ ہی دوزخ کے کنٹریکٹر ہیں اور نہ ہی جنت کا کوٹہ لکھوائے بیٹھے ہیں کہ جسے جی چاہیں بھیجتے جائیں اور سوال یہ ہے بھی نہیں۔ دوزخ یا جنت تو سب کی اپنی اپنی ہے جو جیسے کمائے۔ سوال تو دنیا کا ہے کیا یہ ایسے ہی چلنی چاہیئے؟ مقتول گورنر نے اپنے آخری ٹی وی انٹرویو میں اپنے عقائد کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ میرے بزرگوں نے غازی علم دین شہید کے جنازے کو کندھا دیا تھا۔ میں الحمد اللہ مسلمان ہوں اور توہین رسالت ﷺکا سوچ بھی نہیں سکتا۔ انہوں نے یہ مقبول عام شعر بھی پڑھا۔
ایک امیر کبیر، دنیا دار اور صاحبِ مسند شخص جسے دنیا کی ہر آسائش میسر تھی، اسے ایک غریب غیر مسلم عورت سے ہمدردی جتانے کی نجانے کیو ں پڑ گئی تھی۔ اللہ جانے بہر کیف یہ اصل مدّعا نہیں، مدّعاکچھ اور ہے۔ بات جو ں جوں طویل ہوتی جاتی ہے قلم بوجھل اور طبیعت مکدر ہو تی جاتی ہے۔
راولپنڈی میں 1985میں جنم لینے والا ملک ممتاز اعوان، سلمان تاثیرکو قتل کرتے وقت بمشکل ساڑھے پچیس سال کا تھا، تعلیم محض میٹرک تھی، اٹھارہ سال کا ہوتے ہی پولیس میں سپاہی بھرتی ہو گیا، بلاشبہ عشقِ رسولﷺ کسی ڈگری کا محتاج نہیں مگر با آسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ غازی ممتاز قادری کے فہم ِدین کی سطح کیا ہو گی اور جب اس نے مفتی حنیف قریشی کا لہو گرما دینے والا پر جوش خطاب سنا ہوگا تو اسکے کیا جذبات ہوں گے، ایسی کوئی شہادت نہیں کہ اس نے سلمان تاثیر کو قتل کرنے سے پہلے دوچار علمائے کرام سے رائے طلب کی ہو یا کسی قسم کی تحقیق کی ہو کہ اس معاملے میں دین کے احکامات کیا ہیں ؟ اس نے خود جج کے روبرو اپنے بیان میں کہا کہ اس نے تین روز قبل مفتی حنیف قریشی سے سنا تھا کہ سلمان تاثیر گستاخِ رسول ﷺہے اور اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ سلمان تاثیر کو قتل کردے گا۔ مفتی حنیف قریشی کی شعلہ بیانی کے شاہکار اس خطاب کی وڈیو کلپ میرے پاس محفوظ ہے جسمیں وہ فرماتے ہیں کہ غازی علم دین شہید اور غازی عبدالرشید کی ارواح سے پیار کرنے والے اپنے ہاتھوں سے بندوق چلانا جانتے ہیں، ہم اپنی جوانیاں لٹا دیں گے، قانون کو چھوڑ و یاد رکھو ہم گستاخ رسولﷺ کا جسم خود گولیوں سے چھلنی کردیں گے تم اُسے (سلمان تاثیر کو)باہر نکالو پھر دیکھو اسکی لاش کا بھی کیا ہو گا۔ اس کے بعد و ہ مجمع سے نہایت جذباتی انداز سے دریافت کرتے ہیں بتاؤ وہ کیسے مرے گا۔ مجمع یک آواز ہو کر جواب دیتا ہے۔ ’’گولی سے۔ ‘‘
