وجود

... loading ...

وجود

آداب

بدھ 24 فروری 2016 آداب

parliament

کیا ہمارے پاس کوئی اور چارہ کار رہ گیا ہے؟ نئے سامراج کو آداب!اب یہ سوال غیر متعلق ہوتا جارہا ہے کہ پاکستان کس کا ہے؟ یہاں ایک رائیونڈ محل ہے۔جو شریف برادران کی والدہ کے نام ہے۔ محل وقوع اور تعمیر کے اعتبار سے یہ ایک مختلف دنیا ہے۔ جہاں نوازشریف کبھی مودی اور کبھی شرمیلا ٹیگو ر سے ملتے ہیں۔ہزاروں ایکڑ رقبے پر محیط اس گھر میں رہنے والوں کی جائیدادوں کے جو اعدادوشمار دستیاب ہیں ، وہ بجائے خود ایک حیرت کا در کھول دیتے ہیں۔ جائیدادیں ، بیرون ملک رہائشیں، ملکی اور غیر ملکی کرنسی، بینک کھاتے، بڑی زرعی زمینیں،لوہا، اسٹیل، چینی، ٹیکسٹائل ، پیپر، ڈیری اور نہ جانے کیا کیا کچھ ہیں،جن میں معلوم نہیں کہاں کہاں سے سرمایہ کاری کی گئی۔ کیا اعدادوشمار کی ضرورت ہے؟ کون نہیں جانتا کہ اُنہیں جو کچھ مہیا ہیں اُس کے ہندسے حسابی مشینوں میں سماتے نہیں۔ ایک بلاول ہاؤس کا بھی تذکرہ ہوتا ہے۔ مگر یہ ایک نہیں آس پاس کے تقریباً تمام گھر اب زرداری کی ملکیت میں ہیں۔ جس کی ساری اینٹیں گزشتہ پانچ برسوں میں اُن کے دور صدارت میں لگائی گئیں۔جس کا حساب کر نے پر وہ اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی دھمکی دیتے ہیں۔ اسفند یار ولی سے لے کر سیاست دانوں کی پوری اشرافی نسل کے متعلق کچھ اسی طرح کے اعدادوشمار ہیں۔ مگر یہ پوری بات نہیں۔

رفتہ رفتہ پاکستان میں ایک ایسے کاروباری طبقے نے جنم لے لیا ہے جو پوری ملکی معیشت کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے چکے ہیں۔ یہ پاکستان کی قومی معیشت کا غارت گر ٹولہ ہے جو سیاسی خاندانوں کی طاقت کے ساتھ اپنی معاشی طاقت کو مربوط کرکے عملاً ملک چلاتے ہیں۔ اس ناپاک گٹھ جوڑ نے ریاستی طاقت کو کمزور اور اس کے اثرانداز ہونے کی صلاحیت کومحدود سے محدود تر کردیا ہے۔ریاست کی قوت نافذہ عملاً سکڑتی جارہی ہے۔ ادویات کی قیمتوں کی نگرانی کے لئے بھی ریاستی طاقت کا بھرم باقی نہیں رہا ۔ اس حوالے سے بلائے جانے والے اجلاس میں خاتون وزیر ادویہ ساز اداروں کے نمائندگان کا انتظار کرتی رہ گئیں اور اُنہوں نے اجلاس میں آنے تک کی زحمت گوارا نہیں کی۔ پی آئی اے ملازمین کے احتجاج کے ہنگام نجی ائیرلائنز کمپنیوں نے اپنے فضائی کرایوں میں من مانا اضافہ کیا مگر حکومت اُن کا کچھ نہ بگاڑ سکی۔ مسابقتی کمیشن نے اس پر ایک دوبیان ضرور داغے مگر یہ بالکل موثر ثابت نہیں ہو سکے۔ ریاست کی رٹ عملاً کریانے کی دُکان پر بھی کام نہیں کرتی۔ کیا قیمتوں کے کنٹرول کا کوئی نظام کسی بھی سطح پر موثر ہے؟ سبزیوں سے لے کر پھل فروٹ تک ہر جگہ ایک ’’کارٹل ‘‘یا منظم گٹھ جوڑ اپنے اپنے مفادات کی حفاظت کرتا ہے جو ہر قسم کی ریاستی نگرانی کو ناکام بنادیتا ہے۔ اب یہی کارٹل مختلف سیاسی جماعتوں کا حصہ ہوتے ہیں۔ اور جمہوریت کے نام پر جمہور کا استحصال کرنے کا حق حاصل کرلیتے ہیں۔ ابھی اُن بے وقوفوں کو اُن کے حال پر چھوڑیں جو سوشل میڈیا پر جمہوریت کی تقدیس کے پارٹی پروپیگنڈے کا حصہ بنتے ہوئے نہایت رومان پرور فقرے اُچھالتے ہیں۔ یہ بھی ایک نوع کا کارٹل ہے جو عوامی رجحانات کو اُسی استحصالی طبقے کے حق میں مروڑتاہے۔ یہ ایک طرح کا ایسا گیت ہے جو غلام اپنے ہی آقا کی تقدیس میں گاتے ہیں۔ یہ رومانوی باتوں کاوقت نہیں، یہ سوال ہرگز غلط نہیں ہے کہ پاکستان کس کا ہے؟

سرمایہ داریت کی بھوت نگری میں ایسے ایسے جادوئی جنتر منتر ہوتے ہیں کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ ’’نجکاری‘‘ بھی ایک ایسا ہی پرفریب عمل ہے جس کا جادو یہ نہیں کہ اس میں’ ہر چیز برائے فروخت ‘‘ ہوتی ہے۔ بلکہ اس کا اصل جادو یہ ہے کہ اس میں آپ وہ چیز بھی بیچ سکتے ہیں جو آپ نے کبھی خریدی ہی نہ ہو۔ کاروباری طبقہ انتخابات کے ذریعے اصلی جعلی مینڈیٹ پاکر ریاست کے کاروباری اداروں کو بیچنے کا اختیار پالیتے ہیں۔ کیا یہ ایک خواب نہیں کہ آپ کبھی نہ خریدی گئی چیزوں کو بیچ کر اُس سے’’ منافع ‘‘پالیں۔ جمہوریت زندہ باد! نجکاری پائندہ آباد!سرمایہ داریت نے ایسے ایسے ذرائع آمدن پیدا کر لئے ہیں کہ اب اس کی یلغار سے نمٹنے کے لئے ملکوں کی پوری پوری فوج بھی ناکافی رہتی ہے۔ کیا یہ مناسب وقت نہیں کہ اب اس نئے سامراج کوآداب کہا جائے۔

نئے سامراج کے اس چہرے کو دیکھنا ہے تواِسے بھارت کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے سوئس بینکوں کے آئینے میں دیکھا جا سکتا ہے۔ بھارت کی سوا بلین آبادی میں ایک سو کے لگ بھگ آدمی پورے ملک کی چوتھائی جی ڈی پی سے زیادہ امیر ہیں۔ مگر پاکستان میں یہ معاملہ اس سے بھی زیادہ بھیانک ہے۔ بھارت کے ان امراء کی دولت پاکستان کے امراء کے مقابلے میں کہیں کم تر ہے۔ جو سوئس بینکوں کے اعداوشمار سے ظاہر ہے۔ پاکستانی امراء کی سوئس بینکوں میں 31دسمبر 2012 تک رکھی گئی رقوم 15ہزار کروڑ پاکستانی روپے تھی۔ یہ رقم بھارتی امراء کی سوئس بینکوں میں رکھی گئی رقوم سے ڈیڑھ فیصد زیادہ ہے۔ پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ یہی لوگ یہاں کی سیاست ، ریاست ، معیشت، ذرائع ابلاغ اور اداروں کو بھی کنٹرول کرتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ایسے کاروباری حضرات سیاست میں نہ بھی ہوتو حکمرانوں کے ساتھ ایک منافع بخش تال میل بنا کر ریاستی اداروں تک پر حاوی ہو جاتے ہیں۔ چودھری نثار معلوم نہیں کس دنیا میں رہتے ہیں، اُن کی ناک کے نیچے ایف آئی اے ایسے لوگوں کے ہاتھوں روز استعمال ہو رہی ہے۔ یہ مسئلہ اُن کی پریس کانفرنسوں کی لچھے دار گفتگو سے بڑااور اُن کی ناک کے مسئلے سے زیادہ پیچیدہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی ریاست عملی طور پر پالیسیاں بنانے اور اُسے نافذ کرنے والی قوت سے بتدریج محروم ہوتی جارہی ہے۔ ایک نئے سامراج نے نجکاری کے ذریعے پاکستان میں سر اُٹھا لیا ہے، اب اُسے آداب کہنے کا وقت ہے۔


متعلقہ خبریں


رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

مبینہ ملاقات وجود - پیر 19 ستمبر 2022

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...

مبینہ ملاقات

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ وجود - جمعه 16 ستمبر 2022

پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ

رفیق اور فریق کون کہاں؟ وجود - منگل 23 اگست 2022

پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...

رفیق اور فریق کون کہاں؟

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں وجود - پیر 14 فروری 2022

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں

خطابت روح کا آئینہ ہے !
(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)
وجود - پیر 30 ستمبر 2019

کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...

خطابت روح کا آئینہ ہے ! <br>(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)

خاتمہ وجود - جمعرات 29 ستمبر 2016

کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...

خاتمہ

جوتے کا سائز وجود - منگل 13 ستمبر 2016

[caption id="attachment_40669" align="aligncenter" width="640"] رابرٹ والپول[/caption] وزیراعظم نوازشریف کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا انمول تحفہ ملا ہے، جس کی مثال ماضی میں تو کیا ملے گی، مستقبل میں بھی ملنا دشوار ہوگی۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گِرد ایک ایسی دنیا تخلیق کر ل...

جوتے کا سائز

مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر