وجود

... loading ...

وجود

میر شکیل الرحمان نے اپنے سمدھی جہانگیر صدیقی کے لئے جنگ اور جیوکی ساکھ داؤ پر لگادی

منگل 19 جنوری 2016 میر شکیل الرحمان نے اپنے سمدھی جہانگیر صدیقی کے لئے جنگ اور جیوکی ساکھ داؤ پر لگادی

geo

جنگ گروپ نے اپنے سمدھی جہانگیر صدیقی کی کاروباری مسابقت کی لڑائی کو خود اوڑھ کر صحافتی اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے۔ یہ ادارہ جتنا بڑا ہے ، اس لڑائی میں اُتنا ہی چھوٹا بن کر ظاہر ہو رہا ہے۔ جس کے باعث جنگ اور جیو کی ساکھ مکمل داؤ پر لگ چکی ہے۔

ادارہ جنگ کے متعلق یہ بات بہت پہلے سے مشہور ہے کہ جنگ میں پہلا حملہ سچ پر ہوتا ہے۔ اس ادارے کی الزام تراشیوں کی روش نے اب ایک منظم مہم کی شکل اختیار کر لی ہے اور یہ اس مہم میں ہر حد کو پار کرنے لگا ہے۔

AKD

یوں لگتا ہے کہ جنگ اور جیو کے لئے دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ صرف اور صرف عقیل کریم ڈھیڈی ہیں۔ چنانچہ جنگ اور جیو ایک ہی مقدمے کے الزامات کو بار بار الفاظ بدل بدل کر ہر روز اپنے اخبارات کے صفحہ اول پر دہراتا رہتا ہے اور جیو میں اس کی جُگالی کرتا رہتا ہے۔ 18 جنوری کو جنگ اور جیو میں ایک مرتبہ پھر اُسی ایمٹیکس کے مسئلے پر جنگ نے ایک مرتبہ پھر اے کے ڈی سیکورٹیز کو رگیدنے کی کوشش کی۔ جسے وہ ایف آئی اے کی جانب سے مقدمہ بنائے جانے کے بعد سے یکطرفہ مسلسل موضوع بنا رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ پروپیگنڈا صحافتی اقدار کے عین مطابق کسی بھی طرح سے خبر بننے کے لائق ہے تو یہ باقی اخبارات سے غائب کیوں ہے؟خبروں کے لئے ایک بوٹی پر کتوں کی طرح لڑنے والے ذرائع ابلاغ کو اس کی بِھنک توکیوں نہیں پڑ رہی؟

خبر کی ساخت

جنگ گروپ نے 18 جنوری کو اس خبر کی بنت میں معروضیت کی کوئی پروا نہیں کی اور ایک طرح سے ایف آئی اے کی طرف سے بنائے گیے مقدمے پر عدالتی فیصلے کا انتظار کئے بغیر خود ہی فیصلہ سنا دیا ہے۔ ذرا خبر کا ابتدائیہ ملاحظہ کیجئے!
” اے کے ڈی سیکورٹیز، ایمٹیکس اور ای او بی آئی کے خلاف ایف آئی اے کی کارروائی مکمل طور پر قانون کے مطابق کی گئی ہے اور اس میں ” منتخب پراسیکیوشن” سے کام لیا گیا ہے اور نہ کسی بروکریج ہاؤس کا ٹارگٹ کیا گیا ہے۔ ”

سرمائے کی مارکیٹ کو کنٹرول کرنے والی قوت ریسرچ رپورٹ نہیں بلکہ دیگر عوامل ہوتے ہیں۔اگر یہ منتخب پراسیکیوشن نہیں تو پھر ایف آئی اے نہیں تومیر شکیل الرحمان یا پھر اُن کا کوئی نمائندہ ہی بتا دے کہ اب تک کتنی غلط ریسرچ رپورٹوں پر ایف آئی اے نے کارروائی کی ہے؟

اس ابتدائیے میں ہی جنگ گروپ نے جھوٹ کا طومار باندھ دیا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ایف آئی اے کی کارروائی قانون کے مطابق ہے یا نہیں، اس کافیصلہ جنگ گروپ اور جیو کیوں سنا رہا ہے؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر جنگ گروپ کسی خبر کو بیان کرتے ہوئے اس نوع کا فیصلہ خود سے کیسے صادر کرسکتا ہے۔ یہ بات تو ایف آئی اے کے ڈائریکٹر سندھ اور جہانگیر صدیقی کے “دوست” شاہد حیات کو عدالت میں ثابت کرنی ہوگی کہ یہ منتخب پراسیکیوشن ہے یا نہیں۔ جنگ خبر دینے کےبجائے فیصلہ کیوں دے رہا ہے؟

منتخب پراسیکیوشن نہیں تو اور کیا ہے؟

اگر اے کے ڈی سیکورٹیز کے خلاف یہ معاملہ ایک منتخب پراسیکوشن نہیں ہے تو اب یہ ایف آئی اے نہیں خود جنگ گروپ ہی واضح کردے کہ پھر اس نوع کے ہزاروں معاملات دیگر بروکریج ہاؤسز کے ساتھ بھی نتھی ہیں ، اُن میں سے کسی ایک کے خلاف ایف آئی اے تو کیا خو دجنگ گروپ بھی حرکت میں کیوں نہیں آیا؟ ایف آئی اے نے اس طرح کا کوئی مقدمہ نہیں بنایا اور جنگ گروپ نے اس طرح کی کوئی خبر نہیں بنائی، آخر کیوں؟اس حوالے سے تفصیلات بہت دلچسپ ہیں۔کراچی میں 70 بروکریج ہاؤس باقاعدگی سے ریسرچ رپورٹیں شائع کرتے ہیں۔ جن میں سے متعدد کے اندازے اور ریسرچ رپورٹیں غلط ثابت ہوتی رہتی ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دس ہزار کے قریب جاری ہونے والی ان ریسرچ رپورٹوں میں سے

ایمٹیکس ، بینک آف پنجاب کا ڈیفالٹر تھا تو بینک آف پنجاب نے اُس کو شیئرز فلوٹ کرنے کی اجازت کیوں دی؟ کیا بینک آف پنجاب بھی اے کے ڈی سیکورٹیز کی ریسرچ رپورٹ سے متاثر ہوگیا تھا؟

اکثر اندازوں کی غلطی سے دوچار ہوتی رہتی ہیں۔ کیونکہ سرمائے کی مارکیٹ کو کنٹرول کرنے والی قوت ریسرچ رپورٹ نہیں بلکہ دیگر عوامل ہوتے ہیں۔اگر یہ منتخب پراسیکیوشن نہیں تو پھر ایف آئی اے نہیں تو میر شکیل الرحمان یا پھر اُن کا کوئی نمائندہ ہی بتا دے کہ اب تک کتنی غلط ریسرچ رپورٹوں پر ایف آئی اے نے کارروائی کی ہے؟ یا کسی بروکریج ہاؤس کو نشانا بنایا گیا ہے؟ چلیں بروکریج ہاؤس کو چھوڑیں ۔ اسی نوع کی ریسرچ رپورٹیں خود حکومت پاکستان اور اس کے مالیاتی ادارے بھی جاری کرتے رہتے ہیں۔ جن میں اسٹیٹ بینک بھی شامل ہے۔ ان کی کوئی رپورٹ تو شاذ ہی درست نکلتی ہے۔کیا کبھی ان کے خلاف بھی کوئی کارروائی کی گئی؟ اگر ایک ہی قسم کے مسئلے پر دیگر 70 بروکریج ہاؤس کے خلاف کبھی کوئی کارروائی تک نہیں کی گئی تو پھر صرف اے کے ڈی سیکورٹیز کے خلاف کارروائی منتخب پراسیکیوشن نہیں تو اور کیا ہے؟اور یہ صرف ایک ہی بروکریج ہاؤس کو ہی ٹارگٹ نہیں کیا گیا تو اور کس کو کیا گیا ہے؟

یہ منتخب پراسیکیوشن ہی نہیں منتخب یعنی زرد صحافت بھی ہے!

جنگ اور جیو گروپ سرکاری اداروں کو گمراہ کرنے کے بدترین جرم میں ہی ملوث نہیں بلکہ صحافت کے اعلیٰ معیارات کو بھی سمدھی کی بارگاہ میں قربان کرنے میں ملوث ہوتا جارہا ہے۔ذرا خبر کے ابتدائیے پر پھر غور کیجئے!
” اے کے ڈی سیکورٹیز، ایمٹیکس اور ای او بی آئی کے خلاف ایف آئی اے کی کارروائی مکمل طور پر قانون کے مطابق کی گئی ہے اور اس میں ” منتخب پراسیکیوشن” سے کام لیا گیا ہے اور نہ کسی بروکریج ہاؤس کا ٹارگٹ کیا گیا ہے۔ ”
کیا واقعی ایف آئی اے نے اب تک اے کے ڈی سیکورٹیز کے علاوہ ایمٹیکس اور ای او بی آئی کے خلاف کوئی بھی کارروائی کی ہے؟خود جنگ کی آج (19 جنوری) کی خبر ملاحظہ فرمائیں ۔ زرد صحافت کی ایک مثال کےطور پر یہ اس امر کو بھی واضح کرتی ہے کہ اس مسئلے میں اے کے ڈی سیکوریٹیز کے علاوہ اب تک کسی کے خلاف کوئی عملی پیش رفت نہیں ہوئی۔وفاقی اینٹی کرپشن کورٹ کی جانب سے 18 جنوری کواے کے ڈی سیکورٹیز کے عہدیداروں کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کرنے کی خبر میں جنگ گروپ نے گزشتہ سماعت کے چالان کا ذکر بھی کردیا ہے۔ یوں ایک ہی بات کو بار بار بطور پروپیگنڈے کو دُہرانے کا مقصد پورا کرنے میں گروپ یہ فرمواش کر گیا کہ وہ کہہ کیا رہا ہے۔ خبر کے مطابق ” چالان میں 22 نامزد ملزمان کے نام دیئے گیے ۔ چالان میں بتایا گیا کہ 3 ملزمان گرفتار اور 2ضمانت پر ہیں۔ جبکہ 2 ملزمان کا انتقال ہو چکا ہے۔” گویا خبراور ایف آئی اے کے چالان کے مطابق ایف آئی اے نے اب تک 22 میں سے جن 3 ملزمان کو گرفتار کیا ہے اُن میں تینوں کے تینوں صرف اور صرف اے کے ڈی سیکورٹیز سے تعلق رکھتے ہیں۔ مرنے والے دو ملزمان کو چھوڑ کر باقی 17 ملزمان میں سے کسی کے خلاف اب تک ایف آئی اے کوئی معمولی پیش رفت بھی نہیں دکھا سکا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ خود جنگ گروپ نے 9 جنوری کو اپنی اشاعت میں قارئین کو یہ مژدہ سنایا تھا کہ ای او بی آئی کے سابق چیئرمین ظفر گوندل جو پہلے سے ہی دو مقدمات میں گرفتار ہیں، اُنہیں ایمٹیکس مقدمے میں بھی باقائدہ گرفتار کرکےایف آئی اے تفتیش کرے گی۔ حد تو یہ ہے ایف آئی اے اپنے چالان میں پہلے سے ہی گرفتار ای اوبی آئی کے سابق چیئرمین اور مرکزی ملزم تک کو گرفتار ظاہر نہیں کر سکی۔اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ 9 جنوری کو اس مقدمے میں تیزی کی نوید سنانے والے جنگ گروپ کو دس روز بعد ایف آئی اے کے چالان کی خبر کی مکرر اشاعت میں اس کا خیال تک نہیں آیا کہ ایف آئی اے منتخب پراسکیوشن کرتے ہوئے دیگر ملزمان کواس مقدمے میں ہاتھ تک نہیں لگا رہی۔ زرد صحافت کی اس سے بھونڈی کہانی اور سرکاری اداروں کے ذریعے کسی کو انتقام کا نشانا بنانے کی اس سے مکروہ مثال اور کیا ہوسکتی ہے؟

