... loading ...
جنرل راحیل شریف کی توسیع کے معاملے کو دراصل سیاسی حکومت نے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کاایک گورکھ دھندہ بنایا۔ یہ طاقت سے نہیں ایک طاقت ور کردار سے چھیڑ چھاڑ تھی۔ کیا وزیر اعظم نے کہیں میکاؤلی کو بھی سن رکھا ہے جو کہتا ہے:
’’Politics have no relation to morals.‘‘
(سیاست کا اخلاقیات سے کوئی رشتہ نہیں)
مگر حکمرانی کے کھیل میں یہی چیز درکار ہے۔صرف ووٹ نہیں اخلاقی اعتبار ہی حکومت کو کارگزار رہنے کی عوامی سند بھی دیتا ہے۔ چنانچہ دنیا بھر کی جمہوریتوں میں حکمرانوں کے لئے اُن کی اتھارٹی پر اخلاقی اعتبار کی ایک خاموش نگرانی بھی ہوتی ہے۔ اور اُن پر تنقید اور بیزاری کا آخری فقرہ اسی دلیل سے تراشا جاتا ہے کہ حکومت اپنا اخلاقی جواز کھو چکی ہے۔ اگرچہ یہ فقرہ جمہوری طرزِ حکومت میں ووٹ کی متعین حیثیت کے خلاف کوئی تبدیلی نہیں لا سکتا مگر یہ عوام کے فیصلوں پر بُری طرح اثرانداز ہونے کی قوت رکھتا ہے۔ اسی لئے اس فقرے کا استعمال تقریبا ہر قسم کے معاشرے میں نظر آتا ہے۔ اس فقرے کا آخر مطلب کیا ہے؟ حکمرانی اخلاقی اعتبار کا دراصل دوسرا نام ہے۔ کیا نوازشریف کی حکومت اب یہ اخلاقی اعتبار رکھتی ہے؟ نواز حکومت نے اب تک ملکی معاملات میں جو کچھ جمہوریت کے نام پر روا رکھا ہے ، وہ یہ سمجھنے کے لئے کافی ہے کہ اُن کے نزدیک جمہوریت کا آخری مطلب، آخر کیا ہے۔ وہ ایک ایسی جمہوریت کے لئے کوشاں ہیں جو دراصل اُنہیں فوج کے مقابل اقتدار کا جواز دے مگر یہ عوام ، احتساب، اقتدار کی تحدید وتوازن (چیک اینڈ بیلنس)، دستوری تقاضوں اور نگرانی کے تمام تسلیم شدہ معیارات سے مبر ا ہو۔ یہ ایک ایسی جمہوریت ہو، جس میں اُن سے یہ سوال نہ پوچھا جاسکتا ہو کہ ایک سیاسی جماعت کسی خاندان کی تحویل میں کیسے ہو سکتی ہے، ووٹ کی تقدیس کا مطلب صرف عام انتخابات ہی کیوں ہے، یہ جماعتی انتخابات تک محیط کیوں نہیں، یہ بلدیاتی انتخابات میں عام لوگوں تک تقسیم اختیارات کے اُصول کو تقویت دینے کے لئے کیوں نہیں؟ کیا جمہوریت کی بالادستی کا پورا گیت صرف فوجی بالادستی سے بچنے کا ایک سیاسی ہتھکنڈہ نہیں ہے؟ پاکستان میں تو اس کا کم ازکم مطلب یہی رہ گیا ہے۔ چنانچہ ان سیاست دانوں نے اب تک جو سیاست کی ہے وہ امریکی مزاحیہ اداکار گروشو مارکس کے ان الفاظ پر سنجیدگی سے متوجہ کرتے ہیں کہ
Politics is the art of looking for trouble, finding it everywhere, diagnosing it incorrectly and applying the wrong remedies.
( سیاست دراصل ایک فن ہے جس میں مسائل کو پہلے سے دیکھا ، ہر جگہ ڈھونڈاجاتا ہے۔پھر اسی کی غلط
تشخیص کی جاتی ہے، اور پھر اس میں غلط دوائیاں دی جاتی ہیں۔)
نواز حکومت نے اب تک پوری مہارت سے یہی کچھ کیا ہے اور اب وہ اِسی مہارت کو جنرل راحیل شریف کی مدت ِ ملازمت میں توسیع کے معاملے پر بھی استعمال کرنے لگی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاسی اور عسکری تعلقات اپنے تصادم کی مکمل نفسیات کے ساتھ پاکستان کا ایک مستقل مسئلہ ہے۔ مگر اس کے حل کا طریقہ کیا ہے؟ امریکی فوج کے سابق سربراہ جارج سی مارشل نے ایک موقع پر کہاتھا کہ
’’Don’t fight the problem, decide it.‘‘
مگر نواز حکومت نے فوج کے ساتھ مسائل کو حل کرنے کے بجائے توسیع کے مسئلے پر اسے مزید الجھایا۔ اور اِسے اپنے خاموش عزائم کی تہہ داریوں میں ایک تنازع بنانے کی حد تک پرورش دی۔پاک فوج کے ترجمان جنرل عاصم سلیم باجوہ کے ٹوئٹر ہینڈل کی حرکت تک یہ تنازع اپنے کڑے نتائج پیدا کرنے لگا تھا۔ جنرل راحیل شریف ایک متحرک فوجی سربراہ کے طور پر سپاہیوں کے درمیان رہتے تھے۔ اور ہر مسئلے پر سب سے پہلے قدم اُٹھانے کی شہرت پیدا کرچکے تھے۔ تب تمام عوامی جائزے اُنہیں پاکستان کی سب سے مقبول شخصیت قرار دے رہے تھے۔ پاکستانی سیاست دان جو ہر اس قسم کی سرگرمی کو متوازی طور پر لینے کے بجائے مقابل طور پر لینے کی جنگجویانہ صلاحیت رکھتے ہیں، کافی بے چین دکھائی دیئے۔دوسری طرف غیر ضروری طور پر جنرل راحیل شریف کی’’ اوور مارکیٹنگ ‘‘بھی ہوئی، جس کا فائدہ سوشل میڈیا پر حکمران جماعت کی متحرک ٹیم نے اُٹھایا اور شکریہ راحیل شریف کو ایک مزاق بنا کررکھ دیا۔ اداروں کی سطح پر یہاں احتیاط برتنے کی ضرورت تھی ۔ مگر پھر بھی ’’اوور مارکیٹنگ‘‘ کی جاتی رہی۔ احتساب کے معاملے میں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے تحفظات ہی نہیں عزائم بھی یکساں نوعیت کے ہیں۔ مگر دوسری طرف اس سے نمٹنے کے لئے غوروفکر کم اور گھن گرج زیادہ دکھائی گئی۔ اطالوی موجد ومصور لیونارڈوڈاونچی کی یہ بات یاد رکھے جانے کے قابل تھی کہ
’’ Nothing strengthens authority so much as silence‘‘
( اٹھارٹی کو خاموشی سے بڑھ کر کوئی چیز مضبوط نہیں بناتی)
امریکی دورے میں جنرل راحیل شریف کو کافی پریشان کیا گیا۔ اُن کے دورے سے قبل ہی یہ خبر وائس آف امریکا کی زینت بنائی گئی کہ یہ دورہ امریکی دعوت پر نہیں ، خود اُن کی خواہش پر ترتیب دیا گیا ہے۔ یہ ایک کھلواڑ تھااور اس کا ایک پس منظر بھی تھا۔ دراصل جنرل راحیل شریف کے دورۂ امریکا سے ذرا پہلے وزیراعظم نوازشریف نے امریکا کا دورہ کیا تھا ۔اُس وقت پاکستانی ذرائع ابلاغ میں بار بار یہ کہا گیا کہ اصل دورہ تو بعد میں فوجی سربراہ کا ہوگا۔ یہ ایک خطرناک اور متوازی نوعیت کی اقتدار کی تشریح ہے جو پاکستان میں جاری رہتی ہے۔کتنی جلدی سیاست دانوں نے بھانپ لیا تھا کہ فوجی سربراہ پیش قدمی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ چنانچہ اُن کی اس صلاحیت کو قومی مسائل حل کرنے کی طاقت بنانے کے بجائے اُن کی مقبول شخصیت سے کھیلنے کا ہتھیار بنایاگیا۔ چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی پر حملے کے بعد افغانستان سے بات کرنے کے لئے وزارت خارجہ آخر کیوں حرکت میں نہیں آئی؟ تب ترتیب میں ناظم الامور کی طلبی پہلے ہونی چاہئے تھی اور فوجی سربراہ یا کسی اور سطح پر براہِ راست بات چیت بعد میں کی جانے چاہئے تھی۔ مگر ایسا کوئی غوروفکر نہیں کیا گیا۔اور افغان صدر کے ترجمان نے فوجی سربراہ کی طرف سے بات کرنے کے بعد جو ردِ عمل دیا وہ اشتعال انگیز تھا۔ عسکری اور سیاسی چپقلش کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ یہ عالمی اور علاقائی معاملات میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ فریق بن کر دکھائی دیتی ہے۔ اور ایک دوسرے کے لئے پیدا کی جانے والی شرمندگی کو ملکی سطح کی سیاست میں طاقت کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ کیا اس سے بدتر کوئی چیز ہو سکتی ہے؟اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ افغانستان سے بھی ہمیں بھارت کی طرح جواب آنے لگے ہیں۔
یہ وہ پھیلا ہوا تناظر تھا جس میں نوازحکومت فوجی سربراہ کی مدت ملازمت کا راگ قبل ازوقت الاپ رہی تھی۔ جسے خود فوج کے اندر منفی نقطہ نظر سے دیکھا جارہا تھا۔ اب کوئی اسے فوجی ترجمان کی وضاحت سمجھ رہا ہے، تو سمجھے، مگر یہ دراصل وضاحت نہیں ردِ عمل ہے۔ زیادہ بہتر لفظوں میں ایک شٹ اپ کال بھی۔ دو امریکی صدور کے ساتھ کام کرنے والے امریکی فوج کے سربراہ ، دوسری جنگ عظیم کے عسکری قائد اور سرد جنگ کی اہم شخصیت جارج سی مارشل نے کہاتھا کہ
’’I can’t expect loyalty from the army if I do not give it.‘‘
(میں فوج سے وفاداری کی توقع تب تک نہیں کر سکتا جب تک کہ میں خود اُس سے وفانہیں کرتا)
پاکستان کے سیاسی حکمرانوں کو اس فقرے کے آئینے میں اپنی شکل ایک بار ضرور دیکھنی چاہئے۔
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...
کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...
یہ شاندار بات ہے کہ آپ نے مختصر سفر کے دوران مستحکم معاشی پوزیشن حاصل کرلی،کرسٹین لغرادکا وزیر اعظم سے مکالمہ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹرنے شرح نمو میں اگلے سال مزید کمی ہونے کے خدشات کابھی اظہار کردیا عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لغرادگزشت...
پانامالیکس کی عدالتی کارروائی میں پیش رفت کو حزب اختلاف کے تمام رہنماؤں نے بہت زیادہ اہمیت دی ہے،معاملہ معمول کی درخواستوں کی سماعت سے مختلف ثابت ہوسکتا ہے عمران خان دھرنے میں دائیں بازو کی جماعتوں کولانے میں کامیاب ہوگئے تو یہ دھڑن تختہ کاپیش خیمہ ہوسکتا ہے،متنازعخبر کے معاملے ...