... loading ...
دُنیا کی چھٹی بڑی طاقت کے دعویدار بھارت کادورِ حاضر میں جمہوریت، عدم تشدد، مساوات وبرابری کے ساتھ ساتھ ’’محافظ حقوق البشری ‘‘ کا نعرہ بھی قانون کی کتابوں میں جلی حروف سے لکھا ہوا تو ضرور ہے مگر ساٹھ سال کی تاریخ اس کے ایک ایک لفظ پر ماتم کناں ہے۔ اس کا جمہوری چہرہ داغدار ہے۔ اس کی عدم تشدد کی باتیں افسانے اور اس کی تحفظ انسانیت اور برابری کے سبھی بلند بانگ دعوے ڈھکوسلے معلوم ہوتے ہیں۔ بھارت کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہی ہے کہ اس کی آبادی کی اکثریت نے نہ جمہوریت دیکھی ہے اور نہ ہی مساوات اور عدم تشدد کی کہانیوں کی کوئی حقیقت ؟بھارت کی اقلیت نہیں بلکہ اکثریت چاہے وہ شودر اور اچھوت ہندو ہوں یا سکھ، عیسائی ہوں یا مسلمان ان نعروں کا شور تو انہوں نے بہت سنا ہے مگر معاملہ بالکل اس کے برعکس دکھائی دیتا ہے۔ بھارت کی چھوٹی سی اقلیت ملک کے وسائل پر نہ صرف قابض ہے بلکہ وہی اقلیت تمام تر سہولیات سے متمتع بھی ہو رہی ہے اور جب بھی اکثریت اس کے خلاف منہ کھولتی ہے تو انہیں شدت پسند، انتہا پسند اور دہشت گردی کی گالی سے رام کردیا جاتا ہے۔ بھارت کی ساری مشنری (جو ایک بالا دست طبقے کی لونڈی بن چکی ہے) نے دوسری اکثریت کے وہ شہری حقوق بھی مکمل طور پر ختم کردیے ہیں جن کے نتیجے میں ان کی زندگی زہر آلود ہو چکی ہے۔
23 اور 24 فروری 1991ء کی درمیانی رات میں کُنن پوشہ پورہ کپواڑہ میں جو اجتماعی عصمت ریزی کا سانحہ پیش آیا تھا، اُس نے کشمیر کو بوسنیا پر سربیا کے حملے کے حالات سے کافی مماثل کردیا تھا اور کشمیر کے مسلمانوں میں یہ احساس کمتری پیدا کر چکا تھا کہ بھارت نے کشمیر کے عسکریت پسندی کو ’’ہندومسلم جنگ‘‘ سمجھ رکھا ہے۔ مگر جب یہی شکایات آسام، منی پور اور ناگالینڈ سے بھی آنی شروع ہوگئی تو معلوم ہوا کہ فوج میں صبر و تحمل کی شدید کمی اور سخت قانونی بندشیں ختم ہو نے کے نتیجے میں بے خوفی کا ماحول پیدا ہو جاتا ہے۔ جس کا سب سے بڑا ثبوت خود کنن پوشہ پورہ واقعہ ہے۔ جہاں صرف ایک رات میں پورے گاؤں کی خواتین کو کسی امتیاز کے بغیر اجتماعی عصمت ریزی کا نشانہ بنا دیا گیا، چودہ سال کی بچی سے لیکر ستر سال کی بوڑھی عورت تک ایک دوسرے کے سامنے آخری درجے کی درندگی کا مظاہرہ کرتے ہو ئے ’’قانون، جمہوریت، سیکولرازم، فلسفہ عدم تشدد اور انڈین ازم کے رکھوالوں‘‘ نے آپ اپنی انسانیت پر سوالیہ نشان لگادیا اور کشمیریوں کے سینے میں ایسا زہر گھول دیا کہ لاکھ تاویلات اور تردیدات کے باوجود بھی کوئی مداوا ممکن نہیں، سب سے حیرت کی بات یہ کہ بھارت نے پورے 23برس بعد سلمان خورشید کے ذریعے اس ’’غلطی‘‘ پر شرمندگی کا مظاہرہ کیا حالانکہ ’’انصاف‘‘ ابھی تک اس بیان کے بعد بھی اپنی راہ دیکھ رہا ہے۔ حیرت اور افسوس کا مقام یہ کہ بھارت کا عدالتی نظام اس قدر بودا اور کمزور ہے کہ کُنن پوشہ پورہ کے ملوثین پر ابھی تک وہ اپنا شکنجہ کسنے میں ناکام دکھا ئی دیتا ہے اور یہ صرف اس لیے ہو رہا ہے کہ بھارتی بیوروکریسی اس غم میں نڈھال ہے کہ کہیں اس صورتحال کے نتیجے میں فوج کے مورال پر کوئی بُرا اثر نہ پڑے۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کشمیر کی عسکریت کوا یک طرف چھوڑ کر اگر ’’عقلِ عام‘‘ کے سہارے ہی اس سانحہ پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ فوج کے مورال کے برعکس سرحدی حساس ریاست کے ان لوگوں کا مسئلہ ہے جو پہلے ہی بد اعتمادی کے بھنور میں ڈوب کر ملک سے ’’آزادی کا نعرہ‘‘ بلند کر چکے ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ یہ مسئلہ ’’ہندومسلم‘‘اور ’’دفاعی اداروں‘‘ کے برعکس انسانیت اور اس کے تحفظ کا ہے۔ آنکھیں چرا لینے کا ہی نتیجہ ہے کہ 1990ء سے اب تک عصمت ریزی کی ہزاروں شکایات درج ہو چکی ہیں اور ہر مرتبہ ’’قانونی اداروں اور تنظیموں ‘‘کے پاؤں میں اسی ’’مورال گرنے‘‘ کی زنجیر پڑتی ہے اور وہ بہانے تراش تراش کر لوگوں کی توجہ ہٹانے کی ناکام کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں اور ہر سانحہ کے بعد اس بداعتمادی میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ جس ملک کے بودے نظام کی حالت یہ ہو کہ پورے23برس حکمرانوں کو ’’اظہار شرمندگی‘‘ میں لگ گئے اس ملک میں مجرمین کو سزا ملنے میں کتنے سال لگ جاتے ہوں گے۔ قابل غور مسئلہ ہے اور یہ عین ممکن ہے کہ وہ کارروائی مکمل ہو نے تک اس دنیا سے نکل چکے ہوں تو پھر انصاف کیسے قائم ہوگا۔
اس سب سے مختلف مسئلہ وہ انسانی نفسیات ہے جس کو شدید دھچکہ لگنے کے نتیجے میں ایک پوری نسل ’’شدید ذہنی تناؤ‘‘ میں مبتلا ہو جاتی ہے اور اس میں بدلے کی بھاونائیں بڑھ جاتی ہیں بھارت کا اعلیٰ دماغ طبقہ ایک طرف کشمیریوں کے حقوق کے غصب ہونے کا ’’زیر لب‘‘ اعتراف بھی تو کرتا ہے مگر ساتھ ہی وہ کنن پوشہ پورہ جیسے حادثات پر چپ سادھ لیتا ہے، قانون کا تقاضا یہ تھا کہ فوج خود ہی اس مسئلے میں پہل کرتے ہو ئے ملوثین کو سزا دیکر اپنی بگڑی شبیہہ ٹھیک کردیتی مگر انہیں بھی وہی ’’مورال‘‘ والی خودساختہ بات پریشان کردیتی ہے اور وہ چند اشخاص کے لیے سارے فوج کو بدنام کرنے میں بھی باک محسوس نہیں کرتی ہے۔ سچائی یہ ہے کہ یہ اس ملک کی نفسیات بنتی جا رہی ہے کہ حکمران اور بیوروکریسی کسی بھی شخص کو ناراض نہیں کرنا چاہتے ہیں جس کی مثال ’’انا ہزارے‘‘کی تحریک کے مطالبات میں کانگریس کا کبھی وزرا کو اور کبھی وزرائے اعلیٰ کو نکال باہر کرنے کے احمقانہ مطالبات ہیں اور تو اور اب اس ملک کی ’’عقل‘‘ یہاں تک مرچکی ہے کہ یہ چند گندے لوگوں کے مطالبہ ’’ہم جنس پرستی‘‘ کو بھی سرکاری اور قانونی تحفظ فراہم کرنے کے لیے پر تول رہی ہے۔
اس سانحہ کا یہ وہ پہلو ہے جس کا تعلق بھارت کی انتظامیہ، فوج اور بیوروکریسی کی بے حسی سے ہے مگر بحیثیت کشمیری قوم ہمارا بھی ایک انتہائی افسوسناک پہلو ہے اور وہ ہے اس انسانی مسئلے کو مکمل طور پر نظر انداز کرنا۔ ۔ ۔ ۔ تفصیلات کے مطابق کنن پو شہ پورہ کی اس درندگی کی شکار خواتین کے ساتھ ’’نکاح‘‘ جیسا فطری اور شرعی مسئلہ بھی ہمارے خوفناک چہرے کو بے نقاب کر چکا ہے حالانکہ دوسری اقوام میں ان جیسے حساس ایشوز پر ’’ایثار و قربانی ‘‘کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ برعکس اس کے کشمیر جیسے بے حس معاشرے میں یہ معاملہ ’’شرم و عار‘‘ کا باعث بن جاتا ہے۔ جو متاثرین میں پہلے سے موجود درد و الم کو ناقابل برداشت بنا دیتا ہے !!!ہم دعوے تو بہت بلند کرتے ہیں اور نعرے بھی بڑے حسین دیتے ہیں مگر مسئلے کے حل کے برعکس ہم خود ہی اس مسئلے کو زہر ناک بنا کر ہی دم لیتے ہیں۔ یتیموں، بیواؤں، لاپتہ افراد کے اہل خانہ، قیدی اور دامن عصمت و عفت تارتار ہونے کی شکار ’’خواتین کی فوج‘‘ اس قوم کے حصے میں آئی ہے مگر ہم نے بحیثیت قوم اس حوالے سے ابھی تک ایک بھی مثبت قدم نہیں اُٹھایا ہے، سوائے چند ایک انسانی حقوق کارکنان کے جن میں ’’A.P.D.PاورC.C.S‘‘کے نام سامنے ہیں مگر تعاون میں جیسا کہ ہم ہر جگہ بخیل اور بے رحم ثابت ہو ئے ہیں وہی معاملہ یہاں بھی درپیش ہے لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنا محاسبہ آپ کریں اور دیکھیں کہ ہم اپنے بلند بانگ دعوؤں میں کس قدر نکمے ثابت ہو تے ہیں اورتو اور ہم ایک انسانی مسئلے میں بھی بحیثیت قوم کوئی عملی پیش رفت کرنے میں ناکام رہ کر آپ ہی یہ بھی ثابت کردیتے ہیں کہ ہم کسی اعلیٰ اور ارفع نصب العین کے لیے مجتمع ہو کر پا لینے کے لیے ’’خواب ‘‘تو بہت اونچے درجے کا دیکھ سکتے ہیں مگر عملی طور تعبیر میں ہم خود ہی فطری اور قدرتی اصولوں کے ساتھ متصادم ہو کر اپنی منزل اوجھل بھی کردیتے ہیں۔
امریکا کے محکمہ خارجہ نے بھارت کو انسانی حقوق کی خلاف وزریوں کا مرتکب قرار دیتے ہوئے اپنی رپورٹ میں مسلمانوں کے خلاف بدترین انسانی حقوق کی خلاف وزریوں کی نشاندہی بھی کر دی۔ انسانی حقوق سے متعلق امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ میں بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کا ماورائے عدالت ق...
مقبوضہ جموں و کشمیر میں 30ہفتوں بعد تاریخی جامع مسجد سرینگر کونماز جمعہ کے موقع پرنمازیوں کیلئے کھولنے کے موقع پر جذباتی اور روح پرور مناظر دیکھے گئے ۔ جمعہ کو 30ہفتے بعد تاریخی جامع مسجد کے منبر و محراب وعظ و تبلیغ اور خبطہ جمعہ سے گونج اٹھے اور کئی مہینے بعد اس تاریخی عبادت گاہ...
بھارت میں کانگریس پارٹی کے رہنما راہول گاندھی نے 2019میں دفعہ 370 (جس کے تحت جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل تھی) کی منسوخی پر مودی کی فسطائی بھارتی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاہے کہ یہ ایک ایسا اقدام ہے جواس سے پہلے کبھی نہیں کیا گیا اوراب اتر پردیش اور گجرات جیس...
بھارتی ریاست گجرات میں سینکڑوں ہندو انتہا پسند مظاہرین نے سوشل میڈیا پر مقبوضہ جموں و کشمیرسے اظہار یکجہتی کی پاداش میں متعدد ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ملکیت والے اسٹورز کو بند کرادیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پانچ فروری (یوم کشمیر) کے موقع پر پاکستان میں ملٹی نیشنل کمپنیوں ہنڈائی موٹرز...
جینو سائیڈ واچ کے بانی اور ڈائریکٹر گریگوری اسٹینٹن نے خبردار کیا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی ہونے والی ہے۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق گریگوری اسٹینٹن نے امریکی کانگریس کی بریفنگ کے دوران کہا کہ بھارت کی ریاست آسام اور مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی کے ابتدائی علامات اور عمل موج...
امریکا میں قائم صحافیوں کی عالمی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ (سی پی جے) نے بھارت سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی حکومت کے خلاف مظاہرے کی ویڈیو بنانے والے زیر حراست صحافی کو رہا کرنے کا مطالبہ کردیا۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق سی پی جے نے کہا کہ ایک آزاد صحافی اور میڈیا کا طالب عل...
بھارت نہایت پُرکاری سے مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی کو مسلم ممالک کی اخلاقی حمایت سے محروم کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس ضمن میں بھارت نے عرب ممالک کو خاص ہدف بنا رکھا ہے۔ پاکستان کے ابتر سیاسی نظام اور خارجہ محاذ پر مسلسل ناکامیوں نے اب مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے عالم اسللام کے متفقہ م...
مقبوضہ کشمیر میں 6جنوری 1993ء کو بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں سوپور میں نہتے کشمیریوں کے قتل عام کے سانحہ کو29برس کا عرصہ گزرنے کے باوجود اس کی تلخ یادیں لوگوں کے ذہنوں میں آج بھی تازہ ہیں۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق 1993میں اس دن سوپور میں اندھا دھند گولیاں برسا کر 60 سے زائد بے گناہ ک...
بھارت نے اسرائیل کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے جدوجہد کے دوران شہید ہونے والے کشمیریوں کے جسد خاکی لواحقین کے حوالے کرنے کے بجائے خود دور دراز مقامات پر دفنانا شروع کر دیے ہیں،ایک میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی جریدے ہاریٹز کی ایک رپورٹ کے مطابق ا...
بھارتی فوجی کی بیوہ حق خود ارادیت کی جدوجہد کرنے والے کشمیریوں کی حمایت میں میدان میں آگئیں اور کہا کہ وزیروں کی اولادوں کو ایک مرتبہ ضرور سرحد پربھیجیں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق سماجی رابطوں کی ویب سائٹ 'ٹوئٹر' پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں پونچھ سیکٹر میں ہلاک ہونے والے بھارتی ...
بھارت نے اپنے نام نہاد انسداد دہشت گردی کے سرکردہ ماہرین کو مقبوضہ جموں و کشمیر بھیج دیا ہے تاکہ جاری مزاحمتی تحریک سے وابستہ کشمیریوں کو ختم کرنے کیلئے مقامی پولیس کی مدد کی جا سکے۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق ''ہندوستان ٹائمز'' کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ پیش رفت بھارتی وزی...
یورپی پارلیمنٹ کی ریسرچ سروس نے مقبوضہ کشمیرکی تازہ ترین صورتحال پر ایک تحقیقی دستاویز جاری کی ہے ،اس دستاویز میں مقبوضہ کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور وہاں کرفیوکے نفاذ سے ابتک کے تمام واقعات کا خلاصہ پیش کیا گیا ہے ، چیئرمین کشمیرکونسل ای یو نے کہا ہے کہ یورپی پارلیمنٹ کی یہ ...