کیا ایمٹیکس کے ڈیفالٹ کا ملبہ ایمٹیکس پر نہیں اے کے ڈی سیکورٹیز پر گرے گا؟

جنگ اور جیو کی خبر یہ واضح کرتی ہے کہ ایمٹیکس کے بینک آف پنجاب سے ڈیفالٹ کا ملبہ ایمٹیکس اور ای او بی آئی کو نہیں بلکہ ریسرچ رپورٹ جاری کرنے والے اے کے ڈی سیکورٹیز کو اُٹھانا پڑے گا۔ جسے اپنی ریسرچ رپورٹ میں دراصل اعدادوشمار اور سامنے کے حقائق جاری کرنے کے بجائے اصل میں “ایف آئی اے” بن کر ایمٹیکس کے اندرونی معاملات کی کھوج لگانا تھی۔ جنگ کی خبر اور ایف آئی آر کے تیور سےتو یہ لگ رہا ہے کہ اے کے ڈی سیکورٹیز دراصل ریسرچ کرنے والا کوئی ادارہ نہیں بلکہ تفتیش کرنے والا اور اسکینڈلز گھڑنے والا ایف آئی اے کا کوئی سرکاری محکمہ ہے۔ اور اے کے ڈی سیکورٹیز کے عہدیداروں کو دراصل ڈائریکٹر سندھ ایف آئی اے شاہد حیات کے اختیارات حاصل ہیں۔اس ضمن میں پہلے تو اس کا لحاظ ہونا چاہئے تھا کہ ریسرچ رپورٹ کے لئے ایک بروکریج ہاؤس کی اپنی محدودات کیا ہوتی ہے اور وہ کن معاملات کوسامنےرکھتا ہے۔ کسی بھی بروکریج ہاؤس کی ریسرچ رپورٹ کا ماخذ اور انحصار تین بنیادی امور پر ہوتا ہے:

  • آڈٹ
  • کھاتوں کے اعدادوشمار
  • خود متعلقہ کمپنی کی پیش بینی

ان تینوں بنیادی ماخذات پر انحصار کے ساتھ اے کے ڈی سیکورٹیز کی ریسرچ رپورٹ نے اپنے طور پر یہ وضاحت بھی کر دی تھی کہ اس کی تمام معلومات خود ایمٹیکس کی مہیا کردہ ہے۔ اب کمپنی کے ڈیفالٹ کا مسئلہ خود کمپنی کی زبان سے کیسے ادا ہو سکتا تھا؟ریسرچ رپوٹ اپنی ان ہی محدودات کے باعث ہی تو ایک اعلان لاتعلقی دیتا ہے۔ کیا اس اعلان لاتعلقی کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی؟ اب جنگ گروپ بھی ایف آئی اے کے ساتھ اس پر تُلا بیٹھا ہے کہ ایمٹیکس کے ڈیفالٹ کی ذمہ داری نہ تو خود ایمٹیکس پر عائد ہوتی ہے اور نہ ہی ای او بی آئی پر ۔۔یہ صرف اے کے ڈی سکورٹیز کی ذمہ داری ہے۔ تو پھر اس پر کچھ سوالات بھی اُٹھتے ہیں۔

  • ایمٹیکس ، بینک آف پنجاب کا ڈیفالٹر تھا تو بینک آف پنجاب نے اُس کو شیئرز فلوٹ کرنے کی اجازت کیوں دی؟ کیا بینک آف پنجاب بھی اے کے ڈی سیکورٹیز کی ریسرچ رپورٹ سے متاثر ہوگیا تھا؟
  • ایس ای سی پی نے اس پر کوئی اعتراض کیوں نہیں کیا؟کیا اس بے خبری کی ذمہ داری اس پر بھی عائد ہوگی یا نہیں؟
  • ای اوبی آئی نے سارے شیئرز خریدے وہ تمام کے تمام اس میں کسی نہ کسی حد تک ذمہ دار رہے ہوں گے، اُن کے بارے میں خبر اور ایف آئی اے کی تفتیش کوئی ہوگی، وہ کہاں ہے؟
  • خبر میں اس کی کوئی وضاحت نہیں کہ ایمٹیکس کے خلاف بینک آف پنجاب کا ڈیفالٹ نوٹس کہاں ہے، کب جاری ہوا؟ اور اس کا علم اے کے ڈی کی ریسرچ رپورٹ میں کیسے ہونا ضروری تھا؟

