... loading ...
جنگ گروپ نے اپنے سمدھی جہانگیر صدیقی کی کاروباری مسابقت کی لڑائی کو خود اوڑھ کر صحافتی اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے۔ یہ ادارہ جتنا بڑا ہے ، اس لڑائی میں اُتنا ہی چھوٹا بن کر ظاہر ہو رہا ہے۔ جس کے باعث جنگ اور جیو کی ساکھ مکمل داؤ پر لگ چکی ہے۔
ادارہ جنگ کے متعلق یہ بات بہت پہلے سے مشہور ہے کہ جنگ میں پہلا حملہ سچ پر ہوتا ہے۔ اس ادارے کی الزام تراشیوں کی روش نے اب ایک منظم مہم کی شکل اختیار کر لی ہے اور یہ اس مہم میں ہر حد کو پار کرنے لگا ہے۔
یوں لگتا ہے کہ جنگ اور جیو کے لئے دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ صرف اور صرف عقیل کریم ڈھیڈی ہیں۔ چنانچہ جنگ اور جیو ایک ہی مقدمے کے الزامات کو بار بار الفاظ بدل بدل کر ہر روز اپنے اخبارات کے صفحہ اول پر دہراتا رہتا ہے اور جیو میں اس کی جُگالی کرتا رہتا ہے۔ 18 جنوری کو جنگ اور جیو میں ایک مرتبہ پھر اُسی ایمٹیکس کے مسئلے پر جنگ نے ایک مرتبہ پھر اے کے ڈی سیکورٹیز کو رگیدنے کی کوشش کی۔ جسے وہ ایف آئی اے کی جانب سے مقدمہ بنائے جانے کے بعد سے یکطرفہ مسلسل موضوع بنا رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ پروپیگنڈا صحافتی اقدار کے عین مطابق کسی بھی طرح سے خبر بننے کے لائق ہے تو یہ باقی اخبارات سے غائب کیوں ہے؟خبروں کے لئے ایک بوٹی پر کتوں کی طرح لڑنے والے ذرائع ابلاغ کو اس کی بِھنک توکیوں نہیں پڑ رہی؟
جنگ گروپ نے 18 جنوری کو اس خبر کی بنت میں معروضیت کی کوئی پروا نہیں کی اور ایک طرح سے ایف آئی اے کی طرف سے بنائے گیے مقدمے پر عدالتی فیصلے کا انتظار کئے بغیر خود ہی فیصلہ سنا دیا ہے۔ ذرا خبر کا ابتدائیہ ملاحظہ کیجئے!
” اے کے ڈی سیکورٹیز، ایمٹیکس اور ای او بی آئی کے خلاف ایف آئی اے کی کارروائی مکمل طور پر قانون کے مطابق کی گئی ہے اور اس میں ” منتخب پراسیکیوشن” سے کام لیا گیا ہے اور نہ کسی بروکریج ہاؤس کا ٹارگٹ کیا گیا ہے۔ ”
اس ابتدائیے میں ہی جنگ گروپ نے جھوٹ کا طومار باندھ دیا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ایف آئی اے کی کارروائی قانون کے مطابق ہے یا نہیں، اس کافیصلہ جنگ گروپ اور جیو کیوں سنا رہا ہے؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر جنگ گروپ کسی خبر کو بیان کرتے ہوئے اس نوع کا فیصلہ خود سے کیسے صادر کرسکتا ہے۔ یہ بات تو ایف آئی اے کے ڈائریکٹر سندھ اور جہانگیر صدیقی کے “دوست” شاہد حیات کو عدالت میں ثابت کرنی ہوگی کہ یہ منتخب پراسیکیوشن ہے یا نہیں۔ جنگ خبر دینے کےبجائے فیصلہ کیوں دے رہا ہے؟
اگر اے کے ڈی سیکورٹیز کے خلاف یہ معاملہ ایک منتخب پراسیکوشن نہیں ہے تو اب یہ ایف آئی اے نہیں خود جنگ گروپ ہی واضح کردے کہ پھر اس نوع کے ہزاروں معاملات دیگر بروکریج ہاؤسز کے ساتھ بھی نتھی ہیں ، اُن میں سے کسی ایک کے خلاف ایف آئی اے تو کیا خو دجنگ گروپ بھی حرکت میں کیوں نہیں آیا؟ ایف آئی اے نے اس طرح کا کوئی مقدمہ نہیں بنایا اور جنگ گروپ نے اس طرح کی کوئی خبر نہیں بنائی، آخر کیوں؟اس حوالے سے تفصیلات بہت دلچسپ ہیں۔کراچی میں 70 بروکریج ہاؤس باقاعدگی سے ریسرچ رپورٹیں شائع کرتے ہیں۔ جن میں سے متعدد کے اندازے اور ریسرچ رپورٹیں غلط ثابت ہوتی رہتی ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دس ہزار کے قریب جاری ہونے والی ان ریسرچ رپورٹوں میں سے
اکثر اندازوں کی غلطی سے دوچار ہوتی رہتی ہیں۔ کیونکہ سرمائے کی مارکیٹ کو کنٹرول کرنے والی قوت ریسرچ رپورٹ نہیں بلکہ دیگر عوامل ہوتے ہیں۔اگر یہ منتخب پراسیکیوشن نہیں تو پھر ایف آئی اے نہیں تو میر شکیل الرحمان یا پھر اُن کا کوئی نمائندہ ہی بتا دے کہ اب تک کتنی غلط ریسرچ رپورٹوں پر ایف آئی اے نے کارروائی کی ہے؟ یا کسی بروکریج ہاؤس کو نشانا بنایا گیا ہے؟ چلیں بروکریج ہاؤس کو چھوڑیں ۔ اسی نوع کی ریسرچ رپورٹیں خود حکومت پاکستان اور اس کے مالیاتی ادارے بھی جاری کرتے رہتے ہیں۔ جن میں اسٹیٹ بینک بھی شامل ہے۔ ان کی کوئی رپورٹ تو شاذ ہی درست نکلتی ہے۔کیا کبھی ان کے خلاف بھی کوئی کارروائی کی گئی؟ اگر ایک ہی قسم کے مسئلے پر دیگر 70 بروکریج ہاؤس کے خلاف کبھی کوئی کارروائی تک نہیں کی گئی تو پھر صرف اے کے ڈی سیکورٹیز کے خلاف کارروائی منتخب پراسیکیوشن نہیں تو اور کیا ہے؟اور یہ صرف ایک ہی بروکریج ہاؤس کو ہی ٹارگٹ نہیں کیا گیا تو اور کس کو کیا گیا ہے؟
جنگ اور جیو گروپ سرکاری اداروں کو گمراہ کرنے کے بدترین جرم میں ہی ملوث نہیں بلکہ صحافت کے اعلیٰ معیارات کو بھی سمدھی کی بارگاہ میں قربان کرنے میں ملوث ہوتا جارہا ہے۔ذرا خبر کے ابتدائیے پر پھر غور کیجئے!
” اے کے ڈی سیکورٹیز، ایمٹیکس اور ای او بی آئی کے خلاف ایف آئی اے کی کارروائی مکمل طور پر قانون کے مطابق کی گئی ہے اور اس میں ” منتخب پراسیکیوشن” سے کام لیا گیا ہے اور نہ کسی بروکریج ہاؤس کا ٹارگٹ کیا گیا ہے۔ ”
کیا واقعی ایف آئی اے نے اب تک اے کے ڈی سیکورٹیز کے علاوہ ایمٹیکس اور ای او بی آئی کے خلاف کوئی بھی کارروائی کی ہے؟خود جنگ کی آج (19 جنوری) کی خبر ملاحظہ فرمائیں ۔ زرد صحافت کی ایک مثال کےطور پر یہ اس امر کو بھی واضح کرتی ہے کہ اس مسئلے میں اے کے ڈی سیکوریٹیز کے علاوہ اب تک کسی کے خلاف کوئی عملی پیش رفت نہیں ہوئی۔وفاقی اینٹی کرپشن کورٹ کی جانب سے 18 جنوری کواے کے ڈی سیکورٹیز کے عہدیداروں کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کرنے کی خبر میں جنگ گروپ نے گزشتہ سماعت کے چالان کا ذکر بھی کردیا ہے۔ یوں ایک ہی بات کو بار بار بطور پروپیگنڈے کو دُہرانے کا مقصد پورا کرنے میں گروپ یہ فرمواش کر گیا کہ وہ کہہ کیا رہا ہے۔ خبر کے مطابق ” چالان میں 22 نامزد ملزمان کے نام دیئے گیے ۔ چالان میں بتایا گیا کہ 3 ملزمان گرفتار اور 2ضمانت پر ہیں۔ جبکہ 2 ملزمان کا انتقال ہو چکا ہے۔” گویا خبراور ایف آئی اے کے چالان کے مطابق ایف آئی اے نے اب تک 22 میں سے جن 3 ملزمان کو گرفتار کیا ہے اُن میں تینوں کے تینوں صرف اور صرف اے کے ڈی سیکورٹیز سے تعلق رکھتے ہیں۔ مرنے والے دو ملزمان کو چھوڑ کر باقی 17 ملزمان میں سے کسی کے خلاف اب تک ایف آئی اے کوئی معمولی پیش رفت بھی نہیں دکھا سکا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ خود جنگ گروپ نے 9 جنوری کو اپنی اشاعت میں قارئین کو یہ مژدہ سنایا تھا کہ ای او بی آئی کے سابق چیئرمین ظفر گوندل جو پہلے سے ہی دو مقدمات میں گرفتار ہیں، اُنہیں ایمٹیکس مقدمے میں بھی باقائدہ گرفتار کرکےایف آئی اے تفتیش کرے گی۔ حد تو یہ ہے ایف آئی اے اپنے چالان میں پہلے سے ہی گرفتار ای اوبی آئی کے سابق چیئرمین اور مرکزی ملزم تک کو گرفتار ظاہر نہیں کر سکی۔اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ 9 جنوری کو اس مقدمے میں تیزی کی نوید سنانے والے جنگ گروپ کو دس روز بعد ایف آئی اے کے چالان کی خبر کی مکرر اشاعت میں اس کا خیال تک نہیں آیا کہ ایف آئی اے منتخب پراسکیوشن کرتے ہوئے دیگر ملزمان کواس مقدمے میں ہاتھ تک نہیں لگا رہی۔ زرد صحافت کی اس سے بھونڈی کہانی اور سرکاری اداروں کے ذریعے کسی کو انتقام کا نشانا بنانے کی اس سے مکروہ مثال اور کیا ہوسکتی ہے؟
جنگ اور جیو کی خبر یہ واضح کرتی ہے کہ ایمٹیکس کے بینک آف پنجاب سے ڈیفالٹ کا ملبہ ایمٹیکس اور ای او بی آئی کو نہیں بلکہ ریسرچ رپورٹ جاری کرنے والے اے کے ڈی سیکورٹیز کو اُٹھانا پڑے گا۔ جسے اپنی ریسرچ رپورٹ میں دراصل اعدادوشمار اور سامنے کے حقائق جاری کرنے کے بجائے اصل میں “ایف آئی اے” بن کر ایمٹیکس کے اندرونی معاملات کی کھوج لگانا تھی۔ جنگ کی خبر اور ایف آئی آر کے تیور سےتو یہ لگ رہا ہے کہ اے کے ڈی سیکورٹیز دراصل ریسرچ کرنے والا کوئی ادارہ نہیں بلکہ تفتیش کرنے والا اور اسکینڈلز گھڑنے والا ایف آئی اے کا کوئی سرکاری محکمہ ہے۔ اور اے کے ڈی سیکورٹیز کے عہدیداروں کو دراصل ڈائریکٹر سندھ ایف آئی اے شاہد حیات کے اختیارات حاصل ہیں۔اس ضمن میں پہلے تو اس کا لحاظ ہونا چاہئے تھا کہ ریسرچ رپورٹ کے لئے ایک بروکریج ہاؤس کی اپنی محدودات کیا ہوتی ہے اور وہ کن معاملات کوسامنےرکھتا ہے۔ کسی بھی بروکریج ہاؤس کی ریسرچ رپورٹ کا ماخذ اور انحصار تین بنیادی امور پر ہوتا ہے:
ان تینوں بنیادی ماخذات پر انحصار کے ساتھ اے کے ڈی سیکورٹیز کی ریسرچ رپورٹ نے اپنے طور پر یہ وضاحت بھی کر دی تھی کہ اس کی تمام معلومات خود ایمٹیکس کی مہیا کردہ ہے۔ اب کمپنی کے ڈیفالٹ کا مسئلہ خود کمپنی کی زبان سے کیسے ادا ہو سکتا تھا؟ریسرچ رپوٹ اپنی ان ہی محدودات کے باعث ہی تو ایک اعلان لاتعلقی دیتا ہے۔ کیا اس اعلان لاتعلقی کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی؟ اب جنگ گروپ بھی ایف آئی اے کے ساتھ اس پر تُلا بیٹھا ہے کہ ایمٹیکس کے ڈیفالٹ کی ذمہ داری نہ تو خود ایمٹیکس پر عائد ہوتی ہے اور نہ ہی ای او بی آئی پر ۔۔یہ صرف اے کے ڈی سکورٹیز کی ذمہ داری ہے۔ تو پھر اس پر کچھ سوالات بھی اُٹھتے ہیں۔
ایف آئی اے کو اپنی تحقیقات میں اس قسم کے سوالات کے جواب کھوجنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ اور جنگ گروپ کو اپنے سمدھی کی دلجوئی کے لئے اس نوع کے سوالات اُٹھانے کی کوئی حاجت محسوس نہیں ہوئی!!!
جنگ گروپ میں 18 جنوری کی خبر کی اشاعت اور جیو میں اس کی مسلسل تکرار سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ جنگ گروپ اے کے ڈی سیکورٹیز کی وقائع نگاری نہیں کر رہا ، جو اس کا حق ہے ۔ بلکہ وہ اس معاملے میں عقیل کریم ڈھیڈی کا محاسبہ کر رہا ہے۔ اے کے ڈی سیکورٹیز کے خلاف ایف آئی اے نے گزشتہ سال 31 دسمبر کو ایف آئی آر درج کی تھی۔ اور19 روز گزر جانے کے باوجود 18 جنوری کوخبر کی اشاعت تک جنگ گروپ ایف آئی آر کی تفصیلات سے ہی کام چلا رہا ہے۔ کیا یہ ایک ذمہ دارانہ صحافت ہے؟ آخر جیو اور جنگ گروپ ابھی بھی ایف آئی آر میں کیوں الجھاہواہے جبکہ اب یہ معاملہ تفتیش کے مرحلے میں داخل ہے ۔ انہیں ایف آئی اے کے اندر جاری تمام معاملات تک مکمل رسائی حاصل ہے بلکہ خود جنگ گروپ اور جہانگیر صدیقی کے تمام ادارے ایف آئی اے کے اندر جاری تمام سرگرمیوں کو تحریک دے رہے ہیں ۔ اتنے دنوں کے بعد تو انہیں تفتیش کے نتائج کی اندرونی خبر دینی چاہئے تھی ۔ مگر وہ اب بھی ایف آئی آر کے مندرجات سے کھیل رہے ہیں ۔ یہ بات بجائے خود اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ ان کو تفتیش سے کچھ بھی نہیں مل سکا ۔ بس الزام باری سے صحافتی کاروبار بھی چل جاتا ہے اور سمدھی کے ساتھ خاندانی ذمہ داریوں کا بوجھ بھی اُتر جاتا ہے۔
لاہور کی احتساب عدالت نے پرائیویٹ پراپرٹی کیس میں ایڈیٹر انچیف جنگ اور جیو میر شکیل الرحمان سمیت تمام ملزمان کو باعزت بری کردیا۔ احتساب عدالت میں نیب حکام نے میر شکیل الرحمان کی بریت کی درخواست پر جواب جمع کرا رکھا تھا اور نیب کے پراسیکیوٹر حارث قریشی نے بھی دلائل مکمل کرلیے تھے۔...
’’آب اور لہو ایک ساتھ نہیں بہ سکتے ‘‘ یہ نئی بڑھک جنگی جنون میں مبتلا بھارت کے انتہا پسند ہندو وزیر اعظم نریندر مودی نے لگائی ہے ۔ کشمیری حریت پسندوں کے جذبہ حُریت سے خوفزدہ بھارتی قیادت نے بین الاقوامی سفارتی سطح پر پاکستان کے خلاف ناکامی کے بعد سندھ طاس کمیشن کے مذکرات معطل کرن...
تحریر :۔ ایوان کورون امریکہ کے صدارتی انتخابات کی تاریخ جوں جوں قریب آرہی ہے، انتخابی بخار بھی بڑھتاجارہاہے، انتخابات میں ہلیری کلنٹن اور ڈونالڈ ٹرمپ آمنے سامنے ہیں، اگرچہ امریکی عوام کے موڈ کی موجودہ کیفیت کو دیکھ کر یہی اندازہ ہوتاہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کو ہزیمت کاسامنا کرنا پڑے گا...
پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے حکومت کے خلاف جاری تحریک احتساب کے دوران میں ’’رائے ونڈمارچ ‘‘ کی اصطلاح نے بھر پور شہرت حاصل کی ہے۔ رائے ونڈ لاہور کے نواح میں آباد وہ علاقہ ہے جو پہلے صرف تبلیغی جماعت کے مرکز کے حوالے سے معروف تھا۔ بعد میں شریف فیملی نے لاہور کے ماڈل ٹاؤن سے اپ...
ایم کیوایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار کی جانب سے ہفتے کی شام پریس کانفرنس میں لندن سے مکمل لاتعلقی اور پہلی مرتبہ الطاف بھائی کے بجائے الطاف صاحب کہنے کے باوجودا بھی تک سوال اٹھ رہے ہیں۔۔ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کا باب واقعی بند ہوچکاہے؟یا حسب سابق وہ دستبرداری کے ل...
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے جماعت الاحرار گروپ نے کوئٹہ میں حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گرد گروہوں کے نام پر ذمہ داری قبول کرنے کا یہ عمل درست بھی ہے یانہیں۔ ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ سول اسپتال کی ایمرجنسی میں کیے ج...
تحریک انصاف نے 7 اگست کو زبردست جوش وخروش سے تحریک احتساب کا آغاز کردیا ہے۔ پاناما لیکس کے تناظر میں وزیراعظم نوازشریف کے احتساب کے بنیادی مطالبے سے شروع ہونے والی اس تحریک کو عوام اور فعال طبقات میں دراصل نوازشریف کی رخصتی کی تحریک سمجھا جارہا ہے۔ جس کے مستقبل اور نتیجہ خیزی کو ...
وزیر داخلہ چودھری نثار نے سندھ کے معاملے میں مکمل غیر دانش مندانہ رویہ اختیار کررکھا ہے۔ تازہ ترین واقعہ یہ ہوا ہے کہ اُن کی وزارت سندھ حکومت کی جانب سے ارسال کردہ رینجرز کے اختیارات میں توسیع کی سمری کو مکمل مسترد کردیا ہے۔ جس نے سندھ میں بعض خطرناک مباحث کو جنم دینا شروع کردیا ...
یادش بخیر !میں اُن اوراق کو پلٹ رہا ہوں۔ جو کبھی ایک کتاب کا مسودہ تھے۔ کتاب چھپ نہ سکی، کیونکہ میر خلیل الرحمان بہت طاقتور تھے اور پاکستان کے کسی پبلشنگ ہاؤس میں یہ ہمت نہ تھی کہ وہ اُن کے حکم کی سرتابی کرتے۔ کتاب کا مسودہ دربدر ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ حُسن اتفاق سے اس خاکسار کے...
پاکستان میں سب کی خبریں دینے والے میر شکیل الرحمان گزشتہ رات سے سب سے بڑی خبر بن چکے ہیں ،مگر پاکستانی ذرائع ابلاغ اس کی خبر رکھتے ہوئے بھی بے خبر بنا رہا ہے۔ میر شکیل الرحمان کے اخبارات اور ٹی وی جو عہدفراعنہ سے بھی کمتر اخلاقیات کے حامل ہیں اور ملک بھر میں اپنے دشمنوں کو زمین س...
لندن میں دوسری انٹرنیشنل میڈیا کانفرنس حسب پروگرام 22 سے 24 جولائی دوشہروں میں منعقد ہوئی۔ اور حسب عادت اس کانفرنس کے حوالے سے پاکستان اور برطانیہ کے پاکستانی حلقوں میں خاصا مخالفانہ شور بھی اُٹھا۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مختلف اداروں میں پائے جانے والی شکررنجی اور مسابقت کا جذبہ...
وزیر اعظم نوازشریف نے بآلاخر ایک طویل وقفے کے بعد دارالحکومت اسلام آباد جانے کا قصد کر لیا ہے۔ وہ آج کسی بھی وقت اسلام آباد کا رخ کر سکتے ہیں۔ جس کے بعد وہ جمعہ کو قومی سلامتی کونسل کے اجلاس کی صدارت کریں گے۔ جس میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور تینوں مسلح افواج کے سربرا...