کہتے ہیں کہ میڈیکل سائنس کے پاس ہر اس زہر کا علاج موجود ہے جو کھانے پینے کی اشیاء میں گھولا جائے مگر اسکا نہیں جو کان میں گھولا جائے۔ میں نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر کئی مرتبہ یہ کلپ دیکھی کہ شاید مجمع میں کہیں غازی ممتاز قادری شہید کا ’’دیدار‘‘ ہو جائے، نہ ہو سکا نجانے اس نے کس کونے میں بیٹھ کر یہ تقریر سنی جب جج صاحب نے ممتاز قادری سے پوچھا کہ سلمان تاثیر نے ایسا کیا کہا تھا جسے تم نے رسول ﷺ کی گستاخی سمجھا تو اس نے بتایا کہ اسے یہ سب تو نہیں پتہ بس مفتی حنیف سے سنا تھا کہ یہ گستاخ رسول ﷺ ہے۔ مفتی موصوف نے اس مقدمے کے ابتدائی مراحل میں ہی عدالت کے روبرو ایک بیان ِ حلفی جمع کرادیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ وہ کسی ممتازقادری کو ذاتی طور پر نہیں جانتے اور انکی سلمان تاثیر سے کوئی مخاصمت بھی نہیں تھی، حضور نے فرمایا کہ ’’من مظہر اپنے خطابات میں امن، مساوات اور بھائی چارے کا درس دیتا ہے‘‘۔ جزاک اللہ۔۔ ۔ اگر ممتاز قادری نے خود بھی ایک لمحے کیلئے ٹہر کرسوچا ہوتا تواسے ضرور یہ خیال آتا کہ اسلام انسانیت کا درس دیتا ہے، حضور اکرمﷺنے خود جس اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی تھی اس میں اپنے کئی جیّد صحابہ کرام کو قاضی کے منصب پر فائز فرمایا تھا، اس اسلامی ریاست میں چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ضرور تھی اور اس پر بلا تخصیص عمل درآمد کیا جاتا تھا مگر یہ اختیار کسی کے پاس نہیں تھا کہ وہ چور کو پکڑ کر خود اس کے ہاتھ کاٹ ڈالے، لا محالہ مدعی کو قاضی سے رجوع کرنا ہو تا تھا۔ اگر خود ہی سزا دینے کے فلسفے کی ذرا بھی گنجائش اسلام میں ہے تو ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کوپھر کیوں بُرا کہا جائے؟
غازی ممتاز قادری تواپنے رب کے پاس جا پہنچے اب وہ ایک بہتر مقام پر ہیں مگر ان کی پھانسی کو چند افراد نے حشر کا عنوان بنا کر رکھ دیا ہے۔ لاتعلقی ظاہر کرنے والے مفتی صاحب ان کے فضائل بیان کرتے نہیں تھک رہے، اب انہیں ممتاز قادری کی قبر سے خوشبو آرہی ہے، ممتاز قادری کی لاش کے ساتھ ان کی ’’سیلفیاں‘‘ دوستوں کو ٹیگ ہو رہی ہیں۔ کچھ مولوی حضرات نے سلمان تاثیر کی فیملی کو دیت ادا کرنے کے نام پر کروڑوں روپے کے چندے اکٹھے کئے اور ڈکار گئے، اب غازی ممتاز کے مزار کا چندہ جاری ہے اور نئے ڈیزائن کے کرتے سلوا کر غازی کی شان میں کلام بھی ریکارڈ کروائے جا رہے ہیں۔ واضح ہے کہ ملک ممتازاعوان بندوق بردار تو تھامگر ٹریگر پر انگلی کسی اور کی تھی اور وہی لوگ اب اس کی پھانسی کو ناموس رسالت ﷺ کا مسئلہ بنا کر پیش کرنے میں کوشاں ہیں کیونکہ اس سے ان کے ذاتی مفادات وابستہ ہیں۔ نوحے کا مقام تو یہ ہے کہ ہمارا نظام ان حضرات کو کچھ نہیں کہتا، ہم خود ہر بار ان کے ہاتھوں استعمال ہو نے کو تیار بیٹھے رہتے ہیں۔ ریاست ستّو پی کر سوتی رہتی ہے۔ حکومت اور ذرائع ابلاغ بجا طورپر زبردست غم و غصے کا نشانہ ہیں حکمرانوں کی تو اپنی نیت کھوٹی ہے، ممتاز قادری کی پھانسی پر جھٹ پٹ عمل درآمد دراصل حکمرانوں کے اِس خوف کا آئینہ دار ہے کہ اگر ایسے واقعات میں ڈھیل دی گئی تو پھر کل نہ صرف سارے وزراء، گورنرز اور دیگر حکومتی زعما ء بلکہ خود صدر اور وزیر اعظم بھی اپنے محافظوں کے نشانے پر ہوں گے۔ اگر انصاف ہی حکمرانوں کا مسئلہ ہوتا تو یہی سلوک شاہ رخ جتوئی، مصطفی کانجو اور عبدالقادر گیلانی سمیت بہت سوں کے ساتھ ہو چکا ہوتا۔
اللہ ممتاز قادری کی مغفرت فرمائے !ہم دعاگو ہیں مگر سوال یہ ہے کہ پاکستان میں تمام مولوی جنت کا وہی راستہ کیوں دکھاتے ہیں جو مقتل سے ہو کر جاتا ہے، کیا اپنے جوتے خون میں بھگوئے بغیر کوئی جنت میں نہیں جا سکتا۔
یہ کہانی اِتاں والی کے کھیتوں سے شروع ہوئی، اس عجیب سی کہانی میں کئی ولن ہیں۔ اس کہانی میں ممتاز قادری تو ہیرو ضرور ہے مگر ولن سلمان تاثیر بہرحال نہیں تھا۔ کہانی اس لحاظ سے بھی عجیب ہے کہ ہیروچل بسا مگر ولن آزاد گھوم رہے ہیں۔
اسپین میں ایک کہاوت ہے ‘ کسی کو دو مشورے کبھی نہیں دینے چاہئیں ایک شادی کرنے کا اور دوسرا جنگ پر جانے کا۔ یہ محاورہ غالباً دوسری جنگ عظیم کے بعد ایجاد ہوااس کا پس ِ منظر یہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں یورپ میں مردوں کی تعداد نہایت کم ہو گئی تھی اور عورتیں آبادی کا بڑا حصہ بن گئی تھی...
یہ طے کرنا مشکل ہے کہ زیادہ قصور وار کون ہے سول حکمران یا فوجی آمر ۔ جمہوریت عوام کی حکمرانی پر مبنی نظام کا نام ہے اور مارشل لاء ایک آمر کی اپنے چند حواریوں کے ہمراہ زبردستی قائم کی گئی نیم بادشاہت کا ۔ پاکستان جمہوریتوں اور آمریتوں کے تجربات سے بار بار گزر ا ہے مگر یہ ایک تلخ ح...
آپ نے کبھی دنیا کا نقشہ غور سے دیکھا ہے ، پاکستان اور ایران کے درمیان پچکا ہوا سا ایک خطّہ دکھائی دیتا ہے ،اسی کا نام افغانستان ہے ، سرزمین ِافغانستان کے بارے میں خود پشتونوں میں ایک کہاوت ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ ساری دنیا بنا چکا تو اس کے پاس چٹانوں اور پتھروں کا ایک ڈھیر رہ گیا ، اس...
طبیعت میں کسلمندی تھی ، گھرسے نکلنے کا موڈ بالکل نہ تھا مگر یکایک جنوبی افریقہ کا جوان العزم سیاہ فام بشپ دیسمند ٹوٹو(Desmond Tutu) یاد آیا جس نے زندگی غربت اورنسلی تعصب کے خلاف جدوجہد میں گزار دی اور نوبل انعام سمیت چھ عالمی اعزازات اپنے نام کئے ۔ اس نے کہا تھا If you are ne...
ڈاکٹر راحت اِندوری کا تعلق ہندوستان کی ریاست مدھیہ پردیش کے شہر ’’انِدور‘‘سے ہے ، یہ اردو ادب میں پی ایچ ڈی ہیں اوراِندور یونیورسٹی میں پڑھاتے بھی رہے ہیں ، دنیا بھر میں جہاں بھی اردو شاعری کا ذوق رکھنے والے افراد موجود ہیں وہاں انہیں بخوبی جانا پہچانا جاتا ہے ، کچھ عرصے قبل مودی...
اپنے معمول کے کاموں میں مصروف، دکانوں پر مول تول کی تکرار کرتے ، قہوہ خانوں پر استراحت آراء اوربازار سے گزرتے سب ہی لوگوں نے پکار سنی ۔ ’’اے اہل قریش ادھر آؤ۔‘‘ بار بار پکار ا جا رہا تھا لوگ چل پڑے، جمع ہوئے تو دیکھا ،عبدالمطّلب کا پوتا محمدﷺ کوہ ِصفا پر چڑ ھا نِدا لگا رہا ...
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے دھرنے کی موجودہ صورتِ حال پر ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس کے بعد پنجاب ہاؤس اسلام آباد میں ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ایک گھنٹے میں دارالحکومت اسلام آباد کے ڈی چوک سے دھرنا ختم نہ ہوا تو کل دن کی روشنی میں سب کے سامنے آپریشن کیا جائ...
سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو قتل کرنے والے پنجاب پولیس کے سابق کمانڈو ممتاز قادری کی پھانسی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئےمظاہرین نے وفاقی دارالحکومت کے ریڈ زون ایریا ڈی چوک میں دھرنا دے رکھا ہے۔اتوار کی شام سے شروع ہونے والا یہ احتجاج تاحال جاری ہے، تاہم دھرنے میں شریک افراد کی تعد...
ایک نشئی نے کہیں سے سن لیا کہ انسان مرنے سے قبل اپنے جسمانی اعضاء عطیہ کر سکتا ہے ، اسکی موت کے بعد وہ اعضاء کسی مستحق کیلئے جینے کا سہارا بن سکتے ہیں اور اس طرح عطیہ کرنے والا مرنے کے بعد بھی نیکیاں کماتا رہتا ہے ، نشئی پوچھتا پوچھتا ایک ایسی این جی او کے دفتر جا پہنچا جو اعضاء ...
فیض حیات ہو تے تو کہتے .... آؤ کہ آج ختم ہو ئی داستانِ عشق اب ختم ِعاشقی کے فسانے سنائیں ہم گذشتہ دو ہفتوں سے ماجرا کچھ ایسا ہی ہے ، ’’خَتمِ عاشقی‘‘ کے فسانے ہی کہے جا رہے ہیں ، ہر تیسرے روز سہ پہر تین بجے کوئی نہ کوئی پتنگ کٹ کر ’’خیابان ِ سحر ‘‘پر آگرتی ہے ، اب ہا...
نوازشریف حکومت نے ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد اب مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس کو پاکستان کے دورے کی دعوت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ انتہائی ذمہ دار ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں ایک دو رکنی وفد پوپ کو دعوت دینے کے لئے ویٹی کن روانہ ہو چکا ہے۔ پوپ کو دعوت دینے کے لئے روانہ ہون...
ممتاز قادری کی پھانسی کا معاملہ ہر گزرتے لمحے ردِعمل کی نئی لہروں کو اُٹھانے کا موجب بن رہا ہے۔ اور اس نے پاکستان کے سیاسی، صحافتی اور معاشرتی رویوں کی ایک حیرت انگیز تصویر کو اجاگر کر دیا ہے۔ ممتاز قادری کی پھانسی جائز تھی یا نہیں؟ اس سوال سے قطع نظر ممتاز قادری کی پھانسی کا وقت...