... loading ...
’’زبان بگڑی سو بگڑی تھی‘‘…… کے عنوان سے جناب شفق ہاشمی نے اسلام آباد کے اُفق سے عنایت نامہ بھیجا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:’’دیرپائیں کے رفیق عزیز کا چار سالہ بچہ اپنے والد سے ملنے دفتر آیا تو لوگوں سے مل کر اسے حیرت ہوئی کہ یہ لوگ آخر بولتے کیوں نہیں ہیں۔ ایک حد تک وہ یقینا درست تھا کہ یہاں پشتو بولنے والا اسے کوئی نہ ملا۔ وہ بچہ اپنا نام ’’خان بابو‘‘ بتاتا تھا، جس پر ہمارے دل میں آیا کہ ہم اپنے مقتدر استادِ فن کو ’’علی خان بابو‘‘ کہیں۔ یہ تو خیر ابتدائیہ معترضہ تھا۔ اب آتے ہیں فکاہیاتِ جسار ت کی جانب۔ حالیہ اشاعت میں لفظ ’’استیصال‘‘ کے دلیرانہ استعمال نے جو صفحہ اول کی شہ سرخی کے طور پر نمایاں تھا، ماضیٔ قریب کی کچھ تلخ یادیں تازہ کردیں۔ اگر ایک ہیچمدان کی گزارش کو درخورِ اعتناء نہ سمجھا تو شکایت کیسی! مگر مشکل یہ ہے کہ جسارت کسی فرد کا نام نہیں، یہ اک تحریک ہے، تو سوچا کہ تحریری طور پر بات واضح کردی جائے، آگے جو مزاجِ یار میں آئے……!
عربی مصدر استفعال کی معنویت بھی خوب ہے۔ اس وزن پر جو مصدر ہوگا اس کے مفہوم میں ’’طلبِ فعل‘‘ یا کسی مخصوص کام کا مطالبہ لازمی عنصر ہے۔ اس پس منظر میں ’’استیصال‘‘ اور ’’استحصال‘‘ کا جائزہ لیجیے۔ استیصال کا Root Word ] حرفِ اصلی[ ہے’’اصل‘‘ بمعنی جڑ، تو بطور باب استفعال اس کے معنی ہوں گے: بیخ کنی، یا جڑسے اکھاڑ دینا، جس کا انگلش مترادف ہے to uproot، جبکہ ’’استحصال‘‘ کا مادہ ’’حصل‘‘ یا ’’حصول‘‘ ہے جس کا مفہوم ہوگا: کسی سے وہ کچھ حاصل کرنے کی کوشش کرنا جس کا وہ متحمل نہ ہوسکے۔ انگریزی میں اسے Exploitationکہتے ہیں۔ اس توضیح کی روشنی میں جسارت میں استعمال کیے گئے ’’استیصال ‘‘ کو پڑھیے اور سردھنیے! اسی باب سے لفظ استعمار ہے جس کا مفہوم ہے: نوآبادیاتی طاقتوں کا دوسروں کی سرزمین پر اپنی تعمیرات کا جال بچھانا۔
اصلاحِ زبان و بیان کے حوالے سے ایک مروج غلطی کا ازالہ بھی ضروری ہے جو نہ جانے کب سے اور کیوں مگر بڑے بڑے مستند زبان دان کرتے چلے آرہے ہیں اور جسار ت کے حالیہ شمارے میں ہمارے معروف کالم نگار اور شاعر دوست بھی جس کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اسٹریٹیجک کو عربی اخبار و جرائد الاستراتیجیہ لکھتے ہیں۔ جبکہ ہمارے ثقہ لکھنے والے حکمت عملی کی جامع اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ نہ جانے ’’تزویری‘‘ اور ’’تزویراتی‘‘ کی اصطلاح کس نے اورکب ایجاد کی؟ لفظ تزویراتی عربی الاصل ہے، جس کا مادہ ہے ’’زور‘‘ یعنی فریب، جھوٹ، اور ہمارا عام قاری بھی اس سے آشنا ہے۔ اس کا باب تفعیل ’’تزویر‘‘ ہے، جس کے معنی ہیں falsification یعنی دھوکا دہی وغیرہ۔ کھینچ تان کر اس پر اسٹریٹجی کا مفہوم پہنایا تو جاسکتا ہے مگر حکمت عملی کی اس سے بڑھ کر بے توقیری اور کیا ہوگی؟
اب سرسری طور پر چند کلمات ’’تذکیر وتانیث‘‘ کے حوالے سے ہوجائیں۔ اُم اللغات عربی میں لفظی، معنوی، قیاسی اور استثنائی پہلوؤں سے تذکیروتانیث کے جامع اصول وضوابط ہیں جو اردو میں نہیں۔ عربی الفاظ کو اردو میں استعمال کرتے ہوئے اس کے لیے غلط العام کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ شمس یعنی سورج عربی میں مونث ہے اور قمر مذکر، کہ شمس قمر کو ضیاء بخشتا ہے جس طرح ماں بچے کو دودھ، مگر اردو میں ہم شمس کو مذکر ہی استعمال کریں گے۔ اسی طرح لفظ ’’شعاع‘‘ کو اگر مذکر لکھ دیا جائے تو قطعاً غلط نہیں، جبکہ غلط العام مونث ہی ہے۔ لفظ ’’معراج‘‘ کا مونث ہونا بھی قطعاً ’’مسلّم‘‘ نہیں اور ’’اف‘‘ کی طرح یہ بھی مختلف فیہ ہے۔ ’’گورنر‘‘ کے لیے بہت سی اصطلاحوں میں میرے نزدیک ’’امیرِ صوبہ‘‘ زیادہ مناسب ہے، جبکہ چیف منسٹر کو ’’حاکمِ صوبہ‘‘ کہنا درست ہوگا۔ ایک عام غلطی جو جسارت میں نظر سے گزری اور جس کی درستی ضروری ہے وہ ہے ’’اقدام اٹھانا‘‘۔ آخر صرف اقدام میں کیا قباحت ہے؟ کیا حکومت نے اقدام کیا/ اقدامات کیئے (کیے) درست نہیں؟ جو بیچاری قدم اٹھانے میں دشواری محسوس کرتی ہے اُسے اقدام اٹھانے کو کہا جارہا ہے، ہے نا زیادتی!‘‘
اقدام اٹھانا کی بدعت زیادہ پرانی نہیں ہے۔ ہم جب کوچۂ صحافت میں آئے تھے تو ’اقدام کیا‘ اور ’اقدامات کیے‘ ہی لکھا جاتا تھا۔ کئی الفاظ ایسے ہیں جو بظاہر جمع ہیں لیکن واحد بھی استعمال ہوتے ہیں مثلاً ’’احوال‘‘۔ یہ حال کی جمع ہے لیکن بطور واحد بھی استعمال ہوتا ہے۔ مرزا غالب کا شعر ہے:
ماہنامہ ’قومی زبان‘ جنوری 2016ء کے اداریے میں پروفیسر سحر انصاری کا جملہ ہے ’’اس کا احوال قومی زبان میں ماہ بہ ماہ شایع ہوتا رہا ہے۔‘‘
’داروگیر‘ پر پکڑ دھکڑ جاری ہے۔ بیرون ملک سے مختلف ای میلز موصول ہوئی ہیں جو بے ترتیب ہیں اور یہ طے کرنا مشکل ہے کہ پہلے کس نے کیا کہا۔ جناب عبدالمتین منیری نے دبئی سے بھیجے گئے اپنے رسالے (مراسلے) میں لکھا ہے کہ پاکستان میں ہر ایک اپنے انداز میں اردو بولتا ہے۔ یقینا ایسا ہی ہے لیکن خوشی اس بات کی ہے کہ اردو بولی جارہی ہے۔ ماہرین میں اردو کے آبائی وطن کے بارے میں اختلاف ہے۔ محمود خان شیرانی نے اپنی کتاب ’’پنجاب میں اردو‘‘ میں دعویٰ کیا ہے کہ اردو پنجاب میں پیدا ہوئی۔
ہمیں تو یہ ’’الم‘‘ نہیں کہ سرخیل سے ہاشمی صاحب کے ہاں کیا معنی ہے۔ ناچیز کی راے میں تو سر غالباً سردار کا مخفف ہے اور خیل تو کنبے یا قبیلے کو کہا جاتا ہے، مثلاً کاکاخیل، خواجہ خیل وغیرہ، یعنی قبیلے کا سردار، جیسے قبائلی ملک یا چودھری-
طالب کی جمع کے لیے میں طلبہ کو ترجیح دوں گا۔ طلاب بھی درست ہے، بلکہ اکثر اوقات طلبہ سے بہتر ہے، لیکن خطرہ یہ ہے کہ کوئی خدا کا بندہ کہیں یہ نہ کہے کہ ’’طلاب، بر وزن کلاب‘‘۔ یوں خواہ مخواہ ہنگامہ برپا ہوگا۔
عربی، فارسی، اردو اور پشتو کے حروف ابجد میں الف ہے ہی نہیں۔ جسے ہم الف کہتے ہیں وہ یا تو ہمزہ ہوتا ہے یا ایک حرف کے زبر کی آوازکو لمبا کرنے کی علامت۔ مثال کے طور پر لفظ رحمن کو لے لیں۔ یا عربی ابجد کے حروف گن لیں۔ یہ سیدھا کھڑا سپاہی ہمزہ ہے، الف نہیں۔ اگر آپ الف بھی حروف میں شامل کریں تو پھر تو انتیس حروف بنتے ہیں، حالانکہ ہم ساری عمر اٹھائیس کہتے رہے ہیں…… فی امان اللہ۔ (الف خان)
بھائی الف خان عالم فاضل شخص ہیں۔ ایک تو الف کے سخت خلاف ہیں، اردو حروفِ تہجی جب سے عربیا گئے ہیں ’الف‘ ہمزہ بن گیا۔ ساری زندگی اس کو الف پڑھا، اب کہیں وہ اپنا نام گرامی بھی نہ بدل ڈالیں۔
دوسرے وہ اردو میں ایس(S) سے شروع ہونے والے الفاظ میں الف یا ہمزہ کے خلاف ہیں۔ اب اس کا کیا علاج ہوسکتا ہے؟ اردو داں اسکول کہیں گے، پنجابی سکول کہیں گے۔ پشتو میں چونکہ اس طرح کا تلفظ ہے تو ان کے لیے آسانی ہے۔ پاکستانی اردو کا یہی حسن ہے کہ ہر ایک اسے اپنے مطابق بولتا ہے۔ (عابدہ)
جناب محسن نقوی نے دارو گیر کا خوب ترجمہ کیا ہے، یعنی دار و گیر…… داروگیر کیا دارو یعنی دوائی پکڑنے والے کو نہیں کہہ سکتے!
میری مادری زبان پشتو ہے۔ پشتو اور فارسی کی کافی مماثلت ہے اور بہت سے الفاظ ایک ہیں۔ پشتو میں بھی دارو دوائی کو کہتے ہیں۔ دوا علاج کے لیے پشتو میں دارو علاج استعمال ہوتا ہے۔ شراب کو شراب ہی کہا جاتا ہے۔
اطہر ہاشمی صاحب اگر لہجے اور تلفظ پر جائیں گے تو پاکستان میں ہر ایک اردو اپنے انداز میں بولتا ہے اور ان کے کالموں کو کافی مواد مل سکتا ہے۔ اردو دانوں کا بھی اپنے خطوں کے لحاظ سے لب و لہجہ ہے۔ بہار، یوپی، دہلی، حیدرآباد ہر ایک کے اپنے لہجے ہیں اور اب پاکستان کا اپنا ایک لب و لہجہ بن رہا ہے۔
شکریہ والسلام
(عبدالمتین منیری)
حسبِ معمول اطہر ہاشمی کا مضمون بہت ہی مناسب اور وقت کی ضرورت کے تحت ہے۔ آخری پیراگراف میں جہاں دارو گیر کے محاورہ پر گفتگو ہے وہاں وضاحت یہ ہونی چاہیے کہ لفظِ گیر کے معنیٰ پکڑنا ہے اور اس جگہ پر دار کے معنیٰ ہیں: گھیرنا۔
یعنی محاورہ داروگیر کا مطلب ہے: گھیرگھیر کر پکڑنا۔
مخلص (سید محسن نقوی)
اسلام آباد میں جا بیٹھنے والے عزیزم عبدالخالق بٹ بھی کچھ کچھ ماہر لسانیات ہوتے جارہے ہیں۔ زبان و بیان سے گہرا شغف ہے۔ ان کا ٹیلی فون آیا کہ آپ نے ’’املا‘‘ کو مذکر لکھا ہے، جبکہ یہ مونث ہے۔ حوالہ فیروزاللغات کا تھا۔ اس میں املا مونث ہی ہے۔ دریں اثنا حضرت مفتی منیب مدظلہ کا فیصلہ ب...
اردو میں املا سے بڑا مسئلہ تلفظ کا ہے۔ متعدد ٹی وی چینل کھُمبیوں کی طرح اگ آنے کے بعد یہ مسئلہ اور سنگین ہوگیا ہے۔ اینکرز اور خبریں پڑھنے والوں کی بات تو رہی ایک طرف، وہ جو ماہرین اور تجزیہ کار آتے ہیں اُن کا تلفظ بھی مغالطے میں ڈالنے والا ہوتا ہے۔ مغالطہ اس لیے کہ جو کچھ ٹی وی س...
ہم یہ بات کئی بار لکھ چکے ہیں کہ اخبارات املا بگاڑ رہے ہیں اور ہمارے تمام ٹی وی چینلز تلفظ بگاڑ رہے ہیں۔ ٹی وی چینلوں کا بگاڑ زیادہ سنگین ہے کیونکہ ان پر جو تلفظ پیش کیا جاتا ہے، نئی نسل اسی کو سند سمجھ لیتی ہے۔ بڑا سقم یہ ہے کہ ٹی وی پر جو دانشور، صحافی اور تجزیہ نگار آتے ہیں وہ...
علامہ اقبالؒ نے داغ دہلوی کے انتقال پر کہا تھا : گیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے ایم اے اردو کے ایک طالب علم نے اس پر حیرت کا اظہار کیا کہ داغ نے یہ وضاحت نہیں کی کہ کس کے شانے کی بات کی جارہی ہے جب کہ غالب نے صاف کہا تھاکہ: تیری زلفیں جس کے شانوں پر پریشاں ہو گ...
مجاہد بک اسٹال، کراچی کے راشد رحمانی نے لکھا ہے کہ آپ کو پڑھ کر ہم نے اپنی اردو درست کی ہے لیکن 11 اپریل کے اخبار میں مشتاق احمد خان کے کالم نقارہ کا عنوان ’’لمحہ فکریہ‘‘ ہے۔ ہے نا فکر کی بات! صحیح ’لمحہ فکریہ‘ ہے یا ’لمحہ فکر‘؟ عزیزم راشد رحمانی، جن لوگوں نے سید مودودیؒ کو ن...
پچھلے شمارے میں ہم دوسروں کی غلطی پکڑنے چلے اور یوں ہوا کہ علامہ کے مصرع میں ’’گر حسابم را‘‘ حسابم مرا ہوگیا۔ ہرچند کہ ہم نے تصحیح کردی تھی لیکن کچھ اختیار کمپوزر کا بھی ہے۔ کسی صاحب نے فیصل آباد سے شائع ہونے والا اخبار بھیجا ہے جس کا نام ہے ’’ لوہے قلم‘‘۔ دلچسپ نام ہے۔ کسی کا...
سب سے پہلے تو جناب رؤف پاریکھ سے معذرت۔ ان کے بارے میں یہ شائع ہوا تھا کہ ’’رشید حسن خان اور پاکستان میں جناب رؤف پاریکھ کا اصرار ہے کہ اردو میں آنے والے عربی الفاظ کا املا بدل دیا جائے۔‘‘ انہوں نے اس کی سختی سے تردید کی ہے اور کہا ہے کہ وہ خود رشید حسن خان سے متفق نہیں ہیں۔ چلی...
لاہور سے ایک بار پھر جناب محمد انور علوی نے عنایت نامہ بھیجا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’خط لکھتے وقت کوئی 25 سال پرانا پیڈ ہاتھ لگ گیا۔ خیال تھا کہ بھیجتے وقت ’’اوپر سے‘‘ سرنامہ کاٹ دوں گا مگر ایسا نہ ہوسکا۔ اگر خاکسار کے بس میں ہوتا تو آپ کی تجویز کے مطابق اردو میں نام بدلنے کی کوشش ...
عدالتِ عظمیٰ کے منصفِ اعظم جناب انور ظہیر جمالی نے گزشتہ منگل کو ایوانِ بالا سے بڑی رواں اور شستہ اردو میں خطاب کرکے نہ صرف عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کی لاج رکھی بلکہ یہ بڑا ’’جمالی‘‘ خطاب تھا اور اُن حکمرانوں کے لیے آئینہ جو انگریزی کے بغیر لقمہ نہیں توڑتے۔ حالانکہ عدالتِ عظمیٰ کے ا...
عزیزم آفتاب اقبال، نامور شاعر ظفر اقبال کے ماہتاب ہیں۔ اردو سے خاص شغف ہے۔ ایک ٹی وی چینل پر زبان کی اصلاح کرتے رہتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ پروگرام مزاحیہ ہے، چنانچہ ان کی اصلاح بھی کبھی کبھی مزاح کے دائرے میں داخل ہوجاتی ہے۔ گزشتہ اتوار کو ان کا پروگرام دیکھا جس میں انہوں نے بڑا ...
اردو کے لیے مولوی عبدالحق مرحوم کی خدمات بے شمار ہیں۔ اسی لیے انہیں ’’باباے اردو‘‘کا خطاب ملا۔ زبان کے حوالے سے اُن کے قول ِ فیصل پر کسی اعتراض کی گنجائش نہیں۔ گنجائش اور رہائش کے بھی دو املا چل رہے ہیں، یعنی گنجایش، رہایش۔ وارث سرہندی کی علمی اردو لغت میں دونوں املا دے کر ابہام ...
چلیے، پہلے اپنے گریبان میں جھانکتے ہیں۔ سنڈے میگزین (4 تا 10 اکتوبر) میں صفحہ 6 پر ایک بڑا دلچسپ مضمون ہے لیکن اس میں زبان و بیان پر پوری توجہ نہیں دی گئی۔ مثلاً ’لٹھ‘ کو مونث لکھا گیا ہے۔ اگر لٹھ مونث ہے تو لاٹھی یقینا مذکر ہوگی۔ لٹھ کو مونث ہی بنانا تھا تو ’’لٹھیا‘ لکھ دیا ہوتا...