... loading ...
بھارت کے راجھستان اور ہمارے سندھ میں بڑوں کے پیر چھونے کا بہت رواج ہے۔یہ بات اگر نشست و برخاست کی کسی مجبوری کی وجہ سے ممکن نہ ہو تو دونوں رجواڑوں (ریاستوں ) میں اس کا زبانی اظہار ضرور کیا جاتا ہے ۔ مارواڑی ہاتھ کے اشارے سے ’’ پائے لاگوں سرکار ‘‘کہتے ہیں۔ سندھی چونکہ ویسے بھی بہت’’ محبتیلے ‘‘اور روّاجی لوگ ہیں ، سو وہ بھی ہاتھ جوڑ کر حال احوال کرتے ہیں تو زبان سے یہ ضرور کہتے ہیں کہ’’ سائیں پیرن تے ہتھ‘‘ (سائیں پیروں کو ہاتھ لگا رہا ہوں)۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو پیر چھونا نہیں چاہتے مگر ان کی اکثریت بھی عربوں کی طرح’’ الواسطہ فوق القانون‘‘ (تعلقات قانون سے بڑھ کر ہوتے ہیں) میں یقین رکھتی ہے۔
برطانوی اسٹیبلشمنٹ کا معاملہ بھی کچھ مختلف نہیں ۔ برطانیہ میں جاسوسی اور سیکس کے مشہور اسکینڈل میں ملوث کرسٹین کیلر اپنی کتاب ’’Secrets and Lies ‘‘میں کہتی ہے کہ کوئی گیارہ کے قریب محبت نامے لارڈ پروفمو نے اُسے’’ منسٹری آف وار کے لیٹر پیڈ ‘‘پر لکھے۔ اُس نے دوران سماعت ان میں سے کچھ بطور ثبوت انکوائری کمیشن کے لارڈ جسٹس ڈیننگ کو دیئے۔ بعد میں تلملا کروہی خط برطانوی پریس کو بھی دے دیئے کہ’’ خبر کرو میرے خرمن کے خوشہ چینوں کو‘‘ ۔ تاکہ معلوم تو ہو کہ وزیر موصوف کی مجھ نمانی (سندھی میں عاجز اور بے کس) میں دلچسپی کا عالم کس معیار کا تھا ۔
یہ سب کے سب لو لیٹرز (محبت نامے) برطانوی اشرافیہ کے درخشاں ستارے اور ممکنہ وزیر اعظم لارڈ پروفمو کو جج صاحب اور پریس دونوں نے اصلی حالت میں لوٹا دیے۔ وزیر محترم کو تو کوئی سزا نہ ملی مگر کچھ دن بعد وہ خود ہی ملامت ضمیر کے بوجھ سے دہرے ہوکر ایک کمیونٹی ہوم کے فرش کی ٹاپی کرتے ہوئے اکثر گایا کرتے تھے
میری توبات کوئی سنتا ہی نہیں اور میرے جیسے ایک عام شہری کی بساط ہی کیا ہے، میر تقی میر نے عرصہ پہلے میرے جیسے بے بساط افراد کے لیے کہہ دیا تھا کہ ع
تعلیم کی زبوں حالی، تمام علاقوں میں صحت عامہ کی بد حالی پر اور سرکاری ترجیحات میں اورنج ٹرین، پنڈی میٹرو بس،ایل این جی جیسے کثیر اور قلیل افادیت کے منصوبے اور پی آئی اے اور اسٹیل ملز کی فروخت پر ٹیلی ویژن کے بڑے بڑے لنگر بازوں Anchorsکی صدائے احتجاج بھی مجھے تو اب مجذوب کی بڑ لگتی ہے۔ اب میرا یہ احساس پختہ ہو چلا ہے کہ یہ اپنی طرف کے اہلیان اقتدار روشن خیالی کی ایسی مطلق العنانی(Enlightened- Absolutism) کی روش اپنا بیٹھے ہیں کہ جو یورپ کے ایک بادشاہ Frederick the Great نے اپنائی تھی وہ کہا کرتا تھا
’’عوام سے میرا ایک باہمی معاہدہ ہوچلا ہے۔اُن کے جو دل میں آئے وہ بکتے رہیں گے اور جو میرے دل میں آئے گا وہ میں کرتا جاؤں گا‘‘
یوں مسلسل نظر انداز ہونے کی مدافعت میں اور کچھ حلقوں کی جانب تقریباً ہر رو ز ہی تنگ کیے جانے کا میں نے اپنے طور پر کچھ نہ کچھ علاج ڈھونڈلیا ہے۔ مثلاً انٹرنیٹ پر مجھے بذریعہ ای میل یا تو نائجیریا کے لوگ ستاتے ہیں جو میرے کسی نہ کسی دوست کا لندن میں بٹوہ چوری کرادیتے ہیں۔حتیٰ کہ یہ کام انہوں نے میرے سرکاری مرشد سیکرٹری زراعت ڈاکٹر ظفر الطاف کا بٹوہ بھی عین اس دن چوری کرکے مجھے ان کے لیے دو ہزار پاؤنڈ ایک خاص اکاؤنٹ میں بھیجنے کی درخواست کی جب وہ اور میں ان کی اسٹڈی میں بیٹھے ایک بڑی میٹنگ کے لیے کاغذات درست کررہے تھے۔میں اپنے ایسے تمام کرم فرماؤں کا اطلاع کردیتا ہوں کہ باہر جاؤ تو دل اور بٹوے سنبھال کر رکھا کرو اور گاہے بہ گاہے اپنے ای میل اکاؤنٹ کا پاس ورڈ بھی بدلتے رہا کرو۔
کبھی کبھار مجھے ایسی ای میل ملتی بھی ہیں جن میں کسی خاتون نے یہ خوش خبری دینے کا بیڑہ سنبھال لیا ہوتا ہے کہ میرے ایک اجنبی کرم فرما نے ورثے میں میرے لیے کئی کروڑ ڈالر یا پاؤنڈ زچھوڑے ہیں۔ مجھے جو تھوڑا بہت باہر کے لوگوں کا تجربہ ہے وہ تو ایسے مہذب اور بے نیاز ہوتے ہیں کہ آپ پر جی بھر کر نگاہ بھی نہیں ڈالتے ،بس کن انکھیوں سے ہی آپ کو ناپ تو ل لیتے ہیں۔ یوں میں ایسی ای میلز پر دو حرف بھیج کر، اﷲ نے جو مجھے عزت سے دیا ہے اس پر شکر ادا کرتا ہوں۔چند ایسی ای میلز بھی ہوتی ہیں جن میں مختلف ادویات سستی خریدنے کی یا تھائی لینڈ میں انگریزی سیکھنے کی ترغیب ہوتی ہے میں انہیں SPAM Folderمیں ڈال کر خلیلؔ دھن تیجوی کا مقطع پڑھ کر مطمئن ہو جاتا ہوں کہ ع
عوامی اجتماعات میں پیر چھونے کا مرحلہ ہمارے اہل سیاست کے ہاں کبھی تصویر کی صورت میں دکھائی نہیں دیا۔ ایسا سوچنا بھی عین الکفر ہوگا کہ ہمارے ممبران اسمبلی یا پارٹی کے اہل کار اپنے بڑوں کے عوام کے سامنے پیر پکڑتے ہوں گے۔ نجی محافلِ خوشنودی میں البتہ یہ عین ممکن ہے کہ یہ زنان دلفریب و مرد ان پرکارشاہان بااختیار کی خوشنودی حاصل کرنے اور مقامات سعیدہ تک پہنچنے کے لیے یقینا بہت کچھ کرگزرتے ہوں گے ۔مگر بندگی اور اخلاص حمیدہ کی ایسی کوئی تصویر سامنے نہیں آئی کہ آپ کو گھن آئے۔
مودی جی کو دیکھئے جب تک ہندوستان کے بڑے کاروباری گروپوں امبانی ،ایڈوانی ،جندل ،برلا ٹاٹا نے ان پر بھاؤ نہیں لگایا وہ بڑے خشوع اور خضوع سے بی جے پی کے گرگ باراں دیدہ لال کشن ایڈوانی کے چرن چھوتے تھے۔چند دنوں بعد ہی ایڈوانی جی کو پتہ لگ گیا کہ مودی جی ان کے پیر اس لیے نہیں تھامتے کہ وہ اُن پاجامے کے پائنچے ناپنا چاہتے ہیں بلکہ وہ بہت آہستہ سے ان کے پیروں تلے سے زمین کھسکا رہے ہوتے ہیں۔ہندوستان میں ہی پرائمری اسکول کی استانی جی ہوتی ہیں مایا وتی۔یہ دلِّت ہیں۔ ہندوستان کے سب سے بڑے صوبے کی چار دفعہ وزیر اعلیٰ بھی رہی ہیں۔ایک زمانہ تھا کہ میاں اور گزارے دونوں کے ہی لالے پڑے رہتے تھے۔ میاں کے بارے میں تو ان کے سیاسی مخالفین یہ کہتے ہیں کہ اس بھاگوان کے نام کا اعلان وہ اپنی وصیت میں کریں گی لیکن دولت کا اعلان ان کے انکم ٹیکس کی ریٹرن سے اور الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے کاغذات نامزدگی سے ہوا۔اس غریب استانی جی نے انکم ٹیکس یہی کوئی 26 کروڑ روپے جمع کرایا تھا ۔ یوں وہ اس برس ہندوستان کی بیس بڑی ٹیکس دہندگان میں شامل ہوگئیں۔ عدالت نے ذرائع آمدنی کا پوچھا تو کہا ارے میں پریم دھن پایو ہے( یہ مجھے پیار کی دولت ملی ہے)۔ بھارت کے وزیر اعظم نرسہماراؤ انہیں جمہوریت کا حسن کہتے تھے۔کماری جی مایا وتی کا اپنا یہ عالم تھا کہ دیدار درشن کے سمے، چیف سیکرٹری اور وزراء چرن اسپرشا (پیروں کو چھونا ) نہ کریں تو دل پر لے لیتی تھیں۔ان کا جواب آں غزل تامل ناڈو کی سابق اداکارہ اور موجودہ وزیر اعلیٰ جے للتا ہیں۔کرپشن کے مقدمات میں ان کا ذکر گنیز بک آف ریکارڈ میں آ چکا ہے۔اُن کے وزیر خرانہ ان کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں، صرف پاؤں چھونے سے کام نہیں چلتا۔
ننگے پاؤں چلنے کے بہت فوائد ہیں ، گرمیوں کے موسم میں نیویارک کے سینٹرل ، لندن کے ہائیڈ پارک اور دیگر بڑے بڑے مالز میں لوگ ننگے پاؤں چل رہے ہوتے ہیں۔یہاں میں پیدل چلتا ہوں تو اسکول کی لڑکیوں کی طرح بدن سمیٹ کر چلنا پڑتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جا بجا لوگوں نے پان اور گٹکا زمین پر تھوکا ہوتا ہے۔بہت دنوں بعد جب کوئی باہر سے پاکستان آیا تو اسے پشاور، حیدرآباد اور کراچی دیکھنے کا اتفاق ہوا ،اُس نے بھیڑ میں لوگوں کو دیکھ کر کہا کہ لوگوں کے چہروں پر بڑی کرختگی ہے ،عوام کی ایک کثیر تعداد یا تو کہیں نہ کہیں کھجارہی ہوتی ہے، یا ناک کان میں انگلی ڈال رہی ہوتی ہے یا تھوک رہی ہوتی ہے۔اسے یہ دیکھ کر بڑی کراہیت ہوئی کہ کراچی آرٹس کونسل کے کسی بدبخت نے ٹھیک اسی بورڈ پر جس پر تھوکنے سے منع کیا تھا حقارتاً پان تھوکا ہوا تھا۔
[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...
ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...
[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...
ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...
بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...
[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...
[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...
پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...
[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...
[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...
معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...
میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...