... loading ...
پاکستان میں سرکاری ادارے طاقت ور لوگوں کی ایک فرماں بردار کنیز بن چکے ہیں۔ ایف آئی اے گزشتہ کچھ عرصے سے جس طرح جہانگیر صدیقی کے احکامات کی بجاآوری میں مصروف نظر آتا ہے اس سے لگتا ہے کہ سرکاری ادارے اپنے قدروقیمت کھو کر اب بجائے خود ایک استحصالی روپ اختیار کرتے جارہے ہیں۔ اس تجزیئے کا ایک ایک حرف مشہور زمانہ ’’این آئی سی ایل‘‘ (نیشنل انشورنش کارپوریشن لمیٹیڈ) اور میر شکیل الرحمان کے سمدھی جہانگیر صدیقی کی کمپنی جے ایس انوسٹمنٹ لمیٹیڈ کے خلاف ایف آئی اے کے کرائم سرکل کی ایک انتہائی خفیہ رپورٹ سے درست ثابت ہوتا ہے۔ جس میں جہانگیر صدیقی کے ادارے کی ملی بھگت سے قومی خزانے کو بیس کروڑ روپے کا نقصان پہنچانے کے باوجود اُنہیں ایک محفوظ راستے سے نکلنے دیا گیا۔
کاروباری اور صحافتی دنیا میں کسی کی بھی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی کہ آخر جہانگیر صدیقی کے پاس میر شکیل الرحمان کے علاوہ ایسی کون سی گیڈر سنگھی ہے کہ وہ نہ صرف اپنے ثابت شدہ جرائم کے باوجود قانون کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب رہتے ہیں،بلکہ سرکاری اداروں کواپنے مقاصد کے تحت اور اپنے کاروباری حریفوں کے خلاف بھی پوری طرح استعمال کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں؟ کیا جہا نگیر صدیقی قانون وانصاف اور سرکاری اداروں سے بڑے بن چکے ہیں؟ ان سوالوں کے جواب سمجھنے کے لئے این آئی سی ایل کی تحقیقات کو ہی مددگار بناتے ہیں۔
وجوڈ ڈاٹ کام کو دستیاب دستاویزات کے مطابق ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جون 2013ء کی ایک درخواست پر ایف آئی اے نے این آئی سی ایل اور جے ایس انوسٹمنٹ کی ملی بھگت سے قومی خزانے کو 25کروڑ روپے کا نقصان پہنچانے کی چھان بین شروع کی۔ایف آئی اے کے دو افسران سب انسپکٹر محمد رضوان اور سب انسپکٹر محمد منصور مہمندنے اس تفتیش میں جو دستاویزی ثبوت اکٹھے کئے اور جن متعلقہ حکام کے بیانات قلمبند کئے ۔
وہ ابتدا میں ہی ہوش اڑا دینے کے لئے کافی تھے۔ ایف آئی اے کی تفتیش کے دوران یہ بات منکشف ہو گئی کہ این آئی سی ایل کی انتظامیہ اور میر شکیل الرحمان کے سمدھی جہانگیر صدیقی کی کمپنی جے ایس انوسٹمنٹ کی ملی بھگت سے قومی خزانے کو بیس کروڑ روپے کا نقصان پہنچایاگیا۔
وجود ڈاٹ کام کے پاس موجود تحقیقی رپورٹ کے مطابق ایف آئی اے پر دوران تفتیش یہ انکشاف ہوا کہ 12مارچ 2009ء کو ہونے والی این آئی سی ایل کے سرمایہ کاری کمیٹی کے ایک اجلاس میں ایک تجویز پیش کی گئی کہ جے ایس انوسٹمنٹ کے فنڈ میں دو ارب روپے کی سرمایہ کاری کی جائے۔ کسی بھی توقف کے بغیر صرف ایک ہی روز بعد یعنی 13مارچ 2009ء کو این آئی سی ایل کے اُس وقت کے چیئرمین ایاز خان نیازی نے سرمایہ کاری کمیٹی کے اجلاس کی اس کارروائی (منٹس) کی منظوری بھی دے دی۔ یہی نہیں، بلکہ ٹھیک اسی روز یعنی 13مارچ کو ہی این آئی سی ایل نے جے ایس انوسٹمنٹ لمیٹیڈ میں دوارب روپے کی سرمایہ کاری بھی کردی ۔
یہ رقم ایک ارب ستر کروڑ روپے اور تیس کروڑ روپے کے دوچیکوں کے ذریعے ادا کی گئی۔ ان میں سے ایک چیک مسلم کمرشل بینک مہدی ٹاور برانچ اور دوسرا حبیب بینک ایف ٹی سی برانچ کے جاری کئے گیے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے عام طور پر اس طرح کے کام کیچھوے کی چال سے بھی نہیں ہو پاتے ، مگر نامعلوم وجوہات کی بناء پر فراڈپر فراڈ کا یہ گورکھ دھندہ خرگوش کے پاؤں لگا کر کیا جارہا تھا۔ صرف دو دن کے اندر نہ صرف ایک منصوبہ سامنے آیا بلکہ منظور بھی ہو گیا اور منظوری والے دن ہی دوارب روپے کی سرمایہ کاری بھی کردی گئی۔
مقدمے کی مزید تفتیش کے دوران میں یہ انکشاف ہوا کہ چیئرمین این آئی سی ایل ایاز خان نیازی کی ہدایت پر سرمایہ کار کمپنی کے مورخہ 29اپریل 2010ء کو ہونے والے45ویں اجلاس میں ایگزیکٹو ڈائریکٹر فنانس محمد ظہور نے اچانک یہ تجویز پیش کی کہ جے ایس انوسٹمنٹ لمیٹڈمیں کی گئی سرمایہ کاری کی رقم کو واپس حاصل کر لیا جائے۔ یہ تجویز اس لئے نہایت حیران کن تھی کیونکہ مارچ 2009ء میں سرمایہ کاری کی گئی اس رقم کے ساتھ یہ شرط بھی عائد تھی کہ یہ رقم تین سال اور چھ ہفتے سے پہلے واپس نہیں لی جاسکے گی۔ اگر ایسا کیا گیا تو پھر حاصل شدہ آمدنی میں سے جے ایس انوسٹمنٹ پانچ فیصد کٹوتی کرے گا۔ این آئی سی ایل نے اس شرط کے باوجود سرمایہ کاری کو واپس لینے کی منظوری دے دی۔ اس طرح بورڈ آف ڈائریکٹرز کے12مئی 2010ء کے 70ویں اجلاس میں سرمایہ واپس لینے کے دستیاب تین میں سے ایک راستے کو اختیار کر لیا گیا۔ جس کے تحت جے ایس انوسٹمنٹ لمیٹڈ کو یہ تجویز کیا گیا کہ وہ چار ماہانہ مساوی اقساط میں رقم لوٹا دے۔ اس طرح این آئی سی ایل کو اپنی سرمایہ کاری سے حاصل شدہ منافع میں سے پانچ فیصد کٹوتی بھی کرانا پڑی۔ اس دوران میں جے ایس انوسٹمنٹ این آئی سی ایل کی سرمایہ کاری پر 14لاکھ تیرہ ہزار ایک سو چون بونس شیئرز کا اعلان بھی کرچکی تھی۔مگر سرمایہ کاری سے دستبرداری کے اس فیصلے سے کرائی گئی اس کٹوتی کے باعث این آئی سی ایل کو محض چھ کروڑ سینتالیس لاکھ چوّن ہزار ایک سو انتیس روپے ہی بچ سکے۔ جو کہ درحقیقت سالانہ 2.35فیصدنفع ہی بنتا ہے۔ یہ بات اس لئے بھی زیادہ چبھنے لگی کیونکہ دوران تفتیش یہ انکشاف بھی ہوا کہ مارچ 2009ء میں ہی این آئی سی ایل کی اٹلس بینک میں کی گئی سرمایہ کاری سے این آئی سی ایل کو پندرہ فیصد سالانہ کی آمدنی حاصل ہوئی تھی۔ یہ سارا کھیل دراصل این آئی سی ایل اور جے ایس انوسٹمنٹ لمیٹڈ کے درمیان ایک اعلی سطح کی ملی بھگت سے کھیلا گیا تھا۔
قومی خزانے کو تقریباً بیس کروڑ روپے کا نقصان پہنچانے کی اس تفتیش میں ایف آئی اے کے افسران نے اپنی حتمی سفارش میں کہا تھا کہ این آئی سی ایل کے چار اور جے ایس آئی ایل کے دو ذمہ داران کے خلاف مقدمہ قائم ہونا چاہئے۔ این آئی سی ایل کے جن چار افراد کے خلاف مقدمہ قائم کرنے کی سفارش کی گئی تھی وہ درج ذیل تھے:
محمد ایا ز نیازی چیئرمین این آئی سی ایل
جاوید سید ڈائریکٹر
سید حر ریہائی ڈائریکٹر
سید نوید حسن زیدی ڈائریکٹر
ان کے علاوہ جے ایس انوسٹمنٹ لمیٹڈ کے جن دوافراد کے خلاف مقدمہ قائم کرنے کی سفارش کی گئی وہ مندرجہ ذیل تھے۔
منور عالم صدیقی چیئرمین ، ڈائریکٹر
علی رضا صدیقی ایگزیکٹو ڈائریکٹر
اگر اس سارے مقدمے کی تفتیش کا جائزہ لیا جائے تو یہ صرف اس تفتیش کا محض ایک پہلو ہے، جس سے بظاہر یہ لگتا ہے کہ ایف آئی اے نے اپنی تفتیش میں سارا معاملہ بغیر کسی کمی بیشی کے منکشف کردیا۔ اور جرم کا پوری طرح پتا چلا لیا۔
ایف آئی اے کی اس تفتیش کے بعد پتا چلتا ہے کہ کس طرح جہانگیر صدیقی قومی خزانے کو مال مفت دل بے رحم کی طرح ہڑپ کرنے کے بعد ریاستی اداروں کو اپنی مرضی سے توڑتے مروڑتے ہیں۔ ایف آئی اے پر جہانگیر صدیقی نے تفتیش کے اس مرحلے پر ایسا کون سا جادو کیا کہ اُس نے ایک کھلے فراڈ کا مقدمہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 409 کے تحت قائم کیا۔ جو محض سرکاری افسران کے اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال کے جرم کا احاطہ کرتی ہے۔ظاہر ہے کہ یہ دفعہ کسی بھی طرح سے جے ایس انوسٹمنٹ لمیٹڈ کے ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے لئے موزوں نہیں تھی۔ اس طرح ایف آئی اے نے ایک ثابت شدہ فراڈ میں سے جہانگیر صدیقی کی کمپنی کے کرتادھرتاؤں کو آٹے میں سے بال کی طرح نکال دیا۔ اس طرح جہانگیر صدیقی اور جے ایس انوسٹمنٹ لمیٹڈ کے ذمہ داران ’’رند کے رند رہے اور ہاتھ سے جنت نہ گئی‘‘ کے بمصداق ثابت ہوئے۔ جنہیں ملزم بناکر فائلوں کا پیٹ بھی بھر دیا گیا اور اپنے پیٹ بھر کر اُنہیں باعزت بری ہونے کا راستہ بھی مہیا کردیا۔ یوں لگتا ہے کہ ایف آئی اسے پوری تفتیش کو مقدمے کے اندراج میں ایسے حربوں سے قابو کرنے میں کامیاب رہے کہ اُن کی چوری ثابت ہونے کے باوجود اُنہیں ہاتھ کاٹنے کی سزا کبھی نہ مل سکے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایف آئی اے جہانگیر صدیقی کے گندے کپڑے دھونے کی کوئی واشنگ مشین ہے؟این آئی سی ایل کی تفتیش کے انجام سے تو یہی لگتا ہے!!!!!!
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو ممنوعہ اکاؤنٹ اور سائفر آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے علیحدہ علیحدہ طلب کر لیا۔ ایف آئی اے لاہور اور راولپنڈی نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو راولپنڈی آفس میں 3 نومبر جبکہ لاہور دفتر میں 7 نومبر...
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے فارن فنڈنگ کیس کو منی لانڈرنگ کیس میں تبدیل کرتے ہوئے عمران خان کو مرکزی ملزم نامزد کر دیا جس کے تحت انہیں طلبی کا نوٹس بھی جاری کیا گیا ہے اور پیش نہ ہونے پر ان کی گرفتاری کے امکانات ہیں۔ نجی ٹی وی کے مطابق ایف آئی اے کراچی کی جانب سے منی لان...
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے منی لانڈرنگ کیس میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کو کراچی میں طلب کرلیا۔ ذرائع کے مطابق ایف آئی اے نے عمران خان کو 31 اکتوبر پیرکو کراچی آفس میں طلب کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق عمران خان پر طارق شفیع کے اکاؤنٹ سے پی ٹی آئی اکاؤنٹ میں 5 کر...
لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ نے لیفٹیننٹ جنرل (ر)امجد شعیب کو حکومتی وفد پر اسرائیلی وفد سے ملاقات کا الزام لگانے پر نوٹس جاری کردیا۔ نجی ٹی وی کے مطابق جمعہ کو وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ قطر کے دوران حکومتی وفد کی اسرائیلی وفد سے مبینہ ملاقات کے الزام کے خلاف پٹیشن کی سماع...
فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے)نے لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کو دوسرا نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ وزیراعظم شہبازشریف اور اسرائیلی وفد کے درمیان ملاقات کی جھوٹی خبر کے معاملے پر چند دن قبل امجد شعیب کو نوٹس کے ذریعے7 ستمبرکو طلب کیا گیا تھا تاہم وہ ایف آئی اے سائبر ...
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے)نے جعلی ڈگری میں ملوث قومی ایئرلائن کے تین ملازمین کو گرفتار کرلیا۔ تفصیلات کے مطابق فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے)کارپوریٹ کرائم سرکل کراچی میں کارروائی کرتے ہوئے جعلی ڈگری میں ملوث پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن(پی آئی اے)کے تین ملازمین کو گ...
سابق وفاقی وزیر و سینئر رہنما پاکستان مسلم لیگ مونس الہٰی نے خود ایف آئی اے دفتر میں پیش ہو گئے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے نے مجھے اگر گرفتار کرنا ہے تو شوق سے کریں میں خود ان کے دفتر آ گیا ہوں۔ مونس الہٰی نے کہا کہ ہم نے جب پی ٹی آئی کے ساتھ جانے کا فیص...
ایف آئی اے لاہور نے منی لانڈرنگ کے الزام میں ق لیگی رہنما اور سابق وفاقی وزیر برائے آبی وسائل چوہدری مونس الہٰی کے خلاف مقدمہ درج کرلیا جبکہ ایف آئی اے نے مونس الہٰی کے دوشریک ملزمان مظہر اقبال بھٹی اور نواز بھٹی کو گرفتار کر لیا اور ان سے تفتیش جاری ہے جبکہ کیس میں تفتیشی افسران...
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے پاکستان مسلم لیگ (ق) کے رہنما مونس الہٰی کے خلاف منی لانڈرنگ کیس میں تحقیقات کا فیصلہ کر لیا ہے۔ حکومت کی جانب سے ہدایت ملنے کے بعد ایف آئی اے نے مونس الہٰی کے خلاف شواہد جمع کرنا شروع کیے تھے، منی لانڈرنگ کیس میں ایف آئی اے کو شواہد مل چکے ہی...
ایف آئی اے کے اسپیشل پراسیکیوٹر فاروق باجوہ نے وزیر اعظم میاں شہباز شریف، وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز سمیت تمام ملزمان پر16ارب روپے کی مبینہ منی لانڈرنگ کے کیس میں فوری فرد جرم عائد کرنے کی مخالفت کردی ۔ اسپیشل پراسیکیوٹر ایف آئی اے نے عدالت سے استدعا کی کہ سلمان شہباز سمیت تین ا...
اسپیشل سینٹرل کورٹ نے وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ کیس میں ایف آئی اے کے اسپیشل پراسیکیوٹر کی درخواست کے باوجود ٹرائل جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، 14مئی کو فرد جرم عائد کی جائیگی، ملزمان کو آئندہ سماعت حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی...
ایف آئی اے نے پی ای سی اے 2016 کے سیکشن 20 کے ایک حصے کو ختم کرنے کے حوالے سے سپریم کورٹ میں دائر اپیل واپس لینے کا فیصلہ کرلیا۔ ترجمان ایف آئی اے کے مطابق ایف آئی اے نے پی ای سی اے 2016 کے سیکشن 20 کے ایک حصے کو ختم کرنے کے حوالے سے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی، ایف آئی اے نے...