... loading ...
ہوا تھم گئی تھی۔ سانس لینے کی آواز معدوم ہو چکی تھی۔ ہماری آنکھیں آپریشن تھیٹر کے دروازے پر مرکوز تھیں۔ زندگی میں پہلی بار اپنے پیاروں کا چہرہ دیکھنے کا جی نہیں چاہ رہا تھا۔ ہم ایک دوسرے سے آنکھیں چرا رہے تھے۔ میں نے اپنے چہرے پر مصنوعی حوصلہ سجا رکھا تھا۔ اچانک آپریشن تھیٹر کے اندر سے بولنے اور چلنے کی آوازیں آنے لگیں۔ ہم سب مستعد، کھڑے ہو کر منتظر تھے۔ ڈاکٹر نے دروازے سے باہر قدم نکالا، تو میرے حوصلے کا بندھن ٹوٹ گیا۔ میں لپک کر اس سے اپنے بیٹے کی خیریت کا پوچھنا چاہتا تھا۔ لیکن جوں ہی میری ڈاکٹر سے نظریں چار ہوئیں، مجھے لگا میرا دل اپنی دھڑکن، بھول گیا ہے، میرا خون اپنی گردش بھول چکا ہے۔ میری آنکھیں پتھرا چکی ہیں۔ میں نے نہیں میری آنکھوں نے ڈکٹر کی آنکھوں کی جانب دیکھا۔
ڈاکٹر کے چہرے پر مایوسی تھی۔ بغیر کچھ کہے وہ، میرے شان کی موت کا پروانہ سنا رہا تھا۔ اسے کچھ کہنے کا موقع ہی نہ ملا۔ اسکی آنکھیں، اسکے ڈھلکے کندھے اورجھکا سر، اتنا ہی کافی تھا، میری بیوی نے فلک شگاف چیخ ماری، وہ ایسی چیخ تھی جو فرشتوں تک تو پہنچ گئی جو سات آسمانوں تک تو پہنچ گئی مگر اسلام آباد اور جی ایچ کیو کے دروازے تک نہ پہنچ سکی۔ میری ماں نے ماتم کرنا شروع کر دیا، اسکے ماتم کا ماتم بھی شاید اسکے سر سے زندگی میں پہلی بار لوگوں کے سامنے ڈھلکنے والا دوپٹہ بھی کر رہا ہو گا مگر اسکی آہ و بکا، اسلام آباد اور راولپنڈی میں کسی کے کانوں تک نہ پہنچ سکی۔ میرا آہنی اعصاب کا مالک باپ زندگی میں پہلی بار دھاڑیں مار مار کر رونے لگا، اسکے رونے پر پہاڑ بھی ابل پڑے ہوں گے مگر ہمارے پالیسی سازوں کے پتھر دلو ںمیں سوراخ نہ کر سکے۔ میرے بھائی اپنے بھتیجے پر آنسو بہانا شروع ہو گئے انکے آنسو خشک ہو جائیں گے مگر ہماری گلیوں میں بہتا خون خشک نہیں ہو گا۔ ۔ مگر میں ساکت تھا۔ میں شل تھا۔ میری آنکھیں پتھرا گئی تھیں۔ میرا رواں رواں، جامد تھا۔ میں نے اپنے سر پر ایک بے انتہا بھاری پتھر محسوس کیا، مجھے لگا، کہ میں کسی پہاڑ کے نیچے آ گیا ہوں۔ مجھے دنیا کی آوازیں آنا بند ہو گئی تھیں، میں اپنے دل کی دھڑکن صاف سن رہا تھا۔ مجھے یقین تھا ہو گیا کہ میں اب اسی طرح ہی رہوں گا۔ وہ چند لمحے وہ سکتے کے چند لمحے قیامت کی طرح طویل تھے۔ پھر شان ……میرے بیٹے شان کا چہرہ میرے سامنے آیا۔ وہ مسکراتا ہوا جا رہا تھا۔ اس نے منہ سے کچھ نہیں کہا مگر مجھے سنائی دیا کہ وہ مجھے خدا حافظ کہہ رہا ہے۔ ” ابو میں اس دنیا سے جا رہا ہوں۔ ” اسکی مسکراہٹ میں سکوں تھا، نور تھا۔ مگر اچانک اسکے سفید کپڑوں پر خون لگ گیا، وہ چیخنے لگا، بم کے ٹکڑے گولیوں کے شیل اسکے جسم میں پیوست ہونے لگے، اسکے جسم سے خون ابلنے لگا، وہ خون اسکی رگوں سے نہیں سٹریٹجک ڈیپتھ کی گہرائیوں سے نکل رہا تھا۔
میں اپنے معصوم بیٹے کی چھوٹی سی لاش کو اس سے کہیں بڑے تابوت میں ڈالے کندھا دئیے قبرستان کی جانب رواں دواں تھا۔ مجھے اسکے خون کی نمی تابوت سے ٹپکتی محسوس ہو رہی تھی۔ اسکا خون میرے کانوں میں سرگوشیاں کر رہا تھا، ابو مجھے کون مار گیا ؟مجھے کیوں مارا گیا ؟ شان کا خون میرے کانوں میں چیخ رہا تھا اور میں خاموش تھا۔ اب مجھے پوری عمر خاموش رہنا تھا۔ مجھے یاد نہیں کہ یہ کون سا شہر ہے ؟مجھے یہ بھی یاد نہیں کہ یہ کون سا راستہ ہے ؟ مجھے یہ بھی بھول گیا تھا کہ مجھے پرسہ دینے والے کون ہیں ؟ مجھے اتنا بھی احساس نہیں رہا تھا کہ میں چل رہا ہوں یا گاڑی میں ہوں ؟ مجھے اپنا آپ بھول گیا تھا مجھے صرف شان کی لاش یاد تھی۔ مجھے اسکا خون ابلتا جسم یاد تھا۔ اب میری زندگی کی یاد یہیں سے شروع اور یہیں پر ختم ہو جانی تھیں۔ ۔ میں جیسے خلا میں چل رہا تھا۔ میں ہوا سے بھی ہلکا پھلکا تھا۔ مگر میرے کندھوں پر زمینوں اور آسمانوں کا بوجھ تھا۔ میرے کندھے ہر قدم پر مزید جھک رہے تھے۔ اچانک سب کچھ تھم جاتا ہے۔ میرے کندھوں سے بوجھ کم ہو جاتا ہے لوگ میرے بیٹے کو دفنا رہے ہیں۔ لوگ اسکے تابوت پر مٹی ڈال رہے ہیں۔ میں نے نے مٹی میں ہاتھ ڈالا اور اسکی لاش پر ڈال دیا۔ وہ ایک مٹھی کی مٹی اسکی لاش پر نہیں میرے دل پر جا لگی۔ میرے دل میں ایک سوراخ مزید ہو گیا تھا۔
میں نے شان کو سکول ڈراپ کیا۔ لیکن مجھے اندازہ نہیں تھا میں اپنے بیٹے کی زندگی ڈراپ کر رہا ہوں۔ ہنستے کھیلتے، ہم سکول پہنچے، ہنستے کھیلتے خدا حافظ کر کے وہ اپنی کلاس روم کی جانب چل پڑا مگر اس بار ہمیشہ کیلئے، میں نے اسے الوداع کیا تو مجھے کیا معلوم تھا یہ خدا حافظ میری اور اسکی زندگیوں کا آخری خدا حافظ ہو گا۔ میں اسے چھوڑ کر اپنے دفتر پہنچا ہی تھا کہ سکول پر حملے اور فائرنگ کی خبریں آ گئیں۔ ٹینشن کا لفظ میری ڈکشنری میں نہیں تھا مگر اس دن احساس ہوا کہ دنیا میں اولاد کی جان سے بڑھ کوئی غم شاید پیدا ہی نہیں ہوا۔ میرا جسم یہ خبر سن کر ہی ڈھے گیا تھا۔ بھاگم بھاگ سکول پہنچے۔ میری بیوی میرے ساتھ تھی۔ قیامت کا آپ تصور کر سکتے ہیں تو کریں اس سے بڑھ کر قیامت کا منظر تھا۔ والدین کی چیخیں، ماؤں کا رونا، والدین کا فوجیوں، پولیس والوں سے سوال جواب کرنا، فائرنگ، دھماکوں کی آوازیں، میڈیا کے سوال، ہر طرف کیمرے، لاشوں کی لمحہ با لمحہ کوریج، زخمی بچے اور مردہ بچوں کی لاشوں کی آمد اور اس پر ہر والد اور ہر ماں کا کلیجہ منہ کو آجانا یہ تو فقط جملے ہیں جس نے محسوس کیا وہ قبر تک ان محسوسات کو ساتھ لے کر جائے گا۔ پھر میڈیا کے سامنے پریس کانفرنس ہوئی اور اس میں آپریشن کی کامیابی، دہشت گردوں کی موت، ان کے “بزدلانہ” حملے کی کہانی بتائی گئی۔ انکی کال کو ٹریس کرنے کا بتایا گیا۔ انکے حملے پر پہلے سے ہی انٹیلی جنس رپورٹ کے موجود ہونے کا بتایا گیا۔ پھر اس حملے میں چند بچوں کی “شہادت” اور” قربانی “کا بتایا گیا۔ ان شہیدوں کا جو نہ جنگ لڑنے گئے تھے نہ انہیں شہادت کے مفہوم کا علم تھا، نہ انکی قربانی کی نیت تھی نا وہ دے سکتے تھے۔ اگر تو یہ الفاظ حوصلے کیلئے تھے تو انسانی تاریخ میں اس سے بھیانک الفاظ ایجاد نہیں کے گئے۔ اور اگر یہ الفاظ اپنی کوتاہیوں پر پردہ پوشی کیلئے تھا تو اس میں وہ سرخرو ٹھہرے۔ میں اپنے زخمی بیٹے کی ایمبولنس میں بیٹھا تھا۔ میں معجزے کی دعا کر رہا تھا۔ اسی دوران ہم ہاسپٹل پہنچے۔ جو ادھم وہاں مچا ہوا تھا اسکے لئے کوئی نئی زبان کا ہونا ضروری ہے۔ ہم نے اپنے بیٹے کو ڈاکٹرز کے سپرد کیا۔ انہوں نے اسے گورکن کے سپرد کر دیا۔
میں اپنی لاش دفنا آیا ہوں۔ میرے کان میں کوئی گھنٹیاں سی بج رہی ہیں۔ انہی میں سے ایک آواز آتی ہے، انتقام انتقام انتقام!!!
کہنہ صدیوں کی زبوں و آزردہ اور افسوں و افسردہ خموشیوں سے ہم بولتے ہیں، ہم شرمندہ ہیں! ہم شرمندہ ہیں! اپنی ہی نقدِ عمر سے تم نے زندگی اُدھار مانگی تھی، مگر روحِ فرعونیت کے فرزندوں نے تمہیں وہ بھی دان نہیں کی۔تمہارے اختیار کے دیئے سے حیاتِ اضطرارکی لَو وہ بجھا گئے، تو کیا ہوا؟ موت ...
پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملے میں ملوت چار مجرموں کو خیبرپختونخوا کی کوہاٹ جیل میں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نےچاروں دہشت گردوں کے بلیک وارنٹ پر 30 نومبر کو دستخط کئے تھے۔ بعد ازاں سزایافتگان کی طرف سے رحم کی اپیل صدر مملکت ممنون حسین کو کی گئ...