... loading ...
انسداد دہشتگردی کی عدالت نے18جنوری2016ء کو نواب اکبر بگٹی قتل کیس کا آخر کار فیصلہ سنادیا ۔ سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف سمیت سابق وفاقی وزیر داخلہ آفتاب احمد شیر پاؤ اور بلوچستان کے سابق صوبائی وزیر داخلہ شعیب نوشیروانی کو بری کردیا۔ پرویز مشرف ایک بار بھی کوئٹہ کی عدالت میں پیش نہ ہوئے۔ انہوں نے عدالت میں حاضری سے استثنا ء لے رکھی تھی۔ سابق وزیراعظم شوکت عزیز ، بلوچستان کے اس وقت کے گورنر اویس احمد غنی اسی طرح عبدالصمد لاسی جو کہ ان دنوں ڈیرہ بگٹی کے ڈپٹی کمشنر تھے عدالت میں پیش نہ ہوئے بلکہ وکیل تک نہیں بھیجا۔ آفتاب احمد شیر پاؤ اور شعیب نوشیروانی ہر پیشی پر خود عدالت میں حاضر ہوتے۔
نواب بگٹی کی ہلاکت کا واقعہ 26اگست2006ء کو تراتانی کے پہاڑوں میں پیش آیا۔ یہ ڈیرہ بگٹی اور کوہلو اضلاع کا درمیانی علاقہ تھا۔ نواب کا قافلہ اونٹوں پر نامعلوم جگہ منتقل ہورہا تھا۔ پیش ازیں جب سوئی میں ڈاکٹر شازیہ سے زیادتی کا واقعہ رونما ہوا ۔اس کا الزام آرمی کے ایک کیپٹن پر لگا تھا۔ دراصل اس واقعہ نے چنگاری کا کام کیا۔ نواب بگٹی ، پہلے ہی ڈیرہ بگٹی میں تیل و گیس کے معاہدوں پر تحفظات کا اظہار کررہے تھے۔ یہ وقت مشرف کی آمریت کا عروج کا بھی تھا۔ یوں قبائل نے اشتعال میں آکر گیس فیلڈ پر گولے داغے اور طبل جنگ بج گیا۔ اس پورے عرصے میں مصالحت کا کوئی ذمہ دارانہ کردار ادا نہ ہوسکا۔ چودھری شجاعت حسین اور مشاہد حسین نواب بگٹی سے ملنے آئے مگر یہ دونوں حضرات ان دنوں پرویز مشرف کے بازوئے شمشیر بنے ہوئے تھے۔17مارچ2005ء کو حکومتی حملے میں کئی افراد ہلاک ہوگئے ۔ مرنے والے ان افراد میں بیشتر ہندو تھے۔ پارلیمانی کمیٹی نے بھی حالات کی سنگینی کے پیش نظر ڈیرہ بگٹی کا دورہ کیا۔ جب حالات انتہائی ناگفتہ بہ ہوگئے تو نواب بگٹی نے پہاڑوں کا رخ کر لیا اور فورسز پیچھا کرتی رہیں۔ اول تو حکومت کی جانب سے ایسی حکمت عملی طے ہونی چاہیے تھے کہ نواب بگٹی اپنے قلعہ اور علاقے سے نکلنے پر مجبور نہ ہوتے ۔ دوئم، اگر وہ نکل بھی گئے تو ان کا تعاقب نہیں کرنا چاہیے تھا۔ نواب بگٹی اگر کہیں روپوش ہو بھی جاتے تو کیا وہ لشکر جرار تیار کرکے فوجی چھاؤنیوں پر حملہ آور ہونے کی منصوبہ بندی کرتے؟معاملہ سیاسی انداز میں حل ہونا ممکن تھا۔ تعاقب کا جو نتیجہ برآمد ہوا وہ آج ہمارے سامنے ہے،اتنا نقصان ہوا کہ جس کی تلافی نا ممکن ہے۔ نواب بگٹی کو بڑے پراسرار انداز میں دفن کردیا گیا۔ تابوت مقفل تھا ۔ نوابزادہ جمیل بگٹی نے عدالت میں تابوت کھولنے کی درخواست بھی دے رکھی تھی۔ اول تو مقدمہ قتل درج نہیں کیا جارہا تھا بالآخر بلوچستان ہائی کورٹ کے حکم پر2009ء کے اکتوبر کے مہینہ میں مقدمہ درج ہوا۔ جمیل بگٹی نے درخواستیں دی تھیں کہ نواب بگٹی کا ڈی این اے ٹیسٹ کرایا جائے اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں قبر کشائی کرائی جائے۔ اس کے ساتھ درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ مذاکراتی کمیٹیوں میں شامل سینئر پارلیمنٹرین اور حامد میر، ڈاکٹر شاہد مسعود سمیت دیگر سینئر صحافیوں کو عدالت میں بطور گواہ پیش کیا جائے۔ چنانچہ عدالت نے ان درخواستوں کو مسترد کردیا۔ شوکت عزیز ، اویس احمد غنی اور عبدالصمد لاسی اس مقدمے میں مفرور قرار دیئے گئے۔ ان کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کئے گئے۔ جام محمد یوسف اس وقت وزیراعلیٰ بلوچستان تھے۔ ان کا نام بھی مقدمے میں شامل ہوا۔اس عرصے میں ان کا انتقال ہوگیا چنانچہ نام مقدمے سے خارج کردیا گیا تھا۔ یقینا عدالت نے دستیاب شواہد کی بنیاد پر فیصلہ سنا دیا ہے۔ موقع پر پولیس بھی نہ جاسکی چنانچہ اہم سوال یہ ہے کہ پرویز مشرف کی حکومت اور حکمرانی خلاف دستور و قانون تھی۔ اس نے 12اکتوبر1999کو نواز شریف کی منتخب حکومت پر چڑھائی کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا۔ دستور کو پامال اور بوٹوں تلے روند ڈالا۔ ایک شخص جس پر خود غداری کا مقدمہ چل سکتا ہے اسے کیسے حق حاصل ہے کہ وہ ملک و قوم کے مفاد کا پرفریب نعرہ بلند کرکے ایک قدآور سیاسی و قبائلی شخصیت کو غدار قرار دے اور ان کا محاصرہ کرے ؟
