... loading ...
نجکاری سرمایہ داری نظام کا وہ منحوس گرداب ہے جس میں وہ پوری ریاست کو اپنا لقمۂ تر بناتی ہے۔ اس کے لئے عجیب عجیب بیانیے تخلیق کئے گئے ہیں۔ حکومتوں کا کام تجارت کرنا نہیں ہوتا۔ اس سے بڑا فریب خوردہ فقرہ نجکاری کے جواز میں کہا ہی نہیں جاسکتا۔ مگر یہ عامیانہ طرز فکر وہی لوگ اختیار کر سکتے ہیں جو جدید ریاستوں میں قومی خود مختاری کے بتدریج تحلیل کئے جانے کے پورے عمل کا مشاہدہ کرنے سے محروم ہیں۔ اور جنہیں چھوٹے چھوٹے سرمایہ داروں نے معمولی معمولی فوائد دے کر اپنا گرویدہ کر رکھا ہے۔ ایسے کالم نگاروں اور تجزیہ کاروں پر عوام کو خود ہی نگاہ رکھنی چاہیے۔
دراصل عالمی طاقتوں نے ریاستی قوت کو تحلیل کرنے کے لئے ’’نجکاری‘‘ کا جادو ایجاد کیا ہے۔ بدقسمتی سے اقداری تہذیب کی حامل ریاستوں کے اندر لبرل ازم اور سیکولرازم کے ذریعے ایک ایسی’’ لامرکزیت‘‘ کو جنم دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی طوفان کے آگے بند باندھنے کے قابل ہی نہیں رہ گئیں۔ یہ لامرکزیت اجتماعی اخلاقیات کوتباہ اور سیاست کواباحیت زدہ کرنے میں ہی موثر نہیں بلکہ یہ معیشت کے میدان میں نجکاری کے لئے بھی موزوں ہے۔ ایسا ہو نہیں سکتا کہ ریاست میں سیکولرازم اور لبرل ازم کا چرچا ہو اور اُس کی معیشت قومی نگرانی میں اور ادارے ریاستی گرفت میں ہو۔ یہ عمل معیشت کو سرمایہ داروں کے چنگل میں دینے اور ریاستی اقتدار کو کم سے کم کرنے کے میں معاون ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے اس لبرل ازم کا وار کہاں کہاں موثر رہتا ہے اس کا ابھی تک درست اندازا تک نہیں لگایا جاسکا۔
یہ پورا تناظرمگر کہیں کوئی وقعت ہی نہیں رکھتا۔ کیونکہ ملک میں نواشریف کی حکومت ہے۔ جن کے حامی تجزیہ کاروں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ نوازشریف کے مدار میں حرکت کرتے ہیں۔ اگر نوازشریف حزب اختلاف میں پی آئی اے کی نجکاری کی مخالفت کرتے ہوں تویہ بھی کورس کی شکل میں اس کی مخالفت کے گیت الاپیں گے۔ اگر نواز شریف حکومت میں آکر اسی نجکاری کی حمایت کردیں تو یہ سب اپنا قبلہ وکعبہ بدلنے میں اتنی دیر بھی نہیں لگائیں گے جتنی خود اُن کے آقا نے لگائی ہے۔ اب دسترخوانی قبیلے کا یہ پورا لنگر اور انگڑ کھنگڑنجکاری کا حامی ہے۔ اور اُن کے پاس عجیب وغریب دلائل بھی ہیں۔ سب سے بڑی اور پہلی دلیل خسارے کی ہے۔ پی آئی اے قومی خزانے سے سالانہ تیس ارب روپے پی جاتی ہے۔ یہ ایک درست بات ہے مگر یہ سارا مقدمہ اس نکتے پر کھڑا ہے کہ سیاسی بھرتیوں نے ادارے پر بوجھ بڑھا دیا ہے۔ مگر پی آئی اے کے اندرونی معاملات سے آگاہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ تیس ارب روپے سالانہ خسارے کے بوجھ میں ملازمین کی تنخواہوں کا بوجھ کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتا۔ پی آئی اے کے پاس 38طیارے اور 14771 ملازمین ہیں۔ اس طرح پی آئی اے کے پاس فی طیارہ ملازمین کی تعداد389 بنتی ہے۔ سری لنکن ائیر لائنز میں یہی تعداد فی طیارہ 313 ملازمین کی بنتی ہے۔ قومی جھنڈے رکھنے والی ائیرلائنز کا ماجرا یہی ہوتا ہے۔ مگر یہ خسارے کی اصل وجہ نہیں ہوتا۔
نواشریف کی پہلی وزارت عظمیٰ (6نومبر 1990 ء تا 18اپریل 1993 ء) کے عرصے میں پی آئی اے کے ایم ڈی کے طور پر ائیروائس مارشل فاروق عمر کی تقرری ہوئی۔ ایک مرتبہ وہ جس جہاز سے سفر کررہے تھے، وہ وقت پر پرواز نہیں لے سکی۔ اُنہیں شدید غصہ آیا۔ جب وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ ایک ائیر ہوسٹس کا انتظار ہو رہا ہے۔ اُنہوں نے ائیر ہوسٹس کی معطلی کا حکم دیا اور نئے عملے سے پرواز کا حکم دیا۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ وہ ائیر ہوسٹس کوئی معمولی شے نہیں تھی۔ ایم ڈی پی آئی اے کو حکم ملا کہ وہ معطلی کا حکم واپس لیں اور ائیر ہوسٹس سے معافی مانگیں۔ یہ کسے معلوم نہیں کہ اکثر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کی ’’گرل فرینڈز‘‘ پی آئی اے کو سنبھالنی پڑتی ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ خود حکومتیں اپنے لاڑکانہ، لیاری اور ماڈل ٹاؤن کو پی آئی اے میں کھپاتے ہیں۔ پھر پی آئی اے کی پرواز میں کوتاہی کو دیگر کھاتوں میں ڈالتے ہیں۔ نظم کی خرابی کو نظم کی بہتری سے دور کرتے ہیں، ملکیت کی تبدیلی سے نہیں۔ پی آئی اے کے خسارے کی وجوہات ملازمین کی تعداد میں نہیں، نظم کی خرابی اور بڑے پیمانے کی خورد بُرد میں پوشیدہ ہیں۔ نواز حکومت نے اس حوالے سے کوئی مناسب موقف تشکیل ہی نہیں دیا۔ اس کے برعکس نوازشریف کی ٹیم کے افراد زبردست اور انوکھے دلائل سے ہماری تفریح طبع کا سامان کرتے رہتے ہیں۔ ماشاء اللہ اتنی زبردست دلیل محمد زبیر ہی دے سکتے ہیں کہ پی آئی اے کے زوال کی وجوہات میں سے ایک وجہ زائد ملازمین کا ادارے پر بوجھ ہے۔ مگر ہم نے نجکاری کی شرائط میں یہ بات بھی رکھی ہے کہ کسی ملازم کو بیروزگار نہیں کیا جائے گا۔ ماشاء اللہ یعنی ادارے کو اس حال تک پہنچانے والے ملازمین کا نجکاری کرتے ہوئے بھی تحفظ کیا جائے گا۔ اسی لئے تو لوگ کہہ رہے ہیں کہ ان کی نجکاری بھی ہضم ہو جاتی ہے مگر ان کاجھوٹ ہضم نہیں ہوتا۔
نوازشریف حکومت کا یہ مسئلہ ہے کہ ان کے تمام ادوارِ حکومت میں نیلامئے، ٹھیکیدار اور صنعتی اشرافیہ کے کچھ بہت ہی بڑے لوگ دراصل ریاست کا پورا بیانیہ طے کرنے لگتے ہیں۔ اور وہ اِسے اپنے بھاری مینڈیٹ کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ اُن کے نزدیک دراصل ایک انتخابی جعل سازی سے حاصل کئے گئے اختیارات کو دراصل ریاست کا قبلہ وکعبہ تک بدلنے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ نوازحکومت کی حالیہ نجکاری کی مہم دراصل زیادہ بڑے کھیل کی عکاسی کرتی ہے۔ وہ ریاست کی پوری طاقت کو تقسیم کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ اور اس کے پیچھے اُن کی پُرانی نفسیات کام کررہی ہے۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے یہ نجکاری کا عمل پاکستان کی قومی طاقت کو کہاں کہاں سے ضرب لگائے گا؟ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ یہاں نجکاری کے عمل کی تائید کے لئے دراصل اداروں کی بدعنوانی کو ایک مثال بنایا جاتا ہے۔ مگر اس کے پیچھے ایک منظم کھیل برسوں سے کھیلا جاتا ہے۔ اس پورے نمونۂ عمل پر دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ اس بحث کو آگے کے لئے اُٹھا رکھتے ہیں، یہاں تو بس ایک نکتہ ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہے کہ نجکاری دراصل عالمی قوتوں کی طرف سے قومی طاقت کو تحلیل کرنے کا ایک جادو ہے۔ جو آج کل سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ یوں بھی پیسے کے جادو سے یا جادو کے پیسے سے جو کچھ بھی کیا جائے گا، وہ کبھی بھی اپنی اساس میں درست ثابت نہیں ہوگا۔
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...
کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...
کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...
[caption id="attachment_40669" align="aligncenter" width="640"] رابرٹ والپول[/caption] وزیراعظم نوازشریف کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا انمول تحفہ ملا ہے، جس کی مثال ماضی میں تو کیا ملے گی، مستقبل میں بھی ملنا دشوار ہوگی۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گِرد ایک ایسی دنیا تخلیق کر ل...