وجود

... loading ...

وجود

بھارت مذاکرات میں سنجیدہ نہیں، شبیر شاہ

اتوار 17 جنوری 2016 بھارت مذاکرات میں سنجیدہ نہیں، شبیر شاہ

Shabir-Shah

جموں و کشمیر ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی (جے کے ڈی ایف پی) کے سربراہ شبیر احمد شاہ تحریک آزادی جموں و کشمیر کے ممتاز رہنما ہیں۔ 14جون 1954ء کو کا ڑی پورہ اسلام آباد مقبوضہ کشمیر میں ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ 1968ء میں جب ان کی عمر صرف 14سال تھی، تحریک آزادی کشمیر کے حق میں ایک مظاہرے کی قیادت کرنے کے جرم میں گرفتار کئے گئے اور 3مہینے پندرہ دن تک سری نگر سینٹرل جیل میں قید رہے۔ قید وبند کا سلسلہ تب سے جاری رہا اور اب تک کی 62سالہ زندگی کے 29سال انہوں نے جموں و کشمیر اور بھارت کی مختلف جیلوں میں گزارے۔ اس دوران انہیں بھارتی اذیت خانوں میں بے انتہا جسمانی تشدد بھی سہنا پڑا۔ 1989ء میں ان کے والد بھارتی پولیس کی حراست میں شہید ہوئے، لیکن اس سب کے با وجود شبیر احمد شاہ پوری استقامت اور ثابت قدمی کے ساتھ اپنے موقف پر قائم ہیں اور جدوجہد آزادی کی کامیابی کیلئے ہمہ تن متحرک ہیں۔ ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے1995ء میں انہیں ضمیر کا قیدی (Prisoner of Conscience )قرار دیا۔ شبیر احمد شاہ اس وقت سید علی گیلانی کی قیادت والی آل پارٹیز حریت کانفرنس کے سیکرٹری جنرل کے طور پر اپنی ذمہ داریاں نبھارہے ہیں۔ واضح رہے کہ وہ 215دنوں سے مسلسل گھر میں نظر بند ہیں۔ وجود ڈاٹ کام کیلئے ان کا یہ انٹرویو اسی نظر بندی کے دوران دیگر ذرائع سے لیا گیا۔


س: حق خود ارادیت کے حوالے سے کشمیری عوام نے بیش بہا قربانیاں دی ہیں، آپ کی اپنی ایک طویل جدوجہد ہے، کئی دہائیاں بیت گئیں، لیکن مسئلہ کشمیر جوں کا توں ہے، کیا مسئلہ کشمیر واقعی ایک پیچیدہ مسئلہ ہے یا جان بوجھ کر اسے اُلجھایا جارہا ہے؟

جواب: مسئلہ کشمیر پیچیدہ مسئلہ نہیں، البتہ عالمی قیادت اقوام متحدہ میں منظور کی گئی قراردادوں سے صرف نظر کرکے اسے طول دے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں کئی اڑچنیں بھی آڑے آرہی ہیں۔ ایک طرف دنیا اس مسئلے کے سلسلے میں اس لئے آنا کانی کررہے ہیں کہ وہ ہر ایک مسئلے کو تجارت کے نکتہ نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ اسلامی ممالک کو اس سلسلے میں جو کردار ادا کرنا تھا وہ ایسا نہیں کررہے ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود دنیا ہماری آواز کو سنی ان سنی بھی نہیں کررہی ہے۔ عالمی طاقتیں جہاں بھارت اور پاکستان کے مابین اس تنازع کے حل کے لئے دباؤ بڑھارہے ہیں، وہیں دنیا کے بدلتے سیاسی منظر نامے ا ور عالمی طاقتوں اور علاقائی قوتوں کے مابین نئی صف بندی کی وجہ سے امن عالم کو درپیش مسائل سے گلوخلاصی کے لئے اس دیرینہ تنازع کا حل تلاش کرنے کے لئے بھارت اور پاکستان پر اصرار بڑھ رہا ہے۔ اس سلسلے میں یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اگر بھارت اپنی روایتی ہٹ دھرمی چھوڑ کر اس مسئلے کو خلوص نیت کی بنیادوں پر حل کرنے میں تعاون دے تو یہ مسئلہ چٹکیوں میں حل ہوسکتا ہے۔

حالیہ انتخابات میں ہمیں لوگوں کے پاس جانے نہیں دیا گیا اور سبھی قائدین اور اراکین کو جیلوں میں ٹھونس کر یک طرفہ انتخابات کا ڈھونگ رچایا گیا 

یہ بات صحیح ہے کہ ہماری جدوجہد کی تاریخ کافی طویل ہے اور جہاں تک میری ذاتی جدوجہد کا تعلق ہے میں سمجھتا ہوں جو کچھ میں نے کیا شاید اللہ تبارک و تعالیٰ نے مجھے اسی مقصد کے لئے پید ا کیا ہے۔ مجھے اس پر فخر ہے اور اپنے ملک و قوم کے وسیع تر مفادات کے لئے جو کچھ مجھ سے ہوسکتا ہے میں ہر وہ قربانی دینے کے لئے تیار ہوں (انشاء اللہ)۔ مسئلہ کے فوری حل کا جہاں تک سوال ہے ہم اس مسئلے کے سلسلے میں کافی متفکر ہیں اور چاہتے ہیں کہ حریت کانفرنس ایک وسیع پلیٹ فارم کی صورت اختیار کرے تاکہ ایک منظم اور نئی قوت سے جدوجہد آزادی کو آگے بڑھایا جاسکے۔ اس سلسلے میں اتحاد و اتفاق کے لئے ہماری طرف سے صلائے عام ہے اور مجھے یقین ہے کہ جب ایک مضبوط پلیٹ فارم سے آواز ابھرے گی تو ہماری جدوجہد ضرور رنگ لائے گی اور یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ قوموں کی تاریخ میں جدوجہد ہمیشہ طویل رہی ہے۔ البتہ خلوص نیت سے اگر ہم آگے بڑھیں تو یہ ہمارے لئے فتح کی نوید بن سکتی ہے، انشا اللہ۔ میں یہاں ایک اہم بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہوں گا کہ اسلامی مملکتوں پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اس فورم کو نمائندہ حیثیت دے اور جو لوگ اور قائدین اس پلیٹ فام سے دور ہیں انہیں بھی جناب سید علی گیلانی کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اور ایک عظیم مقصد کے پیش نظر حریت کانفرنس میں شمولیت اختیار کرنی چاہیے۔

س: آپ کی نظر میں تنازع کشمیر کا کیا حل ہے، کشمیریوں کو کیوں اقوام متحدہ کے مجوزہ روڑمیپ سے ماورا کوئی حل قابل قبول نہیں؟

جواب: تنازع کشمیر کا حل بالکل آسان ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر میں قوموں کی آزادی سے متعلق حق تسلیم کیا گیا ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہم بھارت سے اس کا کوئی حصہ چھیننا نہیں چاہتے کیونکہ جموں کشمیر کبھی بھی بھارت کا حصہ نہیں رہا ہے، بھارت نے اکتوبر1947میں ریاست پر جابرانہ قبضہ کرکے ہمارے بنیادی حقوق سلب کرلئے ہیں اور اس سلسلے میں خود بھارت کے رہنماؤں نے سلامتی کونسل میں اس بات کا اقرار کیا ہے کہ ان کی فوجیں ریاست میں عارضی طور مقیم ہیں اور حالات ٹھیک ہوتے ہی عوام کو اپنے سیاسی مستقبل سے متعلق رائے ظاہر کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ ہم اقوام متحدہ کے مجوزہ روڑ میپ یا ان کی ثالثی کو اس لئے بھی ایک بہتر حل تصور کرتے ہیں کہ اس میں قوموں کی سیاسی آزادی سے متعلق منشور موجود ہے۔ مزید یہ کہ اگر بھارت سہ فریقی مذاکرات پر اپنی آمادگی کا اظہار کرے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں، ہم سہ فریقی بات چیت پر بھی راضی ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اقوام متحدہ نے مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان میں مداخلت کرکے ایک حل پیش کرلیا اور ایسا جموں کشمیر کے لئے بھی ممکن ہے کیونکہ ہمارا مسئلہ اقوام متحدہ کے ایجنڈے میں سب سے دیرینہ مسئلہ ہے۔

س: حریت قائدین کی نقل وحرکت، آزادی اظہار رائے پر مسلسل پابندیاں کیوں ہیں؟ بھارت آخر کار کیا چاہتا ہے، اس حکمت عملی کے تحت بھارت کس حد تک اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب رہا؟

جواب: بھارت اور اس کے مقامی حواری آزادی پسندوں پر قدغن عائد کرکے عوام اور ہمارے درمیان دوریاں پیدا کرنے کی سر توڑ کوششیں کررہے ہیں اور یہ ہر قابض حکمران کے لئے ایک آزمایا ہوا ہتھیار ہے۔ ہمیں سالہا سال سے جیلوں میں بند رکھا جارہا ہے اور ہمارے جوانوں کو قید خانوں کی نذر کیا جارہا ہے۔ بھارت اور اس کے مقامی حکمران ہم سے خائف ہیں اور ہمارا سامنا کرنے سے ڈر رہے ہیں۔ حالیہ انتخابات میں ہمیں لوگوں کے پاس جانے نہیں دیا گیا اور سبھی قائدین اور اراکین کو جیلوں میں ٹھونس کر یک طرفہ انتخابات کا ڈھونگ رچایا گیا۔ بھارت ہمیں قید و بند کی نذر کرکے عوام کو ایک آواز سے محروم کرنا چاہتا ہے اور اس طرح دنیا اور ہمارے بیچ ایک آہنی پردہ حائل کرکے جموں کشمیر کی صورت حال سے بے خبر رکھنے کی سعی کررہا ہے۔

س: کشمیریوں کے جدوجہد آزادی کے موجودہ مرحلے کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟

جواب۔ ہمیں امید ہے کہ ہم صحیح سمت میں جارہے ہیں اور موجودہ مرحلہ انتہائی نازک اور سنجیدہ ہے۔ دنیا سے مثبت اشارے مل رہے ہیں، دنیا جان گئی ہے کہ مسائل کو سرد خانے کی نذر کرکے مسائل کو ٹالا نہیں جاسکتا اور عالمی قیادت دنیا کے مختلف ممالک میں بڑھتی ہوئی بے چینی، سیاسی انارکی اور ہتھیار بند مہم جوئی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے ایک پُر امن فضا کی تلاش کے لئے ممکنہ ذرائع کے حصول کے لئے کوشاں ہیں۔ ہماری جوان نسل بھی موجودہ ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے دنیا تک اپنی آواز پہنچا رہے ہیں اور دنیا اور انصاف پسند حلقے ہماری آواز سن رہے ہیں۔

س: بھارت اور پاکستان کے مابین مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوچکا ہے، کیا دوطرفہ مذاکرات سے مسئلہ کشمیر کا حل ممکن ہے؟

جواب: دیکھیں! ہمارا ماننا ہے کہ بات سے بات بنے گی اور مسئلہ حل کرنے کے لئے مذاکرات کے سوا چارہ نہیں لیکن اس کے لئے سبھی فریقین کو اپنے خلوص اور فراخدلی کا اظہار کرنے کی ضرورت ہے۔ جنگ و جدل کسی مسئلہ کا حل نہیں اور ہم چاہتے ہیں بھارت، پاکستان اور جنوبی ایشیا کے سبھی ممالک سکھ چین سے رہیں اور اپنے عوام کو راحت پہنچانے کے لئے بھائی چارے کی فضا کو قائم کرنے میں اپنا تعاون فراہم کریں۔ جہاں تک دو طرفہ مذاکرات کا تعلق ہے، ہم نے بار بار اپنے اس موقف کا اظہار کیا ہے کہ جموں کشمیر کوئی سرحدی تنازع نہیں ہے بلکہ ڈیڑھ کروڑ عوام کے سیاسی مستقبل سے جڑا مسئلہ ہے اور جب تک اس کے اصل فریق کو مذاکرات میں شامل نہیں کیا جاتا تب تک کسی دیرپا امن یا حل کے لئے امید کا اظہار کرنا ہی عبث ہے اور نہ ہی فریق اول کی غیر موجودگی میں کسی حل کے قابل قبول ہونے کی امید کی جاسکتی ہے

س: بھارت کے رویئے میں اچانک تبدیلی کیسے آئی؟ کیا بھارت واقعی معاملات اور مسائل کو حل کرنے کے لئے سنجیدہ ہے؟