پرویز مشرف نے اس ملک کو ایک اور آزمائش میں ڈال دیا یعنی فاٹا کا ناسور پرویز مشرف کا پیدا کردہ ہی ہے۔ نواب بگٹی قتل کیس میں 30دسمبر2015ء کی پیشی پر ان کے وکیل سید اختر شاہ ایڈووکیٹ نے جمیل بگٹی سے واقعہ کو اﷲ کی رضا سمجھ کر کیس ختم کرنے کی استدعا کی۔ جمیل بگٹی نے بتایا کہ مشرف نے معاف کرنے کا پیغام بھیجا ہے ۔ اس پر پرویز مشرف نے پھر غرانا شروع کردیا ۔ کہا کہ وہ کس بات کی معافی مانگے اور کیوں مانگے بلکہ کہا کہ میں کوئی معافی نہیں مانگوں گا۔ نواب بگٹی نے بہر حال سیاسی اور قانونی مطالبات پیش کئے تھے ۔مگر کسی نے لائق اعتنا ء نہ سمجھا۔ آصف علی زرداری کی حکومت میں اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ذریعے صوبوں کو آئینی اختیارات دیئے گئے۔ گویا نواب بگٹی اپنے مطالبات میں غلط نہ تھے۔ 18ویں آئینی ترمیم اب بازیچہ اطفال بن چکا ہے۔ جو جماعتیں اس پر خوشی سے جھوم اٹھی تھیں انہی کی جانب سے پھر صوبائی خود مختاری کے مطالبات بلند ہونا شروع ہوگئے۔ یعنی اس ملک میں کوئی آئینی حق کو بھی تسلیم کرنے کو تیا رنہیں۔ سوئی سے گیس پچاس کی دہائی میں دریافت ہوئی ۔ پورے ملک کی ضروریات اس گیس سے ایک لمبے عرصے سے پوری ہورہی تھیں مگر خود سوئی اور ڈیرہ بگٹی آج بھی گیس سے محروم ہیں، ضرورت کیلئے لکڑیاں جلانے پر مجبور ہیں اور پورا ضلع پسماندگی اور درماندگی کی علامت ہے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کی رو سے صوبوں کو اپنے قدرتی وسائل کی تلاش اور ترقی کا اختیار حاصل ہے۔ مگر عملاً یہ اختیار تفویض کرنے کو اسلام آباد اور وہاں کی بیورو کریسی تیار نہیں ۔ پی پی ایل اس سال سوئی میں مزید چار کنوؤں کی کھدائی کرے گی۔ ان میں ایک کنواں چار ہزار میٹر گہرا ہوگا ۔ خضدار، لسبیلہ، خاران ، حب اور بارکھان میں تیل اور گیس کی تلاش کیلئے سیسمک سروے بھی کرلیا گیا ہے اور2017ء میں بارکھان، خاران، لسبیلہ اور خضدار میں ڈرلنگ کا کام شروع کردیا جائے گا۔ بلوچستان کے حوالے سے کئے جانے والی ایک سروے سے پتہ چلا ہے کہ اس خطے میں تیل اور گیس کے ذخائر دریافت کرنے کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ سوال یہ ہے کہ معدنی ذخائر سے مالا مال بلوچستان اور یہاں کے عوام کا اپنا مستقبل کیا ہوگا؟ کیا نا انصافی کے خلاف شورشیں اٹھتی رہیں گی اور ان شورشوں کو ٹھنڈا کرنے کی خاطر طاقت کا استعمال کیا جا تا رہے گا ؟ اور نواب بگٹی کی ہلاکت جیسے سانحات پیش آتے رہیں گے۔ اگر مقتدر طبقہ اپنی ہوس سے آزاد ہو تو یقینا بلوچستان اور یہاں کے باسی ترقی ، عزت اور خوشحالی کی زندگی بسر کرنے لگیں گے۔ اگر صوبہ اپنے حق سے محروم نہ ہوتا تو وفاقی حکومتوں کی جانب سے ’’آغاز حقوق بلوچستان ‘‘ جیسے پیکجز اعلان کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی ۔ محرومیاں ہیں تو اس طرح کی چالبازیوں کا سہارا لیا جاتا ہے ۔صوبے کو آئینی حق حاصل ہو تو کسی سیاسی ڈرامے بازی کی ضرورت ہی نہیں ہو گی ۔
ملک کی دو پارٹیوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود آج بھی سابق صدرپرویز مشرف پاکستانی سیاست کا ''ہاٹ ٹاپک ہے۔ ملک کے تمام اخبارات اور ٹی وی چینلز پرویز مشرف کا تذکرہ کرتے نہیں تھک رہے۔ ان کی سیاست کی کہانی بہت دلچسپ ہے۔ سیاسی جماعتیں بالخصوص ایک سابق وزیراعظم پرویز مشرف کو اپنے ’’ذاتی...
