... loading ...
عسکریت پسند ہم پر ہی نہیں ہمارے تصورات پر بھی حملہ آور ہیں اور اس میں کامیاب بھی!!
پاکستان میں اصل مسئلہ کیا ہے؟ کیا دہشت گردی، تصور ِ حکمرانی، خاندانی سیاست، سیاسی و عسکری قیادتوں کے فاصلے؟ ہم ایک نہیں، مسائل کے انبار تلے دفن ہیں۔ مگر مسئلوں کاایک مسئلہ یہ ہے کہ ہم مسئلے کو پہچاننے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتے۔دہشت گردی ایک مسئلہ ہے مگر دہشت گردی کے مسئلے کی تفہیم تو اس سے بھی بڑا مسئلہ ہے۔
بدقسمتی دیکھئے!سیاسی اور عسکری قیادت کی سطح پر مسائل اتنے زیادہ ہیں کہ ہم قومی سطح کی ناکامیاں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے گوارا کرنے لگتے ہیں۔ اگر کسی کو یقین نہ آئے تو سوشل میڈیا پر باچا خان یونیورسٹی پر حملے کی صورت میں ایک دوسرے کے خلاف اُٹھائے گیے سوالات دیکھیں۔یمن مسئلے پر دونوں کے درمیان فاصلوں کو اس طرح بیان کیا جاتا رہا کہ سیاسی حکومت اور عسکری قیادت الگ الگ طریقے سے سوچتے ہیں۔بھارت سے تعلقات اور افغانستان میں مذاکرات سے لے کر افغان طالبان سے تعلق کی سطح تک ہر مسئلے کی گرہ کشائی اسی تنازع کی تہہ داریوں میں کی جاتی ہے۔ سعودی عرب اور ایران مسئلے پربھی اسی طرح کے پروپیگنڈے ایک دوسرے کے خلاف کئے جاتے رہے۔ کراچی میں دینجرز کے کردار سے لے کر سندھ حکومت کے بدعنوان عناصر سے نمٹنے کے مسائل تک ملک میں کوئی بھی موضوع اٹھا کر دیکھ لیں، اُسے سمجھنے کے لئے اسی قسم کا تناظر سب سے پہلے جنم لیتا ہے۔ کیا اس ملک میں کوئی مسئلہ ایسا بھی ہے جسے ہم نے سیاسی اور عسکری قیادت کی سطح پر اس تقسیم سے الگ اور خود مسئلے کو اُس کے اپنے میریٹ پر دیکھا ہو!!
کسی بھی نوع کی دہشت گردی ملک میں ہوتو بحث کا محوری نکتہ اب نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمدمیں کوتاہی بن جاتا ہے۔نیشنل ایکشن پلان سے پہلے یا بعد میں اس جنگ میں کامیابیاں اور ناکامیاں بالکل ایک جیسی ہے۔ اس لئے اس منصوبے کو کسی بھی بحث کے لئے زیرِ غور لانا کسی بھی طرح کارآمد ہی نہیں ۔ پھر بھی ایک سوال برائے بحث یہ ہے کہ کیا نیشنل ایکشن پلان کے کامل بیس نکات پر جوں کا توں عمل ہو جائے تو دہشت گردی تھم جائے گی؟یہ قومی شعور کی نہایت ناقص سطح ہے جہاں سے یہ دلیل اُبھرتی ہے۔نیشنل ایکشن پلان جن بیس نکات میں بیان کیا گیا ہے ، اُن کے جوہری تجزیئے سے پتا چلتا ہے کہ اُس کے صرف پانچ نکات پر کچھ نہ کچھ عمل درآمد ہو سکا ہے اور اس کے پندرہ نکات پر عمل نہیں ہو سکا۔ پہلا سوال تو یہ ہے کہ کیا ان پندرہ نکات پر عمل درآمدسے ہمیں پاکستانی طالبان نے روکا ہے، کیا عمر منصور اور ملا فضل اﷲ اس پر عمل درآمد نہیں ہونے دیتے؟ اگر نیشنل ایکشن پلان یا اس سے پہلے کے معمولی نوعیت کے جرائم کو روکنے والے عام سے قوانین پر کوئی عمل درآمد ہو ہی نہیں رہا تو مسئلہ طالبان کا نہیں ، خود ہمارا ہے۔ اس سے ثابت کیا ہوا؟ پاکستان کے اندر طالبان سے نمٹنے سے بڑا مسئلہ قومی سطح کے مسائل پر قومی سطح کے اقدامات پر عمل درآمد کے لئے قومی صلاحیت کے بروئے کار آنے کا ہے۔ یہ مسئلہ خود قوم کے وجود کو سمجھنے سے بھی جڑا ہے۔ ہماری قومی سیاست اور فیصلہ سازی کا پورا عمل دراصل اقتدار کے مقصد کے گرد گھومتا ہے، لہذا کسی بھی قومی مسئلے پر ایک اجتماعی قدم کامل اتفاق سے محروم رہتا ہے۔ کیا یہ کسی نوع کی دہشت گردی سے زیادہ خطرناک مسئلہ نہیں ہے؟ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمدکا یہ مسئلہ تو اس کے باوجود درپیش ہے کہ اگر اس پر پورے کا پورا عمل بھی کر لیا جائے تو بھی دہشت گردی کے مسئلے سے ہماری جان نہیں چھوٹتی۔ کیونکہ نیشنل ایکشن پلان تو بس اجتماعی زندگی کے ایک نظم وضبط کی طرف ہی ہماری رہنمائی کرسکے گا۔ یہ دہشت گردوں کا راستہ کس طرح روکے گا جبکہ ہم ابھی تک یہ بھی نہیں جان پارہے کہ اصل میں دہشت گردی کا مسئلہ کیا ہے؟
پہلے مسئلے کے طور پر بنیادی بات سمجھنے کی یہ ہے کہ جنگ کی نوعیت کیا ہے؟ دوسرااس جنگ کے کھلاڑی کون سے ہیں؟ تیسرا جن کے بارے میں ہم بات کررہے ہیں وہ ہاتھ ہیں یا دماغ؟تحریک طالبان اپنی اصل میں جو کچھ بھی ہو، جب اُسے کھدیڑ کر افغانستان دھکیل دیا گیا۔ تو یہ معاملہ اُسی وقت ہی واضح تھا کہ یہ اب خطے کی تمام قوتوں سے ساز باز کے ساتھ باقی رہیں گے۔اور اب پانے تحفظ کا زیادہ بڑا دائرہ بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یہ مسئلہ نفرت یا محبت سے تعلق نہیں رکھتا ۔علاقائی سطح پر مفادات کے شاہ کلید سے متعلق ہے۔ خطے میں موجود ممالک کے علاقائی تنازعات اتنے گہرے ، پیچیدہ، اور ایک دوسرے سے وابستہ وپیوستہ ہیں کہ وہ سیدھے منہ بات کرنے سے بھی کتراتے ہیں ۔افسوس ناک طور پر اس میں عالمی قوتوں کی پہرے داری نے ایک ایسا ماحول پیدا کردیا ہے کہ ان قوتوں کے درمیان بات چیت تب ہی ممکن ہو پاتی ہے جب متعلقہ قوتیں ایک دوسرے کے خلاف خطرناک بن جانے کی صلاحیت کا اظہار نہ کر لیں۔ چنانچہ یہ ماحول سرے سے ختم ہی نہیں ہو پارہا ، جسے ’’پراکسی وار‘‘ کہتے ہیں۔ اب ہر ملک کے اندرونی ماحول میں اس کے خلاف جو بھی فضا بن چکی ہو، ریاست میں عملداری رکھنے والی قوتیں علاقائی حالات اور متحارب قوتوں کی ضرب تقسیم کی حکمت عملی کے ہاتھوں مجبور ہیں کہ وہ انکار کرتے ہوئے بھی اپنی اپنی نیابتی قوتوں کی حفاظت کریں۔ نیابتی قوتوں کے خلاف ریاستی بیانیے جو بھی ہوں، حقیقت پہلے کی طرح ہی ہے، بس اس میں سے وہ قوتیں منہا ہو کر دشمن کہلانے لگتی ہیں جو ایجنڈے کی اسیر رہنے کے بجائے اپنے ہاتھ پاؤں نکالنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ریاستوں کا یہ کھیل کسی صداقت ودیانت اور اُصول واخلاق پر انحصار نہیں کرتا۔
اب ذرا لکیر کے دوسری طرف جاکر دیکھیں۔ پٹھان کوٹ حملے کے بعد پاکستان کے کتنے مفادات کو کہاں کہاں ضربیں لگی ہیں۔ ایک سیدھی سی بات ہے کہ متحدہ جہاد کونسل نے اس کی ذمہ داری قبول کی۔ مگر بھارت نے اس بیان کو کوئی اہمیت نہیں دی، کیونکہ اس سے اُس کا مقصد پورا نہیں ہوتا تھا۔ مقبوضہ کشمیر کے لوگ اپنی آزادی کی خاطر ایک مستقل جدوجہد کر رہے ہیں جسے دنیا میں دہشت گردی کے خانے میں ڈال کر قبول کراناذرا سا دشوار ہے۔ چنانچہ بھارت نے سید صلاح الدین کی طرف سے ذمہ داری قبول کرنے کے بیان کو اہمیت نہ دے کر اپنی توجہ جیش محمد پر مرکوز رکھی۔اور پاکستان پر دباؤ بڑھایا۔ دوسری طرف افغان شہر جلال آباد میں پاکستانی قونصل خانے اور کوئٹہ میں ایک ہی دن 13 جنوری کو دھماکے ہوئے۔ کوئٹہ میں اس کے بعد بھی دھماکے ہوتے رہے۔ مگر ہمارا بیانیہ اور قومی کردار ان تمام واقعات میں ایک ہی جیسا ہے۔ ہم پٹھان کوٹ حملے کے بھارتی الزام کو بھی قبول کر لیتے ہیں اور اپنے ملک میں ہونے والے حملوں کو بھی اس بنیادی دلیل کے ساتھ قبول کر لیتے ہیں کہ یہ سب ہم کر رہے ہیں ہمارے ہی لوگ کرا بھی رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس حملے کی ذمہ داری طالبا ن قبول کرتے ہیں، وہ ہم فوراً طالبان کے ہاتھ اور دماغ دونوں کی کارروائی مان لیتے ہیں ،مگر جس حملے کی ذمہ داری سید صلاح الدین کی متحدہ جہاد کونسل قبول کرتی ہے، اُس کو پزیرائی بھارت کیوں نہیں دیتا؟ بھارت کھیل کے دماغ کی طرف متوجہ ہے اور پاکستان کھیل کے ہاتھوں سے الجھ رہا ہے۔ یہ اس جنگ کا محض ایک پہلو ہے۔ طالبان کی حد تک معاملہ یہ ہے کہ وہ ایک نیابتی(پراکسی) کردار میں بھی اپنے اس کردار کی توجیہات کرلیتے ہیں اور اُسے اپنے اصل ایجنڈے کے لئے ایک مجبوری باور کرانے کا ایک موقف بنالیتے ہیں۔ جسے اُن کے اپنے دائرے میں قبول بھی کیا جاتا ہے۔ اور اُس دائرے میں نیشنل ایکشن پلان کے بیس نکات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایک بڑی ناکامی سے بچنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم پہلے اس جنگ کی نوعیت کو سمجھیں۔
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
فروری میں دہشت گردی میں کمی کے بعد مارچ میں جنگجو حملوں میں بھی دو گنا اضافہ ہوا ، دہشت گردی کے رجحانات پر نظر رکھنے والے اسلام آباد میں قائم آزاد تھنک ٹینک پاکستان انسٹیٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ماہ مارچ میں ملک میں سلامتی کی صورتحال ...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...
انار کلی بازار سے ملحقہ پان منڈی میں ہونے والے دھماکے کا مقدمہ تھانہ سی ٹی ڈی میں درج کر لیا گیا ۔ مقدمہ سی ٹی ڈی کے انسپکٹر عابد بیگ کی مدعیت میں درج کیا گیا ۔ مقدمے میں سیون اے ٹی اے،3/4ایکسپلو زو ایکٹ ، 302،324،بی 120اور 109کی دفعات کے تحت درج کیا گیا ۔مقدمے کے متن میں کہا گیا...
افغانستان کے جنوبی شہر قندھار میں جمعے کے روز ایک شیعہ مسجد میں ہوئے بم دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد 37 ہو گئی ہے جبکہ ستر سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ یہ بم دھماکا ٹھیک اس وقت ہوا جب مسجد میں نماز جمعہ ادا کی جا رہی تھی۔ میڈیارپورٹس کے مطابق اس بم دھماکے کا ہدف صوبے کی سب سے بڑی شیعہ م...