جواب: ہم اسے تبدیلی نہیں کہیں گے، دراصل کچھ عالمی طاقتیں بھی ہند و پاک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی سے متفکر ہیں اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بھارت اندرونی سطح پر بے چینی کا شکار ہے لیکن اس سب کے باوجود ہم یہ ضرور کہیں گے کہ بھارت مذاکرات کے سلسلے میں سنجیدہ نہیں۔ البتہ یہ دنیا کے لئے دکھاوے کا ایک عمل ہے اور وہ دباؤ کی شدت کم کرنے کے لئے ایسا کررہا ہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ بھارت مذاکرات کے سلسلے میں سنجیدہ نہیں۔ البتہ اس کی آڑ میں آناکانی کرکے اس مسئلے سے دنیا کی توجہ ہٹانے کی کوششیں کررہا ہے۔

س: کشمیر میں بھارت نواز سیاسی تنظیموں اور ان کے قائدین کا مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کیا کردار ہے؟

جنرل پرویز مشرف نے چار نکاتی فارمولہ پیش کرکے دراصل جموں کشمیر سے متعلق جوں کی توں حیثیت کو قبول کرنے کے لئے اپنی آمادگی کا اظہار کیا تھا اور اس فارمولے میں جموں کشمیر کے عوام کے عزت نفس سے متعلق کوئی خیال نہیں رکھا گیا تھا

جواب: بھارت نواز جماعتوں اور ان کے قائدین کا کوئی رول نہیں۔ جن انتخابات کی بنیاد پر یہ لوگ اسمبلی اور ایوان اقتدار میں بیٹھے ہیں، اس کی کوئی حیثیت نہیں اور اس بات کا اقرار خود بھارت کے کئی دانشوروں نے کیا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے یہ انتخابات کبھی بھی آزادانہ ماحول میں نہیں ہوئے اور حریت پسند قائدین کو عوام تک جانے نہیں دیا گیا اور اکثر مقامات پر فوج لوگوں کو پولنگ مراکز کی جانب لے جاتے ہوئے دیکھی گئی۔ تاکہ دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جاسکے کہ لوگ اپنی مرضی سے ووٹ ڈال رہے ہیں۔ اب جبکہ ان انتخابات کی کوئی آئینی حثییت نہیں اس لئے ان کے نمائندہ کردار کی بات بھی نہیں بنتی اور نہ ان کا اس مسئلے میں کوئی رول بنتا ہے کہ یہ لوگ بھارتی سسٹم کی نمائندگی کرتے ہیں، عام آدمی کے جذبات کی نہیں۔

س: آپ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے عالمی برادری کے کردار پر کیا کہیں گے؟

جواب: مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں عالمی برادری کا ایک اہم کردار ہے۔ عالمی برادری نے ہی جموں کشمیر کے سلسلے میں 18قراردادوں کی منظوری دی ہے۔ اگر عالمی برادری مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان میں مداخلت کرسکتے ہیں تو جموں کشمیر کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے عالمی برادری پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ سلامتی کونسل میں منظور کی گئی قراردادوں کو عمل میں لانے میں دلچسپی کا اظہار کرے اور یہ عالمی امن کی ضمانت بھی فراہم کرسکتا ہے۔ برصغیر کے دو ملک جنگ کی حالت میں ہیں، آئے روز سرحدوں پر تنازعات جنم لیتے ہیں اور مارا ماری، تناطنی اور کشاکش کا سلسلہ روکنے کے لئے اقوام متحدہ کے لئے ایک اہم رول بنتا ہے۔ اس سلسلے میں ہم نے کئی بار اس بات کا برملا اظہار بھی کیا ہے کہ اس مسئلہ کو عالمی نگرانی میں سہ فریقی مذاکرات کے ذریعے بھی حل کیے جانے کے لئے ایک آپشن موجود ہے۔

س: حال ہی میں آپ کو حریت کانفرنس کا جنرل سیکریٹری نامزد کیا گیا، ایک بھاری ذمہ داری ہے، اتحاد کو مزید مستحکم اور فعال بنانے کے کیلئے آپ کیا اقدامات کررہے ہیں؟

جواب: دیکھے میں نے کبھی بھی کسی عہدے کی خواہش نہیں کی ہے البتہ خود کو ایک خادم کی حیثیت سے میں قوم کی خدمت کرنے کا خواہش مند ہوں۔ میں نے حریت کانفرنس کو ہمیشہ فعال دیکھنے کے لئے اپنی تمناؤں کا اظہار کیا ہے اور اس سلسلے میں اپنا دست تعاون بھی فراہم رکھا اور میں آج بھی ایک خادم کی حیثیت سے سبھی آزادی پسندوں کو اس پلیٹ فارم کو مضبوط بنانے کی کئی بار اپیل بھی کی ہے اور اس سمت میں ہمیشہ کوشش کرتا آیا ہوں اور مستقبل میں بھی کرتا رہوں گا۔ یہ میرا خواب بھی ہے اور ایک مشن بھی کہ سبھی حریت پسند ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع ہوجائیں اور حریت چیئرمین سید علی گیلانی صاحب کی قیادت پر مکمل بھروسہ کرتے ہوئے فعال کردار ادا کریں۔

س: آپ کی نظر میں مسئلہ کشمیر کے حل میں حائل رکاوٹیں کون سی ہیں اور انہیں کیسے دور کیا جاسکتا ہے؟

جواب: ہماری طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی رکاوٹ خود بھارت پیدا کررہا ہے۔ بھارت مذاکرات پر اپنی آمادگی کا اظہارکرے تو ہر رکاوٹ دور ہوگی اور جنوب مغربی ایشیا میں امن کی فضا قائم ہوگی۔ اسے دور کرنے کے لئے عالمی قائدین کو بھارت پر دباؤ بڑھانا ہوگا۔

س: بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ 9/11کے بعد عسکریت کا کردار ختم ہوچکا ہے۔ کیا آپ کی رائے بھی یہی ہے ؟

مجھے 2011ء میں جیل سے رہائی کے بعد اب تک 28 مہینے تک نظر بند رکھا گیا اور اس دوران مجھے 176جمعہ اور 9عیدین کی نمازیں ادا کرنے سے روکا گیا

جواب: دیکھے ہم سیاسی سطح پر اپنی جدوجہد کررہے ہیں لیکن عسکری سطح پر جدوجہد کی نفی نہیں کررہے ہیں۔ جدوجہد کے لئے کئی راستے ہیں اور اب یہ کسی کی صوابدید پر منحصر ہے کہ وہ اپنے لئے کون سا طریقہ موزوں سمجھتا ہے۔ جہاں تک عسکری حلقوں کا تعلق ہے وہ اس تحریک کو اپنے مقدس خون سے سینچ کر اس کی آبیاری کررہے ہیں اور ہم اس سلسلے میں وعدہ بند ہیں کہ ان کی پیش کی گئی قربانیوں کے ساتھ کسی بھی کھلواڑ کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

س: پاکستانی سابق صدر جنرل مشرف اور موجودہ پاکستانی حکومت کی کشمیر پالیسی میں کوئی واضح فرق محسوس کررہے ہیں؟

جواب: جی بالکل واضح فرق ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے چار نکاتی فارمولا پیش کرکے دراصل جموں کشمیر سے متعلق جوں کی توں حیثیت کو قبول کرنے کے لئے اپنی آمادگی کا اظہار کیا تھا اور اس فارمولے میں جموں کشمیر کے عوام کے عزت نفس سے متعلق کوئی خیال نہیں رکھا گیا تھا۔ اس فارمولے میں اصل مسئلہ سے صرف نظر کرتے ہوئے ایک قسم کی (patch work) مرہم کاری سے کام لینے کی کوشش کی گئی تھی۔

س: آپ سالہا سال تک زنداں کی مصیبتیں جھیلتے رہے، تکلیفوں اور مصیبتوں کا شکار رہے، اس مناسبت سے کو ئی ایسا خاص واقعہ جسے آپ بیان کرنا چاہیں؟

جواب: دیکھے جیل یا زنداں میرے لئے کوئی نئی بات نہیں۔ یہ سطور تحریر کرتے وقت بھی میں نظر بند ہوں۔ میں نے اپنی زندگی کا ایک خاصہ حصہ جیل اور تعذیب خانوں میں گزارا ہے۔ میں گزشتہ کئی مہینوں سے نظر بند ہوں اور ہر آنے جانے والے پر کڑی نگاہ رکھی جارہی ہے۔ سال 2015ء میں مجھے 201 ایام کے لئے نظر بند رکھا گیا اور سال 2011ء میں جیل سے رہائی کے بعد اب تک 28 مہینے تک مجھے نظر بند رکھا گیا اور اس دوران مجھے 176جمعہ اور 9عیدین کی نمازیں ادا کرنے سے روکا گیا۔ یہ میرے لئے کوئی نیا تجربہ نہیں بلکہ اب یہ میری زندگی کا ایک معمول بن چکا ہے۔

س: کشمیر آزاد ہوگا۔۔ ۔ ۔ کیا آپ کو اس بات کا یقین ہے؟

جواب: بالکل آزاد ہوگا اور اس بات کا مجھے یقین ہے۔ ظلم و جبر کی یہ دیواریں ٹوٹ جائیں گی اور ستم رسیدہ چہروں پر خوشی و مسرت ظاہر ہوگی۔ اس کا مجھے یقین ہے کہ عزم اور جہد مسلسل کے مظاہرے سے یہ بیڑیاں ٹوٹ جائے گی۔ تاریخ گواہ کہ تحریک آزادی کی جدوجہد طویل ضرور رہی ہیں لیکن غلام قوموں نے تاریخ کے اوراق پر آزادی کا عنوان رقم کیا ہے۔ میری قوم نے گزشتہ 69برسوں سے لاکھوں جانوں کی قربانیاں پیش کی ہیں، اربوں روپے مالیت کی املاک زمیں بوس ہوئی اور بھارتی فوجیوں نے چادر اور چاردیواری کی حرمت پامال کی۔ کیا یہ سب یونہی رائیگاں جائے گی۔ نہیں ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ قانون فطرت غاصب و جابر قوت کو ڈھیل دے سکتی ہے لیکن بہرحال باطل کو حق و انصاف کے آگے سرنگوں ہونا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آزادی کا سورج طلوع ہوگا اور شہدائے کشمیر کے خون سے میرے وطن میں آزادی کی بہار چھائے گی انشا اللہ۔


متعلقہ خبریں


قوم اپنی توجہ 24نومبر کے احتجاج پر رکھیں،عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام وجود - جمعه 22 نومبر 2024

سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ قوم اپنی توجہ 24 نومبر کے احتجاج پر رکھے۔سعودی عرب ہر مشکل مرحلے میں ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ بشریٰ بی بی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔عمران خان نے اڈیالہ جیل سے جاری اپنے ایک پیغام میں کہا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ، آئین ک...

قوم اپنی توجہ 24نومبر کے احتجاج پر رکھیں،عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام

فوج اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی ،آرمی چیف وجود - جمعه 22 نومبر 2024

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دیرپاامن واستحکام کے لئے فوج قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی، پاک فوج ...

فوج اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی ،آرمی چیف

سعودی عرب پر بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان سے دشمنی ہے ،وزیر اعظم وجود - جمعه 22 نومبر 2024

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے ہمیشہ بھائی بن کرمدد کی، سعودی عرب سے متعلق بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان کے ساتھ دشمنی ہے ، سعودی عرب کے خلاف زہر اگلا جائے تو ہمارا بھائی کیا کہے گا؟، ان کو اندازہ نہیں اس بیان سے پاکستان کا خدانخوستہ کتنا نقصان ہوگا۔وزیراعظم نے تونس...

سعودی عرب پر بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان سے دشمنی ہے ،وزیر اعظم

چیمپئینز ٹرافی،بھارت کی ہائبرڈ ماڈل یا پھر میزبانی ہتھیا نے کی سازشیںتیز وجود - جمعه 22 نومبر 2024

آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی 2025 کے شیڈول کے اعلان میں مزید تاخیر کا امکان بڑھنے لگا۔میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اگلے 24گھنٹے میں میگا ایونٹ کے شیڈول کا اعلان مشکل ہے تاہم اسٹیک ہولڈرز نے لچک دکھائی تو پھر 1، 2 روز میں شیڈول منظر عام پرآسکتا ہے ۔دورہ پاکستان سے بھارتی ا...

چیمپئینز ٹرافی،بھارت کی ہائبرڈ ماڈل یا پھر میزبانی ہتھیا نے کی سازشیںتیز

ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ 38افراد جاں بحق، 29زخمی وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے 3خواتین اور بچے سمیت 38 افراد کو قتل کردیا جب کہ حملے میں 29 زخمی ہوگئے ۔ ابتدائی طور پر بتایا گیا کہ نامعلوم مسلح افراد نے کرم کے علاقے لوئر کرم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے...

ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ 38افراد جاں بحق، 29زخمی

انتظامیہ قانون کے خلاف کسی کو احتجاج کی اجازت نہ دے، اسلام آباد ہائیکورٹ کاحکم وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتجاج کے تناظر میں بنے نئے قانون کی خلاف ورزی میں احتجاج، ریلی یا دھرنے کی اجازت نہ دینے کا حکم دے دیا، ہائی کورٹ نے وزیر داخلہ کو پی ٹی آئی کے ساتھ پُرامن اور آئین کے مطابق احتجاج کے لیے مذاکرات کی ہدایت کردی اور ہدایت دی کہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں تو وزیر...

انتظامیہ قانون کے خلاف کسی کو احتجاج کی اجازت نہ دے، اسلام آباد ہائیکورٹ کاحکم

علی امین گنڈاپور سے مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ،اسد قیصر وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے کہا ہے کہ علی امین گنڈاپور کے ساتھ مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ، ہم سمجھتے ہیں ملک میں بالکل استحکام آنا چاہیے ، اس وقت لا اینڈ آرڈر کے چیلنجز کا سامنا ہے ۔صوابی میں میڈیا سے گفتگو کرتے انہوں نے کہا کہ 24 نومبر کے احتجاج کے لئے ہم نے حکمتِ...

علی امین گنڈاپور سے مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ،اسد قیصر

غیر رجسٹرڈ امیر لوگوں کے خلاف ایف بی آر کا گھیرا تنگ وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

وزیر اعظم کی ہدایت کے بعد فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)نے غیر رجسٹرڈ امیر افراد بشمول نان فائلرز اور نیل فائلرز کے خلاف کارروائی کے لیے ایک انفورسمنٹ پلان کو حتمی شکل دے دی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے فیلڈ فارمیشن کی سطح پر انفورسمنٹ پلان پر عمل درآمد کے لیے اپنا ہوم ورک ...

غیر رجسٹرڈ امیر لوگوں کے خلاف ایف بی آر کا گھیرا تنگ

عمران خان کو رہا کرا کر دم لیں گے، علی امین گنڈا پور کا اعلان وجود - بدھ 20 نومبر 2024

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ انشاء اللہ بانی چیئرمین کو رہا کرا کر دم لیں گے ۔پشاور میں میڈیا سے گفتگو میں علی امین گنڈاپور نے کہا کہ انشاء اللہ بانی چیئرمین کو رہا اور اپنے مطالبات منوا کر ہی دم لیں گے ۔انہوں نے کہا کہ ہم سب کے لیے تحریک انصاف کا نعرہ’ ا...

عمران خان کو رہا کرا کر دم لیں گے، علی امین گنڈا پور کا اعلان

24نومبر احتجاج پر نظررکھنے کے لیے پی ٹی آئی کا مانیٹرنگ یونٹ قائم وجود - بدھ 20 نومبر 2024

دریں اثناء پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 24 نومبر کو احتجاج کے تمام امور پر نظر رکھنے کے لیے مانیٹرنگ یونٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جب کہ پنجاب سے قافلوں کے لیے 10 رکنی مانیٹرنگ کمیٹی بنا دی۔تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی کا مانیٹرنگ یونٹ قیادت کو تمام قافلوں کی تفصیلات فراہم...

24نومبر احتجاج پر نظررکھنے کے لیے پی ٹی آئی کا مانیٹرنگ یونٹ قائم

24نومبر کا احتجاج منظم رکھنے کے لیے آرڈینیشن کمیٹی قائم وجود - بدھ 20 نومبر 2024

ایڈیشنل سیکریٹری جنرل پی ٹی آئی فردوس شمیم نقوی نے کمیٹیوں کی تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے ۔جڑواں شہروں کیلئے 12 رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے جس میں اسلام آباد اور راولپنڈی سے 6، 6 پی ٹی آئی رہنماؤں کو شامل کیا گیا ہے ۔کمیٹی میں اسلام آباد سے عامر مغل، شیر افضل مروت، شعیب ...

24نومبر کا احتجاج منظم رکھنے کے لیے آرڈینیشن کمیٹی قائم

عمران خان کی توشہ خانہ ٹو کیس میں ضمانت منظور،رہائی کا حکم وجود - بدھ 20 نومبر 2024

اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ ٹو کیس میں دس دس لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض بانی پی ٹی آئی کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ہائیکورٹ میں توشہ خانہ ٹو کیس میں بانی پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت بعد از گرفتاری پر سماعت ہوئی۔ایف آئی اے پر...

عمران خان کی توشہ خانہ ٹو کیس میں ضمانت منظور،رہائی کا حکم

مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر