... loading ...
بعض لوگ جب بھی بولیں احساس شدید تر ہو جاتا ہے کہ خاموشی اس سے کہیں بہتر تھی، شاید بعض صوفیاء اسی لئے خاموشی کو عبادت بھی قرار دیتے آئے ہیں واقعہ مگر کچھ بھی ہو یہ طے ہے کہ الفاظ کی حرمت تب ہی مقدم ہے جب ادا کنندہ کا اپنا عمل ان کے مفاہیم سے تال میل رکھتا ہو ۔وزیر اعظم نے ایک بار پھر الفاظ بے بھاؤ خرچ کر ڈالے ۔ان کے چند ’’مصرعوں‘‘ کے جواب میں پورا ’’مشاعرہ ‘‘شروع ہو چکا ہے ،سیاسی شعراء غزل پر غزل کہے جا رہے ہیں۔ احتساب کا ادارہ موضوعِ گفتگو ہے، مگر افسوس وزیر اعظم کا مقدمہ اپنے جوہر میں درست ہو نے کے باوجود مشکوک ہے ۔نو منتخب بلدیاتی نمائندوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا: نیب والے خواہ مخواہ ’’شریف ‘‘لوگو ں کو تنگ کرتے ہیں۔جب سے یہ ’’عالیشان‘‘خطاب سنا ہے تب سے عمر شریف اور بابرہ شریف کے علاوہ تمام ’’شریفوں‘‘ کے چہرے دائرہ ٔبصارت میں ناچ رہے ہیں۔ بڑے میاں صاحب کے بعد چھوٹے میاں صاحب بھی بولے کہ سیاستدانوں کے احتساب کا معاملہ اللہ اور عوام پر چھوڑ دینا چاہئے، ماشاء اللہ! رانا ثناء اللہ ، پرویز رشید، خواجہ سعد رفیق اور پھر چوھدری نثار سب کے ’’عمدہ‘‘رواں تبصرے جاری ہیں کوچہ سیاست میں چند روز پہلے ’’دُموں‘‘کی تکرار رہی کہ کس کی دُم پر کس کا پاؤں پڑ رہا ہے اور اب پرَوں اور پنجوں کی گردان جاری ہے ۔وزیر اعظم کی نیب پر برہمی کا پس منظر تلاش کرنے والوں کیگَلیوں سے شنید آئی کہ ان کے ایک قریبی دوست بزنس ٹائیکون (جو سیمنٹ کے علاوہ بجلی کے کارخانوں اور بینک کے بھی مالک ہیں )نے ان سے شکایت کی ہے کہ نیب نے انہیں نوٹس دیا ہے ۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم کو چند منصوبوں کی سست روی کی وجوہات پر بریفنگ دیتے ہوئے بھی بتایا گیاکہ افسران فائلوں پر دستخط کرنے سے خائف ہیں، یہ بھی افواہ گرم ہے کہ نیب نے میٹرو اور دیگر ماس ٹرانزٹ منصوبوں پر تحقیقات شروع کر دی ہیں ۔بہرکیف معاملہ جو بھی ہے اب احتساب کا نظام ملک بھر میں اہم ترین موضوع ہے۔
جنرل پرویز مشرف کے قائم کردہ قومی احتساب بیورو سے مجموعی طور پر ملک میں کوئی بھی سیاستدان یا بیوروکریٹ خوش نہیں۔ وزیر اعظم کی ناراضی تو محض تاسّف کا عنوان ہے کیونکہ انہیں نیب پر غصہ ذاتی وجوہات پر آیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ احتساب کا ہمارے یہاں رائج سارا نظام ہی بھاڑ میں جھونکے جانے کے لائق ہے ۔ عجیب منطق ہے کہ ’’چور کو پکڑو اور حصّہ لے کر چھوڑ دو‘‘ اس کیلئے پنجابی میں کہتے ہیں ۔۔۔’’کُتّی چوراں نال ملی ہوئی اے‘‘یعنی کوئی ایک ارب کی کرپشن کرے ، پکڑے جانے پر بھاؤ تاؤ کرے ،پچاس کروڑ لوٹانے پر راضی ہو جائے اور دُھل دُھلا کر عیش کرتا پھرے ، وصول کردہ رقم میں سے 30فیصدحصّہ نیب کا ۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ نیب افسران کی ڈیوٹی ہی یہی ہے کہ پوری فرض شناسی سے قوم کا پیسہ خرد برد کرنے والوں سے اپنا حصہ وصول کریں ۔ کیا اس نظام سے لوٹ مار روکی جا سکتی ہے ؟ قطعی نہیں ۔پاکستان کی صورتحال پر اینٹی کرپشن ماہرین کا یہ قول صادق آتا ہے کہ
Corruption exists because corruption makes sense.
نیب کی اپنی رپورٹ کے مطابق اسکے قیام سے اب تک نیب کو کرپشن کے خلاف کل 2 لاکھ75ہزار 908 درخواستیں موصول ہوئیں جن میں سے صرف 5ہزار 872پر ابتدائی تفتیش شروع کی جا سکی ۔ان میں سے بھی 2ہزار 908معاملات میں تفتیش کو آگے بڑھاکرباقاعدہ تحقیقات کی شکل دی گئی اوراب تک مجموعی طور پر تقریباً15سالوں میں کل 2ہزار159مقدمات عدالتوں کو ریفرنس کی شکل میں بھیجے جا سکے ہیں جبکہ اب تک کل 262ارب روپے کی وصولیابی کی جا سکی ہے ۔ ان اعدادوشمار سے نیب کی کارکردگی کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ نیب کے ایک سابق چیئر مین خود کہہ چکے ہے کہ ملک میں روزانہ 5سے 7ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے ۔ ایک طرف یہ صورتحال ہے دوسری طرف عالم یہ ہے کہ نیب افسران جسے جی چاھے پکڑ سکتے ہیں اور جرم ثابت کرنے سے پہلے ہی ایسا رگڑا دیتے ہیں کہ اسکے فرشتے بھی استغفار کی تسبیح پڑھنا شروع کریں ، ہر زیر الزام شخص کو نوٹس روانہ کرتے ہی مجرم سمجھنا شروع کر دیا جاتا ہے اور کوششیں شروع کردی جاتی ہیں کہ ’’تگڑی وصولی‘’ کی جائے اور پھر تین ماہ وہ جس غیر انسانی سلوک سے دوچار ہو ،کوئی پوچھنے والا نہیں۔با الفاظ دیگر جس ادارے کا کام بنیادی طور پر کرپشن کو روکنا ہے اسکی کارگزاری یہ ہے کہ کرپشن ہو نے دی جائے اور پھر اس میں سے حصہ وصول کیا جائے ۔
تاریخ شاہد ہے کہ جب سے حضرت اِنسان نے اس کرہّ ارض پر بودوباش کی ابتداء کے اصول وضع کرنا شروع کئے تب سے ہی انصاف کو اولّیت اور ترجیح حاصل رہی ہے ۔ عدالتی قوانین کی کتب ایسے لا تعداد اقوال سے پٹی پڑی ہیں جو انصاف کی حسّاسیت کو ظاہر کرتے ہیں انہیں میگزمز (MAXIMS)کہا جاتا ہے ۔ ایک میگزم ہے :
Let justice be done though the heavens may fall
یعنی’’انصاف ترک نہیں کیا جا سکتا خواہ آسمان ہی کیوں نہ گر جائیں‘‘
دیکھ لیجئے اس مقولے کو گورے نے کیسے اپنے پلّے سے باندھا ہے ۔ الطاف حسین کو ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل اور منی لانڈرنگ کیس کی سالہا سال جاری رہنے والی تفتیش اور سینکڑوں گواہوں کے بیانات ریکارڈ کئے جانے کے باوجود بھی کسی مرحلے پر کسی قسم کے غیر انسانی سلوک سے گزرنا نہیں پڑا، دوران تفتیش متعدد مرتبہ براہ راست سوال و جواب کیلئے انہیں طلب کیا گیا ، پاسپورٹ جمع کروالیا گیا ، بغیر اجازت شہر سے باہر جانے سے روک دیا گیا ۔بیٹی کا لیپ ٹاپ بھی جمع کروا لیا گیا مگر بہت سے لوگوں کو یہ حسرت ہی رہی کہ وہ الطاف حسین کو ’’پاکستانی اسٹائل‘‘میں ہتھکڑیاں پہنے ، آنکھوں پر پٹیاں باندھے، ٹھوکے کھاتے اور کسی کھٹارا پولیس موبائل میں اکڑوں بٹھائے جاتے ہوئے دیکھیں مگر ہر بار وہ اپنی ہی گاڑی میں آزادی سے آتے اور جاتے دیکھے گئے ۔ چوھدری نثار کی سب ’’بھاگ دوڑ‘‘ اکارت گئی ۔
انصاف کا تقاضہ ہے کہ جو الزام عائد کرے بارِ ثبوت اسی پر ہے اور جب تک جرم ثابت نہ ہو جائے ،تب تک ملزم بے گناہ اور مساوی طور پر باعزت ہے۔ گورے نے کئی صدیوں پہلے یہ نکتہ سمجھ لیا اور پھر اسے کبھی فراموش نہیں کیا ۔ پچھلی کم از کم دو صدیوں کے دوران برطانیہ کی تاریخ میں ایسا کوئی قابل ذکر واقعہ نہیں جسے قانونی طور پر ’’عدم مساوات‘‘ کی مثال سمجھا جائے ۔ اصول یہی ہے کہ ریاست اور قانون کی نظر میں تمام شہری برابر ہیں اور جرم ثابت نہ ہو نے تک بے گناہ۔ سزا کا مستحق وہی ہے جس نے قانون توڑا ہو اور تب جب یہ بات شبے سے بالاتر ہو جائے ۔
میاں صاحب اپنے ڈھائی سالہ دورِاقتدار میں جتنی بار لندن گئے، اتنی بار تو اس عرصے میں بیوی میکے بھی نہیں جاتی۔ چاہے اپنے والدین کی اکلوتی ہی کیوں نہ ہو ۔ ان 17دوروں میں کاش وہ یہ سبق سیکھ آتے کہ حکومتوں کی بنیادی ذمہ داری ٹرینیں چلانا نہیں ، ریاست کو عدل و انصاف کے اصولوں پر استوار رکھنا ہے ۔ اب وہ نیب پر برہم ہوئے ہیں تو ملک میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے ۔ درست ہے کہ نیب کی کارکردگی کے سانچے میں ایک بنیادی تبدیلی کی ضرورت بہر حال موجود ہے ، رونا تو صرف یہ ہے کہ اس کا خیال وزیر اعظم کو جن وجوہات سے آیا ہے وہ ’’ذاتی‘‘ ہیں ۔یہ بھی معلوم نہیں کہ ارادہ حقیقتاًخرابی کو دور کرنے کا ہے یا محض نیب کو نکیل ڈالنے کا ۔اگرنےّت میں اخلاص ہو تو مرکزی حکومت کو کرنا ویسا ہی چاہئے جو خیبر پختونخواہ کی حکومت نے کیا ہے ، خاطر خواہ ثبوت جمع ہو نے تک گرفتاری کی ممانعت ،ریمانڈ کی مدت میں کمی اور قانون کے مطابق تما م ملزمان کے ساتھ یکساں سلوک۔لیکن حکومت کسی اور سمت چل پڑی ہے ۔اب ایک اور کمیشن بنانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں جو نیب کی نگرانی کرے گا ۔پتہ نہیں اب اس کمیشن کی نگرانی کون کرے گا ۔ شاید آسمان سے فرشتے منگوانے پڑیں۔نیب پر برہم ہونے سے پہلے آڈیٹر جنرل پنجاب کی رواں ہفتے جاری کردہ تازہ رپورٹ پر متوجہ ہونے کی ضرورت ہے جو کہتی ہے کہ پنجاب حکومت کے 30محکموں میں 48ارب روپے کی کرپشن ہوئی ہے ، صرف پنجاب پولیس میں ساڑھے پانچ ارب کی کرپشن کا پتہ چلایا گیا ہے ۔
اپنے دور اقتدار کا ہر پانچواں دن یعنی کل 185 ایام بیرون ملک گزارنے والے وزیر اعظم صاحب پہلے قوم کو 63کروڑروپوں کا حساب دیں اور ان 631’’وی آئی پیز ‘‘ تک نیب کو رسائی دیں جو ان کے ہمراہ ان دوروں میں گھومتی پھری ہیں۔پھر بھلے ہی نیب کو کوسیں یا شرمیلا ٹیگور کو رائے ونڈ بلا کرملتے رہیں ،ہماری بَلا سے ۔ پرائیوٹ جیٹ میں سفر کرنے والے اور سرکاری ہیلی کاپٹرزمیں کھابے منگوانے والے میاں صاحب اگرخود زیر الزام نہ ہوتے تو شاید نیب کے حوالے سے ان کی رائے کو ’’فیس ویلیو‘‘پر لے لیا جاتا۔ مگریادرکھیں’’سوئی چھید کرنے سے پہلے خود چھیدی جاتی ہے‘‘۔
قومی احتساب بیورو (نیب) نے بانی پی ٹی آئی عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف نیا توشہ خانہ ریفرنس دائر کر دیا۔ نیب کے تفتیشی افسر محسن ہارون اور کیس افسر وقار الحسن نے احتساب عدالت اسلام آباد میں ریفرنس دائر کیا، نیب کی جانب سے دائر نیا توشہ خانہ ریفرنس دو والیم پر مشتمل ہے۔ نیب ک...
قومی احتساب بیورو (نیب) لاہور نے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو غیر قانونی لائسنس اور آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں گرفتار کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ نجی ٹی وی کے مطابق نیب ذرائع نے بتایا کہ نیب ہیڈ کوارٹر نے نیب لاہور کو سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کی گرفتاری کے لیے 15 دن کا وقت دے...
قومی احتساب بیورو (نیب) نے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور صوبائی وزیر منظور وسان پر آمدن سے زائد اثاثے بنانے کی انکوائری شواہد نہ ملنے کے باعث بند کر دی۔ آمدن سے زائد اثاثوں سے متعلق کیس میں نیب پراسیکیوٹر نے سندھ ہائیکورٹ میں تحریری جواب جمع کرایا جس میں بتایا کہ منظور وسان کے...
(رانا خالد قمر)گزشتہ ایک ہفتے سے لندن میں جاری سیاسی سرگرمیوں اور نون لیگی کے طویل مشاورتی عمل کے بعد نیا لندن پلان سامنے آگیا ہے۔ لندن پلان پر عمل درآمد کا مکمل دارومدار نواز شریف سے معاملات کو حتمی شکل دینے کے لیے ایک اہم ترین شخصیت کی ایک اور ملاقات ہے۔ اگر مذکورہ اہم شخصیت نو...
پاکستان مسلم لیگ (ن)کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ پاک فوج کا سربراہ محترم ہیں، پاکستانی فوج کا سربراہ ایسا شخص ہونا چاہئے جو ہر قسم کے داغ سے پاک ہو، نقل کے عادی شخص کو فوج کے آئینی دائرے میں رہ کرکام کرنے سے تکلیف ہے، مخلوط حکومت مختصر وقت میں فیصلے نہیں کرسکتی ،موجودہ حالا...
قومی احتساب بیورو( نیب )نے فرح خان کے خلاف تحقیقات میں مختلف محکموں سے فرح کی جائیداد اور بینکوں سے اکاؤنٹس اور ٹرانزیکشن کا ریکارڈ مانگ لیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سابق خاتون اول کی سہیلی فرح خان اور اس کے شوہر کے خلاف آمدنی سے زائد اثاثوں کے معاملے میں نیب نے مختلف محکموں کو فرح...
قومی احتساب بیورو(نیب )کے غیرقانونی ٹھیکوں کے ریفرنس میں سابق وزیرخزانہ حفیظ شیخ بھی ملزم نامزد ہو گئے۔ نیب کے ایگزیکٹو بورڈ نے اجلاس میں 2 ریفرنس دائر کرنے کی منظوری دے دی۔ اجلاس میں 6 انویسٹی گیشن کی بھی منظوری دی گئی۔۔ ریفرنس فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے افسران کے خلاف دائر کرنے کی...
لاہور کی سیشن عدالت نے سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر احمد میمن کی عبوری ضمانت میں 22فروری تک توسیع کردی۔ عدالت نے بشیر میمن کو مقدمہ میں شامل تفتیش ہونے کا حکم دیا ہے۔ جبکہ عدالت نے ایف آئی اے سے آئندہ سماعت پر پیش رفت رپورٹ بھی طلب کر لی ہے۔ پیر کے روز بشیر میمن اپنے وکلاء کے ہمراہ...
نیب، ایف آئی اے، وزارت خزانہ، وزارت کامرس، آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے ایکشن میں آتے ہی نیشنل انشورنس کمپنی لمیٹڈ (این آئی سی ایل) افسران میں کھلبلی مچ گئی۔ اپنی مبینہ غیر قانونی تقرریوں، بھرتیوں، ترقیوں، بد عنوانیوں، خلاف ضابطہ اقدامات جیسے ایشوز پر پردہ ڈالنے اور تحقیقات سے بچاؤ ک...
قومی احتساب بیورو نے اپنے ڈی جی سطح کے متعدد افسران کے تبادلے کردیے۔چیئرمین نیب نے گریڈ 21 کے پانچ افسران کے تقرر وتبادلوں کی منظوری دیدی۔ شہزاد سلیم کو نیب ہیڈکوارٹر بھیج دیا گیا جبکہ ان کی جگہ گریڈ 21 کے جمیل احمد کو ڈی جی نیب لاہور تعینات کر دیا گیا۔ ڈائریکٹر جنرل ٹریننگ مرزا ...
پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ پہلے دن ہی کہا تھا نیب چلے گی تو حکومت نہیں چلے گی، نیا پاکستان بنانا بہت آسان ہے لیکن پاکستان تحریک انصاف نے پرانے کا بھی بیڑا غرق کر دیا،ملک چلا نے کیلئے تیار ہیں لیکن پہلے ان حکمرانوں کی چھٹی کرو، پھر...
اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کو جیل سے ڈیفنس میں واقع گھر منتقل کر دیا گیا۔ محکمہ داخلہ آغا سراج درانی کے گھر کو سب جیل قرار دے چکا ہے۔زرائع کے مطابق آغا سراج درانی گھر کو سب جیل قرار دینے کا فیصلہ وزیر اعلی سندھ کی منظوری سے کیا گیا۔سندھ اسمبلی کے اجلاس کے دوران اسپیکر سندھ...