وجود

... loading ...

وجود

کنن پوشہ پورہ بھارت کے ماتھے پر کلنک

جمعرات 03 مارچ 2016 کنن پوشہ پورہ بھارت کے ماتھے پر کلنک

kunan-pospora

دُنیا کی چھٹی بڑی طاقت کے دعویدار بھارت کادورِ حاضر میں جمہوریت، عدم تشدد، مساوات وبرابری کے ساتھ ساتھ ’’محافظ حقوق البشری ‘‘ کا نعرہ بھی قانون کی کتابوں میں جلی حروف سے لکھا ہوا تو ضرور ہے مگر ساٹھ سال کی تاریخ اس کے ایک ایک لفظ پر ماتم کناں ہے۔ اس کا جمہوری چہرہ داغدار ہے۔ اس کی عدم تشدد کی باتیں افسانے اور اس کی تحفظ انسانیت اور برابری کے سبھی بلند بانگ دعوے ڈھکوسلے معلوم ہوتے ہیں۔ بھارت کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہی ہے کہ اس کی آبادی کی اکثریت نے نہ جمہوریت دیکھی ہے اور نہ ہی مساوات اور عدم تشدد کی کہانیوں کی کوئی حقیقت ؟بھارت کی اقلیت نہیں بلکہ اکثریت چاہے وہ شودر اور اچھوت ہندو ہوں یا سکھ، عیسائی ہوں یا مسلمان ان نعروں کا شور تو انہوں نے بہت سنا ہے مگر معاملہ بالکل اس کے برعکس دکھائی دیتا ہے۔ بھارت کی چھوٹی سی اقلیت ملک کے وسائل پر نہ صرف قابض ہے بلکہ وہی اقلیت تمام تر سہولیات سے متمتع بھی ہو رہی ہے اور جب بھی اکثریت اس کے خلاف منہ کھولتی ہے تو انہیں شدت پسند، انتہا پسند اور دہشت گردی کی گالی سے رام کردیا جاتا ہے۔ بھارت کی ساری مشنری (جو ایک بالا دست طبقے کی لونڈی بن چکی ہے) نے دوسری اکثریت کے وہ شہری حقوق بھی مکمل طور پر ختم کردیے ہیں جن کے نتیجے میں ان کی زندگی زہر آلود ہو چکی ہے۔

23 اور 24 فروری 1991ء کی درمیانی رات میں کُنن پوشہ پورہ کپواڑہ میں جو اجتماعی عصمت ریزی کا سانحہ پیش آیا تھا، اُس نے کشمیر کو بوسنیا پر سربیا کے حملے کے حالات سے کافی مماثل کردیا تھا اور کشمیر کے مسلمانوں میں یہ احساس کمتری پیدا کر چکا تھا کہ بھارت نے کشمیر کے عسکریت پسندی کو ’’ہندومسلم جنگ‘‘ سمجھ رکھا ہے۔ مگر جب یہی شکایات آسام، منی پور اور ناگالینڈ سے بھی آنی شروع ہوگئی تو معلوم ہوا کہ فوج میں صبر و تحمل کی شدید کمی اور سخت قانونی بندشیں ختم ہو نے کے نتیجے میں بے خوفی کا ماحول پیدا ہو جاتا ہے۔ جس کا سب سے بڑا ثبوت خود کنن پوشہ پورہ واقعہ ہے۔ جہاں صرف ایک رات میں پورے گاؤں کی خواتین کو کسی امتیاز کے بغیر اجتماعی عصمت ریزی کا نشانہ بنا دیا گیا، چودہ سال کی بچی سے لیکر ستر سال کی بوڑھی عورت تک ایک دوسرے کے سامنے آخری درجے کی درندگی کا مظاہرہ کرتے ہو ئے ’’قانون، جمہوریت، سیکولرازم، فلسفہ عدم تشدد اور انڈین ازم کے رکھوالوں‘‘ نے آپ اپنی انسانیت پر سوالیہ نشان لگادیا اور کشمیریوں کے سینے میں ایسا زہر گھول دیا کہ لاکھ تاویلات اور تردیدات کے باوجود بھی کوئی مداوا ممکن نہیں، سب سے حیرت کی بات یہ کہ بھارت نے پورے 23برس بعد سلمان خورشید کے ذریعے اس ’’غلطی‘‘ پر شرمندگی کا مظاہرہ کیا حالانکہ ’’انصاف‘‘ ابھی تک اس بیان کے بعد بھی اپنی راہ دیکھ رہا ہے۔ حیرت اور افسوس کا مقام یہ کہ بھارت کا عدالتی نظام اس قدر بودا اور کمزور ہے کہ کُنن پوشہ پورہ کے ملوثین پر ابھی تک وہ اپنا شکنجہ کسنے میں ناکام دکھا ئی دیتا ہے اور یہ صرف اس لیے ہو رہا ہے کہ بھارتی بیوروکریسی اس غم میں نڈھال ہے کہ کہیں اس صورتحال کے نتیجے میں فوج کے مورال پر کوئی بُرا اثر نہ پڑے۔

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کشمیر کی عسکریت کوا یک طرف چھوڑ کر اگر ’’عقلِ عام‘‘ کے سہارے ہی اس سانحہ پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ فوج کے مورال کے برعکس سرحدی حساس ریاست کے ان لوگوں کا مسئلہ ہے جو پہلے ہی بد اعتمادی کے بھنور میں ڈوب کر ملک سے ’’آزادی کا نعرہ‘‘ بلند کر چکے ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ یہ مسئلہ ’’ہندومسلم‘‘اور ’’دفاعی اداروں‘‘ کے برعکس انسانیت اور اس کے تحفظ کا ہے۔ آنکھیں چرا لینے کا ہی نتیجہ ہے کہ 1990ء سے اب تک عصمت ریزی کی ہزاروں شکایات درج ہو چکی ہیں اور ہر مرتبہ ’’قانونی اداروں اور تنظیموں ‘‘کے پاؤں میں اسی ’’مورال گرنے‘‘ کی زنجیر پڑتی ہے اور وہ بہانے تراش تراش کر لوگوں کی توجہ ہٹانے کی ناکام کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں اور ہر سانحہ کے بعد اس بداعتمادی میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ جس ملک کے بودے نظام کی حالت یہ ہو کہ پورے23برس حکمرانوں کو ’’اظہار شرمندگی‘‘ میں لگ گئے اس ملک میں مجرمین کو سزا ملنے میں کتنے سال لگ جاتے ہوں گے۔ قابل غور مسئلہ ہے اور یہ عین ممکن ہے کہ وہ کارروائی مکمل ہو نے تک اس دنیا سے نکل چکے ہوں تو پھر انصاف کیسے قائم ہوگا۔

بھارت نے اجتماعی عصمت دری کے واقعے پر پورے 23برس بعد سلمان خورشید کے ذریعے اس ’’غلطی‘‘پر شرمندگی کا مظاہرہ کیا حالانکہ ’’انصاف‘‘ابھی تک اس بیان کے بعد بھی اپنی راہ دیکھ رہا ہے

اس سب سے مختلف مسئلہ وہ انسانی نفسیات ہے جس کو شدید دھچکہ لگنے کے نتیجے میں ایک پوری نسل ’’شدید ذہنی تناؤ‘‘ میں مبتلا ہو جاتی ہے اور اس میں بدلے کی بھاونائیں بڑھ جاتی ہیں بھارت کا اعلیٰ دماغ طبقہ ایک طرف کشمیریوں کے حقوق کے غصب ہونے کا ’’زیر لب‘‘ اعتراف بھی تو کرتا ہے مگر ساتھ ہی وہ کنن پوشہ پورہ جیسے حادثات پر چپ سادھ لیتا ہے، قانون کا تقاضا یہ تھا کہ فوج خود ہی اس مسئلے میں پہل کرتے ہو ئے ملوثین کو سزا دیکر اپنی بگڑی شبیہہ ٹھیک کردیتی مگر انہیں بھی وہی ’’مورال‘‘ والی خودساختہ بات پریشان کردیتی ہے اور وہ چند اشخاص کے لیے سارے فوج کو بدنام کرنے میں بھی باک محسوس نہیں کرتی ہے۔ سچائی یہ ہے کہ یہ اس ملک کی نفسیات بنتی جا رہی ہے کہ حکمران اور بیوروکریسی کسی بھی شخص کو ناراض نہیں کرنا چاہتے ہیں جس کی مثال ’’انا ہزارے‘‘کی تحریک کے مطالبات میں کانگریس کا کبھی وزرا کو اور کبھی وزرائے اعلیٰ کو نکال باہر کرنے کے احمقانہ مطالبات ہیں اور تو اور اب اس ملک کی ’’عقل‘‘ یہاں تک مرچکی ہے کہ یہ چند گندے لوگوں کے مطالبہ ’’ہم جنس پرستی‘‘ کو بھی سرکاری اور قانونی تحفظ فراہم کرنے کے لیے پر تول رہی ہے۔

