... loading ...
ایک اچھی زندگی موجود نہیں ہوتی، یہ مرحلہ وار ہوتی ہے۔ اسی لئے اچھی زندگی کو سمت میں ڈھونڈا جاتا ہے منزل میں نہیں۔ کاش زندگی کا یہ فلسفہ اجتماعی زندگی میں یاد رہتا۔ جمہوریت پسند ہی نہیں لوہے کی حکمرانی کے خواہاں بھی ایک طرح کے مغالطوں سے دوچار ہیں۔ منزل شاید دونوں ٹھیک دکھاتے ہیں مگر رخ دونوں کے ہی یقینا غلط ہیں۔امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے درست کہا تھا:
’’Efforts and courage are not enough without purpose and direction. ‘‘
(سمت اور مقصد کے بغیر کوششیں اور حوصلہ کافی نہیں ہوتا۔)
اگر جرائم سے نمٹنا اور دہشتگردی سے نجات قومی مقاصدہیں تو عزیر بلوچ کی گرفتاری کو ظاہر کرنے کا یہ مقصد ہر گز نہیں۔ یہ گرفتاری اس سمت کا پتہ نہیں دیتی۔ کون نہیں جانتا کہ اُسے پاکستان کے قومی اداروں نے جنوری 2015ء میں اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔ اب عزیر بلوچ کے جن سنگین جرائم کے سنسنی خیز انکشافات سے ذرائع ابلاغ اُبل رہے ہیں۔وہ تمام حقائق باخبر حلقوں کے علم میں پہلے سے تھے۔ اگر یہ انکشافات اپنے جرائم کی نوعیت اور حقیقت کی بنیاد پر کسی اقدام کا از خود میرٹ بنتے، تو اس کی تحریک تب ہی پیدا ہو جاتی۔ مگر مناسب وقت کے انتظار کی پُرانی روش نے ان تمام حقائق اور انکشافات کوالتوا میں ڈالے رکھا۔ اب عزیر بلوچ کو ایک ایسے وقت میں سامنے لایا گیا ہے جب سیاسی اور عسکری تعلقات ایک مرتبہ پھر ابترحالت میں ہے۔ پہلے مرحلے پر حکومت کی سب سے بڑی قوت منتشر کردی گئی ہے۔ یعنی سیاسی اقتدارکے لئے حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کا اتفاق۔اس اتفاق کو سب سے زیادہ تقویت مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کی ــ ’’مفاہمت‘‘ سے ملتی تھی۔ یہ مفاہمت چوہدری نثار اور خورشید شاہ نے خطرے میں ڈالی اور اب اِسے عزیر بلوچ کی ظاہر کردہ گرفتاری نے تصادم کا راستہ دکھا دیا ہے۔
گویا عزیر بلوچ کی گرفتاری اپنے اصل مقصد اور سمت سے کوسوں دور محض ایک سیاسی استعمال کے گورکھ دھندے میں تبدیل ہو گئی ہے۔ یہی تو مسئلہ ہے!پاکستان میں طاقت کے سیاسی اور عسکری مراکز ہر مسئلے کی تفہیم اور اُس کا استعمال ایک دوسرے کے خلاف قوت کی اسی نفسیات میں کرتے ہیں۔ اور یوں ہر مسئلہ اپنے اصل سلوک اور انجام سے محروم رہتا ہے۔ عزیر بلوچ کے ساتھ بھی یہی ہونے والا ہے۔
عزیر بلوچ لیاری امن کمیٹی یا لیاری گینگ وار کے جس گروہ کا سرغنہ تھا، وہ کوئی معمولی نوعیت کے جرائم یا دہشت گردی کے معاملات نہ تھے۔ اس کی نوعیت اور سائنس لرزادینے والی تھی۔ اس پورے عمل کی پیپلز پارٹی اور سرکاری اداروں کی طرف سے باقاعدہ ایک’’ ڈیسک‘‘ کے طور پر نگرانی کی جاتی تھی۔ لیاری ڈیسک کو ابتدا میں پیپلز پارٹی کی طرف سے ڈاکٹر ذوالفقار مرزا دیکھتے تھے، پھر یہ ذمہ داری اویس ٹپی (زرداری کے منہ بولے بھائی) نے اُٹھائی۔ اور اس ڈیسک کے آخری نگران قادر پٹیل تھے۔ لیاری گینگ وار کے بہیمت ، وحشت ، دہشت اور چنگیزیت کے جس چہرے سے اہلِ کراچی شناسا ہے اُس کے خال وخط کسی اور نے نہیں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے اُٹھائے تھے۔ مگر اس کے تمام اعترافات کے باوجود اُنہیں کوئی اس لئے نہیں چھیڑ سکتا ، کیونکہ وہ آج کے حالات میں سازگار ہیں۔ بعد ازاں جب اویس ٹپی کو لیاری ڈیسک دی گئی اور مرزا سے زرداری کے اختلافات بہت بڑھ گیے تو لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ کو یہ تبدیلی نہ بھائی۔ اُس نے مرزا کے ساتھ اپنے روابط مستقل برقرار رکھے۔ اور اویس ٹپی نے اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لئے کراچی پولیس کی طاقت کااستعمال کیا اور لیاری گینگ وار میں کچھ متوازی گروہوں کی سرپرستی شروع کی۔ اویس ٹپی اس پورے کھیل کو سمجھنے میں ناکام رہا تھا۔ تب تک عزیر بلوچ ایک بہت بڑی طاقت بن چکا تھا۔ اور ایسی طاقتیں نظام کے اندر موجود مستقل قوتوں کی سرپرستی کے بغیرپھل پھول نہیں سکتی۔ کسی نے کبھی اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا کہ آخر لیاری گینگ وار کا سرغنہ امریکا کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے امریکی قونصلیٹ کی دیواروں پر جھنڈے کیسے لگا آتا ہے؟ عزیر بلوچ سے ملنے والے تب چونک جاتے تھے ، جب وہ لیاری کی گلیوں میں اُس کے ہاتھ میں وائر لیس سیٹ دیکھتے تھے۔یہی نہیں نیٹو کے جن ٹینکرز کے غائب ہونے کے بہت چرچے ہیں، اُس میں بھی اسی عزیر بلوچ کا کردار تھا مگر اُس کے شریک جرائم اور بھی تھے، جن کا ذکر تک نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ عزیر بلوچ نے اپنی اسی ’’طاقت‘‘ کے بل بوتے پر اویس ٹپی کو قتل کرنے کی دھمکی دی تھی۔ اویس ٹپی کے بڑے پروٹوکول کی ایک بڑی وجہ یہ دھمکی بھی تھی۔اویس ٹپی کے کہنے پر جب چوہدری اسلم نے عزیر بلوچ کے خلاف آپریشن شروع کیا تو سات روز میں بیالیس جانیں لینے کے باوجود عزیر بلوچ کو چند قدم کے فاصلے پر سے گرفتار یا قتل نہیں کیاجاسکا تھا۔ کیا کوئی تصور بھی کرسکتا ہے کہ چوہدری اسلم نے اس آپریشن میں گینگ وار کے ایک دوسرے گروہ ارشد پپو کے مجرموں کو پویس کی وردی پہنا کر اس میں استعمال کیاتھا۔ اس طرح جرائم کے گروہ کبھی ختم ہو سکتے ہیں؟
عزیر بلوچ کے سنگین جرائم کبھی اہلِ کراچی بھول نہیں سکیں گے۔ جب اس سفاک نے کراچی کے بے گناہ نوجوانوں کو ویگنوں سے اغوا کرکے اُن کی عزت نفس کو اس طرح مجروح کیا تھا کہ مقامی شیدیوں کے ذریعے اُن کے ساتھ بدسلوکی کرائی جاتی اور اُس کی ویڈیو ز کو عام کیا جاتا۔ ایسے ہی ایک واقعے میں ایک نوجوان کے ساتھی کو اُ س کے سامنے قتل کردیا گیا تھا۔ اور دوسرے نوجوان کو لاش کے ساتھ جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جارہا تھا۔ چنگیز خان تو لاشوں پر قہقے اچھالتا تھا، مگر یہ کیسی وحشت کا مظاہرہ تھا،جس میں اس نوع کی زیادتی کے بعد اُ س کی ویڈیو بنا کر اُسے مشتہر بھی کیا جاتا۔ جب اس سوال پر خاکسار نے ایک دوست کے ذریعے عزیر بلوچ کی ذہنیت جاننا چاہی تو اُس نے یہ سن کر ہنستے ہوئے کہا کہ میں اردو بولنے والوں پر اپنی ایسی دہشت بٹھاؤں گا کہ وہ میرا صرف نام سن کر پیسے دیں گے۔ پھر ایسا ہی ہوا۔ کراچی میں کسی بھی دوسرے شخص نے اس طرح بھتہ وصول نہیں کیا جس طرح اُس نے کیا۔ اس نے باقاعدہ بھتے کو ایک صنعت کا درجہ دے دیااور علاقوں کو ’’فرنچائز‘‘ کی شکل میں تقسیم کیا۔ اس طرح وہ روزانہ صرف بھتے کی مد میں ایک کروڑ روپے وصولتا تھا۔ عزیر بلوچ بہیمت اور چنگیزیت کا چہرہ ہے۔ مگر اِسے کراچی میں مختلف سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں کی طرف سے مدد دی گئی۔ کچھ لوگوں کے لئے تو یہی بہت تھا کہ یہ ایم کیوایم کو نقصان پہنچارہا تھا۔ چنانچہ سندھی قوم پرست جماعتوں سے لے کر مقتدر قوتوں کے بعض شعبوں تک سب ہی اس کی مدد کر رہے تھے۔ پیپلز پارٹی بھی اسی لئے اسے ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی تھی، کیونکہ لیاری کی تمام صوبائی اور قومی نشستوں میں جیت کی واحد ضمانت عزیر بلوچ بن چکاتھا۔ بس یہی وہ ذہنیت ہے جس میں ہم اپنے مخالف کے خلاف ہر ایسی قوت کو گوارا کر لیتے ہیں جو اُس سے بھی زیادہ بھیانک چہرہ رکھتی ہو۔ یہی ماجرا عزیر بلوچ کی گرفتاری کے سیاسی استعمال میں بھی نظر آرہا ہے۔ غور سے دیکھئے! عزیر بلوچ کے حوالے سے سامنے آنے والے تمام انکشافات کی سمت پیپلز پارٹی کوشکار کرنے کی ہے۔ کہیں پر بھی جرائم کے خاتمے یا دہشت گردی سے نجات کی جستجو نظر نہیں آتی۔ اسی لئے تو وعدہ معاف گواہ کی بات ابھی سے سامنے آگئی ہے۔ عزیر بلوچ ایسے لوگ بھی اگر وعدہ معاف گواہ بنادیئے جائیں اور اُن کے لئے قانون وانصاف کا استعمال سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے ہونے لگے تو پھر اس ملک میں کبھی بھی جرم اور دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہو سکے گا۔ سمت اور مقصد ہی وہ ذرائع ہیں جو ہماری کوششوں اور حوصلوں کے متعلق رائے بناتے ہیں۔ اور یہ رائے اچھی نہیں۔ کیا قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس کا کچھ علم ہے؟
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...
کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...
کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...
[caption id="attachment_40669" align="aligncenter" width="640"] رابرٹ والپول[/caption] وزیراعظم نوازشریف کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا انمول تحفہ ملا ہے، جس کی مثال ماضی میں تو کیا ملے گی، مستقبل میں بھی ملنا دشوار ہوگی۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گِرد ایک ایسی دنیا تخلیق کر ل...