... loading ...
عقل کے اندھوں نے ہر چیز کو اُلٹا دیکھنے کی عادت پیدا کردی ہے۔ پاکستان میں مسئلہ اداروں کے خسارے میں جانے کا نہیں بلکہ حکومتوں کی طرف سے بدعنوانی شعار کرنے کا ہے۔ اداروں کے خسارے کا سبب بھی خراب طرزِ حکمرانی ہے ۔ مگر اس کی ذمہ داری اُٹھانے کے بجائے حکومتیں اداروں کے مالیاتی خسارے کے پیچھے چھپتی ہیں۔ زیادہ وقت نہیں گزرا، پاکستان میں صدر مملکت کے طور پر آصف علی زرداری کوس لمن المک بجاتے تھے۔ ایک اعلیٰ سطح کی سیاسی اور فوجی قیادت کی ملاقات میں جب اُن سے فوجی قیادت نے کہا کہ اُن کی حکومت کے فلاں فلاں افراد بدعنوانی کے مرتکب ہیں اور قومی اداروں کو بے دردی سے لوٹ رہے ہیں ، تو اُنہیں جواب دیا گیا کہ اُنہوں نے ’’جمہوریت ‘‘ کے لئے بہت قربانیاں دی ہیں اور یہ اُن کا حق ہے۔ جناب زرداری نے لوٹ کھسوٹ کی ایسی مثالیں قائم کیں کہ اُن کے لئے پاکستان کے تمام ادارے بھی کم پڑ گئے تھے۔ اور وہ آغا خان سے ایک ملاقات میں کچھ ایسے اداروں کا مطالبہ کر بیٹھے کہ اُنہوں نے اُن کے دور میں پاکستان کے اندر سالانہ ایک دورے پر بھی آنا چھوڑ دیا۔ اب اس نوعیت کی حکومتیں اداروں کی فروخت کے لئے اُس کے خسارے کو جوازکے طور پر پیش کرتی ہیں۔
ہم بھول جاتے ہیں کہ نیشنل بینک اور پی آئی اے نے جب ترقی اور عروج کے دور دیکھے تب بھی وہ سرکاری ادارے ہی تھے۔حکومتیں اُس وقت کاروبار کے لئے کیسے موزوں تھیں؟ اگر ایک دور میں یہ ادارے ترقی کرتے یہاں تک پہنچے تو اب وہ اس حال میں کیوں ہیں؟ کیا ہم ایک سادہ سی بات بھی سمجھنے کے اہل نہیں کہ اگر پی آئی اے کو حکومت سنبھال نہیں پائی تو سوال پی آئی اے پر نہیں خود حکومتوں کی اہلیت پر اُٹھتا ہے۔ ایک معمولی ادارے کو سنبھال نہ پانے والی حکومتیں کیسے یہ دعویٰ کر سکتی ہیں کہ وہ ملک چلا سکتے ہیں۔ناکام حکومتیں پھر اِن پامال فقروں کے پیچھے خود کو چھپاتی ہیں کہ حکومتوں کا کام کاروبار کرنا نہیں۔ حالانکہ نجکاری پاکستان میں خود ایک کاروبار ہے۔ بدعنوان حکومتوں نے پہلے ان اداروں سے کاروبار کیا اور اب وہ ان اداروں کا کاروبار کر رہی ہیں۔
پاکستان میں نجکاری کا عمل کبھی بھی اپنے فطری ماحول میں نہیں ہوا۔ اداروں کی فروخت کے لئے حکومتیں پہلے کاروباری افراد کے ساتھ خاموش معاملات طے کرتی ہیں۔اور پھر کامیاب قومی اداروں کو منظم طور پر بیماری اور نقصان میں دھکیلا جاتا ہے۔ ان دنوں نیشنل بینک کے ساتھ یہی سلوک ہو رہا ہے۔ برسوں سے نیشنل بینک کو لوٹنے کھسوٹنے کا ایک عمل جاری ہے جس سے بالآخر اِسے نجکاری کے دھندے کے قابل بناد یا جائے گا۔ پی آئی اے کو اِسی طریقہ واردات سے نقصان میں دھکیل کر فائدے کے دھندے یعنی نجکاری کے قابل بنایا جاچکا ہے۔ کیا پی آئی اے کی نجکاری شفاف ہے؟ اعتزاز احسن کے مطابق نہیں۔ یہ ایک ہاتھ سے دے کر دوسرے ہاتھ سے لینے کی کوشش ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس حد تک یہ بات مکمل غلط ہو، مگر کیا اس ملک میں کوئی ایک آدمی بھی ایسا ہے جو یہ دعویٰ کرسکے کہ پاکستان کے اندر جاری نجکاری کا عمل شفاف ہوتا ہے۔سیاسی وفوجی حکومتوں سے قطع نظر کسی بھی حکومت کی نجکاری کا ریکارڈ اچھا نہیں رہا۔ نوازشریف اس سے قبل نجکاری کے عمل میں ایسی ہی غیر شفافیت کے مرتکب ہوتے رہے ہیں۔ ایم سی بی پر ابھی تک اعتراضات ختم ہونے میں نہیں آرہے۔ یہ ایک ایسی نجکاری تھی جس کے منحوس سائے آج بھی پاکستان کے معاشی وجود پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ پی ٹی سی ایل کے ذمے جو رقم واجب الادا ہے وہ تاحال نہیں لی جاسکی اور یہ خوامخواہ نہیں ہوتا۔ حکومتوں کے بدعنوان عناصر ایسی رعایتیں دے کر منفعت بخش سمندروں میں غوطے لگاتے رہتے ہیں۔ حبیب بینک جتنے میں فروخت کیا گیا، اُس پر ابھی تک سوالات ہیں۔ کے اے ایس بی بینک صرف ہزار روپے میں فروخت کیا گیا ۔ یونین بینک کی فروخت کے پورے عمل کو دیکھئے تو ہوش اڑ جاتے ہیں۔ پہلے یونین بینک پر قرضے چڑھائے گئے۔پھر ان قرضوں سے جان چھڑانے کے لئے نجکاری کا ماحول بنایا گیا۔ مگر بینک کو نجکاری کے قابل اور قابل فروخت بنانے کے لئے وزارت خزانہ سے اُس کے پھر قرضے اُتارے گئے۔ نجکاری ،اداروں کے خسارے سے زیادہ خسارہ دینے والا دھندا ہے جسے حکمران انتہائی مہارت سے کرتے ہیں اور ہمیشہ فائدے میں رہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے حامی مختلف کاروباری خاندان ان دونوں ادوار میں اپنے اپنے جال پھینکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے حامی کاروباری خاندان دوسری حکومتوں میں ملک سے باہر چلے جاتے ہیں۔ اور مسلم لیگ نون کے حامی کاروباری خاندان پیپلزپارٹی کے دور میں اپنی شکل نہیں دکھاتے۔ یہ ایک خطرناک روش ہے جو ہر دور میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اب مسلم لیگ نون کے حامی کاروباری خاندانوں کی باری ہے۔
مسلم لیگ نون کا حامی کاروباری خاندان صرف پی آئی اے ہی نہیں دوسرے اداروں کے بھی بیمار ہونے کا چرچا ایک بڑے ابلاغی ادارے سے کروا رہا ہے۔ جو ایسے تمام جرائم میں ایک شراکت دار کا کردار ادا کرتا ہے۔ مسئلہ صرف پی آئی اے کا نہیں ، مسلم لیگ نون کی حکومت مزید کچھ اداروں کی بھی نجکاری کی حکمت عملی طے کرکے بیٹھی ہے۔ ملک کے تمام ادارے ایک ایک کرکے فروخت کئے جارہے ہیں۔ یہاں تک کہ اب حکومتیں صحت اور تعلیم کے اداروں کو بھی فروخت کرنے پر تُل گئی ہیں،تو پھر ملک میں حکومت نام کی چڑیا کیا کرے گی؟یہ تو معمولی نگرانی کا فریضہ بھی ادا کرنے کی اہل نہیں رہی۔ جس کا مظاہرہ اِسی پی آئی اے میں ہڑتال کے دوران میں ہوا۔پی آئی اے کی پروازوں کے معطل ہوتے ہی نجی ائیرلائنز نے اپنے کرایوں میں ہوشربا اضافہ کردیا۔ سات ہزار کا ٹکٹ اڑتیس ہزار میں فروخت ہونے لگا۔ حکومت نے ابتدا میں اس کی پروا ہی نہیں کی، جب کچھ شور ہوا تو مسابقتی کمیشن نے اونگھتے کو ٹھیلتا کے بمصداق ایک بیان دیا۔ اور پھر چپ سادھ لی۔ اخباری بیانات سے قطع نظر مسافروں کا استحصال جاری رہا۔ اگر حکومتیں نگرانی کی بھی اہل نہیں، تو پھر سوال یہ اُٹھے گا کہ آخر یہ کس مرض کی دوا ہے۔ اور انہیں پالنے کی ضرورت کیوں ہے؟ کراچی میں بجلی کے نرخ سے لے کر دانستہ غلط بلنگ تک کسی ایک مسئلے پر بھی حکومت شہریوں کی مدد کو نہیں آئی۔ نجی ادارے میں موجود بجلی کے ادارے غلط نرخ ناموں کے زبردستی اطلاق کے باوجود بل بڑھا کر دیتے ہیں۔ مگر اُن کا ہاتھ کہیں پر بھی نہیں روکا جارہا ۔یہاں تک کہ شہری عدالتوں سے بھی مایوس ہوچکے۔
نجکاری کا یہ کیسا منجن ہے، جس میں پہلے ملکی اداروں کوبیمار کیا جاتا ہے، پھر اُن کا دھندا کیا جاتا ہے، پھر شہریوں کو نجی اداروں کی دستبرد میں دے دیا جاتا ہے۔ کیا ہم کسی ریاست کے اندر ایک شہری کے طور پر جیتے ہیں یا پھر کسی کارپوریشن کے اندر ایک صارف کے طور پر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ نجکاری سے پہلے اور بعد سب کچھ ایک دھوکا ہے، مسلسل دھوکا۔
وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ10 سے 12 بڑے سرکاری کاروباری اداروں کو نجکاری کی طرف لے کر جارہے ہیں۔ میڈیا کو بریفنگ کے دور ان نجکاری سے متعلق سوال پر وزیر خزانہ نے کہا کہ 10 سے لے کر 12 بڑے سرکاری کاروباری ادارے ہیں جس میں 2 گیس اور 8 بجلی کی ڈسٹری بیوشن کمپنیاں ہیں ...
نواشریف کی حکومت جمہوریت کی بالادستی اور پارلیمنٹ کی برتری کی تسبیح تو ہر وقت پڑھتی رہتی ہے مگر عملاً وہ اپنے آمرانہ اور یکطرفہ اقدامات سے کسی بھی طرح دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہوتی۔ اس کی تازہ ترین مثال حکومت کی طرف سے ایک نئی ائیر لائن کے قیام پر کام کرنے سے سامنے آئی ہے۔ حکوم...
پی آئی اے فروخت کرنے کی تمام تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں۔ باخبر ذرائع کے مطابق ایس ای سی پی (سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان) میں ایک نئی کمپنی اس سلسلے میں رجسٹرڈ کر ائی گئی ہے۔ پاکستان ائیر ویز لمیٹڈ نامی کمپنی ایس ای سی پی میں 19 فروری کو رجسٹرڈ کی گئی ہے۔ وجود ڈاٹ کام ک...
پی آئی اے کی ہڑتال ختم ہونے اور طیاروں کے فضا میں بلند ہوتے ہی انتظامیہ کا مزاج بھی ہوا میں اڑنے لگا ہے جس پر پی آئی اے کے اندر شدید تشویش کی ایک لہر دوڑ گئی ہے۔ وفاقی حکومت نے کئی روزہ احتجاج اور ہڑتال میں حصہ لینے والے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کے ملازمین کے خ...
پی آئی اے ملازمین کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے گزشتہ آٹھ روز سے جاری احتجاج کو اچانک ختم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے سربراہ سہیل بلوچ نے 9 فروری بروز منگل ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے اعلان کیا کہ پی آئی اے کے ملازمین ملک بھر میں نہ صرف فضائی آپریشن بحال کردیں بلکہ اس...
نجکاری سرمایہ داری نظام کا وہ منحوس گرداب ہے جس میں وہ پوری ریاست کو اپنا لقمۂ تر بناتی ہے۔ اس کے لئے عجیب عجیب بیانیے تخلیق کئے گئے ہیں۔ حکومتوں کا کام تجارت کرنا نہیں ہوتا۔ اس سے بڑا فریب خوردہ فقرہ نجکاری کے جواز میں کہا ہی نہیں جاسکتا۔ مگر یہ عامیانہ طرز فکر وہی لوگ اختیار ک...
پی آئی اے کے ملاز مین کی ہڑتال کے چھٹے روز بندش سے دوچار فضائی سروس جزوی طور پر بحال ہونا شروع ہوگئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق اسلام آباد کے بینظیر انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر چار پروازوں کو ڈیل کیا گیا۔ اتوار کی علی الصبح قومی ایئر لائن کے 2 بوئنگ 777 طیارے جدہ روانہ ہوئے جو وہاں موجود سات...
پی آئی اے ملازمین کے قتل کی تحقیقات میں رینجرز کی جانب سے جس شخص کو پراسرار قرار دے کر شک ظاہر کیا گیا تھا ، وہ شک مکمل غلط نکلا۔ 2 فروری کو پی آئی اے ملازمین پر فائرنگ کے معاملے میں رینجرز کی جانب سے مشکوک قرار دیا شخص منظر عام پر آگیا ہے۔ چیئرمین جوائنٹ ایکشن کمیٹی سہیل بلوچ نے...
پی آئی اے ملازمین اور حکومت کے درمیان مذاکرات تاحال بے نتیجہ ہیں ۔ حکومت مذکرات کو نتیجہ خیز بنانے سے پہلے بلامشروط پی آئی اے کا فلائٹ آپریشن بحال کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ جبکہ پاکستان انٹر نیشنل ائیرلائن کے ملازمین کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی بضد ہے کہ جب تک اُن کے مطالبات پر کوئی ن...
اچھے بُرے کا بظاہر تاثر کی سطح پر ہونا اُس کی اصل حقیقت کا اعلان نہیں کرتا۔ایک زیادہ گہرے تجزیئے میں اچھی نظر آنے والی بعض بظاہر چیزیں زیادہ بُری بھی ثابت ہوتی ہیں ۔ نجکاری کا معاملہ اپنے بعض پہلووؤں میں کچھ اسی حقیقت کا عکاس ہے۔ نجکاری کے موقف کی حمایت بہت وسیع ہے۔ مگر اس م...
ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل بلال اکبر نے برگیڈئیر رینک کے افسر کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی ٹیم بنانے کا اعلان کیا ہے جو کراچی میں پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) ملازمین کے احتجاج میں فائرنگ کے باعث دو افراد کی ہلاکت کی تحقیقات کرے گی اور فائرنگ کے ذمہ داروں کا تعین کرے گی...