اس سانحہ کا یہ وہ پہلو ہے جس کا تعلق بھارت کی انتظامیہ، فوج اور بیوروکریسی کی بے حسی سے ہے مگر بحیثیت کشمیری قوم ہمارا بھی ایک انتہائی افسوسناک پہلو ہے اور وہ ہے اس انسانی مسئلے کو مکمل طور پر نظر انداز کرنا۔ ۔ ۔ ۔ تفصیلات کے مطابق کنن پو شہ پورہ کی اس درندگی کی شکار خواتین کے ساتھ ’’نکاح‘‘ جیسا فطری اور شرعی مسئلہ بھی ہمارے خوفناک چہرے کو بے نقاب کر چکا ہے حالانکہ دوسری اقوام میں ان جیسے حساس ایشوز پر ’’ایثار و قربانی ‘‘کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ برعکس اس کے کشمیر جیسے بے حس معاشرے میں یہ معاملہ ’’شرم و عار‘‘ کا باعث بن جاتا ہے۔ جو متاثرین میں پہلے سے موجود درد و الم کو ناقابل برداشت بنا دیتا ہے !!!ہم دعوے تو بہت بلند کرتے ہیں اور نعرے بھی بڑے حسین دیتے ہیں مگر مسئلے کے حل کے برعکس ہم خود ہی اس مسئلے کو زہر ناک بنا کر ہی دم لیتے ہیں۔ یتیموں، بیواؤں، لاپتہ افراد کے اہل خانہ، قیدی اور دامن عصمت و عفت تارتار ہونے کی شکار ’’خواتین کی فوج‘‘ اس قوم کے حصے میں آئی ہے مگر ہم نے بحیثیت قوم اس حوالے سے ابھی تک ایک بھی مثبت قدم نہیں اُٹھایا ہے، سوائے چند ایک انسانی حقوق کارکنان کے جن میں ’’A.P.D.PاورC.C.S‘‘کے نام سامنے ہیں مگر تعاون میں جیسا کہ ہم ہر جگہ بخیل اور بے رحم ثابت ہو ئے ہیں وہی معاملہ یہاں بھی درپیش ہے لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنا محاسبہ آپ کریں اور دیکھیں کہ ہم اپنے بلند بانگ دعوؤں میں کس قدر نکمے ثابت ہو تے ہیں اورتو اور ہم ایک انسانی مسئلے میں بھی بحیثیت قوم کوئی عملی پیش رفت کرنے میں ناکام رہ کر آپ ہی یہ بھی ثابت کردیتے ہیں کہ ہم کسی اعلیٰ اور ارفع نصب العین کے لیے مجتمع ہو کر پا لینے کے لیے ’’خواب ‘‘تو بہت اونچے درجے کا دیکھ سکتے ہیں مگر عملی طور تعبیر میں ہم خود ہی فطری اور قدرتی اصولوں کے ساتھ متصادم ہو کر اپنی منزل اوجھل بھی کردیتے ہیں۔


متعلقہ خبریں


بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ جاری وجود - پیر 18 اپریل 2022

امریکا کے محکمہ خارجہ نے بھارت کو انسانی حقوق کی خلاف وزریوں کا مرتکب قرار دیتے ہوئے اپنی رپورٹ میں مسلمانوں کے خلاف بدترین انسانی حقوق کی خلاف وزریوں کی نشاندہی بھی کر دی۔ انسانی حقوق سے متعلق امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ میں بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کا ماورائے عدالت ق...

بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ جاری

مقبوضہ کشمیر: تاریخی جامع مسجد سرینگر 30ہفتوں بعد نماز جمعہ کیلئے کھولنے پر جذباتی مناظر وجود - هفته 05 مارچ 2022

مقبوضہ جموں و کشمیر میں 30ہفتوں بعد تاریخی جامع مسجد سرینگر کونماز جمعہ کے موقع پرنمازیوں کیلئے کھولنے کے موقع پر جذباتی اور روح پرور مناظر دیکھے گئے ۔ جمعہ کو 30ہفتے بعد تاریخی جامع مسجد کے منبر و محراب وعظ و تبلیغ اور خبطہ جمعہ سے گونج اٹھے اور کئی مہینے بعد اس تاریخی عبادت گاہ...

مقبوضہ کشمیر: تاریخی جامع مسجد سرینگر 30ہفتوں بعد  نماز جمعہ کیلئے کھولنے  پر جذباتی مناظر

آزادی کے بعد پہلی بار ریاست جموں وکشمیر کے اختیارات چھین لیے گئے،راہول گاندھی وجود - بدھ 02 مارچ 2022

بھارت میں کانگریس پارٹی کے رہنما راہول گاندھی نے 2019میں دفعہ 370 (جس کے تحت جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل تھی) کی منسوخی پر مودی کی فسطائی بھارتی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاہے کہ یہ ایک ایسا اقدام ہے جواس سے پہلے کبھی نہیں کیا گیا اوراب اتر پردیش اور گجرات جیس...

آزادی کے بعد پہلی بار ریاست جموں وکشمیر کے اختیارات چھین لیے گئے،راہول گاندھی

کشمیر سے اظہارِیکجہتی، بھارت میں ملٹی نیشنل کمپنیوں پرہندو انتہا پسندوں کا حملہ وجود - اتوار 13 فروری 2022

بھارتی ریاست گجرات میں سینکڑوں ہندو انتہا پسند مظاہرین نے سوشل میڈیا پر مقبوضہ جموں و کشمیرسے اظہار یکجہتی کی پاداش میں متعدد ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ملکیت والے اسٹورز کو بند کرادیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پانچ فروری (یوم کشمیر) کے موقع پر پاکستان میں ملٹی نیشنل کمپنیوں ہنڈائی موٹرز...

کشمیر سے اظہارِیکجہتی، بھارت میں ملٹی نیشنل کمپنیوں پرہندو انتہا پسندوں کا حملہ

بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی ہونے والی ہے، امریکی کانگریس کو بریفنگ وجود - پیر 17 جنوری 2022

جینو سائیڈ واچ کے بانی اور ڈائریکٹر گریگوری اسٹینٹن نے خبردار کیا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی ہونے والی ہے۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق گریگوری اسٹینٹن نے امریکی کانگریس کی بریفنگ کے دوران کہا کہ بھارت کی ریاست آسام اور مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی کے ابتدائی علامات اور عمل موج...

بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی ہونے والی ہے، امریکی کانگریس کو بریفنگ

صحافیوں کی عالمی تنظیم کا بھارت سے کشمیری صحافی کی رہائی کا مطالبہ وجود - اتوار 09 جنوری 2022

امریکا میں قائم صحافیوں کی عالمی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ (سی پی جے) نے بھارت سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی حکومت کے خلاف مظاہرے کی ویڈیو بنانے والے زیر حراست صحافی کو رہا کرنے کا مطالبہ کردیا۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق سی پی جے نے کہا کہ ایک آزاد صحافی اور میڈیا کا طالب عل...

صحافیوں کی عالمی تنظیم کا بھارت سے کشمیری صحافی کی رہائی کا مطالبہ

مقبوضہ کشمیر کی تحریکِ آزادی نظر انداز، دبئی حکومت کی زیر ملکیت کمپنی کا مقبوضہ کشمیر میں ڈرائی پورٹ تعمیر کرنے کا اعلان وجود - هفته 08 جنوری 2022

بھارت نہایت پُرکاری سے مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی کو مسلم ممالک کی اخلاقی حمایت سے محروم کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس ضمن میں بھارت نے عرب ممالک کو خاص ہدف بنا رکھا ہے۔ پاکستان کے ابتر سیاسی نظام اور خارجہ محاذ پر مسلسل ناکامیوں نے اب مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے عالم اسللام کے متفقہ م...

مقبوضہ کشمیر کی تحریکِ آزادی نظر انداز، دبئی حکومت کی زیر ملکیت کمپنی کا مقبوضہ کشمیر میں ڈرائی پورٹ تعمیر کرنے کا اعلان

مقبوضہ کشمیر'29برس گزرنے کے باوجود لوگوں کے ذہنوں میں سوپور قتل عام کی یادیں آج بھی تازہ وجود - جمعرات 06 جنوری 2022

مقبوضہ کشمیر میں 6جنوری 1993ء کو بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں سوپور میں نہتے کشمیریوں کے قتل عام کے سانحہ کو29برس کا عرصہ گزرنے کے باوجود اس کی تلخ یادیں لوگوں کے ذہنوں میں آج بھی تازہ ہیں۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق 1993میں اس دن سوپور میں اندھا دھند گولیاں برسا کر 60 سے زائد بے گناہ ک...

مقبوضہ کشمیر'29برس گزرنے کے باوجود لوگوں کے ذہنوں میں سوپور قتل عام کی یادیں آج بھی تازہ

بھارت مقبوضہ کشمیر میں اسرائیل کے نقش قدم پر، اسرائیلی اخبار کا انکشاف وجود - جمعرات 25 نومبر 2021

بھارت نے اسرائیل کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے جدوجہد کے دوران شہید ہونے والے کشمیریوں کے جسد خاکی لواحقین کے حوالے کرنے کے بجائے خود دور دراز مقامات پر دفنانا شروع کر دیے ہیں،ایک میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی جریدے ہاریٹز کی ایک رپورٹ کے مطابق ا...

بھارت مقبوضہ کشمیر میں اسرائیل کے نقش قدم پر، اسرائیلی اخبار کا انکشاف

علیحدہ کشمیر مانگ رہے ہیں تو دے دو، فوجی کی بیوہ مودی کے خلاف صف آرا وجود - جمعرات 21 اکتوبر 2021

بھارتی فوجی کی بیوہ حق خود ارادیت کی جدوجہد کرنے والے کشمیریوں کی حمایت میں میدان میں آگئیں اور کہا کہ وزیروں کی اولادوں کو ایک مرتبہ ضرور سرحد پربھیجیں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق سماجی رابطوں کی ویب سائٹ 'ٹوئٹر' پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں پونچھ سیکٹر میں ہلاک ہونے والے بھارتی ...

علیحدہ کشمیر مانگ رہے ہیں تو دے دو، فوجی کی بیوہ مودی کے خلاف صف آرا

مزاحمتی تحریک سے وابستہ کشمیریوں کے خلاف بھارتی کارروائیوں میں تیزی لانے کا منصوبہ وجود - هفته 09 اکتوبر 2021

بھارت نے اپنے نام نہاد انسداد دہشت گردی کے سرکردہ ماہرین کو مقبوضہ جموں و کشمیر بھیج دیا ہے تاکہ جاری مزاحمتی تحریک سے وابستہ کشمیریوں کو ختم کرنے کیلئے مقامی پولیس کی مدد کی جا سکے۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق ''ہندوستان ٹائمز'' کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ پیش رفت بھارتی وزی...

مزاحمتی تحریک سے وابستہ کشمیریوں کے خلاف بھارتی کارروائیوں میں  تیزی لانے کا منصوبہ

یورپی پارلیمنٹ ریسرچ سروس کی مقبوضہ کشمیر پر تحقیقی دستاویز جاری وجود - جمعه 27 ستمبر 2019

یورپی پارلیمنٹ کی ریسرچ سروس نے مقبوضہ کشمیرکی تازہ ترین صورتحال پر ایک تحقیقی دستاویز جاری کی ہے ،اس دستاویز میں مقبوضہ کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور وہاں کرفیوکے نفاذ سے ابتک کے تمام واقعات کا خلاصہ پیش کیا گیا ہے ، چیئرمین کشمیرکونسل ای یو نے کہا ہے کہ یورپی پارلیمنٹ کی یہ ...

یورپی پارلیمنٹ ریسرچ سروس کی مقبوضہ کشمیر پر تحقیقی دستاویز جاری

مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر