وجود

... loading ...

وجود

آہنگ بگڑ رہا ہے!

اتوار 21 فروری 2016 آہنگ بگڑ رہا ہے!

خلیفہ چہارم حضرت علی ؓ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ جس کی حکمت نہیں چلتی، اُس کی حکومت بھی نہیں چلتی۔‘‘میاں نواز شریف کی حکومت ، حکمت سے خالی اور اخلاقیات سے عاری ایک خوف ناک انجام کا چہرہ دیکھنے کے قریب پہنچ گئی ہے۔ وہ اپنی طاقت کے تمام ذرائع سے ایک ایک کرکے دور ہوچکی ہے یا کردی گئی ہے۔ پاکستان کے ریاستی اقتدار کا مخمصہ عجیب ہے کہ یہاں وفاداریوں کے خوف ناک تصادم کی ایک ناقابل فراموش تاریخ موجود ہے۔اجتماعی زندگی میں اقتدار کی کسی بھی شکل کی صدیوں پر پھیلی تاریخ ،وفاداری کے بنیادی سوال سے جڑی ہے۔

پاکستان کے موجودہ حالات دیکھتے ہوئے ٹالسٹائی کے شہرہ آفاق ناول ’’جنگ اور امن‘‘ کے نویں باب کے وہ حالات توجہ کا دامن کھینچتے ہیں جو نپولین سے جنگ آزما ایام میں روسی حکمران طبقے کے اعمال نامے پر محیط ہیں۔ ٹالسٹائی واقعات در واقعات مختلف دھڑوں کے اعتقادات، تعصبات اور رجحانات کو بیان کرتے ہوئے وضاحت کرتا ہے کہ یہ کس طرح ایک دوسرے سے انتہائی غیر موافق ہیں۔ صرف تب کی روسی حکومت نہیں، ہرحقیقی حکومت کا حال کم وبیش یہی ہوتا ہے۔ ایک سیدھی سادھی نظر آنے والی شے بھی اپنے حقیقی تجزیئے میں تنازعات کی نفسیات سے لتھری ہوتی ہے۔کسی بھی قیادت یا سرپرست سے وابستہ وفاداری ذاتی مفادات ورجحانات کی میزان پر مستقل جمع وتفریق سے دوچار رہتی ہے۔اسی باعث ریاستی اقتدار طالب ِوفا بن کر صدیوں سے حالت تصادم میں ہے اور رہے گا۔میاں نوازشریف ہی نہیں تمام سیاسی خاندان اپنے اپنے دائروں میں وفاداری کے ہی خواہاں رہتے ہیں۔ایک غیر مشروط اطاعت کی تلاش میں وہ ادنیٰ سے ادنی سطح پر اُتر کر پست سے پست مفاہمتیں کرتے ہیں۔مگر ہر شخص اور خاندان یہ سب کچھ ایک عمر تک کر پاتا ہے۔ پھر تاریخ کا اُصول حرکت میں آتا ہے۔ اور روح عصر تبدیل ہو کر اُنہیں غیر متعلق بنا دیتا ہے۔ شریف اور بھٹو خاندان اپنے کان زمین پر لگا کر اس عرصۂ زوال کی ابتدائی چاپوں کو سُن سکتے ہیں، جو بدلتے وقت کی کروٹوں کو سمجھنے میں ناکام رہے۔ ریاستی اقتدار کی وفاداری کی طالب تاریخ کا ایک سبق یہ ہے کہ دوسروں کی اطاعت کا انحصار دوسروں پر نہیں خود رہنماوؤں پر ہوتا ہے کہ وہ کس طرح وفاداری حاصل کریں اور پھر اُسے برقرار رکھنے کی کوشش کریں۔ ایک زیادہ وسیع اور گہرے تجزیئے کی یہاں گنجائش نہیں ۔ مگر حالات کی ایک سرسری سی تصویر میں اس کے امکانات کو ڈھونڈا جا سکتا ہے۔

نون لیگ کی حکومت بھی اب بدعنوانیوں کی کہانیوں سے داغدار ہوچکی ہے۔ اس معاملے میں سامنے آنے والے حقائق پیپلز پارٹی اور نون لیگ کو انیس بیس کے فرق پر بھی کھڑا نہیں رہنے دیتے

نواز شریف تحریک انصاف کے علاوہ حزب اختلاف میں شامل تمام جماعتوں کے ساتھ جمہوریت کے نام پر جو وسیع اتفاق رکھتے تھے، وہ کھو چکے ہیں۔ تحریک انصاف کے دھرنے میں یہی سیاسی اتحاد پارلیمنٹ میں ایک مزاحمتی قوت بن کر سامنے آیا تھا۔ قرائن سے آشکار ہے کہ اب یہ سیاسی اتفاق پارہ پارہ ہو چکا ہے۔ اس حوالے سے سب سے بڑا اتفاق دراصل پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کا تھا ۔ جسے عمران خان ـ’’مُک مُکا‘‘ قراردیتے آئے ہیں۔ دراصل دونوں بڑی سیاسی جماعتوں (زیادہ مناسب الفاظ میں دونوں خاندانوں) نے عسکری چاندماری کے لئے ایک دوسرے کے خلاف کاندھا فراہم نہ کرنے پر ایک خاموش مفاہمت کررکھی تھی۔ مگردھرنے کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ نے جو رخ ورخسار اور نقش ونگار بنائے، وہ پیپلز پارٹی کے اندر بھی احتساب کا ڈنڈا گھمانے کا موقع بن گئے۔ اس ضمن میں کراچی کے اندر جس طرح قانون نافذ کرنے والے اداروں نے نہایت مہارت سے اپنا ہنر آزمایا ہے، وہ پاکستان کے دیگر شہروں میں بیٹھے لوگ دور سے درست اندازا نہ لگاسکیں گے۔ ذرائع ابلاغ اس میں محض پروپیگنڈے کاایک ذریعہ بن کر رہ گئے ہیں۔ اس پورے کھیل میں پیپلز پارٹی کا حال یہ ہو گیا ہے کہ وہ جمہوریت کی تقدیس کے سارے گیت بھول بھال گئی ہے۔ اور جمہوریت کے دفاع کے لئے سیاسی اتحاد کی رسی کومضبوطی سے تھامے رکھنے کے مفاہمتی اُصول کر ترک کرنے پر تیار ہو چکی ہے۔ پیپلز پارٹی اب اس کے لئے پوری طرح تیار ہے کہ اُن کی قیادت اور بڑے رہنماوؤں کے لئے رعایت ملنے پر نون لیگ کو دھکا لگتا ہے تو کوئی حرج نہیں کہ جمہوریت ایسی کون سی دوشیزہ ہوتی ہے جس پر دست درازی سے اُس کی عزت خطرے میں پڑ جائے؟ دوسری طرف مسلم لیگ نون بھی پاکستان کی موجودہ سیاسی فضا میں اس حال کو پہنچ گئی ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کے رہنماوؤں کے خلاف احتساب کے حرکت میں آنے پر خاموش رہنے کو تیار ہو چکی ہے بشرطیکہ مسلم لیگ نون کے متعلقین کو تحفظ ملنے کی یقین دہانی ہو۔

مسلم لیگ نون کے لئے سنجیدہ نوعیت کے خطرات سر اُٹھا چکے ہیں۔نون لیگ کی حکومت بھی اب بدعنوانیوں کی کہانیوں سے داغدار ہوچکی ہے۔ اس معاملے میں سامنے آنے والے حقائق پیپلز پارٹی اور نون لیگ کو انیس بیس کے فرق پر بھی کھڑا نہیں رہنے دیتے۔ نیب میں ہونے والی ایک سنجیدہ تفتیش میں خود وزیر خزانہ اسحاق ڈار پر سوالات کی گنجائش پیدا ہوچکی ہیں۔ ایف بی آر میں اُن کے معاملات بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کاغذوں پر شہادتوں کے ساتھ مرقوم ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ایسے متعدد معاملات ہیں جن میں پنجاب حکومت اور وفاقی وزراء کے حوالے سے تحقیقات کے لئے مطالبات کہیں نہ کہیں سے آرہے ہیں۔ مسلم لیگ نون کی حکومت کا ترقیاتی نمونہ اور اُس کے رہنماوؤں کی شفافیت کی چھوی بُری طرح متاثر ہو چکی ہے۔ پنجاب حکومت کے بیشتر منصوبے بدعنوانیوں کی داستانوں میں گردن گردن دھنسے ہوئے ہیں۔ اس طرح مسلم لیگ نون کی حکومت کی اخلاقی بنیاد اب پہلے سے کہیں زیادہ کمتر ہو چکی ہے۔ دھرنے کے دنوں میں نون لیگ کی چھوی اتنی بُری طرح مسخ نہیں تھی۔ اس لئے اُسے ایک عوامی ہمدردی بھی میسر تھی۔ اب یہ معاملہ بالکل برعکس ہوتا جارہا ہے۔

نواز حکومت کے لئے سیاسی حالات اب ہر گز موافق نہیں رہے۔ وہ ایک ایسے احتجاج کی تاب لانے کے اب قابل نہیں رہی جو دھرنے کے دنوں میں تحریک انصاف کی طرف سے دیکھنے میں آیا تھا۔ مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے حزب اختلاف کا حصہ ہوتے ہوئے بھی نواز حکومت کی طرف سے اپنائیت والی نگاہوں کو اب غضب ناک ہوتے دیکھا جاسکتا ہے۔ سیاسی حالات کی یہ کروٹ نئے مخالف ماحول میں مسلم لیگ کے حق میں مشکل سے ہی تبدیل ہوسکے گی۔ کیونکہ تمام سیاسی جماعتیں جمہوریت کے مشترک بندھن کو کھو کر اب وفاداریوں کے تصادم کی حالت میں پہنچ چکی ہیں، اور یہ مفادات کے خوف ناک ٹکراؤ کے باعث ہوا ہے۔ یہ تو سامنے کی حقیقتیں ہیں۔ جو حقائق پس پردہ کروٹیں لے رہے ہیں، وہ اس سے کہیں زیادہ سنگین ہیں۔ تو کیا نوازشریف کی حکومت اپنے انجام کاچہرہ دیکھ رہی ہے؟ وزیراعظم کے نیب کے خلاف عوام میں پھٹ پڑنے سے اشارہ یہی مل رہا ہے۔


متعلقہ خبریں


رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

مبینہ ملاقات وجود - پیر 19 ستمبر 2022

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...

مبینہ ملاقات

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ وجود - جمعه 16 ستمبر 2022

پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ

رفیق اور فریق کون کہاں؟ وجود - منگل 23 اگست 2022

پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...

رفیق اور فریق کون کہاں؟

ہم الیکشن کیلئے تیار ہیں اور کب سے تیاری مکمل کر رکھی ہے، نوازشریف وجود - هفته 21 مئی 2022

مسلم لیگ (ن) کے قائد و سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہم الیکشن کیلئے تیار ہیں اور کب سے تیاری مکمل کر رکھی ہے، عمران خان نے پاکستان کی جو بربادی کی ہے، ملکی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی اور شاید آئندہ بھی نہ ملے۔میڈیا سے گفتگو میں نواز شریف نے کہا کہ عمران خان نے پا...

ہم الیکشن کیلئے تیار ہیں اور کب سے تیاری مکمل کر رکھی ہے، نوازشریف

نون لیگ کا نیا لندن پلان سامنے آگیا، حکومت برقرار رکھنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے سامنے شرائط رکھنے کا فیصلہ وجود - پیر 16 مئی 2022

(رانا خالد قمر)گزشتہ ایک ہفتے سے لندن میں جاری سیاسی سرگرمیوں اور نون لیگی کے طویل مشاورتی عمل کے بعد نیا لندن پلان سامنے آگیا ہے۔ لندن پلان پر عمل درآمد کا مکمل دارومدار نواز شریف سے معاملات کو حتمی شکل دینے کے لیے ایک اہم ترین شخصیت کی ایک اور ملاقات ہے۔ اگر مذکورہ اہم شخصیت نو...

نون لیگ کا نیا لندن پلان سامنے آگیا، حکومت برقرار رکھنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے سامنے شرائط  رکھنے کا فیصلہ

مخلوط حکومت جلد فیصلے نہیں کرسکتی، موجودہ حالات میں الیکشن واحد حل ہے، مریم نواز وجود - جمعرات 12 مئی 2022

پاکستان مسلم لیگ (ن)کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ پاک فوج کا سربراہ محترم ہیں، پاکستانی فوج کا سربراہ ایسا شخص ہونا چاہئے جو ہر قسم کے داغ سے پاک ہو، نقل کے عادی شخص کو فوج کے آئینی دائرے میں رہ کرکام کرنے سے تکلیف ہے، مخلوط حکومت مختصر وقت میں فیصلے نہیں کرسکتی ،موجودہ حالا...

مخلوط حکومت جلد فیصلے نہیں کرسکتی، موجودہ حالات میں الیکشن واحد حل ہے، مریم نواز

حلف اٹھانے کے بعد متعدد وفاقی وزراء نے ذمہ داریاں سنبھال لیں وجود - منگل 19 اپریل 2022

حلف اٹھانے کے بعد متعدد وفاقی وزراء نے ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ منگل کو حلف اٹھانے کے بعد اتحادی حکومت میں شامل وزراء نے اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ مسلم لیگ (ن )سے تعلق رکھنے والے مفتاح اسماعیل کو وفاقی وزیرِ خزانہ بنا دیا گیا ہے، مفتاح اسماعیل کو آرٹیکل 91 کی ذیلی شق 9 کے تحت وفا...

حلف اٹھانے کے بعد متعدد وفاقی وزراء نے ذمہ داریاں سنبھال لیں

مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر