... loading ...
شکاگو میں رات کا کھانا تھا۔ میزبان وہیں کی ایک گجراتی فیملی تھی ۔ شام سے لانگ ویک اینڈ شروع ہوچکا تھا (ایک ساتھ کئی ایسی چھٹیاں جو ہفتے اتوار کی تعطیل سے جڑی ہوں) کچھ امریکی ماحول کی مناسبت سے مہمان کھانا اور شراب ساتھ لائے تھے۔ شرکت کی شرائط سادہ تھیں۔دین اور پاسپورٹ کی قید نہ تھی ، ہندو ،مسلمان ، پارسی سبھی ہی مدعو تھے ۔واحد پابندی یہ تھی کہ مہمان لازماً گجراتی بولنے والے ہوں گے۔یوں سمجھ لیں کہ یہ اہتمام گفتگو ،لطائف اور آئندہ کاروباری اور سماجی روابط میں استحکام اور فروغ کے کوالٹی کنٹرول کے لیے تھا ۔
آذر بائیجان کی گل نارا جو نیویارک میں بیلے ڈانسر ہے اسے بلانے کی تجویز خاکسار کی تھی۔ وہ کم بخت ناچتی ہے تو دیدہ و دل اس کی حشر سامانیوں اور تھرکتے قدموں کے تلے مخملیں فرش ِ ہوجاتے ہیں۔ایک ڈاکٹر صاحب جو دعوت میں مدعو تھے ،انہیں کسی مریض کو دیکھنے کے لیے نیویارک سے آنا تھا۔ مالدار مریض نے اپنا جہاز بھیجا تھا ، یوں گجراتیوں کے دل و دماغ پر عیاشی کے لمحاتِ خود فراموشی میں بھی فضول خرچی کا جو کیلکولیٹر آن رہتا ہے وہ اس فری رائڈ کی وجہ سے بند رہا ۔
گل نارا نے بھی حساب لگایا کہ وہ لوگ جن کا جہانگیر ترین کی طرح اپنا جہاز ہو وہ یقینا پوتڑوں کے رئیس ہوتے ہیں۔ایسی محافل شبینہ میں شرکت سے کبھی میاں تو کبھی اگلا پروگرام مل جاتا ہے۔یوں اس نے اپنی فیس بھی کم کردی تھی۔یہ الگ بات ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اس خالی نجی جہاز میں گل نارا کو بٹھانے کے لیے مریض سے باقاعدہ اجازت یہ جھوٹ بول کر لی تھی کہ وہ ایک مطب شکاگو میں بھی قائم کرنا چاہتے ہیں لہذا وہاں کے لیے وہ اپنی ممکنہ سیکرٹری کو بھی ساتھ لائیں گے۔
امریکا میں اب ان کی اپنی سی۔ آئی۔ اے، پنجابیوں اور گجراتیوں کے علاوہ کوئی جھوٹ نہیں بولتا۔ عام امریکی سمجھ گیا ہے کہ جھوٹ بولنے میں نقصان زیادہ ہے اور فائدہ کم۔مجرم پکڑے جانے پر اپنی وارداتوں کی تعداد اصل سے کم بتائے تو نئے شواہد سامنے آنے پر پہلے سے دی گئی سزا پر از سر نو عمل درآمد ہونا شروع ہوجاتا ہے ،اہم عہدہ دار اپنی تقرری کے اعلان پر سینٹ کی متعلقہ کمیٹی کے سامنے اپنے بارے میں عائد کردہ کسی الزام کے بارے میں سچ نہ ظاہر کرے یا خاموشی سے اپنی نامزدگی کو مسترد نہ کرے تو اس کا حشر ہوجاتا ہے۔امریکامیں Zoë Bairکو صدر کلنٹن اٹارنی جنرل مقرر کرنا چاہتے تھے ،موصوفہ نے ملک پیرو کے دو غیر قانونی تارکین وطن کو اپنے ہاں ڈرائیور اور بچوں کی آیا رکھا تھا۔ان کا چھوٹا موٹا مقامی ٹیکسوں کا بھی قضیہ تھا۔صدر کلنٹن کا خیال تھا ،یہ معمولی ایشوز ہیں لیکن اس پر میڈیا نے وہ طوفان کھڑا کیا کہ ان کی اپنی پارٹی نے بھی ان کی جانب سے آٹھ دن میں ہی دست تعاون کھینچ لیا۔ایسا ہی معاملہ ان کے وکیل چارلس رف کے ساتھ ہوا جنہوں نے اپنی ملازمہ کے ٹیکس ادا نہیں کیے تھے ۔ امریکامیں اس طرح کے کیس نینی گیٹ کہلائے ۔ جن کی وجہ سے چند ذہین وکیل صاحبان اور صدر مملکت اپنے من پسند عہدوں سے محروم رہے۔
آپ اب بھی اس گل نارا والی دعوت سے جڑے ہیں۔دعوت میں دو ایک پارسیوں کے علاوہ سب کے سب گجراتی پٹیل تھے۔ یہ امریکا اور برطانیہ میں بڑی کثیر تعداد میں آباد ہیں ۔پٹیل گجراتیوں کے ہاں وہی حیثیت رکھتے ہیں جو پنجاب میں چوہدری مگر ذہانت، کاروباری صلاحیت اور آنکھ میں کاجل بن کر رہنے کاجو فن ان گجراتی پٹیلوں کو آتا ہے ،چوہدری اس کا پاسنگ بھی نہیں۔کھانے کے بعد گل نارا نے تو ایک گھنٹہ ناچ کر دھواں بنا کر مردوں کو فضا میں اڑا دیا اور رقص کے اختتام پر ڈاکٹر صاحب سے واپسی کا وقت طے کرکے کراچی کی زینب مارکیٹ والاکفتان پہن کر اپنی کسی عزیزہ کے ہاں سونے چلی گئی۔
میزبان خاتون نے ایک قصہ چھیڑ دیا۔ذہین تھیں، واقعے کی مکمل جزئیات نوک ِزباں تھیں ۔ایسی دعوتوں میں دیس کی باتیں، وہاں کے قصے جان لیں کہ غالب کو بھی ایسے قصے سننے کا بہت شوق تھا جب ہی توکہتے تھے کہ ع
ان کی اردو اسپیکنگ سہیلی میمونہ کے بھائی کے خاندان کا قصہ تھا ۔میمونہ کے ابو نے دہلی سے ہجرت کی ۔ پہلے میرپور خاص آئے اور پھر پاپوش نگر کراچی میں بس گئے۔میمونہ کے بھائی ظہیر کو پاپوش نگر کے نام سے چڑ تھی۔ پاپوش بمعنی جوتے کے ان کے ذوق طبع پر چھتر کے معنی برستا تھا۔ان کا ایک بے لحاظ پنجابی دوست جس کا اردو ادب کا مطالعہ قابل رشک تھا وہ کہا کرتا تھا کہ جب مہاجروں کو چاندنی چوک جیسے نام رکھنے کی آزادی تھی تو انہوں نے وہاں کسے لا کر بسا دیا۔ وہ تو خیر ہوئی کہ ظہیر بھائی نے اپنے ایک پڑوسی اور اردو کے بہترین افسانہ نگارغلام عباس کی کہانی ’’آنندی ـ‘‘ نہیں پڑھی ۔البتہ دونوں دوستوں نے شیام بنیگل کی شہر ہ آفاق ہندی فلم منڈی ضرور دیکھی تھی۔اس کی وجہ فنون لطیفہ سے رغبت کم اور آنجہانی سمیتاپاٹیل کی روح کو نظروں سے ایصال ثواب پہنچانا زیادہ مطلوب و مقصود تھا۔
پاپوش نگر کراچی کا یہ گھرانہ نیویارک سے جب بھی شکاگو آتا ہے ان ہی کا مہمان ہوتا ہے۔کسی بھی گزرے ہوئے واقعے کی تحقیر آمیز تفصیلات یا تو شادی شدہ گھریلو عورتوں کو یاد رہتی ہیں یا میڈیا کے اینکرز کو یا پولیس کے ایس ایچ او صاحبان کو۔اس واقعے کے بیانیے میں امریکا اور برطانیہ میں بسنے والے دیسی لوگوں کے چبھتے مسائل سمٹے ہوئے ہیں۔
وہ سنارہی تھیں ـ’’ جہیر(ظہیر) بھائی کے چھوٹے چھوکرے کے لیے ان لوگ کو پاکستانی بہو چاہیے تھی، چھوکرے کا برونکس (نیویارک ) میں حلال جائرو فوڈ کارٹ(ٹھیلا) ہے۔بہت چلتا ہے ۔چھوکرا تو بائی لوجی میں میجر ہے ۔گریڈز ٹھیک نہیں تھے تو آگے نئیں پڑھا۔۔باپ سے جیادہ کماتا ہے ،حلال فوڈ میں انکم زیادہ ہے۔باپ ادھر کسی بڑی لیب میں کام کرتا ہے۔
یہ لوگ سب کراچی گئے۔پہلے سے اپنے رشتہ داروں کو بولے لا(کہہ رکھا) تھا کہ چھوکری لوگ کو لائین اپ کرکے رکھو۔ ان لوگ کے بڑے بیٹے کی بیوی نے سب کو تپا مارا (تنگ کردیا) وہ پنجاب کے کسی علاقے بھائی پھیرو کی فیملی تھی۔ فرسٹ جنریشن ایف۔ او۔ بی (فریشن آن بورڈ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو بہتر مواقع کی تلاش میں امریکا سمندری کشتیوں سے پہنچے ہوں )لڑکے کی ماں میرے کو بولتی تھی میری بڑی بہو میرے ڈی کرے (بیٹے) فے جان(فیضان ) کے ساتھ یونی ورسٹی میں تھی ،شادی ہوئی تو اس کو گھسیٹ کے لا جویا ریاست ٹیکساس کا قصبہ جو میکسیکو کی سرحد کے قریب واقع ہے وہاں لے گئی ۔ تین ہزار میل دور ۔ادھر اس کے باپ کا گیس اسٹیشن ہے۔ماں باپ کی اکیلی بیٹی تھی۔کہتی تھی فے جان ، باپ کی بزنس میں ہیلپ (مدد) کرے گا۔ باپ گلہ کرنے لگا کہ اب ایسا ہوگیا ہے کہ ہمارا بیٹا آدھے گھنٹے کے لیے بس فیس ٹائم کرتا ہے۔اس میں بھی کھُد (خود ) آگے پیچھے ہوتی رہتی ہے۔کیا خاک بات ہوسکتی ہے۔تو پھر آپ لوگ نے عپھان (عفان ) کا کیا بندوبست کیا؟ انہوں نے اپنے مہاجر مہمانوں سے پوچھا۔وہ بولے ہم لوگ نے تین کنڈیشنز(شرائط ) اپنے رشتہ داروں کو بتائے تھے : ہر حال میں مہاجر فیملی ہو مگر روہینگیا یا کرد نہیں چلے گی ،شدھ مہاجر اردو بولنے والی، میاں بھائی، پہلے آپ والی دوسری گوری اور حسین ہو ،تیسری ادھر شادی رجسٹری سے پہلے پری نیپوٹلPre Nupital (وہ معاہدہ جس میں شادی سے پہلے شرائط طے ہوجاتی ہیں) سائین کرے گی ۔بھائی ، بوڑھے ماں باپ کے لیے گرین کارڈ کی خاطر پنچات(مسئلہ ) کھڑی نہیں کرے گی۔وقفے کے خاطر گجراتی خاتون اپنی شفون سلک کی ساڑھی سنبھال کر اٹھیں اور اس کی ہم رنگ شراب ڈال کر واپس آن کر گاؤ تکیے سے ٹیک لگا کر دوبارہ گویا ہوئیں۔اب کی دفعہ پہلے گھونٹ سے ہی شرارت ان کی آنکھوں سے چھلکتی تھی۔میرے میاں نے بولا ’یہ مہاجر لوگ بھی کبھی کبھی ہتھے سے اکھڑ جاتے ہیں دوسری کنڈیشن ایک دم گیر واجبی ہے(غیر واجبیم نامناسب)۔رشّو(خاتون کا گھریلو نام)میں ان لوگ سے پوچھتا تم لوگ کی پانچ جنریشن میں دو سو سال تک کوئی ایسا نہیں جس کو آپ گورا اور خوب صورت بولو۔اپنی بیٹی کو انصاف سے دیکھ لوتو دوسرے کی بیٹی میں یہ کھوج کیوں؟ میاں کی بات سن کر خاتون نے انہیں مصنوعی غصے سے ٹوکا
Darling don’t be a racist. You know it’s a crime to utter such things in USA
(ڈارلنگ نسلی تعصب کی باتیں مت کرو یہ امریکامیں جرم تصور کی جاتی ہیں)۔
جہیر بھائی اب کی دفعہ پاکستان سے آکر بہوت دکھی تھے۔ کہہ رہے تھے سالا نائن الیون تو ادھر امریکا میں ہوا ،ہماری عجت (عزت) پاکستان میں بھی کم ہوگئی۔ایک دوست سے گاڑی مانگی تو بولا پاپوش نگر کے پاس چوک پر بہت سستا پٹھان لوگ کا ،رینٹ۔ آ ۔کار ہے۔تم لوگ تو سالا ام کو امریکامیں ائیر پورٹ بھی لینے نہیں آتا۔ہر سال دسمبر میں امریکی پاوندوں (پاوندے افغان خانہ بدوش جو سردیوں میں پاکستان آجاتے ہیں )کی طرح ادھر پاکستان آجاتے ہو ۔ہمارے جہاز سے اتر کر پروٹوکول مانگتا ہے ۔ دوست کوئی بیوروکریٹ ہے۔
سندھ میں آخرشھداد پور کی ایک لڑکی پسند آئی تو اس کو ڈیٹ کے لیے کراچی بلوایا گیا ۔عپھان (عفان ) کی ضد تھی کہ رشتہ سے پہلے ایک دفعہ اس سے ڈائیلاگ کرے گا۔وہی پاپوش نگر کے چوک سے سستی کاود ڈرائیور رینٹ کی۔ کلفٹن کباب تکے کی ریستوراں لے گیا۔لڑکی کے رشتہ دار بھی سالے لوگ کوئی موساد کے ماموں لگتے تھے۔ایک علیحدہ سوزوکی میں پہنچے اور دوسری ٹیبل پر بیٹھ گئے۔ذرا کنزرویٹیو (قدامت پسند)فیملی تھی۔اب اپن لوگ کا عپھان تو بائی لوجی کا میجر تھا ہلکی پھلکی بات کے بعد اس نے لڑکی کو پوچھا کہ ’’آپ Theory of Evolution (ڈارون کے نظریہ ارتقا کا انسان بندر کی ترقی یافتہ صورت ہے) کو مانتی ہیں یا بائبل کی Genesis Story’ ) انسانی تخلیق( والی بات کو؟‘‘
شھداد پور کے گرلز کالج کی گریجویٹ لڑکی نے پوچھاــ’’ یہ Theory of Evolution کیا ہے؟ــ‘‘
عپھان بولا ’’ڈارون کا نام سنا ہے آپ نے؟‘‘
لڑکی بولی ’’ ہمارے گھر میں انگلش فلمیں دیکھنے کی اجازت نہیں‘‘
یہ ڈنر ڈیٹ ویسے تو رینٹ آ کار کے حساب سے چھ گھنٹے کے لیے تھی مگر عپھان میاں اتنے بور ہوئے کہ کل تین گھنٹے میں ہی سب گھر واپس آگئے ۔کار والا پورے چھ گھنٹے کے پیسے مانگتا تھوڑی منھ ماری بھی ہوئی۔ابھی یہ لوگ پھر دسمبر میں پاکستان جائیں گے۔چھوکری دیکھنے اس پر وہاں ایک اور گجراتی ماں سے چپکی اور ٹیکلا کی چسکی لیتی لڑکی نے آہستہ سے انگریزی میں پوچھا Auntie this Dodo is he going to repeat the same question ?
(اور یہ بے وقوف اب کی مرتبہ بھی وہی سوال دہرائے گا؟ )
[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...
ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...
[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...
ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...
بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...
[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...
[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...
پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...
[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...
[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...
معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...
میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...