... loading ...
پاکستان کی بری افواج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے مدتِ ملازمت میں توسیع کو مسترد کرتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ وہ مقررہ وقت پر ہی ریٹائرڈ ہوں گے انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ ایکسٹینشن پر یقین نہیں رکھتے۔
جنرل راحیل شریف پاکستان کے بری فوج کے 15ویں سربراہ ہیں․․․․․․جنرل راحیل چیف آف آرمی اسٹاف بننے سے قبل انسپکٹر جنرل ٹریننگ اینڈ اویلوئیشن کے عہدے پر فائز تھے ․․․․․․ وہ کور کمانڈر گوجرانوالہ اور پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول کے کمانڈنٹ کے عہدوں پر بھی کام کر چکے ہیں ․․․․․․1956 میں کوئٹہ میں پیدا ہونے والے جنرل راحیل شریف نے 1976 میں فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا تھا اور وہ 1971 کی پاک بھارت جنگ میں نشانِ حیدر پانے والے میجر شبیر شریف کے چھوٹے بھائی ہیں ․․․․․․وہ سینیارٹی میں تیسرے نمبر پر تھے جبکہ دوسرے سینیئر ترین جنرل راشد محمود کو پاکستانی افواج کا سب سے اعلیٰ مگر رسمی عہدہ چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی دیا گیا ہے ۔
ڈی جی آئی ایس پی آرمیجر جنرل عاصم باجوہ کی ٹویٹ کے بطن سے پیدا ہونے والے اہم سوالات یہ ہیں کہ آرمی چیف کو اس وضاحت کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ ․․․․․․ کیا ان کی یہ بات قبل ازوقت ہے․․․․․․؟کیا آرمی چیف خود یہ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ وہ ایک اہم ترین آپریشن ’’ضرب عضب‘‘ختم ہونے سے قبل اپنی کمانڈ چھوڑدیں․․․․․․کیاکورکمانڈرزکانفرنس میں اس فیصلے کو پذیرائی ملے گی؟کیا انہیں اتنی آسانی سے جانے دیا جائے گا ․․․․․․؟ ملک کی نازک ترین صورتحال میں اس فیصلے کو جہاں حیران کن قرار دیا جارہاہے وہیں بعض حلقے اندرونی طور پر خوش بھی ہیں ․․․․․․کہ چلو پھر عوامی مینڈیٹ کی آڑمیں ’’لوٹ مار‘‘ کاموسم آنے والاہے․․․․․․انہوں نے تو اُلٹی گنتی شروع بھی کردی ہے ․․․․․․ ایک بحث ختم ہوئی تو دوسری شروع ہوچکی ہے ․․․․․․ٹاک شوز کو نیا ’’مصالحہ‘‘مل چکا ہے ․․․․․․اس معاملے پر بہت سیاست ہوئی کوئی کہتا تھا آرمی چیف پروفیشنل سولجر ہیں ایکسٹینشن نہیں لیں گے ․․․․․․لیکن کوئی یہ بھی تو بتائے کہ ’’آپریشن ضربِ عضب‘‘کس نے شروع کیا ․․․․․․؟ہم تو یہی فیصلہ نہیں کرپارہے تھے کہ اچھے طالبان بھی ہوتے ہیں اور برے طالبان بھی ․․․․․․کس نے شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستا ن میں تابڑ توڑ حملے کرکے دہشت گردوں کو گھٹنوں کے بَل بٹھایا ․․․․․․؟لیکن ابھی آپریشن ختم نہیں ہوا ․․․․․․اور مریض اگر ’’ ٹیبل‘‘پر پڑا ہو تو سرجن بھی ’’آپریشن ‘‘چھوڑ کر نہیں جاتا․․․․․․آرمی پبلک اسکول پر حملے سے چارسدہ یونیورسٹی پر حملے تک پورا ملک غیر معمولی حالات سے گذر رہا ہے ․․․․․․حملے کم ضرور ہوئے ہیں لیکن ختم نہیں ہوئے ․․․․․․اور ایک پروفیشنل سولجر کبھی کام ادھورا نہیں چھوڑتا․․․․․․ایکسٹینشن لینا غیر آئینی نہیں ․․․․․․جس ملک میں ’’نظریہ ضرورت‘‘ آزادی کی گولڈن جوبلی منانے تک بھی جاری ہو وہاں بگڑتے حالات کو قابو میں رکھنے والے جنرل کی کچھ مزید عرصے کیلئے ضرورت کیوں نہیں ہوسکتی ؟۔
آرمی چیف کے فیصلے سے ایک حلقہ تو شادمان ہے لیکن 20کروڑ عوام غیر یقینی کیفیت میں مبتلا ہوچکے ہیں ․․․․․․حیرت انگیز طور پر خوش ہونے والوں میں حکومت اور اپوزیشن دونوں جانب کے لوگ شامل ہیں ․․․․․․ان میں کرپشن کے بانی بھی ہیں اور اسے فروغ دینے والے ابھی ۔
ملک کے حالات ایسے نہیں جیسے ہونے چاہئیں․․․․․․افغانستان سے دہشت گردوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے․․․․․․ بھارت کے مختلف وزراء گیدڑبھپکیاں دینے میں مصروف ہیں ․․․․․․ سعودی عرب اور ایران میں بھی کشیدگی ابھی ختم نہیں ہوئی ․․․․․․شمالی علاقہ جات سے کراچی تک آپریشن جاری ہے ․․․․․․ اندرونی و بیرونی دونوں حالات موافق نہیں کہ ایک ’’دبنگ جنرل‘‘اچانک چلا جائے ․․․․․․اس ملک کی بدقسمتی دیکھئے نہ وزیر داخلہ ’’فل ٹائم‘‘میسر ہے اور نہ ہی وزیر خارجہ ․․․․․․وزیر اعظم تو رہتے بیرون ممالک میں ہیں کبھی کبھار پاکستان کے دورے پر آتے ہیں جبکہ صدر مملکت کا عہدہ موجودہ عہد میں صرف اس لئے ہے کہ کہیں خالی ایوان صدرپر لینڈ مافیا قبضہ نہ کرلے۔
پاکستان میں نئے آرمی چیف کی تقرری کا مرحلہ ہمیشہ عزت و احترام کے ساتھ طے ہوا ․․․․․․اور نئے آرمی چیف کی تقرری قومی اتفاقِ رائے کی علامت سمجھی گئی ․․․․․․اور کبھی اخبارات کی زینت نہیں بنی ․․․․․․کیونکہ اس سے قومی یکجہتی کیساتھ ادارے کی ساکھ بھی متاثر ہوتی ہے ․․․․․․سیاستدانوں کی چالاکی دیکھئے کہ کرپشن کی وجہ سے عوام میں مقبولیت کھوجانے اور آرمی چیف کی مقبولیت بڑھ جانے پر یہ بحث چھیڑ ڈالی ․․․․․․چند عناصر نے اس کیلئے ’’نوکری‘‘کا لفظ استعمال کیا گوکہ یہ لفظ بُرا نہیں لیکن اس کے پیچھے کی ذہنیت ضرور ’’بُری‘‘ہے ․․․․․․ورنہ کون نہیں جانتا کہ پاکستان میں آئینی لحاظ سے صدر اور وزیر اعظم کے عہدے باوقار ضرور ہوں لیکن طاقت کا مرکز آرمی چیف کو سمجھا جاتا ہے․․․․․․فضائیہ اور ایئر فورس کے سربراہان کو بھی پاکستان میں اتنی مقبولیت نہیں ملتی جتنی بری فوج کے سربراہ کے حصے میں آتی ہے ․․․․․․اسی لئے اگلے چیف آف آرمی اسٹاف کی تین سالہ تقرری اور جانے والے کی ریٹائرمنٹ کے بارے میں باتیں بہت پہلے سے شروع ہوجاتی ہیں․․․․․․اور افواہوں کا بازارسردی میں بھی گرم ہوجاتا ہے۔