ایف آئی اے کو اپنی تحقیقات میں اس قسم کے سوالات کے جواب کھوجنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ اور جنگ گروپ کو اپنے سمدھی کی دلجوئی کے لئے اس نوع کے سوالات اُٹھانے کی کوئی حاجت محسوس نہیں ہوئی!!!

اے کے ڈی سیکورٹیز کے معاملے کی وقائع نگاری یا محاسبہ: جنگ گروپ کر کیا رہا ہے؟

جنگ گروپ میں 18 جنوری کی خبر کی اشاعت اور جیو میں اس کی مسلسل تکرار سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ جنگ گروپ اے کے ڈی سیکورٹیز کی وقائع نگاری نہیں کر رہا ، جو اس کا حق ہے ۔ بلکہ وہ اس معاملے میں عقیل کریم ڈھیڈی کا محاسبہ کر رہا ہے۔ اے کے ڈی سیکورٹیز کے خلاف ایف آئی اے نے گزشتہ سال 31 دسمبر کو ایف آئی آر درج کی تھی۔ اور19 روز گزر جانے کے باوجود 18 جنوری کوخبر کی اشاعت تک جنگ گروپ ایف آئی آر کی تفصیلات سے ہی کام چلا رہا ہے۔ کیا یہ ایک ذمہ دارانہ صحافت ہے؟ آخر جیو اور جنگ گروپ ابھی بھی ایف آئی آر میں کیوں الجھاہواہے جبکہ اب یہ معاملہ تفتیش کے مرحلے میں داخل ہے ۔ انہیں ایف آئی اے کے اندر جاری تمام معاملات تک مکمل رسائی حاصل ہے بلکہ خود جنگ گروپ اور جہانگیر صدیقی کے تمام ادارے ایف آئی اے کے اندر جاری تمام سرگرمیوں کو تحریک دے رہے ہیں ۔ اتنے دنوں کے بعد تو انہیں تفتیش کے نتائج کی اندرونی خبر دینی چاہئے تھی ۔ مگر وہ اب بھی ایف آئی آر کے مندرجات سے کھیل رہے ہیں ۔ یہ بات بجائے خود اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ ان کو تفتیش سے کچھ بھی نہیں مل سکا ۔ بس الزام باری سے صحافتی کاروبار بھی چل جاتا ہے اور سمدھی کے ساتھ خاندانی ذمہ داریوں کا بوجھ بھی اُتر جاتا ہے۔


متعلقہ خبریں


پراپرٹی کیس، میر شکیل الرحمان سمیت ملزمان باعزت بری وجود - پیر 31 جنوری 2022

لاہور کی احتساب عدالت نے پرائیویٹ پراپرٹی کیس میں ایڈیٹر انچیف جنگ اور جیو میر شکیل الرحمان سمیت تمام ملزمان کو باعزت بری کردیا۔ احتساب عدالت میں نیب حکام نے میر شکیل الرحمان کی بریت کی درخواست پر جواب جمع کرا رکھا تھا اور نیب کے پراسیکیوٹر حارث قریشی نے بھی دلائل مکمل کرلیے تھے۔...

