... loading ...
مارک ہینبری بوفوائے (Mark Hanbury Beaufoy) ایک برطانوی سیاستدان تھا ، وہ انتہائی مشاق نشانے باز اور اپنے زمانے کا مشہور شکاری تھا وہ دنیا کا پہلا شخص تھا جس نے آتشیں اسلحے کے مضمرات سے تحفظ کے اصول وضع کئے ، اس کا تحریر کردہ مسوّدہ 1902میں شائع ہوا جسکا عنوان تھا A Father’s Advise یعنی ایک باپ کی نصیحت ۔ مارک نے گن سیفٹی کے جو اصول دنیا کے سامنے پیش کئے ان میں اہم ترین یہ تھا
Never Point a gun at anything you donot wish to shoot.
یعنی’’ کسی ایسی شے کو کبھی نشانے کی زد پر نہ لو جس پر آپ گولی چلانا نہیں چاھتے۔‘‘
مارک کے بعد گن سیفٹی کے حوالے سے آگہی بڑھتی گئی اور دنیا بھر میں مختلف اداروں اور تنظیموں نے گاہے بگا ہے بندوق رکھنے والوں کی رہنمائی کیلئے تجاویزشائع کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ، اسپورٹنگ شوٹرز ایسوسی ایشن آف آسٹریلیا نے بھی اس حوالے سے ایک نکاتی منشور تیار کر رکھا ہے جسکا سب سے اہم نکتہ ہے کہ
The Trigger should never be pulled untill the identity of thing fired upon has been established beyound any doubt.
یعنی ’’ٹریگر پر انگلی کو اس وقت تک جنبش نہیں دی جانی چاہیے جب تک جسے نشانہ بنایا جا رہا ہے اسکی شناخت کسی شک وشبے سے بالاتر نہ ہو جائے۔‘‘
گن سیفٹی دنیا کا ایک سنگین مسئلہ ہے چہ جائیکہ ذاتی ہتھیار رکھنا ایک انفرادی عمل ہے مگر اس کے دائرے صبح کی دھوپ کی طرح پھیلنا شروع ہو تے ہیں اور پھر ملکوں کے درمیان ہتھیاروں کی دوڑ تک جا پہنچتے ہیں ۔عالمی اداروں کی درجہ بندی کے مطابق دنیا بھر میں فی سو افراد ہتھیاروں کی موجودگی کی شرح امریکا میں سب سے بلند ہے جہاں ہر سو افراد کے استعمال کیلئے اوسطاً 112آتشیں ہتھیار موجود ہیں ۔ امریکا میں ان ذاتی ہتھیاروں سے قتل ہونے والے افراد کی تعداد سالانہ ایک لاکھ سے زائد ہے ۔ ذاتی ہتھیار رکھنے کا یہ حق امریکا کے ہر شہری کو 1791میں منظور کئے گئے اس ’’بل آف رائٹس‘‘ کے تحت حاصل ہے جو امریکا کے آئین کا نا قابل تنسیخ حصّہ ہے تاہم موجودہ امریکی صدر بارک اوباما اپنے خصوصی صدارتی اختیارات کے ذریعے ہتھیاروں کی انفرادی خرید و فروخت کی روک تھام کے حوالے سے اصلاحات کرنے پر کمر بستہ ہیں ۔ انکا کہنا ہے کہ آج تک لڑی جانے والی تمام جنگوں میں اتنے امریکی قتل نہیں ہوئے جتنے خود اس ’’رائٹ ٹو کیری آرمز‘‘(بندوق برداری کے حق) کی وجہ سے مارے گئے ہیں ۔
ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹینیٹ جنرل عاصم باجوہ جب باچا خان یو نیورسٹی پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کے سہولت رسانوں کی ’’کہانی‘‘ میڈیا کے سامنے پیش کر رہے تھے تو بارک اوباما کی اس حالیہ تقریر کے اقتباسات ذہن میں تازہ ہو گئے جو انہوں نے گن سیفٹی یا فائر آرمز وائیلینس کے حوالے سے 5جنوری کو وہائٹ ہاؤس کے ٹاؤن ہال میں کی۔جنرل باجوہ نے بتایا کہ چارسدہ کے حملہ آ وروں کے ایک سہولت رساں کی بیوی اور بھانجی بازار سے کلاشنکوفیں خرید کر اپنے برقعوں میں چھپا کر لائیں۔ اب بتائیے سننے میں ایسا نہیں لگتا کہ جیسے حلوائی کی دکان سے گرما گرم جلیبیاں خرید کر لانے کا تذکرہ ہو رہا ہے۔ سہولت رسانی کی یہ صورت گری بذات خود ناکامی کی ایک داستان نہیں کہ کیسے چار دہشت گرد طورخم کے بارڑر سے ملک میں داخل ہوتے ہیں ، دورات ایک مکان میں قیام کرتے ہیں ، ایک مستری انہیں ٹارگٹ کی تمام جزیات سے آگاہ کرتا ہے ، دوسرا ان کیلئے ریکی کرتا رہتا ہے ، تیسرا ایک رکشے میں بٹھا کر پاس چھوڑ جاتا ہے ، ہتھیار خواتین خرید لاتی ہیں اور کشت و خون کا بازار گرم ہو جاتا ہے ۔ ریاستی ادارے شاید دشمن کے بچوں کو پڑھانے میں مصروف تھے اور دشمن اسکول تو
کیا، کالج بھی چھوڑ سیدھا یونیورسٹی جا پہنچا، بس اب پی ایچ ڈی کی ڈگری لینا باقی ہے۔16دسمبر اور 20جنوری میں فرق ہے تو محض لاشوں کی تعداد کا ورنہ حزن دونوں کا مساوی ہی ہے تو پھر کیا ہو گا کیا ایک اور گانا ریلیز کرنے کی تیاری کی جائے گی؟
چار ،چھ یا دس خودکش حملہ آوروں کو مار دینا کامیابی نہیں نہ ہی ان کے معمولی معاونین کا گرفت میں آجانا کوئی بڑا کارنامہ ہے کارنامہ تو تب ہو جب کبھی حوروں کا لالچ، کبھی غربت کا فائدہ اٹھا کر اور کبھی انتقام کی آگ بھڑکا کر قبائلی علاقوں کے نوجوانوں کو استعمال کرنے والے ماسٹر مائنڈز ہاتھ لگیں۔کہتے ہیں عقل بادام کھانے سے نہیں ٹھوکر کھانے سے آتی ہے۔ قبائلی علاقے آج 70سال بعد بھی اسی بندوبست سے چلائے جارہے ہیں جو گوری چمڑی والے آقاؤں نے کر رکھا تھا ، ذاتی ہتھیار رکھنا بنیادی حق ہے اور آتشیں ہتھیاروں کی خرید وفروخت ایسے کی جاتی ہے جیسے مہذب آبادیوں میں دودھ بکتا ہے ، ڈھائی ہزار کلو میٹر طویل سرحد پر آمد ورفت کی روک تھام کا کوئی باضابطہ بندوبست نہیں اور 20لاکھ افغان باشندے وطن کی چھاتی سے پہلوٹی کے بچے کی طرح شیر مادر کشید کرنے میں مصروف ہیں ۔کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ نجانے عقل کب آئی گی۔ نہیں حضور معصوم بچوں اور پلے پلائے جوانوں کے لواحقین کو شہادت کے سرٹیفیکیٹس جاری کردینے اور معاوضے کے چیکس تھمادینے سے بات ختم نہیں ہو جاتی ، معاشرے کی بقا انصاف میں ہے اور انصاف کے تقاضے پورے ہوتے کہیں دکھائی نہیں دے رہے ۔
سوشل میڈیا پر ایسے درجنوں ویڈیو کلپس موجود ہیں جن میں قبائلی علاقوں کے متاثرین دُہائیاں دیتے دکھائی دیتے ہیں ، پاک فوج کے جیٹ طیاروں نے مظلوم قبائلیوں پر آسمان سے بارود کی بارش کا جو سلسلہ جاری رکھا ہو ا ہے وہ دہشت گردی کو کبھی ختم نہیں کر سکتا ۔ بندوق کے زور پر امن قائم کرنے کی کوشش محض عارضی نتائج ہی دے سکتی ہے مگر ظلم کی نئی داستانیں انتقام کے بچوں کو جنم دینے کیلئے پیٹ پھلائے گھومتی رہیں گی ۔ لوگ چیخ رہے ہیں کہ فضائی حملوں میں بے گناہ بچے ، گھریلو خواتین اور بزرگ بھی مارے جارہے ہیں، قبائلی علاقوں کے 65لاکھ افراد تباہ حالی کا شکار ہیں، کسی کے گھر پر میزائل لگا ہے، کسی کی گاڑی تباہ ہوئی اور کسی کی دکان ۔کوئی کان دھرنے والا نہیں ، آئی ایس پی آر محض ایک بیان جاری کرنے پر اکتفا کرتا ہے کہ فضائی حملے میں اتنے دہشت گرد ماردئیے گئے ،قصہّ ختم ۔ مرنے والوں کی شناخت تو درکناراس پر بات کرنے سے بھی ہمارے مین اسٹریم میڈیا اور سیاستدانوں کو لقوہ مارتا ہے ۔ قبائلی علاقوں میں تو سیاسی قیادت ویسے بھی ناپید ہے وہ پولیٹکل ایجنٹ اور ملک کے رحم و کرم پر ہیں ۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کہتے ہیں آپریشن ضرب ِعضب کامیابی سے ہمکنار ہو ا ہے ، بجا ہے مگر اس میں اب تک مارے جانے والے ہزاروں دہشت گرد کی کوئی انفرادی تفصیل تو دستیاب ہے نہیں، کیا ضمانت ہے کہ انکی لاشیں آنے والے وقتوں میں نئی وحشتوں کو جنم نہ دیں گی۔ نہیں جناب دہشت گردی کا مسئلہ نہ بندوق سے حل ہو گا نہ گٹار سے ۔آپریشن جاری رہنا چاہیے مگر دہشت گردی کا عفریت اس سے پوری طری قابو میں نہیں آئے گا ۔ قبائلی علاقوں کے انتظام و انصرام کا اسٹرکچر بدلنا ہی ہو گا ، انہیں خیبر پختو نخواہ حکومت کا حصّہ بنانے اور وہاں مقامی سیاسی قیادت کی ایک نئی پود کی بھرپور آبیاری کرنی ہو گی، ترقیاتی فنڈز شفاف طریقے سے منتخب عوامی نمائندوں کے ذریعے استعمال کرنے کا راستہ اپنانا ہو گا ، نئے اسکولز ، کالجز، کھیلوں کے میدان ، ہسپتال اور سینما گھر تعمیر کرنے ہوں گے ، نوجوانوں کو تعلیم اور سرکاری ملازمتیں دیکر انہیں قومی دھارے میں شامل کرنا ہو گا اور ان سب سے پہلے یہ اندھی فضائی کارروائیاں بند کرنا ہو ں گی تاکہ ’’وار انڈسٹری‘‘کو انتقام کے جذبے سے سرشار افرادی قوت کی دستیابی کا راستہ بند ہو ۔ امریکہ میں یہ فکاہیہ جملہ اب ایک ضرب المثل بن چکا ہے
The First rule of Gun safety is … don’t piss me off-
یعنی ’’بندوق سے حفاظت کا پہلا اصول یہ ہے کہ …مجھ سے چھیڑ چھاڑ نہ کرو‘‘
فضائی حملے ناگزیر ہوں تو بھی کم از کم جیٹ طیاروں کے پائلٹس کو گن سیفٹی کے اصولوں پر سختی سے کاربند ہو نا ہو گا ۔ورنہ وطن دشمنوں کو بارود کھاتی اس دھرتی ماں کے بطن سے پیدا ہوتے بچے دہشت گردی میں استعمال ہو نے کیلئے ملتے ہی رہیں گے ۔جیٹ طیاروں اور جنگی ہیلی کاپٹرز کا کردار صرف زمینی افواج کو بیک اپ فراہم کرنے تک محدود ہو ناچاہیے نہ کہ اندھی گولہ باری کرنا جبکہ کسی بھی حملے کی صورت میں بے گناہ مارے جانے والوں کے ورثاء کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بھی ضرورت ہے ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ریاست کو ایسے حملوں کی زد میں آنے والے بے گناہوں کے ورثاء کو قصاص و دیت ادا کرنے کے اصول پر بھی کاربند ہو نا ہو گا ۔ورنہ نفرت اور انتقام کا یہ سلسلہ چلتا ہی رہے گا ۔
باچا خان یونیورسٹی پھر سے کھل گئی ، چار سدہ کے تمام زخمیوں کو ہسپتالوں سے فارغ کر دیا گیا ،زندگی معمول کو لوٹنے لگی ہے مگر یہ دہشت گردی کی آخری واردات نہیں تھی ۔سیانے کہتے ہیں جو آج مفت کی نصیحت قبول نہیں کرے گا اسے کل مہنگے داموں افسوس خریدنا پڑے گا –
اسپین میں ایک کہاوت ہے ‘ کسی کو دو مشورے کبھی نہیں دینے چاہئیں ایک شادی کرنے کا اور دوسرا جنگ پر جانے کا۔ یہ محاورہ غالباً دوسری جنگ عظیم کے بعد ایجاد ہوااس کا پس ِ منظر یہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں یورپ میں مردوں کی تعداد نہایت کم ہو گئی تھی اور عورتیں آبادی کا بڑا حصہ بن گئی تھی...
یہ طے کرنا مشکل ہے کہ زیادہ قصور وار کون ہے سول حکمران یا فوجی آمر ۔ جمہوریت عوام کی حکمرانی پر مبنی نظام کا نام ہے اور مارشل لاء ایک آمر کی اپنے چند حواریوں کے ہمراہ زبردستی قائم کی گئی نیم بادشاہت کا ۔ پاکستان جمہوریتوں اور آمریتوں کے تجربات سے بار بار گزر ا ہے مگر یہ ایک تلخ ح...
آپ نے کبھی دنیا کا نقشہ غور سے دیکھا ہے ، پاکستان اور ایران کے درمیان پچکا ہوا سا ایک خطّہ دکھائی دیتا ہے ،اسی کا نام افغانستان ہے ، سرزمین ِافغانستان کے بارے میں خود پشتونوں میں ایک کہاوت ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ ساری دنیا بنا چکا تو اس کے پاس چٹانوں اور پتھروں کا ایک ڈھیر رہ گیا ، اس...
طبیعت میں کسلمندی تھی ، گھرسے نکلنے کا موڈ بالکل نہ تھا مگر یکایک جنوبی افریقہ کا جوان العزم سیاہ فام بشپ دیسمند ٹوٹو(Desmond Tutu) یاد آیا جس نے زندگی غربت اورنسلی تعصب کے خلاف جدوجہد میں گزار دی اور نوبل انعام سمیت چھ عالمی اعزازات اپنے نام کئے ۔ اس نے کہا تھا If you are ne...
ڈاکٹر راحت اِندوری کا تعلق ہندوستان کی ریاست مدھیہ پردیش کے شہر ’’انِدور‘‘سے ہے ، یہ اردو ادب میں پی ایچ ڈی ہیں اوراِندور یونیورسٹی میں پڑھاتے بھی رہے ہیں ، دنیا بھر میں جہاں بھی اردو شاعری کا ذوق رکھنے والے افراد موجود ہیں وہاں انہیں بخوبی جانا پہچانا جاتا ہے ، کچھ عرصے قبل مودی...
اپنے معمول کے کاموں میں مصروف، دکانوں پر مول تول کی تکرار کرتے ، قہوہ خانوں پر استراحت آراء اوربازار سے گزرتے سب ہی لوگوں نے پکار سنی ۔ ’’اے اہل قریش ادھر آؤ۔‘‘ بار بار پکار ا جا رہا تھا لوگ چل پڑے، جمع ہوئے تو دیکھا ،عبدالمطّلب کا پوتا محمدﷺ کوہ ِصفا پر چڑ ھا نِدا لگا رہا ...
ایک نشئی نے کہیں سے سن لیا کہ انسان مرنے سے قبل اپنے جسمانی اعضاء عطیہ کر سکتا ہے ، اسکی موت کے بعد وہ اعضاء کسی مستحق کیلئے جینے کا سہارا بن سکتے ہیں اور اس طرح عطیہ کرنے والا مرنے کے بعد بھی نیکیاں کماتا رہتا ہے ، نشئی پوچھتا پوچھتا ایک ایسی این جی او کے دفتر جا پہنچا جو اعضاء ...
فیض حیات ہو تے تو کہتے .... آؤ کہ آج ختم ہو ئی داستانِ عشق اب ختم ِعاشقی کے فسانے سنائیں ہم گذشتہ دو ہفتوں سے ماجرا کچھ ایسا ہی ہے ، ’’خَتمِ عاشقی‘‘ کے فسانے ہی کہے جا رہے ہیں ، ہر تیسرے روز سہ پہر تین بجے کوئی نہ کوئی پتنگ کٹ کر ’’خیابان ِ سحر ‘‘پر آگرتی ہے ، اب ہا...
یہ کہانی اسلام آباد کے میلوڈی پارک سے شروع نہیں ہوتی۔ یہ لاہور کی زنانہ جیل کے ڈیتھ سیل سے بھی شروع نہیں ہوتی البتہ اس جیل کا صدر دروازہ وہ مقام ضرور ہے جہاں سے کہانی میں’’ ٹوئسٹ‘‘ آیا۔ کہانی شروع ہو تی ہے لاہور سے 30میل دور پنجاب کے ضلع شیخو پورہ کے نواحی علاقے’’اِتا...
بعض لوگ جب بھی بولیں احساس شدید تر ہو جاتا ہے کہ خاموشی اس سے کہیں بہتر تھی، شاید بعض صوفیاء اسی لئے خاموشی کو عبادت بھی قرار دیتے آئے ہیں واقعہ مگر کچھ بھی ہو یہ طے ہے کہ الفاظ کی حرمت تب ہی مقدم ہے جب ادا کنندہ کا اپنا عمل ان کے مفاہیم سے تال میل رکھتا ہو ۔وزیر اعظم نے ایک بار...
نیو یارک شہر کے علاقے مین ہٹن میں ٹائم اسکوائر کے نزدیک بیالیسویں ایونیو(42nd) پر گیارہ بائی چھبیس فٹ کی ایک گھڑی نصب ہے پہلے یہ سکِستھ(6th)ایونیوپر نصب تھی ۔ یہ گھڑی سب سے پہلے 1989ء میں نصب کی گئی، اس وقت اسکی لاگت ایک لاکھ ڈالرز آئی تھی اور اسکی تیاری و تنصیب کے تمام اخراجات ا...
نوجوان گڑبڑا سا گیا۔ اس نے اپنے دائیں جانب نشست فرما دوست کی جانب استفہامیہ نظروں سے دیکھا۔ دوست فوراً سوال پوچھنے والے کی جانب براہ ِراست متوجہ ہوا۔ ’’سریہ اردو اسپیکنگ ہے ‘‘۔ اس نے گویا اپنے دوست کی خلاصی کرائی۔ ’’اوہو۔ اچھا اچھا تو ایسے بولو ناسائیں کہ مہاجر ہے ۔ چلو ...