... loading ...
پاکستان کی سیاست کو کئی بار’’ڈرٹی پالیٹکس‘‘ کا خطاب ملا۔ کسی نے کسی کو خریدا توکوئی فروخت ہوا، کسی نے اسمبلی کے اندر اپنا خفیہ ووٹ سب کو دکھایا ۔تو کوئی قرآن پاک کی قسم اٹھا کر بھی مکر گیا۔ ہر سیاستدان نے ملک اور اس کے اداروں سے وفاداری کا حلف اٹھایا لیکن پھر انہی اداروں پر چڑھ دوڑا۔ پھرکبھی سیاستدان آئین کی بالادستی کے لیے سڑکوں پر نکلے، احتجاج ہوا، مظاہرے کئے، نعرے لگائے اور پھر اسی آئین کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا۔ کک بیک کے معنی آج بچے بچے کو یاد ہیں تو اس کی وجہ بھی ’’ڈرٹی پالیٹکس ‘‘ہی ہے۔ اربوں روپے کے قومی اثاثے اپنوں کو اونے پونے فروخت کرنے کا سلسلہ آج تک نہیں رکا، بلکہ احتساب کے لیے قائم واحدادارے قومی احتساب بیورو (نیب)کے سربراہ کی تقرری کا اختیار بھی وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کو دے دیاگیا۔ اب تو کوئی پوچھنے والا ہی نہیں رہا۔ یہ ہمارے ملک میں’’ڈرٹی پالیٹکس ‘‘کے بارے میں چند باتیں ہیں، لیکن کسی کو کیا خبر تھی کہ ’’گٹرسیاست ‘‘بھی اس نسل کو دیکھنے کو ملے گی۔ جب دنیا بائیسویں صدی کے استقبال کے لیے ابھی سے تیاریوں میں مصروف ہے لیکن ہم ’’گٹر سیاست ‘‘کر رہے ہیں۔ 25سال گزر گئے ہم ’’جمہوری تماشا ‘‘کر تے رہے اور انسان کو گھوڑا بنتا دیکھتے رہے جس کو ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ کا خوبصورت نام بھی دیا گیا۔
دو ہفتے قبل کراچی کی ایک اہم شاہراہ یونیورسٹی روڈ کے مکین جامعہ کراچی کے طلبہ اور وہاں سے گزرنے والے مسافر اس وقت حیران رہ گئے جب انہوں نے ایک گٹر پر وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کی تصویر دیکھی۔ کچھ لوگ تو یہ سمجھے شاید وزیر اعلیٰ سندھ نے کوئی نیا منصوبہ بنایا ہے اور تختی کی جگہ تصویر کا فیشن آ گیا ہے، لیکن ایک دو دن میں ہی’’فکس اٹ‘‘ کی یہ مہم سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔ ہر طرف مذاق ہونے لگاکہ اہم شاہراہوں پر گٹر کے ڈھکن کون ’’پی رہا ہے‘‘۔ سائیں بھی ’’طیش ‘‘میں آئے اورحکم جاری کیا کہ ’’تمام گٹروں ‘‘پر فوری طور پر ڈھکن لگائے جائیں ، لیکن ایسا نہ ہوسکا اور قسمت کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا۔ عالمگیر نامی ’’فکس اٹ مہم ‘‘کے بانی نے خود گٹر کا ڈھکن لگایا لیکن اس پر بھی قائم علی شاہ کی تصویر تھی۔ جب یہ معلوم ہوا کہ عالمگیر تو تحریک انصاف کا کارکن ہے، تو’’گٹر سیاست ‘‘کا باقاعدہ آغاز ہوگیا۔ عالمگیر کے خلاف مقدمہ درج ہوا، اس کے دوستوں کو بھی ہراساں کیا گیا، قانون دانوں نے جب جائزہ لیا تو کوئی ایسا سیکشن اور شق نظر نہیں آئی کہ گٹر کے ڈھکن لگانے اور تصویر بنانے پر کوئی سزا دی جائے کیونکہ گٹر کے ڈھکن چوری کرنا تو جرم ہے لیکن گٹر کے ڈھکن کی طرف حکمرانوں کی توجہ مبذول کرانا تو مسئلے کی نشاندہی ہے، اس پر تو ’’شکریہ ‘‘ ادا کرنا چاہیے تھا۔ پھر سائیں کی توپوں کا رخ گٹروں کے ڈھکن لگانے کے بجائے ایم کیو ایم کی جانب ہوا۔ وزراء کے بیانات آنے لگے کہ ’’گٹر وں ‘‘کے اندر ریت کی بوریاں ڈالی جا رہی ہیں، سیوریج کا سسٹم جان بوجھ کر تباہ کیا جا رہا ہے، ہماری حکومت کو ناکام کرنے کی سازش ہورہی ہے۔ یعنی جتنے وزرا ء اس سے زیادہ باتیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گٹروں کے ڈھکن لگانے کے لیے وزیر اعلی سندھ قائم علی شاہ اتوار کو خود نکلے اور اپنی نگرانی میں یہ کام کروایا۔ چلیے دیر آید درست آید، لیکن اب وزیر اعلیٰ سندھ بھر کے گٹروں کے ڈھکن خود اپنی نگرانی میں لگوائیں گے تو وزیر بلدیات اورسیکرٹری بلدیات کو فارغ کریں، محکمے کے ان افسران اور عملے کو برطرف کریں جو وزیر اعلیٰ کا ایک چھوٹا سا حکم بھی نہیں مانتے اور پہلے سے موجود بیڈ گورننس کو مزید خراب کرنا چاہتے ہیں، وہ یہ سب کیوں اور کس کے کہنے پر کررہے ہیں؟
ابھی ’’گٹر سیاست ‘‘کی شدت میں کمی ہو رہی تھی کہ سندھ حکومت کے خلاف ’’بارش سیاست‘‘ ہوگئی۔ کراچی میں پیر کے روز اچانک بارش نے سب سے زیادہ سندھ حکومت کوحیران و پریشان کیا۔ محکمہ موسمیات کو بغیر بتائے بادل کہاں سے آئے، کیسے آئے اوراچانک برس کر غائب ہوگئے؟ سڑکوں پر تو پانی پہلے ہی’’وافر مقدار‘‘ میں موجود تھا، پھر رہی سہی کسر چند منٹ کی بارش نے پوری کردی۔ اچانک بارش کے دوران سردی میں ٹھٹھرتے صوبائی وزیر بلدیات خواب خرگوش کے مزے چھوڑ کر سڑکوں پر آگئے، ٹی وی چینلز کے ڈھیروں مائیک دیکھ کر انہیں جوش بھی آیا، پانی صاف کرایا لیکن دو دن بعد پھر ڈھاک کے تین پات۔
کراچی کے شہری حیران و پریشان ہیں کہ انہوں نے بلدیاتی انتخابات میں ووٹ ڈال دیے پھر انہیں کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے؟ عوام پہلے ٹارگٹ کلنگ سے تنگ تھے، پھر بھتہ خوروں نے چین کا سانس نہیں لینے دیا، اسٹریٹ کرائمز نے تو اکیلے جانا اور رات گئے گھومنے کا تصور ہی ختم کردیا، ٹیکسوں کی بھر مار نے جینا محال کیا، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں نے گاڑیوں کو بھی تباہ کیا اور مسافروں کو بھی اندر سے توڑ پھوڑکر رکھ دیا۔ جو کام نعمت اﷲ خان اور مصطفی کمال کے دور میں ہوئے، اب ان کا ذکر صرف پرانے اخبارات میں ہی ملتا ہے۔ یہ مسائل کم ہوئے تو سیوریج کا پانی ایک نیا مسئلہ بن کر کھڑا ہوگیا۔ بغیر ڈھکن کے گٹر ایک نئی سیاست سکھا رہے ہیں جس کے چرچے پوری دنیا میں ہورہے ہیں۔ اب تو یہ تبصرے بھی ہونے لگے ہیں کہ ”گٹر میں بوریاں ڈالنے کے جرم میں نوے دن کا ریمانڈ بھی لیا جاسکتا ہے۔ ’’گٹرسیاست ‘‘جیسا مذاق کبھی کہیں کسی کے ساتھ نہیں ہوا جو کراچی والوں کے ساتھ کسی نہ کسی بہانے نت نئے طریقوں اوربے پناہ اذیت کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔
وفاقی کابینہ نے قومی احتساب بیورو( نیب )کی سفارش پر پاکستان مسلم لیگ (ن)کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں محمد شہباز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کی منظوری دے دی۔ نجی ٹی وی کے مط...
ایم کیو ایم کی حالت اِس وقت ایسی ہے جو سونامی کے بعد کسی تباہ شدہ شہر کی ہوتی ہے... نہ نقصان کا تخمینہ ہے نہ ہی تعمیر نو کی لاگت کا کوئی اندازہ ...چاروں طرف ملبہ اور تصاویر بکھری پڑی ہیں۔ ایم کیو ایم میں ابھی تک قرار نہیں آیا... ہلچل نہیں تھمی... اور وہ ٹوٹ ٹوٹ کر ٹوٹ ہی رہی ہے۔ ...
کراچی میں دو دن میں اتنی بڑی تبدیلیاں آگئیں کہ پوراشہر ہی نہیں بلکہ ملک بھی کنفیوژن کا شکار ہوگیا۔ پاکستان کے خلاف نعرے لگے، میڈیا ہاؤسز پر حملے ہوئے، مار دھاڑ کے مناظر دیکھے گئے، جلاؤ گھیراؤنظر آیا اور بالآخر ایم کیو ایم کے اندر ایک بغاوت شروع ہوگئی۔ فاروق ستار نے بغیر کسی مزاحم...
وزیراعظم صاحب نے ایک بار پھر یاد دلادیا کہ کراچی لاوارث یتیم لاچاراوربے بس شہر ہے...کراچی کے مختصر ترین دورے کے دوران نواز شریف صاحب نے نہ ایدھی ہاؤس جانے کی زحمت گوارا کی نہ امجد صابری کے لواحقین کودلاسہ دیا۔ جس لٹل ماسٹر حنیف محمد کو پوری دنیا نے سراہا ،نواز شریف ان کے گھر بھی ...
ماضی کا ایک مشہور لطیفہ ہے۔ ایک افغان اور پاکستانی بحث کر رہے تھے۔ پاکستانی نے افغان شہری سے کہا: ’’تم لوگوں ‘‘کے پاس ٹرین نہیں تو ریلوے کی وزارت کیوں رکھی ہوئی ہے؟ افغان نے جواب دیا: ''تم لوگوں کے پاس بھی تو تعلیم نہیں پھر تمہارے ملک میں اس کی وزارت کا کیا کام ہے۔ کراچی اور ح...
نئے وزیر اعلیٰ مرادعلی شاہ کے تقرر سے سندھ عملی طور پردو حصوں میں تقسیم ہوگیا ہے۔۔۔۔۔سندھ میں ’’خالص سندھی حکومت‘‘قائم ہوچکی ہے۔۔۔۔۔پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے 1972ء کے لسانی فسادات کے بعد یہ تسلیم کیا تھا کہ سندھ دو لسانی صوبہ ہے اور سندھ میں آئندہ اقتدار کی تقسیم ا...
سندھ کے میدانوں‘ ریگزاروں اور مرغزاروں سے لہراتا بل کھاتا ہوا شوریدہ سر دریائے سندھ کے کناروں پر آباد باشندے اس عظیم دریا کو ’’دریابادشاہ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ دریائے سندھ نہ صرف صوبے کی زمینوں کو سیراب کرتا ہے بلکہ ’’بادشاہت‘‘ بھی بانٹتا ہے۔ پہلے دریا کے دائیں کنارے پر آباد شہر خیرپور...
سندھ حکومت کو مشورہ دیا گیا کہ وزیرداخلہ کو فارغ کردو، اس پر فلاں فلاں الزام ہے۔ الزامات کا تذکرہ اخبارات میں بھی ہوا۔ لاڑکانہ میں رینجرز نے وزیر داخلہ کے گھر کے باہر ناکے بھی لگائے، ان کے فرنٹ مین کو قابو بھی کیاگیا، لیکن رینجرزکی کم نفری کا فائدہ اٹھاکر، عوام کی مدد سے، سندھ...
وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے گورنر سندھ عشرت العباد کو اپنا استعفیٰ پیش کردیا جسے انہوں نے منظور کر لیا۔ تفصیلات کے مطابق سندھ میں آٹھ سال تک وزیراعلیٰ رہنے والے قائم علی شاہ اپنی کابینہ کے ارکان نثار کھوڑو، ناصر شاہ، مکیش کمار چاؤلہ، منظور وسان اور دیگر کے ہمراہ گورنر ہاؤس پہن...
پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے خورشید شاہ نے ایک عجیب و غریب اور ناقابل یقین بیان دیا کہ سندھ میں امن پولیس نے قائم کیا ہے اور باقی کسی ادارے کا اس میں کوئی کردار نہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ رینجرز کو اختیارات ضرور دیں گے مگر قانون اور قواعد کی پابندی کرتے ہوئے، انہوں نے رینجرز ...
پاکستان پیپلز پارٹی نے بآلاخر سندھ میں وزیراعلیٰ سمیت کابینہ میں تبدیلیوں کا فیصلہ کرلیاہے۔ پارٹی کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ دبئی میں پارٹی قیادت کے اجلاس میں سندھ میں نیا وزیراعلیٰ لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔فرحت اللہ بابر کے مطابق سابق صدر آصف علی زرداری اور پارٹی کے چ...
آٹھ سالہ سائیں سرکار اور پیپلزپارٹی کے پرکھوں کی نشانی قائم علی شاہ کو بآلاخر پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت نے تبدیل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اور اگلے چوبیس یا اڑتالیس گھنٹوں میں اس کا باقاعدہ اعلان متوقع ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت نے سندھ میں مسلسل بگڑتے حالا...