... loading ...
بات افسر شاہی کے طور اطوار کی تھی۔ 1988 ء میں وہ کیسے ضابطے اور قانون سے کام لیا کرتے تھے ،تب تک جب جمہوریت نے بے حیائی کا اپنا گھونگٹ دوبارہ نہ اٹھایا تھا ۔افسر شان بے نیازی سے لوٹ مار سے بلند و بالا ہوکر نوکری کیا کرتے تھے۔ان کی گفتگومیں جہاں اختر حمید خان ،مسعود احمد کھدر پوش، آغا شاہی،نیاز نائیک،ایس کے محمود، فتح محمد بندیال،مظفر حسین ،قدرت اﷲ شہاب، فدا حسین،غلام اسحق خان کے طرز عمل کی مثالیں ہوتی تھیں وہیں ویلیم میری ویدر ، جان جیکب فرئیر بارٹل اور سر چارلس نیپئر جیسے ناموں پر جرات اور معاملہ فہمی کی تان ٹوٹ جاتی تھی۔
ان اسمائے مبارکہ کا ہر وقت ورد کرنے والے کراچی کے اس ڈی ایم جی افسر حسنات احمد (فرضی نام) کے بڑوں کا پیچھے سے تعلق فرخ آباد بھارت سے تھا۔مزاج بھی بہت کھڑا کھیل فرخ آبادی (فرخ آباد کے لوگ معاملات کو سیدھا رکھتے تھے یوں یہ محاورہ بولا جاتا تھا) قسم کا تھا۔
سی ایس پی ہونے کا تفاخر خون میں ایسے ہلکورے لیتا تھا کہ 1863 میں رابندر ناتھ ٹیگور کے بڑے بھائی ستیندر ناتھ ٹیگور جوپہلے مقامی ہندوستانی آئی سی ایس افسر بنے تھے وہ بھی کیا اپنی افسری اور اس گروپ پر نازاں نہ ہوتے ہوں گے جتنے یہ حضرت۔ حالانکہ بھٹوصاحب کی انتظامی اصلاحات کے بعد ان کا سی ای پی گروپ کسی بیوہ کی جوانی لگتا تھا۔پولیس گروپ والے اپنی براہ راست طاقت اور کسٹم والے انہیں اپنی ناجائز دولت کی بدولت اپنا ہم پلہ نہ گردانتے تھے۔
شام کو ململ کا ڈھل مل کرتا، علی گڑھ پاجامہ پہنتے،پان نہیں کھاتے تھے مگر گفتگو سے قوام کی خوشبو آتی تھی ۔ والد صاحب کو اب بھی اباحضور پکارتے تھے۔سندھی افسر جو ا ُن کے دوست تھے وہ اس کا مذاق بناتے تو یہ حضرت انہیں جتاتے کہ تم بھی تو بابا سائیں بولتے ہو۔اب تک کی نوکری کراچی کی تھی مگر ڈپٹی کمشنر اندرون سندھ میں لگنا چاہتے تھے۔حیدرآباد ، ٹھٹھہ، بدین اور نواب شاہ تک کے خواب دیکھتے تھے کیوں کہ یہ سب اضلاع کراچی تک دن دن کا پھیرا تھے۔
جیکب آباد کے دورے پر اس وقت کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیا الحق پہنچے تو بہت دبے دبے لہجے میں انہیں بتایا گیا کہ ضلع کے ڈپٹی کمشنر جو ایک رینکر ہیں جب دو چار جام لنڈھا لیتے ہیں تو تلور کے شکار پر آئے بوڑھے عرب شیوخ، شہزادوں اور کم سن طوائفوں کی موجودگی میں بھٹو کو اچھا اور فوج کو برا کہتے ہیں، ان سے ملنے والے تحفے تحائف کو بھی توشہ خانے میں جمع نہیں کراتے،یہ سب ملکی سلامتی کی رو سے گناہ کبیرہ ہیں۔
سندھی کمشنر کے سامنے ان کے اس بدلحاظ ماتحت ڈپٹی کمشنرکے معاملے کو بطور شکایت رکھا گیا تو وہ بھی اس کے دفاع میں کہنے لگے ’’ رواجی افسر ہے ابھی بھلا شراب پی کر جنرل یحییٰ خان بھی تو شاہ ایران کی دعوت میں جھاڑیوں میں پیشاب کرنے کھڑا ہوگیا تھا۔وہ کونساشراب پی کر جنرل رانی، نورجہاں، بلیک بیوٹی اور دوسری عورتوں کو قصیدہ بردہ شریف سناتا تھا۔اس کو اگر معاف کردیا ہے تو اس کو بھی اگنور مارو۔ جس پر خفیہ ایجنسی کے افسر نے اپنے ڈیٹ کمانڈر کو جتایا کہ “Typical bloody civilian Response Sir”۔ ائیر پورٹ واپسی تک دونوں افسران کو Hot Plate پر بٹھانے کا فیصلہ ہوگیا عرف عام میں اسے رگڑا دینے کا پروگرام سمجھ لیں۔اگلے دن ڈی ایم ایل اے جنرل جہاں زیب ارباب کے پاس میٹنگ میں نئے افسروں کے لیے ناموں کی تلاش ہوئی تو کسی بریگیڈئیر نے جسے حسنات احمد کئی ماہ پہلے اپنے سیکرٹری فنانس کے دفتر آمد پر لینے اور چھوڑنے خود گیٹ تک گئے تھے ۔اسی احسان مند نے بطور ڈپٹی کمشنر ان کا نام تجویز کردیا۔وہ ان دنوں وہاں کا اے ایس ایم ایل تھا۔سچ ہے نیکی کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔
سیکرٹریٹ کے بابوؤں والی بیوروکریسی ان دنوں ایسی نہ تھی کہ ابھی منگنی ہوئی نہیں اور لڑکی نے پسندیدہ میٹرنٹی ہوم کا محلے میں چرچا کرنا شروع کردیا۔انہیں اپنی تعیناتی کا اس وقت تک علم نہ ہوا جب تک نوٹیفکیشن ان کے ہاتھ نہ آیا۔بہت دیر تک سکتے میں رہے کہ یہ کیا داغ داغ اجالا ان کی گردن سے لپٹ گیا۔ کہاں پی ای سی ایچ ایس کی سن شائن قلفی اور طارق روڈ کی رنگ برنگی شامیں۔ کہاں وہ خاک میں لتھڑا ہوا خون میں نہلایا ہوا جیکب آباد۔
سورۃ مریم کی آیت نمبر دس میں مذکور ہے کہ حضرت ذکریا ؑ نے بڑھاپے میں اپنے لیے بیٹے کی پیدائش کی تمنا کی تو اپنی دعا کی قبولیت کی نشانی طلب کرنے پر انہیں تین دن تک عوام سے کنارہ کش ہوکر ان سے گفتگو کرنے سے مکمل پرہیز کا کہا گیا۔سو ہمارے مہربان عزیز نے دفتر سے تین دن پہلے ہی جان چھڑائی اور سیدھی برٹش کونسل لائبریری میں گوشہ نشین ہوگیے۔تب یہ موجودہ میرٹ ہوٹل سے جڑی ہوتی تھی۔ شا م کو ہم یا تو جم خانہ میں کھانا ساتھ کھاتے تھے یا نسرین روم میں جہاں افسر ہونے کے ناطے بینکویٹ مینجر خصوصی رعایت کرتا تھا۔تب تک یہ ہوٹل قدرے سرکاری تھا اور ائیر مارشل نور خان کی گل جی والی تصویر لابی میں ٹنگی دیکھ کر ریشم و اطلس و کم خواب میں لپٹی ہوئی خواتین اپنے ریں ریں کرتے بچوں کو ڈرایا کرتی تھیں۔ اپنے اس ایام گوشہ نشینی کے تین دنوں میں کونسی ایسی کتاب تھی جو گورے نے ہندوستان کی سول سروس پر لکھی ہو اور وہ انہوں نے نہ کھنگالی ہو۔
ان کا خیال تھا کہ انگریز ہی کو افسری کرنا آتا تھا۔ پنجاب، خیبر پختون خواہ اور سند ھ کے سرکش جاگیرداروں، خوانین اور وڈیروں کا صحیح باجا تو گورے حاکم نے بجایا۔ خاکسار نے سمجھایا کہ سرکار وہ زمانے لد گئے ہیں۔چند دن بعد اس مارشل لاء کی غیر متوازن آنکھ میں جمہوریت کا پانی اتر آئے گا(موتیا آنکھ میں آنا) یہ سب سردار، وڈیرے شام سویر ے ’’ہن موجاں ہی موجاں ‘‘کرتے کراتے دوبارہ بااختیار ہوجائیں گے، دشمنیاں نکالیں گے ۔ لہذا آپ بھی عشق کو عشق ہی سمجھیں، مشغلہ دل نہ بنائیں مگر نہ مانے۔
مجھے کہنے لگے وہ جو انگریز’’ آفرین نامہ‘‘ جاری کرتا تھا وہ تو دکھاؤ۔ 1918ء میں جب جنگ عظیم جاری تھی کوئی غلام قادر صاحب رتو ڈیرو (لاڑکانہ) سے اپنی قوم کے کسی فرد کو انگریز فوج میں بھرتی کرابیٹھے۔ان کی خدمات سے خوش ہوکر ڈی سی صاحب نے انہیں ایک یہ تعریفی سند بطور آفرین نامے کے جاری کی تھی۔ کمشنر صاحب نے اس خدمت کو مزید تفاخر میں یوں بدل دیا کہ جب غلام قادر صاحب، ڈی سی صاحب کی کھلی کچہری جسے ان دنوں دربار کہا جاتا تھا( اور ہر ڈی سی آفس میں ایک دربار ہال ہوتا تھا) ْجب اُس میں یہ آتے تو ان کو کرسی پیش کی جاتی تھی۔ دیگر معززینِ شہر مثال سائل ِمبُرم (ڈھیٹ فقیر) دست بستہ کھڑے ہی رہتے تھے۔
اتنا پیار کرنے والا حاکم جب ناراض ہوتا تھا تو وہ شخص جس کو سزا ہوتی اس کا جرم اور قید کی معیاد ایک طوق ملامت کے طور پر اُسے گلے میں لٹکانی ہوتی تھی۔اسے وہ ’’ذلّت نامہ‘‘ کہتے تھے۔معتوب شخص اگر کسی وجہ سے سرکاری ملازم کے طلب کرنے پر یہ ذلت نامہ گردن میں حمائل نہ کرتا تو بہت مشکل پیش آتی۔سوچئے اگر پاکستان میں ایسا ہوتا تو تقریباً اکثرسیاسی قائدین اسی طرح کی سند گرواٹ اپنی جعلی ڈگری کی طرح گلے میں لٹکائے گھوم رہے ہوتے۔
حسنات صاحب کو سب سے پہلے تو سر چارلس نیپئر فاتح سندھ نے بڑا متاثر کیا ۔اس نے 1847ء میں سندھ فتح کرنے کے بعد جو پہلی عمارت سندھ میں تعمیر کی وہ نیپئر بیرکس تھی۔ (اسے آجکل لیاقت بیرکس کہہ کر پکارتے ہیں اور کور کمانڈر صاحب یہاں اپنا دفتر قائم کرتے ہیں۔۔۔ ایک سو ستر سال ہونے کو آتے ہیں وہ عمارت آج بھی اپنی شان و شوکت اور طاقت کے اعتبار سے بے نظیر ہے) ہم نے اس نیپئر کے نام کو پاکستان کی تیسری بڑی ہیرا منڈی والے نیپئر روڈ کے نام سے منسوب کرکے وہاں بلبل ہزار داستان، سنگیت محل اور رنگ محل نامی عمارات ایستادہ کردی ہیں۔ پاکستان بننے سے کچھ عرصے پہلے تک میٹروپول ہوٹل سے آگے کسی دیسی کو بلااجازت نہ آنے دینے کی وجہ یہی تھی کہ سندھ کے حاکم کا دفتر اور افواج انگلشیہ کے دفاتر اور رہائش گاہیں وہیں تھیں۔ اسی لیے اسے لائنز ایریا کہا جاتا تھا۔
وہ کہا کرتا تھا کہ کسی ملک کو سیدھا کرنا ہو تو پہلے وہاں کی عوام کو سب سے پہلے سزاؤں کے ذریعے عبرت کا نشانہ بناؤ اور پھر ان پر آہستہ آہستہ مہربانیاں کرو۔ جب اس نے بطور گورنر بمبئی ( ان علاقوں میں سندھ بھی شامل تھا) ستی کی رسم (جس میں بیوہ کو اپنے شوہر کی لاش کے ساتھ چتا میں زندہ جلنا پڑتا تھا) پرپابندی لگائی توہندو راجپوت ٹھاکروں اور برہمنوں کا ایک وفد احتجاج کرنے پہنچا تو ان کے حواس خطا کرنے کے لیے مقام ملاقات پر کئی بڑھئی لکڑی کی پھانسیاں تیار کرنے میں مصروف تھے۔
چارلس نیپئر نے بہت دھیرج (سکون) سے ان کی گزارشات سنیں اور آہستہ آہستہ اپنی ڈاڑھی میں خلال کرتے ہوئے کہنے لگا ’’یہ آپ کی رسم ہے تو میں اس کی ادائیگی سے آپ کو ہرگز نہیں روکوں گا۔لیکن یہاں ہم نے ایک قانون رائج کیاہے کہ اگر کوئی کسی عورت کو زندہ جلائے تو ہم اسے پھانسی پر لٹکاتے ہیں اور اس کی ساری جاگیر ضبط سرکار کرلیتے ہیں۔آؤ آپ اپنی رسومات کو پورا کرو ہم اپنے قانون پر عمل کرتے ہیں۔ پھانسی گھاٹ کم پڑیں گے تو اور بڑھئی منگوالیں گے۔
یہ قصہ 1849 ء کا ہے۔ سر چارلس نیپئر کو مرے ہوئے بھی ایک صدی سے اوپر ہوگئی۔ وی پی سنگھ ،گجرال، باجپائی اور مودی جیسے شدھی شنگھٹن وزرائے اعظم جو ہر وقت ہندووتا کو بغل میں دابے رہتے ہیں مگر کسی میں اتنی جرات نہ ہوپائی کہ جو دھرم ریت و رسم کو چارلس نیپئر پامال کرگیا وہ ستی کی رسم کا دوبارہ اجرا کرسکیں۔ یہ ہے قانون کی حکمرانی یعنی WRIT of THE STATE۔
اس سے پہلے کہ حسنات صاحب جیکب آباد اپنے عہدے کا چارج سنبھالنے کے لیے ر وانہ ہوں ہم ویلیم میری ویدر کا قصہ بھی دہرالیں، اپنی جیکب آباد تعیناتی کے دوران میں ایک صبح جب وہ اپنے دو سندھی گارڈز کو ساتھ لے کر واک پر نکلا تو اس دوران گھات لگا کر ان گارڈز کو گولیاں مار کر ہلاک کردیا گیا۔ کھرا نکالا گیا ۔تفتیش ہوئی تو علم ہوا کہ یہ شرارت چند بگٹیوں کی تھی جن سے ان کے محافظین کی ذاتی مخاصمت تھی۔
معافی کے لیے درمیان میں لوگ آئے تو ویلیم میری ویدر (جن کے نام کا ٹاور بھی ہے جسے اب ہم صرف ٹاور کہتے ہیں) نے کہا کہ میرے محافظین کو اگر سوتے میں ماردیا جاتا یا ان کی رہائش گاہ پر قتل کیا جاتا تو یہ ذاتی دشمنی سمجھا جاسکتا تھا مگر چونکہ یہ کار سرکار میں ڈیوٹی پر مصروف تھے یہ سرکار انگلشیہ پر حملہ ہے۔اس کا بھرپور بدلہ لیا جائے گا۔ اس نے 133 مقامی سندھیوں کی فوج لے کر 700 بگٹیوں پر حملہ کیا اور ان میں سے 566 کو قتل کیا۔ کمشنر صاحب پرنگل کا خیال تھا کہ مارے جانے والوں کی تعداد زیادہ تھی۔ بگٹیوں نے شرمندگی کے مارے یہ بتایا نہیں تھا۔( حوالہ Annexation and the Unhappy Valley: by Mathew Cook)
اسی لیفٹننٹ ویلم میری ویدر سے (جو بعد میں سندھ کا گورنر بنا) جب کمشنر سندھ فرئیر بارٹل (جن کے نام کے کئی باغ اور مارکیٹ ہیں ) نے پوچھا کہ’’ گورنر نیپئر نے بمبئی سے ایک خط کے ذریعے دریافت کیا ہے کہ جیکب آباد کے ان علاقوں کا جو سندھ بلوچستان اور پنجاب کی سرحد پر واقع ہیں وہاں امن و امان کی صورت حال کیسی ہے ؟‘‘تو اس نے جواب میں اپنے ماتحت اسسٹنٹ کمشنرویلم میری ویدر کا وہ خط بطور سند بھیج دیا کہ جس میں لکھا تھا کہ
here on the frontier (with Punjab) under the mountains not a mouse stirs without Merewether’s permission” ــ’’ان علاقوں میں پہاڑوں کے نیچے بھی کوئی ایسا چوہا نہیں جو میری ویدر کی اجازت کے بغیر ہل جل سکے ـ‘‘
یہ انیسویں صدی کا آغاز تھا ۔ میری ویدر اپنے ملک سے مکمل اجنبی لوگوں میں چھ ہزار میل دور ہوتے ہوئے بھی ایسا بے خوف اور پر اعتماد تھا۔اس کے پاس نہ راکٹ لانچر تھے، نہ ٹینک، نہ فضائیہ، نہ بحریہ، نہ ایسے آلات جن سے جاسوسی ہوپائے، نہ ڈرون۔
ضیامارشل لاء کے دور میں جب ملک بھی آزاد تھا ،خیبر میل کے اے سی والے کوپے میں ڈپٹی کمشنر حسنات احمد بہت چپ چپ تھے۔آپ ذرا خوف زدہ بھی مان لیں۔ جیکب آباد کراچی سے صرف چار سو میل کی دوری پر تھا۔
فرق صرف اتنا تھا کہ وہ باصلاحیت، بے خوف، مقصد میں سچے لوگ تھے اور بعد کے آنے والے کم علم، بے صلاحیت، کم قیمت اور مقصد سے روگردانی کرنے والے حاکمان بے وقعت۔ہمارے شیخ احمد دیدات مرحوم اہل مغرب اور مسلمانوں کا موازنہ کرتے ہوئے بصد تاسف فرماتے
They are live people on dead path we are dead people on live path
وہ ایک مردہ شاہراہ پر زندہ قوم ہے اورہم ایک زندہ شاہراہ پر مردہ قوم ہے۔
[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...
ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...
[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...
ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...
بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...
[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...
[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...
پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...
[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...
[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...
معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...
میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...