پراپرٹی کیس، میر شکیل الرحمان سمیت ملزمان باعزت بری

آبی جارحیت کی دھمکی، بھارتی اقدام پر سندھ بنجر ہو جائیگا انوار حسین حقی - بدھ 28 ستمبر 2016

’’آب اور لہو ایک ساتھ نہیں بہ سکتے ‘‘ یہ نئی بڑھک جنگی جنون میں مبتلا بھارت کے انتہا پسند ہندو وزیر اعظم نریندر مودی نے لگائی ہے ۔ کشمیری حریت پسندوں کے جذبہ حُریت سے خوفزدہ بھارتی قیادت نے بین الاقوامی سفارتی سطح پر پاکستان کے خلاف ناکامی کے بعد سندھ طاس کمیشن کے مذکرات معطل کرن...

آبی جارحیت کی دھمکی، بھارتی اقدام پر سندھ بنجر ہو جائیگا

امریکہ کے صدارتی انتخابات: ہلیری کلنٹن اور ڈونالڈ ٹرمپ آمنے سامنے وجود - منگل 27 ستمبر 2016

تحریر :۔ ایوان کورون امریکہ کے صدارتی انتخابات کی تاریخ جوں جوں قریب آرہی ہے، انتخابی بخار بھی بڑھتاجارہاہے، انتخابات میں ہلیری کلنٹن اور ڈونالڈ ٹرمپ آمنے سامنے ہیں، اگرچہ امریکی عوام کے موڈ کی موجودہ کیفیت کو دیکھ کر یہی اندازہ ہوتاہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کو ہزیمت کاسامنا کرنا پڑے گا...

امریکہ کے صدارتی انتخابات: ہلیری کلنٹن اور ڈونالڈ ٹرمپ آمنے سامنے

ڈنڈا بردار فورس بمقابلہ بلا بردار فورس، مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف آمنے سامنے انوار حسین حقی - پیر 19 ستمبر 2016

پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے حکومت کے خلاف جاری تحریک احتساب کے دوران میں ’’رائے ونڈمارچ ‘‘ کی اصطلاح نے بھر پور شہرت حاصل کی ہے۔ رائے ونڈ لاہور کے نواح میں آباد وہ علاقہ ہے جو پہلے صرف تبلیغی جماعت کے مرکز کے حوالے سے معروف تھا۔ بعد میں شریف فیملی نے لاہور کے ماڈل ٹاؤن سے اپ...

ڈنڈا بردار فورس بمقابلہ بلا بردار فورس، مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف آمنے سامنے

کیا بانی ایم کیو ایم کا باب واقعی بند ہوچکا؟ ابو محمد نعیم - اتوار 28 اگست 2016

ایم کیوایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار کی جانب سے ہفتے کی شام پریس کانفرنس میں لندن سے مکمل لاتعلقی اور پہلی مرتبہ الطاف بھائی کے بجائے الطاف صاحب کہنے کے باوجودا بھی تک سوال اٹھ رہے ہیں۔۔ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کا باب واقعی بند ہوچکاہے؟یا حسب سابق وہ دستبرداری کے ل...

کیا بانی ایم کیو ایم کا باب واقعی بند ہوچکا؟

کوئٹہ دھماکے کی ذمہ داری جماعت الاحرار نے قبول کرلی! اصل حقائق کیا ہیں؟ باسط علی - منگل 09 اگست 2016

کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے جماعت الاحرار گروپ نے کوئٹہ میں حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گرد گروہوں کے نام پر ذمہ داری قبول کرنے کا یہ عمل درست بھی ہے یانہیں۔ ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ سول اسپتال کی ایمرجنسی میں کیے ج...

کوئٹہ دھماکے کی ذمہ داری جماعت الاحرار نے قبول کرلی! اصل حقائق کیا ہیں؟

تحریک انصاف کی تحریک احتساب: خدشات، امکانات باسط علی - پیر 08 اگست 2016

تحریک انصاف نے 7 اگست کو زبردست جوش وخروش سے تحریک احتساب کا آغاز کردیا ہے۔ پاناما لیکس کے تناظر میں وزیراعظم نوازشریف کے احتساب کے بنیادی مطالبے سے شروع ہونے والی اس تحریک کو عوام اور فعال طبقات میں دراصل نوازشریف کی رخصتی کی تحریک سمجھا جارہا ہے۔ جس کے مستقبل اور نتیجہ خیزی کو ...

تحریک انصاف کی تحریک احتساب: خدشات، امکانات

وزیر داخلہ چودھری نثار کی غیر دانشمندانہ ضد، رینجرز اختیارات کامسئلہ قانونی کے بجائے سیاسی بناد یا! وجود - بدھ 03 اگست 2016

وزیر داخلہ چودھری نثار نے سندھ کے معاملے میں مکمل غیر دانش مندانہ رویہ اختیار کررکھا ہے۔ تازہ ترین واقعہ یہ ہوا ہے کہ اُن کی وزارت سندھ حکومت کی جانب سے ارسال کردہ رینجرز کے اختیارات میں توسیع کی سمری کو مکمل مسترد کردیا ہے۔ جس نے سندھ میں بعض خطرناک مباحث کو جنم دینا شروع کردیا ...

وزیر داخلہ چودھری نثار کی غیر دانشمندانہ ضد، رینجرز اختیارات کامسئلہ قانونی کے بجائے سیاسی بناد یا!

وجود ڈاٹ کام پر کیا بیتی؟ وجود - منگل 02 اگست 2016

یادش بخیر !میں اُن اوراق کو پلٹ رہا ہوں۔ جو کبھی ایک کتاب کا مسودہ تھے۔ کتاب چھپ نہ سکی، کیونکہ میر خلیل الرحمان بہت طاقتور تھے اور پاکستان کے کسی پبلشنگ ہاؤس میں یہ ہمت نہ تھی کہ وہ اُن کے حکم کی سرتابی کرتے۔ کتاب کا مسودہ دربدر ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ حُسن اتفاق سے اس خاکسار کے...

وجود ڈاٹ کام پر کیا بیتی؟

میر شکیل الرحمان کے بیٹے کی دبئی میں گرفتاری پر پاکستانی ذرائع ابلاغ پر موت کا سناٹا! وجود - پیر 01 اگست 2016

پاکستان میں سب کی خبریں دینے والے میر شکیل الرحمان گزشتہ رات سے سب سے بڑی خبر بن چکے ہیں ،مگر پاکستانی ذرائع ابلاغ اس کی خبر رکھتے ہوئے بھی بے خبر بنا رہا ہے۔ میر شکیل الرحمان کے اخبارات اور ٹی وی جو عہدفراعنہ سے بھی کمتر اخلاقیات کے حامل ہیں اور ملک بھر میں اپنے دشمنوں کو زمین س...

میر شکیل الرحمان کے بیٹے کی دبئی میں گرفتاری پر پاکستانی ذرائع ابلاغ پر موت کا سناٹا!

لندن میں دوسری انٹرنیشنل میڈیا کانفرنس: آخر جھگڑا کیا ہے؟ باسط علی - جمعه 29 جولائی 2016

لندن میں دوسری انٹرنیشنل میڈیا کانفرنس حسب پروگرام 22 سے 24 جولائی دوشہروں میں منعقد ہوئی۔ اور حسب عادت اس کانفرنس کے حوالے سے پاکستان اور برطانیہ کے پاکستانی حلقوں میں خاصا مخالفانہ شور بھی اُٹھا۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مختلف اداروں میں پائے جانے والی شکررنجی اور مسابقت کا جذبہ...

لندن میں دوسری انٹرنیشنل میڈیا کانفرنس: آخر جھگڑا کیا ہے؟

وزیراعظم نوازشریف نے اسلام آباد کا قصد کرلیا وجود - جمعرات 21 جولائی 2016

وزیر اعظم نوازشریف نے بآلاخر ایک طویل وقفے کے بعد دارالحکومت اسلام آباد جانے کا قصد کر لیا ہے۔ وہ آج کسی بھی وقت اسلام آباد کا رخ کر سکتے ہیں۔ جس کے بعد وہ جمعہ کو قومی سلامتی کونسل کے اجلاس کی صدارت کریں گے۔ جس میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور تینوں مسلح افواج کے سربرا...

وزیراعظم نوازشریف نے اسلام آباد کا قصد کرلیا

مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر