... loading ...
خیبر میل کے اے سی والے کوپے (COUPE) میں نو تعینات شدہ ڈپٹی کمشنر حسنات احمد بہت چپ چپ تھے۔اندیشہ ہائے دور دراز نے بھی گھیر رکھا تھا۔بڑے ماموں جان نے بھی کچھ خوف زدہ بھی کردیا تھا ۔وہ ریٹائرڈ میجر تھے۔ضد کررہے تھے کہ ساتھ چلیں گے۔اماں جان کی بھی یہی مرضی تھی مگر حسنات میاں نے جب جتلایا کہ ویلم میری ویدر یہاں 1847 میں ڈیڑھ سو سندھیوں کی مدد سے بلوچوں کی اینٹ سے اینٹ بجارہا تھا(Annexation and the Unhappy Valley: by Mathew Cook) تو اسے کون سے ماموں جان یہاں چھوڑنے آئے تھے۔ اس کے ساتھ اسٹیٹ کی اتھارٹی تھی۔مجھے بھی فوج کی مرضی سے تعینات کیا گیا۔طاقت بندوق کی نالی سے جنم لیتی ہے۔ماموں نے تحسین سے اور والدہ نے گلے لگا کر حسنات احمد کو رخصت کیا۔
جنگ شاہی سے آگے انہیں البتہ یہ خیال ضرور آیا کہ ان کا پیشرو جیکب آباد کے بجائے وہ ناہنجار رینکر ڈپٹی کمشنر تھا ۔جو اس God Forsaken (جسے اﷲ نے بھی نظر انداز کردیا ہو ) کراچی کے قریب قریب ٹھٹھہ یا بدین کا ڈپٹی کمشنر ہوتا ۔ بھلے سے وہ ڈی ایم جی والا ہی ہوتا ۔وہ ہی کم بخت دو چار جام لنڈھا کر چِھتّا(سندھی میں آپے سے باہر ہوجانا) ہوجاتا اور یہاں تلور کے شکار پر آئے بوڑھے عرب شیوخ ، شہزادوں اور کم سن طوائفوں کی موجودگی میں بھٹو کو اچھا اور فوج کو بُرا کہتا ، ان سے ملنے والے تحفے تحائف کو بھی توشہ خانے میں جمع نہ کراتا تو کیا ہی اچھا ہوتا۔ وہ چارج سنبھالنے کے بعد اپنا ڈی ایم جی والا ہونے کے ناطے اس کے جرم قبیحہ یعنی عربوں سے ملنے والی یہی کوئی دو چار رولیکس گھڑیاں، کچھ سونے کے زیوارت اور چند قیمتی خنجروں کو سرکاری خزانے میں جمع نہ کرانے والے معاملے کو بھی دبا لیتے ۔
انہیں پھر محلے کی تیس برس کی بے حد دل فریب سوہنیا بی بی یاد آئی۔ وہ دوسری مرتبہ طلاق لے کر واپس آئی تھی اس کا سامان جو در حقیقت ایک میمن سیٹھ کا عطا شدہ فلیٹ اور زیوارت تھے۔ اسے حسنات احمد نے ہی علاقہ ایس ایچ او کی مدد سے واگزار کراکے دیئے تھے۔ وہ ا ُن کی احسان مند تھی۔ محلے میں اسے سب سونو بے بی کہتے تھے ۔حتی کے دھوبی اور دودھ والا بھی۔طارق روڈ کے پیچھے والے محلوں میں اس طرح پکارے جانے پر کوئی بُرا نہیں مانتا تھا ۔لڑکیاں چھوٹم،بلو ،بنتو اور رابی کے نام سے ہی پکاری جاتی تھیں۔
حسنات احمد کے بنگلے کے باہر جو پختون گارڈ چمڑے کے ہولسٹر میں پرانا پستول لگا کر سارا دن نسوار کی ڈبیا کے آئینے میں اپنا حلیہ درست کرتا رہتا تھا۔اس سے کوئی لڑکا چھیڑ چھاڑ کرتا تو وہ مصنوعی غصے سے کہتا تھا کہ’’ تمہارے پیٹ میں پچپن گولی مارے گا تو سب مذاق بھول جائے گا‘‘۔ تب تک ان لڑکوں نے کچن کی چھری سے بڑھ کر کسی اور ہتھیار کو چھوا تک نہ تھا ۔لہذا ان لڑکوں کے نام کے آخر میں ابھی تک چنگاری ، پگلا، مادھوری، کن کٹا، کبوتری ،کایاں(عیار) نہیں لگایا جاتا تھا ۔سب انہیں محلے میں چھوٹو بھائی،ڈیوک، ببّن اور چھٹن پیارے جیسے بے ضرر ناموں سے پکارتے تھے۔ موذن صاحب کا بیٹا اسامہ چونکہ ریاضی میں بے حد ہشیار تھا، اسے البتہ سب ارسطو گجر کہتے تھے ہاں ایک اورلڑکا جو ذرا نیم پاگل سا تھا اور جس پر مار کا کوئی اثر نہ ہوتا تھا اسے سب ڈیڈم کہتے تھے۔تب تلک والدین ان بچوں کو دوسروں کے نام بگاڑنے پر ٹوکتے تھے۔
بڑے ماموں جان نے ہی فکر مند والدہ صاحبہ کو دھیرج بندھائی کہ ڈپٹی کمشنر بہت طاقتور افسر ہوتا ہے۔انگریز تو اسے دو ٹانگوں والی حکومت کہا کرتا تھا۔وہ سنا رہے تھے صدر ایوب خان کو جانے کس پیر نے یہ باور کرایا کہ اگر ایک ہی دن دو خطبے ہوں تو حکمران پر بھاری پڑتے ہیں۔ بلوچستان کے ایک مولوی اس معاملے میں ذرا زیادہ ہی شتابی دکھاتے تھے۔
اُن دنوں مدھوبالا اور ہالی ووڈ کی بے حد خوبرو اداکارہ ایلزبتھ ٹیلر اپنے عاشقان برحق دلیپ کمار اور رچرڈ برٹن کو اتنی جلدی دکھائی نہیں دیتی تھیں جتنی جلدی ہمارے ان پختون مولوی صاحب کو شوال کا چاند نظر آجاتا تھا۔ پشاور کی قاسم مسجد کے مفتی شہاب الدین پوپل زئی والا معاملہ تھا۔معاملہ ڈپٹی کمشنر کے حوالے کیا گیا جو فطور (عربوں کے ہاں افطار )سے ذرا پہلے اپنے ساتھ ایس پی اور مولانا کو لے کر ایک ایسے ٹیلے پر چڑھ گئے جس کے دوسری طرف گہری کھائی تھی۔سرکار کی مرضی تھی کہ مسلمانان مملکت پاکستان پورے تیس روزے رکھیں۔عید ہفتے کی ہو جمعے کی نہ ہو، سرکار کے جے ہو ، خطبے بھاری نہ پڑیں۔مولوی صاحب نے چاند دیکھا تو ڈپٹی کمشنر صاحب نے انہیں ایک نظر گہری کھائی پر ڈالنے کو بھی کہا۔ زیرک آدمی تھے۔بھانپ گئے کہ رویت ہلال کا اگلا قدم کہاں ہوگا؟چاند تو ہرجائی ہے ۔ اس کو اپنی تمناؤں کا مرکز نہ بنائیں،عشق کو عشق سمجھیں مشغلہ دل نہ بنائیں آج کل نہیں تو پھر نکلے گا۔حاکم وقت سے کچھ پرمٹ ، کوئی پلاٹ مل جائے تو یہ بھی عین عبادت ہے۔ ٹیلے سے اُترے تو ڈپٹی کمشنر کے پہلو میں بیٹھ کر یکسر منکرنموئے ہلال ہوئے ۔اسی لیے اس زمانے کے شاعر مرزا محمود سرحدی نے کہا تھا کہ ع
ڈپٹی کمشنر کا آفس انگریز وائسرائے نے1772 ء میں سر جارج کیمپبل کی تجویز پر قائم کیا گیا
ڈپٹی کمشنر کا آفس انگریز وائسرائے نے1772 ء میں سر جارج کیمپبل کی تجویز پر قائم کیا یہ وہی کیمپبل ہیں جن کے نام پر عمران خان اور عطا اﷲ عیسیٰ خیلوی کا ضلع میاں والی ہے اس کا پہلے نام کیمپبل پور تھابالکل ایسے ہی جیسے کوئینز روڈ کو ہم نے ایسا مولوی تمیز الدین خان روڈ بنایا کہ نہ کوئی کوئین رہی نہ ہی اس روڈ پر کوئی تمیز والامولوی دکھائی دیتا ہے۔
1987 کے اواخر میں وزیراعلی ٰغوث علی شاہ نے ان دنوں عوام میں پائے جانے والے ایک عام تاثر کے مطابق مہاجر دشمنی میں ،جماعت اسلامی کا کراچی میں زور توڑنے اور فسادات کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک چوتھا ضلع بنام ڈسٹرکٹ سینٹرل پرانے ضلع غربی کو کاٹ کر بنایا۔ اس کا موجودہ دفتر فیصل سعود صاحب کی سربراہی میں قائم ہوا۔ دو کمرے اور کھلا میدان ، بالکل کربلا کا عالم تھا ۔ہر طرف مہاجر ہی مہاجر اور وہ بھی ودآؤٹ ڈالر،حالانکہ ان دنوں افغان مہاجرین کے لیے ڈالر لکڑی کے بڑے بکسوں میں تقسیم ہوتے تھے۔
ان دنوں اور کافی بعد تک چیف سیکرٹری سمیت کئی بڑے افسر اس بے سرو سامانی کا جائزہ لینے آتے تھے۔طعام المسکین کے بعد جب وہ ضلع کے بے مقام افسران سے مخاطب ہوتے تو تان اس جملے پر ٹوٹتی تھی کہ ’’جب میں ڈپٹی کمشنر تھا‘‘۔کچھ دنوں بعد وہاں ایک اور ڈپٹی کمشنرتعینات ہوگئے۔ یہ بے حد دلچسپ ہستی تھے۔بہت ترس ترس کر ڈپٹی کمشنر بنے تھے ۔لہذا بہت تڑپ تڑپ کر نوکری کرتے تھے۔
انہوں نے ایک دن ایسے ہی دورے کے بعد جب خاکسار سے پوچھا کہ اتنے بڑے عہدوں پر فائز رہنے کے باوجود قدرت اﷲ شہاب ہوں، غلام اسحق ہوں،سلیم عباس جیلانی ہوں یا پھر کنور ادریس پرنالہ ’’جب میں ڈپٹی کمشنر تھا‘‘ والے جملے پر ہی کیوں گرتا ہے تو خاکسار نے جواب دیا کہ’’ سر عورت نانی دادی بن جائے پھر بھی وہ دن کبھی نہیں بھولتی جب وہ دلہن بنی تھی۔انہوں نے جواب میں’’ راسکل‘‘ کہا !
کراچی سے چلتے وقت حسنات احمد نے اسسٹنٹ سب مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بریگیڈئیر صاحب کو اپنی آمد کی اطلاع دی تو موصوف نے انہیں بتایا کہ وہ سکھر میں ایک فوجی کانفرنس میں ہوں گے۔ان کا سرکٹ ہاؤس پر انتظار کریں جیکب آباد ساتھ ہی چلیں گے۔ حسنات احمد کو جیکب آباد کی راج دھانی میں فوجی طمطراق سے داخل ہونے کا مشورہ بہت بھایا۔پرانے ڈپٹی کمشنر صاحب خوف خمیازہ کی وجہ سے ڈی سی ہاؤس جلد ہی خالی کرگئے تھے۔سیدھے وہاں کا رخ کیا۔
ایس پی صاحب ان سے رات میں ملنے آئے تو ایسے کہ برمودہ نیکر اور ٹی شرٹ میں ملبوس وہ بھی کسی وڈیرے کی پرائیوٹ گاڑی میں۔آمد کا مقصد انہیں یہ ا طلاع دینا تھا کہ وہ اگلی صبح دس دن کی رخصت پر کراچی جارہے ہیں۔’’چارج ایک رینکر ڈی ایس پی کے پاس ہوگا اولڈ ہینڈ آپ کو مشکل نہیں ہوگی‘‘۔وڈیرے نے انہیں سگار کا ایک ڈبہ اور پائپ دونوں پیش کیے اس کا اصرار تھا کہ گاڑی میں جو جانی واکر کا کریٹ ہے وہ بھی رکھ لیں۔حسنات احمد نے جب کہا کہ’’ وہ پیتے نہیں ہیں‘‘۔ تو ایس پی نے گرہ لگائی کہ’’ پھر سائیں جیکب آباد کی گرمی کیسے برداشت کروگے؟‘‘ عین اسی لمحے حسنات احمد نے اس گستاخ کو تو راندہ درگاہ بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ ڈی ایس پی بہت تابعدار نکلا تو تیسرے دن چھٹیاں منانے والے ایس پی کو مارشل اتھارٹیز سے مل کر ڈی سی صاحب نے کراچی ایک غیر اہم پوسٹنگ پر تبدیل کرا دیا۔
ایک ہفتے تک حسنات احمد صرف افسروں سے ملے کسی پرائیوٹ فرد سے نہیں، یہ وہاں کے سرکردہ افراد کے لیے بہت انہونی بات تھی۔وہ جان گئے کہ حسنات احمد رواجی افسر نہیں۔(سندھ میں رواجی افسر اسے کہتے ہیں جو قانون سے زیادہ رسم و رواج اور باہمی تعلقات کی روشنی میں دفتر چلائے)گورا یہاں آتا تھا تو بہت عمدہ کتابیں لکھتا اور ریکارڈ تشکیل دیتا تھا۔ انہوں نے سارے پرانے گزٹ نکلوائے، جن میں وہاں آباد اقوام اور ان کے سربراہاں سے نمٹنے کے واقعات اور تجزیے ان کے پیش روؤں نے لکھ رکھے تھے۔ کس سردار کی ملاقات کو کیسے نبھانا ہے کس کو دفتر میں کرسی دینی ہے۔ ان سب معلومات کو انہوں نے تعویذبنا کر گھول کر پی ڈالا ،فیصلہ کیاکہ افسری گورے کے انداز میں کرنی ہے۔ جیکب آباد کونسا سان فرانسسکو ہے کہ اس پابندی روزگار کی وجہ سے اگر ڈپٹی کمشنری چلی جائے تو اس کا رنج ہوگا۔
ان کی آمد سے ایک ماہ پہلے دن دھاڑے دو افراد کو قتل کیا گیا تھا۔ قاتل چھ تھے ۔اُن کے چارج سنبھالنے والے دن ہی ان میں سے تین پکڑے گئے تھے ،حکم تھا کہ ان کی کس کر ٹھکائی کرو۔ یہ ڈی ایس پی صاحب کے ہمراہ تھانے جب اگلی صبح معائنے کے لیے گئے تو اپنے انداز میں انہیں بریک کرنے کے لیے مصنوعی غصے سے افسر کو ڈانٹا کہ ’’تفتیش کا یہ کیا ظالمانہ انداز ہے، کھولو‘‘۔ملزمان نے ان کی نرمی کا فائدہ اٹھانے کی خاطر ناشتے کی فرمائش کی۔ڈی سی صاحب نے پیشکش کی کہ اگر وہ تفتیش میں تعاون کریں تو سختیوں سے بھی گریز ہوگا اور چالان میں بھی نرمی برتی جائے گی۔ملزمان نے جی بھر کے ناشتہ کیا اور ان سے ایک اور چانھے کے کوپ (چائے کا کپ) کا مطالبہ بھی کردیا۔۔چائے دی گئی تو حسنات احمد اپنے حسن سلوک کو جتلا کر کہنے لگے ’’ابھی بتاؤ واردات والا اسلحہ اور باقی مفرور ساتھی کہاں ہیں؟‘‘ان تینوں نے انہیں کمزور مہاجر جانا، تمسخر سے کہنے لگے کہ’’ اسلحہ اور ساتھی تو جانی دور کی بات ہے۔ ناشتہ اور چانھ تو ہم نے آپ کے سامنے کھایا پیا ہے ، ہم کو مارو اور یہ قبول کراؤ کہ ہم نے ناشتہ آپ کے سامنے کیا ہے‘‘۔
حسنات احمد کچھ نہ بولے، ڈی ایس پی کو ایک ملاقات میں بند مٹھی والے لہجے میں بتادیا گیا کہ سارا انتظام اس کا ہوگا۔ ایک ماہ کے اندر اس کو پکا چارج مل جائے گا ۔ جب تک حسنات احمد ہیں کوئی اور اوپر ایس پی لگ کر نہیں آئے گا۔
اس نے اپنے دو چہیتے پولیس افسر بلائے طے یہ ہوا کہ رات والے گارڈ ان ملزمان کو رشوت کے عوض تھانے سے فرار کرائیں گے۔یہ بلوچستان جانے والے منجھو شوری کا راستہ اختیار کریں گے ان کے چند قریبی عزیز اور دیگر ملزمان بھی ساتھ ہوں گے۔ چونکہ اس سڑک پر سندھ پولیس اور فوج کی چوکی ہوتی ہے لہذا اسلحہ ساتھ نہیں ہوگا اور شناخت سے محفوظ رہنے کے لیے یہ ملزمان عورتوں کے کپڑے پہن کر منھ ڈھانپ کر بیٹھے ہوں گے۔ضائفووں( سندھی زبان میں عورتیں) کو فوجی اور پولیس چیک نہیں کرتی۔
دوسری طرف سے مقتولین کے عزیزوں کو بھی کثیر رقم کے عوض اس فرار کی اطلاع دی اور جتایا گیا کہ بدلہ لینے کا اس سے اچھا موقع نہیں ملے گا، قاتل ضائفووں کے روپ میں ہوں گے، پہلے گولی ان کو مارنی ہے وہ چوکی سے کچھ دور بلوچستان کی سرحد کے اندر اسلحہ لے کرگھات لگا کر بیٹھے رہیں اور قریب پہنچنے پر ان سب کو گولیوں سے بھون ڈالیں۔
پلان کامیاب ہوا، سڑک پر مجرمان اور ان کے ساتھیوں کی لاشیں بکھری پڑیں تھیں، کسی کو حکم نہ تھا کہ اٹھائے ، آنے جانے والی ہر بس اور سواری نے شام تک یہ عبرت ناک منظر دیکھا۔ اس کے بعد دوسال تک جیک آباد میں کوئی قتل کی واردات نہ ہوئی ۔تب تک حسنات احمد ہی جیکب آباد کے ڈپٹی کمشنر رہے ۔
قاتلوں کے قبیلے کے سردار نے بھی اس عرصے میں سندھ میں قدم رکھنے سے اجتناب کیا ۔قرب وجوار کی اوطاقوں (پرائیوٹ محافل) میں البتہ یہ شکوہ وہاں کی اشرافیہ نے اکثر کیا کہ یہ مکڑ (سندھ میں اردو بولنے والے مہاجرین کو اس نام سے یاد کرتے تھے) بہت ظالم ہوتے ہیں۔
حسنات احمد کئی برس اعلیٰ عہدوں پر فائز رہنے کے بعد ابھی حال میں ہی امریکامیں اﷲ کو پیارے ہوگئے۔
[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...
ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...
[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...
ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...
بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...
[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...
[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...
پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...
[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...
[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...
معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...
میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...