پاکستان کے عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ لوٹ مار اور لاقانونیت کے جس طوفان سے سندھ بچ کر نکلا ہے اس کے بعد پنجاب کا نمبر بھی آنے والا ہے․․․․․․اور اس تمام لڑائی کا سپہ سالار کون ہے․․․․․․ ؟کیا قوم اتنی آسانی سے اپنے ہیرو کو گھر جانے دے گی ․․․․․․؟قومی خزانے میں نقب لگانے والے اور آنکھوں میں دھول جھونک کر عوام کی جیبیں خالی کرنے والے یہ لیڈران کیا واقعی اتنے طاقتور ہیں کہ وہ ’’عظیم الشان ہیرو‘‘کوگھر جانے پر مجبور کردیں․․․․․․اور قوم ایک بار پھر بھیڑیوں کے چنگل میں آجائے ․․․․․․ابھی تو کورکمانڈر کے اجلاس میں یہ فیصلہ ہونا ہے کہ فوج کا آئندہ ’’لیڈر‘‘کون ہوگا․․․․․․؟اگر کورکمانڈرز نے موجودہ چیف کے نام پر اتفاق کرلیا تو کیا حکمران پھر بھی اکتوبر1999والی غلطی دہرائیں گے ․․․․․․اور اگر ایسا کیا گیا تو ان کے ہاتھ کیا آئے گا ․․․․․․؟وزیر اعظم نواز شریف کی قسمت تو دیکھئے کہ انہیں ایک اور’’ شریف ‘‘مل گئے․․․․․․یہ مرحلہ شیر کی سواری کرنے والا نہیں بلکہ شیر کی سواری کے بعد زندہ اترنے کا ہے ․․․․․․اب تک آرمی چیف کی ایکسٹینشن پر بحث ہوتی رہی اب ایک جانب سے کھلا اعلان ہوچکا ہے ․․․․․․اوردوسری جانب خاموشی چھاگئی ہے ․․․․․․گیند اب حکومت کی کورٹ میں ہے ․․․․․․دیکھتے ہیں کہ اس لڑائی میں جیت کس کی ہوتی ہے اور کون سرینڈر کرتا ہے ․․․․․․؟ابھی تو صحیح طریقے سے لڑائی ہی شروع نہیں ہوئی ․․․․․․یہ دماغ کے کھیل ہیں اور اس کے کئی داؤ پیچ ابھی دماغوں سے باہر آنا باقی ہیں ․․․․․․آرمی چیف کا یہ فیصلہ نومبر2016سے پہلے انہیں اتنا مقبول بنادے گا کہ ایک اور اہم اور’’عوامی فیصلہ ‘‘سامنے آجائے گا۔آخرمیں معروف انقلابی شاعر حبیب جالب کی نظم کے چند حسب حال اشعار پیش خدمت ہیں۔
ایم کیو ایم کی حالت اِس وقت ایسی ہے جو سونامی کے بعد کسی تباہ شدہ شہر کی ہوتی ہے... نہ نقصان کا تخمینہ ہے نہ ہی تعمیر نو کی لاگت کا کوئی اندازہ ...چاروں طرف ملبہ اور تصاویر بکھری پڑی ہیں۔ ایم کیو ایم میں ابھی تک قرار نہیں آیا... ہلچل نہیں تھمی... اور وہ ٹوٹ ٹوٹ کر ٹوٹ ہی رہی ہے۔ ...
کراچی میں دو دن میں اتنی بڑی تبدیلیاں آگئیں کہ پوراشہر ہی نہیں بلکہ ملک بھی کنفیوژن کا شکار ہوگیا۔ پاکستان کے خلاف نعرے لگے، میڈیا ہاؤسز پر حملے ہوئے، مار دھاڑ کے مناظر دیکھے گئے، جلاؤ گھیراؤنظر آیا اور بالآخر ایم کیو ایم کے اندر ایک بغاوت شروع ہوگئی۔ فاروق ستار نے بغیر کسی مزاحم...
وزیراعظم صاحب نے ایک بار پھر یاد دلادیا کہ کراچی لاوارث یتیم لاچاراوربے بس شہر ہے...کراچی کے مختصر ترین دورے کے دوران نواز شریف صاحب نے نہ ایدھی ہاؤس جانے کی زحمت گوارا کی نہ امجد صابری کے لواحقین کودلاسہ دیا۔ جس لٹل ماسٹر حنیف محمد کو پوری دنیا نے سراہا ،نواز شریف ان کے گھر بھی ...
ماضی کا ایک مشہور لطیفہ ہے۔ ایک افغان اور پاکستانی بحث کر رہے تھے۔ پاکستانی نے افغان شہری سے کہا: ’’تم لوگوں ‘‘کے پاس ٹرین نہیں تو ریلوے کی وزارت کیوں رکھی ہوئی ہے؟ افغان نے جواب دیا: ''تم لوگوں کے پاس بھی تو تعلیم نہیں پھر تمہارے ملک میں اس کی وزارت کا کیا کام ہے۔ کراچی اور ح...
نئے وزیر اعلیٰ مرادعلی شاہ کے تقرر سے سندھ عملی طور پردو حصوں میں تقسیم ہوگیا ہے۔۔۔۔۔سندھ میں ’’خالص سندھی حکومت‘‘قائم ہوچکی ہے۔۔۔۔۔پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے 1972ء کے لسانی فسادات کے بعد یہ تسلیم کیا تھا کہ سندھ دو لسانی صوبہ ہے اور سندھ میں آئندہ اقتدار کی تقسیم ا...
سندھ حکومت کو مشورہ دیا گیا کہ وزیرداخلہ کو فارغ کردو، اس پر فلاں فلاں الزام ہے۔ الزامات کا تذکرہ اخبارات میں بھی ہوا۔ لاڑکانہ میں رینجرز نے وزیر داخلہ کے گھر کے باہر ناکے بھی لگائے، ان کے فرنٹ مین کو قابو بھی کیاگیا، لیکن رینجرزکی کم نفری کا فائدہ اٹھاکر، عوام کی مدد سے، سندھ...
پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے خورشید شاہ نے ایک عجیب و غریب اور ناقابل یقین بیان دیا کہ سندھ میں امن پولیس نے قائم کیا ہے اور باقی کسی ادارے کا اس میں کوئی کردار نہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ رینجرز کو اختیارات ضرور دیں گے مگر قانون اور قواعد کی پابندی کرتے ہوئے، انہوں نے رینجرز ...
عید گزر گئی ۔۔۔۔۔کہا جارہا تھا کہ ’’کراچی آپریشن‘‘کی رفتار ’’بلٹ ٹرین‘‘کی طرح تیز ہوجائے گی ۔۔۔۔۔دہشت گردوں کا گھر تک پیچھا کرکے انہیں نیست و نابود کردیا جائے گا لیکن ایسا ’’گرجدارآپریشن ‘‘فی الحال ہوتا نظر نہیں آرہا۔۔۔۔۔ پھر یہ بھی کہا گیا کہ وفاق میں ’’سیاسی آپریشن‘‘ہوگا۔۔۔۔۔ ا...
عبدالستارایدھی کی وفات نے کراچی میں خوف کی فضا طاری کردی ۔ غم کے بادل چھا گئے ہیں ۔پورا شہر ہکا بکا ہے کہ اس شخص کا سوگ کیسے منائیں جو اپنا نہیں تھا لیکن اپنوں سے بڑھ کر تھا ۔ اس کی موجودگی سے ایک آسرا تھا، ایک امید بندھی ہوئی تھی۔عبدالستار ایدھی ایک شخص کا نام نہیں، کراچی میں اس...
پاکستان کے چار روزہ دورے پر آئے امریکی وفد کے سربراہ جان مکین نے دہشت گردی کے خلاف پاکستانی کردار کی تعریف کرتے ہوئےشمالی وزیرستان اور اس کے اطراف کے علاقوں کی سلامتی کی صورت حال کو اطمینا ن بخش قرار دیا ہے۔امریکی سینیٹر جان مک کین نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران سیاسی و عسکری قیاد...
کراچی میں دو دن بارش کیا ہوئی‘ سندھ حکومت کی کارکردگی ’’دھل‘‘ کر سامنے آگئی۔ برسوں سے بارش کو ترسے کراچی والے خوش تھے کہ بارش ہو گئی... شہر چمک جائے گا... آئینہ بن جائے گا‘ لیکن افسوس صد افسوس! عوام کے ارمان خاک میں مل گئے۔ بارش میں نہانے کے خواب... سیر و تفریح کے منصوبے... شاپنگ...
کبھی حکیم محمد سعید تو کبھی مولانا یوسف لدھیانوی، کبھی مفتی نظام الدین شامزئی تو کبھی علامہ حسن ترابی، کبھی چوہدری اسلم تو کبھی سبین محمود،کبھی پروین رحمن تو کبھی پروفیسر شکیل اوج، کبھی ولی خان بابر تو کبھی پروفیسر یاسر رضوی ،اور اب امجد فرید صابری کراچی کی سڑکوں پر رقص کرتی موت ...