... loading ...
امریکی صدربارک اوباما نے اپنے آخری اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں یہ کہہ کرکہ’’ پاکستان، مشرق وسطی اور افغانستان کئی عشروں تک انتشار کا شکار رہیں گیـ‘‘ ایک مرتبہ پھر پوری دنیا کو دہشت گردی کی لال بتی کے پیچھے لگا دیا ہے۔دوسری جانب ہمارے مشیر خارجہ جناب سرتاج عزیز صاحب نے فرمایا ہے کہ پاکستان اپنے عمل سے ایسا نہیں ہونے دے گا۔ یہ بات صدر اوباما نے اس وقت کہی ہے جب مشرق وسطی میں چاروں طرف آگ بھڑکی ہوئی ہے ،ایران اور سعودی عرب ایک دوسرے کے سامنے صف آرا ہوچکے ہیں، افغانستان میں صورتحال کسی فریق کی سمجھ میں نہیں آرہی، اوربھارت پٹھان کوٹ حملے کو پاکستان کے خلاف چارج شیٹ بنانے پر تلا بیٹھا ہے۔ان حالات میں پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف اور آرمی چیف راحیل شریف کا حالیہ دورہ دونوں ممالک میں مصالحت کی کوششوں میں معاون ثابت ہوا ہے یا نہیں۔ ان تمام باتوں سے قطع نظر یہ امر اپنی جگہ ہے کہ اسلام دشمن قوتوں نے ایران اور سعودی عرب کو دھکیل کر تنازع کی جس خلیج میں دھکیل دیا ہے وہاں سے باہر نکلنا فی الحال مشکل نظر آتا ہے ۔
خطے میں پراکسی وار کے ساتھ ساتھ معاشی جنگ بھی عروج پر پہنچ چکی ہے سعودی عرب نے اس جنگ میں اپنی تیل کی پیداوار برقرار رکھتے ہوئے تیل کی قیمتیں انتہائی نچلی سطح تک پہنچا دی تھیں ،کم پیداواری ملک اس پالیسی سے سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے اس لئے پابندیوں کی وجہ سے ایران اس کا نشانہ تھاتاکہ وہ تیل سے حاصل ہونے والی دولت کو پڑوسی ممالک میں مداخلت کے لئے استعمال نہ کرسکے۔ اس کے جواب میں سعودی عرب میں تیل کی قیمتیں پچاس فیصد سے اوپر ہوگئیں اوریہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا تھاکہ سعودی عوام تیل کی اتنی زیادہ قیمت ادا کررہے ہیں۔ لیکن دوسری جانب یہ ہوا کہ امریکا اور مغربی ممالک نے ایران پرسے اقتصادی پابندیاں ختم کرنے کا اعلان کردیااور ایران نے یومیہ بھاری مقدار تیل کو بین الاقوامی منڈی میں لانے کا اعلان کردیا۔۔۔ یوں تاریخ کے اس نازک ترین دور میں تیل کا نیا کھیل شروع ہوگا۔
مغرب کی صیہونی قوتیں مسلمانوں کوکمزور کرنے اور ان کے معاشی وسائل پر ہاتھ صاف کرنے کے لئے کیا کیا کھیل کھیلتی ہیں جب تک جدید تاریخ کی جانب ہم رجوع نہیں کریں گے اس حقیقت کو نہیں پاسکتے۔دوسری جنگ عظیم کے فورا بعد امریکاکے سونے کے ذخائر تقریبا 127ملین اونس کے قریب تھے جس نے اسے جنگ سے تباہ حال باقی دنیا سے کہیں زیادہ امیر بنا دیا تھا ۔ دوسری عالمگیر جنگ کے خاتمے پر1944ء میں یورپ اور امریکا سمیت چوالیس ریاستوں نے ایک نیا معاشی نظام تشکیل دینے کا اعلان کیا جس کا نام Bretton Woods معاشی نظام رکھا گیا تھا۔ اس نظام کے تحت یورپ کی تمام ریاستوں کی کرنسی ڈالر کے ساتھ اور ڈالر سونے کے ساتھ منسلک کردیا گیا تھا۔ یہ ایک طرح سے مغربی معاشیات پر امریکا کی دجالی اجارہ داری کا آغاز تھا۔ یوں امریکا میں موجود صیہونی بینکروں نے دبا کر ڈالر چھاپنا شروع کردیئے حالانکہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ جتنی مالیات کا سونا بینک میں موجود تھا، نوٹ بھی اتنی ہی مالیت کے چھاپے جاتے لیکن ایسا نہیں ہو ااور صیہونی بینکروں نے دنیا کو بے وقوف بناکر کاغذ ی کرنسی نوٹ ڈالر کی شکل میں مسلط کروا دیا۔
اس معاشی تسلط کو جھٹکا ا س وقت لگاجب فروری 1965ء میں فرانس کے صدر چارلس ڈیگال نے فرانس کے محفوظ ڈالر کے ذخائر کو سونے کے بدلے واپس لینے کا اعلان کردیا اور وہ بھی مارکیٹ ریٹ پر۔یوں امریکا میں صف ماتم بجھ گئی کیونکہ 1966ء تک امریکی سینٹرل بینک کے پاس صرف 13.2بلین ڈالر مالیت کا سونا رہ گیا تھا جبکہ امریکا کے نجی بینکوں کے پاس چودہ بلین ڈالر سونے کے ذخائر کی شکل میں تھے (آج اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ کتنی بڑی دولت تھی)۔ڈیگال کے اس اعلان نے دیگر یورپی ریاستوں کو بھی چونکا دیا اور سب سے پہلے مغربی جرمنی نے Bretton Woods system سے لاتعلقی کا اعلان کرکے اپنی کرنسی ڈوچے مارک کی دوبارہ مارکیٹ ویلیو مقرر کی اور اس سے بہت فائدہ اٹھایا ۔1971ء تک یہ صورتحال ہوگئی کہ امریکی ڈالر جرمن مارک کے مقابلے میں 7.5فیصد گرگیاجس کی وجہ سے دیگر یورپی ریاستوں نے ڈالر سے چھٹکارے کا اعلان کردیا۔ اسی سال سوئٹزرلینڈ نے امریکا سے اپنا پچاس ملین ڈالر کا سونا چھڑوایا، فرانس نے 191ملین ڈالر سونے کی شکل میں وصول کئے۔ 5 اگست 1971ء کو امریکی کانگریس نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں سفارش کی گئی تھی کہ ملکی معیشت کے استحکام کے لئے ڈالر کی قدر میں کمی کردی جائے۔ یعنی یورپی ریاستوں کے Bretton Woodsمعاشی نظام سے علیحدگی کے بعد اب امریکا پر دباؤ بڑھ چکا تھا کہ وہ بھی اس نظام کو خیر باد کہہ کر اپنے پیروں پر خود کھڑے ہونے کی کوشش کرے۔اب دیکھئے اس وقت یعنی اگست 1971ء میں امریکا میں بے روزگاری کا تناسب 6.1ہوچکا تھا جبکہ افراط زر کی شرح 5.84فیصد تک آچکی تھی۔مہنگائی پر قابو پانے کے لئے صدر نکسن نے ایک ایگزیکٹو آرڈر نمبر 11615جاری کیا جس کے تحت اشیا کی قیمتوں کو نوے دن کے لئے منجمد کردیا گیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا میں یہ پہلی مرتبہ ہوا تھا۔دوسرے الفاظ میں امریکا معاشی دیوالیہ کی آخری حدوں کو چھو رہا تھا۔
اس بات کو یہیں چھوڑ کر ہم اس وقت کے مشرق وسطی کی جانب پلٹتے ہیں۔ عرب اسرائیل تنازع عروج پر پہنچ چکا تھا خاص طور پر 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد عربوں کی شکست نے عرب ممالک کو بے چین کردیا تھا اور وہ یہ داغ اپنی جبین سے جلد از جلد مٹا دینا چاہتے تھے۔ امریکا اور مغرب کے صیہونی سیسہ گر عربوں کی اس فطرت سے اچھی طرح واقف تھے۔1973ء کی عرب اسرائیل جنگ میں (جسے جنگ رمضان کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے )سعودی عرب کے شاہ فیصل ؒنے امریکا پر تیل کی پابندی لگا دی جس نے امریکا کی مزید معاشی چولیں ہلا کر رکھ دیں۔ 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ میں عربوں نے اسرائیل کے ناقابل شکست ہونے کے تصور کو پاش پاش کردیا تھا اور چھینے گئے صحرائے سینا کے وسط میں آخر مصری فوجوں نے اپنی پیش قدمی روک دی تھی۔ عربوں کا غصہ ٹھنڈا ہوچکا تھا۔ غالبا یہی بات مغربی صیہونی سیسہ گر چاہتے تھے ۔ اس جنگ کے دوران نکسن کے وزیر خارجہ ہنری کسنجر کی شٹل ڈپلومیسی کا بہت شور رہا ۔ امریکا اور دیگر یورپی ممالک نے 1964ء سے لیکر 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ تک عربوں کا تیل پانی سے بھی کم ارزاں نرخوں پر خریدا تھا اور اس دوران اس کی قیمت میں ایک پینی بھی اضافہ نہیں کیا تھالیکن اس جنگ کے بعد عربوں اور ایران کو پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ وہ تیل کی شکل میں دنیا کی قیمتی ترین دولت کے مالک ہیں۔ اس دوران ہنری کسنجر نے سعودی شاہ فیصل کو باور کرادیا کہ امریکا عرب اسرائیل تنازع میں فریق کی بجائے منصف کا کردار ادا کرے گا۔ اس کے ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی کیاکہ پیٹرول کی قیمت کو ڈالر کے ساتھ منسلک کردیا جائے۔شاہ فیصل ؒ چونکہ معاشی ماہر نہیں تھے اور اس فیصلے کے دور رس نتائج سے آگاہ نہیں تھے اس لئے انہوں نے حامی بھر لی۔ دوسری جانب پاکستان میں 1974ء کی اسلامی ممالک کی سربراہی کانفرنس کا انعقاد لاہور میں ہوتا ہے۔ 1924ء میں خلافت اسلامیہ کے خاتمے کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب مسلم لیڈروں کی اتنی بڑی تعداد ایک چھت تلے جمع ہوگئی تھی۔ اسے ایک چیلنج سمجھ کر اسی سال بھارت سے جوہری دھماکا کرایا گیا تھا تاکہ پاکستان کو پیغام دیا جاسکے کہ وہ عالم اسلام کی لیڈری کے خواب دیکھنا چھوڑ دے لیکن یہ پیغام الٹا پڑ گیا اور بھٹو نے جوہری صلاحیت حاصل کرنے کا اعلان کردیا ۔دوسری جانب امریکا اور اس کے یورپی اتحادیوں کو اس بات کا خدشہ تھا کہ کہیں شاہ فیصل بھٹو یا کسی اور مسلم لیڈر کے مشورے پر تیل کی قیمت کو ڈالر سے الگ کرنے کا اعلان نہ کردیں اور بنا بنایا کھیل خراب ہوجائے اسی لئے پہلے شاہ فیصلؒ اور اس کے بعد بھٹو کو راستے سے ہٹا دیا گیا۔ دوسری جانب تیل کی قیمتیں بڑھانے کے معاملے میں شاہ ایران کو انقلاب کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا۔1973ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد عربوں اور ایران نے تیل کی قیمت بڑھا کر جو فائدہ اٹھایا تھا اس کی قیمت وصول کرنے کے لئے ایک طرف ایرانی انقلاب کو ہوا بنایا گیا تو دوسری جانب صدام کی قیادت میں عربوں کو ایران سے لڑا دیا گیا ۔یہ جنگ آٹھ برس تک جاری رہی اور ان آٹھ برسوں میں امریکا کے تیل کے صیہونی ساہوکاروں نے وہ تمام قیمت وصول کرلی جو وہ 1973ء کے بعد بڑھانے پر مجبور ہوئے تھے۔ اس کے بعد ہی افغانستان میں سوویت یونین سے دو دو ہاتھ کئے گئے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ نوے کی دہائی میں جس وقت صدام نے کویت پر چڑھائی کی تھی تو امریکا سمیت سارا مغرب خطے میں گھس آیا تھا لیکن آج جبکہ یمن سے لیکر شام تک اور تمام شمالی افریقا میں ایک آگ لگی ہوئی ہے تو اقوام متحدہ بھی خاموش ہے اور امریکا بھی صرف باتوں کی حد تک کام چلا رہا ہے یا شام کے مختلف علاقوں پر داعش کا نام لیکر کر چاند ماری کررہا ہے۔
اب جبکہ ایران پر سے اقتصادی پابندیاں بھی ہٹا دی گئی ہیں اور ایران نے اپنا تیل بین الاقوامی مارکیٹ میں لانے کا اعلان کردیا ہے تو یقینی بات ہے کہ خطے میں تیل کا نیا کھیل شروع ہوجائے گا ایسا کیوں کیاگیا؟ تیس برس تک ایران پر اقتصادی پابندیاں لگانے والا امریکا اچانک کیوں مہربان ہوا؟ ان تمام حالات کا ایران کے پالیسی ساز اداروں کو جائزہ لینا چاہئے۔ یقینی بات ہے کہ تیل اس وقت اپنی کم ترین سطح یعنی تقریبا تیس ڈالر بیرل پر ہے لیکن ایرانی تیل کے مارکیٹ میں آجانے کے بعد یہ سطح چودہ ڈالر تک بھی گر سکتی ہے جس کا سب سے بڑا نقصان روسی معیشت کو ہوگااور یہی امریکا اور اسرائیل چاہتے ہیں۔ تاکہ روس کو معاشی طور پر گرا کر اور عسکری طور پر شام میں پھنسا کر اس کا یوکرین، کریمیا اور جارجیا میں اثر رسوخ ختم کردیا جائے ۔
حالات کا بغور جائزہ لیا جائے تو اس وقت پوٹن ایسی شخصیت ہے جو ایران اور سعودی عرب کے درمیان تنازع کو ختم کرانے میں کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے۔ اس سلسلے میں چینی صدرنے بھی ریاض اور تہران کا دورہ کیا ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا دورہ مشرق وسطی بھی اس سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے ۔ وقتی طور پر اس سلسلے میں شاید کوئی بڑا بریک تھرو نہ ہوسکے لیکن اس بات کے قومی امکانات ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات دوبارہ بحال ہوجائیں۔کیونکہ یہی بات پاکستان کے حق میں بھی جاتی ہے اور اس سے قیام امن کے سلسلے میں پاکستان کے کردار کو بین الاقوامی برادری خصوصا عرب صحافتی حلقوں میں بھی تحسین کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔ اس وقت جب ایک طرف وطن عزیز میں عسکری اور معاشی دہشت گردی کے خلاف آپریشن ضرب عضب جاری ہے تودوسری جانب پاکستان کے گرد علاقوں خصوصا افغانستان اور مشرق وسطی میں ایک آگ سی بھڑکی ہوئی ہے لیکن تاریخ انسانی کے اس پرآشوب ترین دور میں پھر بھی پاکستان کی صورتحال کسی حد تک غنیمت کہی جاسکتی ہے۔ ان تمام معاملات کے ہوتے ہوئے مشرق وسطی میں ایران سعودی تنازع نے پاکستان کو بھی ایک طرح سے امتحان میں ڈال دیاتھا جس پر پاکستانی میڈیا میں بیٹھے تاریخی وسیاسی پس منظر سے عاری بزرجمہر قسم کے اینکرپرسنز اپنی اپنی بولیاں بولتے رہے اور تاحال بولے جارہے ہیں۔لیکن حالات کا تقاضا یہ ہے کہ پاکستان قیام امن کے سلسلے میں مشرق وسطی میں جنگ کے امکانات کو روکے وہ خود اس خطے کے لئے بھی بہت اہم ہے۔ اسرائیل ماضی میں بھی ایران عراق جنگ سے بھرپور مستفید ہوا تھا اور اب پھر اس تنازع کا خطے میں سب سے بڑا فائدہ اسے ہی ہونے جارہا ہے ۔ بین الاقوامی مداخلت کو روکنے کے لئے ضروری ہے کہ ایران اور عرب ممالک مل بیٹھ کر اس مسئلے کا حل نکالیں ۔ان دونوں قوتوں کے مل جانے سے باہر کی قوتیں خطے میں اپنا کھیل نہیں کھیل سکیں گی۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی سے متعلق سوال پر تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان نااہلی پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے، پاکستان کی اندرونی سیاست میں دخل اندازی نہیں کر سکتے۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے ایک ب...
امریکا میں چار بہنوں نے 389 سال کی مجموعی عمر کا گینیز عالمی ریکارڈ اپنے نام کر لیا ہے۔ امریکی ریاست جنوبی ڈکوٹا شہر سیو فالز سے تعلق رکھنے والی چاروں بہنوں کی مجموعی عمر 22 اگست کے مطابق 389 سال اور 197 دن ہے۔ ان بہنوں میں 101 سالہ آرلووین جانسن، 99 سالہ مارسین جانسن، 96 سالہ ڈو...
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے عالمی برادری سے چین کو روکنے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد ہونے کی اپیل کی ہے۔ روس فوری خطرہ ہے لیکن چین سے عالمی نظام کو زیادہ سنگین خطرات لاحق ہیں۔ میڈیارپورٹس کے مطابق جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں تقریر کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلن...
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ نے کہا کہ ملک میں سیکیورٹی تب آتی ہے جب ہر شہری ذمہ داری لیتا ہے، سیکیورٹی فوج نہیں عوام دیتی ہے، امریکا کے وزیر خارجہ کا بیان ہے کہ بھارت کو کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ ایک آزاد ملک ہے، توپھر ہم کیا ہیں؟ طاقتور ملک ہم پر غصہ ہو گیا جس نے کہا کہ آپ...
وزیراعظم عمران خان نے قوم سے خطاب میں مراسلے والے ملک کا ذکر کرتے ہوئے امریکا کا نام لے لیا۔وزیراعظم عمران خان نے قوم سے براہ راست خطاب کیا اور اس دوران انہوں نے خارجہ پالیسی پر بات کی۔وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں مراسلے والے ملک کا ذکر کرتے ہوئے امریکا کا نام لیا اور پھر غلطی کا ...
یوکرین پر حملے کے بعد امریکا نے سلامتی کونسل میں روس کی مستقل رکنیت ختم کرنے کے طریقوں پرغور شروع کردیا۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق مستقل اراکین کی رکنیت ختم کرنے کے لیے یو این چارٹرمیں تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔اس حوالے سے امریکا کی نائب وزیرخارجہ وینڈی شرمین نے اراکین کانگریس ...
روس نے کہا ہے کہ یورپ کی جانب سے پابندیوں کے جواب میں وہ تخفیف اسلحہ معاہدوں سے علیحدہ ہوسکتے ہیں۔اپنے بیان میں ڈپٹی ہیڈ روسی سکیورٹی کونسل نے کہا ہے کہ مغرب سے تعلقات مکمل ختم کرسکتے ہیں، ممکن ہے کہ پھر روس اور مغرب ایک دوسرے کو دوربین سے دیکھیں۔واضح رہے کہ یوکرین پر حملے کے بعد...
روس نے یوکرین پرحملہ کردیا جس کی جوابی کارروائی میں 5 روسی طیارے اورایک ہیلی کاپٹرتباہ کردیا گیا۔جبکہ یوکرائن کے صدرنے ملک بھر میں مارشل لا نافذ کر دیا ہے۔ غیر ملکی خبررساں اداروں کی رپورٹس کے مطابق انہوں نے ٹیلی ویژن پر ایک حیران کن بیان میں کہا کہ میں نے فوجی آپریشن کا فیصلہ کر...
امریکا، آسٹریلیا، جاپان اور بھارت کے اعلیٰ سفارت کاروں کی میلبورن میں اپنے چار رکنی اتحاد(کواڈ)کی نشست ایشیا پیسفک خطے میں چین کی بڑھتی طاقت کو ختم کرنے کے لیے امریکا، آسٹریلیا، جاپان اور بھارت کے اعلی سفارت کاروں نے میلبورن میں اپنے چار رکنی اتحاد(کواڈ) کو مزید مضبوط کرنے کے...
مشرق وسطی کی صورتحال میں نیا موڑ آگیا، سعودی عرب اور ایران سفارتی تعلقات بحال کرنے پر رضامند ہو گئے۔ایرانی میڈیا کے مطابق سعودی عرب اور ایران اپنے سفارتخانے کھولنے کی تیاری کررہے ہیں، رکن ایرانی پارلیمنٹ جلیل رحمانی نے گفتگو میں سفارتی تعلقات بحالی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ دونو...
حکومت کی طرف سے جاری کی گئی ملکی تاریخ میں پہلی بار قومی سلامتی پالیسی میں دفاع ، داخلہ، خارجہ اور معیشت جیسے شعبو ں پر مستقبل کا تصوردینے کی کوشش کی گئی ہے۔قومی سلامتی پالیسی میں سی پیک سے متعلق منصوبوں میں دیگر ممالک کو سرمایہ کاری کی دعوت دی گئی ہے، نئی پالیسی کے مطابق کشمیر ب...
عالمی بنک نے امریکا، یورو کے خطے اور چین میں اقتصادی ترقی میں سست روی کی پیشین گوئی کی ہے اور خبردار کیا ہے کہ قرضوں کی بلند سطح، آمدن اور اخراجات میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات اورکورونا وائرس کی نئی اقسام سے ترقی پزیرمعیشتوں کی بحالی کو خطرہ لاحق ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق عالمی بنک نے...