چند روز قبل یکے بعد دیگرے دو بڑی خبریں قومی میڈیا پر نشر ہوئیں۔ ایک سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے بیٹے کی بازیابی اور دوسری بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے انتہائی اہم کمانڈر اسلم اچھو کی آپریشن میں ہلاکت۔ شہباز تاثیر کا ساڑھے چار سال بعد کوئٹہ کے نواحی علاقے کچلاک میں ظاہر ہون...
عدالت عظمیٰ نے اپنے ایک اہم ترین فیصلے میں جنرل (ر) پرویز مشرف کو ایمرجنسی کا تنہا ذمہ دار قراردے دیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے سنگین غداری مقدمے میں جسٹس ریٹائرڈ عبدالحمید ڈوگر کی اپیل پر فیصلہ سناتے ہوئے خصوصی عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے شریک ملزمان کا نام مقدمے سے نکالن...
بدھ 13جنوری2016ء کی صبح ہی شہر کوئٹہ پولیس جوانوں کے خون سے رنگ دیا گیا۔ حملہ خودکش تھا جو سیٹلائٹ ٹاؤن میں حفاظتی ٹیکوں کے مرکز کے سامنے ہوا ، یہاں سے پولیو ٹیموں نے روانہ ہونا تھا۔ ڈسٹرکٹ پولیس اور بلوچستان کانسٹیبلری کے اہلکار ان کی حفاظت کیلئے ساتھ جانے کو تیار تھے۔ کسی ظالم ...
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے نواب اکبر بگٹی قتل کے مقدمے میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو بری کردیا۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج جان محمد گوہر نے نواب اکبر بگٹی قتل کیس کی سماعت کی ۔عدالت نےتقریباً چھ برس بعد فیصلہ سناتے ہوئے پرویز مشرف، اس وقت کے وفاقی وزیر داخلہ آفتاب اح...
پاکستان کی کشمیر پالیسی ویسے تو من حیث المجموع تضادات کا مجموعہ رہی ہے ۔لیکن 1999ء سے ،اس نے ایک نئی شکل اختیار کی ،جسے کشمیر کش پالیسی کا نام دینا زیادہ بہتر محسوس ہورہا ہے۔ٹریک سے چڑھتی اُترتی اس پالیسی کا نقصان سب سے زیادہ ان مجاہدین کو ہوا جنہوں نے چند ہی سالوں میں دہلی کی چو...
خیبر پختونخواہ حکومت نے صوبے کے تعلیمی نصاب میں نظرثانی کا دوٹوک فیصلہ کر لیا ہے۔ صوبائی حکومت کے اندرونی اور عمران خان کے قریبی ذرائع نے’’ وجود ڈاٹ کام‘‘کو تصدیق کی ہے کہ عمران خان کی جانب سے اس کی واضح ہدایات جاری کر دی گئی ہے۔ عمران خان کی جانب سے اپنی صوبائی حکومت کو کہا ...
کوئٹہ اور بلوچستان کے بلوچ اضلاع میں 26 ؍اگست2015ء کو نواب محمد اکبر خان بگٹی کی نوویں برسی منائی گئی۔ شہر کوئٹہ میں کہیں کہیں دُکانیں بند نظر آئیں۔ البتہ بعض بلوچ اضلاع میں کاروبار احتجاجاً بند رکھے گئے تھے۔ یہ دن تعزیتی ریفرنسوں میں گزرا۔ احتجاج کی شدت گزشتہ سالوں کی نسبت کم ر...