... loading ...
زیر نظر تحریر مقبوضہ کشمیر کے دانشور دوست الطاف ندوی کشمیری کی ہے۔ یہ تحریر پاکستان کی کشمیر اور خطے کی دیگر مسلم تحریکوں کے حوالے سے پاکستان کی بدلتی پالیسیوں کے حوالے سے مقبوضہ کشمیر میں پائے جانے والے جذبات کی عکاسی کرتی ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہو رہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں کس طرح پاکستان حامی طبقات بتدریج سرکاری پالیسیوں سے مایوس ہو کر اب ایک نیے موقف کی طرف بتدریج گامزن ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے پاکستان حامی افراد اب رفتہ رفتہ پاکستانی حکمرانوں کی پالیسیوں کے باعث مایوس ہوتے جارہے ہیں۔ الطاف ندوی کشمیری کی یہ تحریر اس حوالے سے چشم کشا بھی ہے اور عبرت افزا بھی ۔ وہ کتاب ’’کشمیر ،عیسائی مشنریز کے نشانے پر ‘‘ کے علاوہ تین مزید کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ الطاف ندوی کشمیری مقبوضہ کشمیر کے مختلف اخبارات وجرائد کے لئے لکھتے ہیں۔ یہ تحریر اُنہوں نے خاص طور پر وجود ڈاٹ کام کے لئے لکھی ہے۔
’’یوں تو پاکستان کے حکمران مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کبھی بھی مخلص نظرنہیں آئے ہیں‘‘(جس کسی کو بھی میرے اس جملے پر شک ہو وہ کشمیر کے ایک عظیم سپوت اورعالی دماغ دانشور ’’ قدرت اللہ شہابؒ صاحب کی کتاب شہاب نامہ ‘‘کا باریک بینی سے مطالعہ کرے) ماضی کے برعکس پٹھان کوٹ حملے کے بعدمعاملہ کافی مختلف دکھائی دیتا ہے ۔جب بھی پاکستان نے ’’ملکی مفاد‘‘میں مسئلہ کشمیر پر پسپائی کا ارادہ کر لیا تو اس کے حکمرانوں میں ہمیشہ شرمندگی اور ندامت کا ہلکا سا احساس ہوتا تھامگر آج ماضی کی گبھراہٹ کے برعکس عزمِ صمیم اور حوصلہ نظر آتا ہے ۔پٹھان کوٹ ائر بیس حملے پر تشویش اس خطے میں رہنے والے ہر شخص کو ہو سکتی ہے اس لئے کہ اس طرح کے حملوں سے دو ایٹمی قوتوں کے بیچ جنگ چھڑنے کے امکانات جنم لیتے ہیں مگر پاکستانی میڈیا کے ذریعے بالعموم اور ’’جنگ و جیو نیوز‘‘کے ذریعے بالخصوص یہ تاثر پیداکیا جارہا ہے کہ حملہ آور ’’جیش محمد‘‘کے لوگ تھے۔ جیو ٹی وی چینل نے تمام تر ماضی کے ’’تصورات‘‘کو پامال کرتے ہو ئے یہاں تک فرما دیا کہ متحدہ جہاد کونسل پاکستان کے لئے نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے ۔خواجہ آصف وزیر دفاع پاکستان نے ہاں میں ہاں ملاتے ہو ئے جیو نیوز چینل کے تمام تر تبصروں اور تاثرات پر مہر تصدیق ثبت کردی، گویا یہ غیر سرکاری بیانات نہیں بلکہ حکومتی سطح کے اہم ترین ذمہ دار کا وہ بیان ہے جس سے موجودہ حکومت کی ’’اصل پالیسی‘‘مترشح ہو رہی ہے ۔
پٹھان کوٹ حملہ آج تک کے سبھی حملوں میں سب سے زیادہ مشکوک دکھائی دیتا ہے ۔اس میں پہلی بار انڈیا خود اپنے لوگوں کو تحقیقات کے دائرے میں لایا ہے حالانکہ اس سے قبل ’’مخلص اور باوقاراہلیان ہند‘‘نے ممبئی اور پارلیمنٹ حملوں کے وقت بھی حکومت سے اپنے مشکوک افراد کو تحقیقات کے دائرے میں لانے کا مطالبہ کیا تھا تب اگر حکومت نے کان دھرا ہوتا تو شاید ’’اجمل قصاب ،افضل گورو اور یعقوب میمن‘‘پھانسیوں پر چڑھائے جانے سے بچ جاتے ۔معاملہ چونکہ صرف مسلمانوں کا تھا لہذا حکومت نے کسی بھی آواز پر کان دھرنے کے برعکس ملزمان کو ’’بھارتی عوام کے ضمیر کو مطمئن کرنے کے لئے‘‘پھانسیوں پر چڑھا کر ہی دم لیا ۔خدا جانے اب کی بار معاملات نے تحقیقاتی اداروں کے ذہن کو دوسری جانب کیوں موڑ دیا،یا یہ ’’سکھ ایس پی‘‘کی میڈیا کو ہینڈل کرنے کی ناتجربہ کاری تھی یا اس کے گناہوں کا بوجھ تھا کہ باربار بیانات بدلنے سے میڈیائی تحقیقات کا رُخ اس جانب مڑ گیا ورنہ ’’چھ دہائیوں کی روایت کے عین مطابق‘‘حملہ پاکستان کے سر تھونپ کر تحقیقات کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند کیا جانا تھا ۔بھارت کی ستر برس کی طویل تاریخ یہی ہے کہ ہر چھوٹے بڑے جرم کو پاکستان کے سر تھونپ کر اسے بدنام کیا گیا جس کا منفی اثر یہاں یہ مرتب ہوا کہ اندرونی جرائم پیشہ قوتوں اور افراد کو جرائم انجام دینے کا حوصلہ ہر بار پہلے سے بھی زیادہ ملا۔
دلی کی جانب سے ابتداء میں حسبِ روایت بیانات کا رُخ اسلام آباد کی جانب مڑا اور اس ’’مشن‘‘میں یہاں کے میڈیا کا شرانگیز طبقہ پہلے سے بھی زیادہ متحرک نظر آیا ۔دلی کا میڈیا ایسی اندھی اور بہری فوج ہے جو ہمیشہ جرائم پر پردہ ڈالنے کے لئے انتہائی زیرک ثابت ہواہے ۔درجنوں معروف چینلز پر ہر حادثے کے بعد ’’پیٹ پرست اور متعصب صحافیوں ‘‘کی ایک جماعت بٹھا کر مخصوص نتائج تک پہنچانے کے لئے غیض و غضب برپا کردیا جاتا ہے حتیٰ کہ سابق تحقیقاتی افسران کو بھی اپنے خاص تبصروں پر مہر تصدیق ثبت کرانے کے لئے چینلز پر مدعو کیا جاتا ہے ۔اس کے بعد اسٹوڈیوز میں بیٹھے یہ لوگ ایک فاضل جج کی طرح فیصلہ بھی سنا دیتے ہیں کہ یہ کارروائی پاکستان کی فوج یا آئی ایس آئی نے کرائی، اس کے بعد ’’اینکر حضرات‘‘سزا سناتے ہوئے تمام تر تعلقات اور مذاکرات ملتوی کرانے میں کامیابی حاصل کرتے ہیں گویا پر شور میڈیا کے پروپیگنڈے سے بھارت اور پاکستان کی گاڑی پھر وہیں آکر رُک جاتی ہے جہاں سے یہ 16اگست1947ء کو چلی تھی ۔آج کے بھارت پر حکومت’’ کارپوریٹ ورلڈ‘‘ میڈیا کے ذریعے کرتا ہے جس کی شدید خواہش پاکستان کے ساتھ لامحدود اور وسیع تجارت ہے اور فرض کیا گیا ہے کہ اس تجارت کی راہ میں’’مسئلہ کشمیر کے برعکس آزادی پسند کشمیری‘‘ رکاوٹ ہیں۔
پاکستان عرصہ دراز سے مسئلہ کشمیر سے پنڈ چھڑانے کے چکر میں مختلف مواقع کی تلاش میں سرگرداں نظر آتا ہے ۔سابق صدر جنرل مشرف نے اسی چکر میں کشمیریوں پر چار نکاتی فارمولہ تھونپنا چاہا،سابق صدرآصف زرداری نے مسئلہ کشمیر کو اگلی نسلوں کے لئے چھوڑنے کے ’’زریں مشورے‘‘سے کشمیریوں کو نوازا تھا،اور اب نواز شریف صاحب اسی چکر میں جہادی طبقے پر طنابیں کسنا چاہتے ہیں ۔پاکستانی حکمرانوں کی یہ نفسیات بہت ہی شرمناک نظر آتی ہے کہ ہندوستان سے دوستانہ تعلقات قائم کرنے میں کشمیر رکاوٹ ہے جبکہ تاریخی طور پر یہ ہمالیہ سے بھی بڑا جھوٹ ہے ۔پاکستان نے جب جیسا چاہا ہندوستان کے ساتھ رشتہ استوار کر لیا ۔کاروبار پہلے بھی چل رہا تھا آج بھی چل رہا ہے ،پہلے صرف واہگہ پنجاب سے تجار ت ہو رہی تھی اب اسی ’’مقبوضہ کشمیر‘‘سے ہو رہی ہے جہاں پاکستانی لوگ ویزے پر جانا بھی ’’جرم‘‘تصور کرتے تھے ۔پاکستان کو شکایت کشمیر کے پانی سے تھی اپنی نااہلی سے مقدمہ بین الاقوامی عدالت میں ہار گیا،آج کل پاکستان اور ہندوستان کی فوجوں کے بیچ جتنی بھی جھڑپیں ہوتی ہیں وہ ’’مقبوضہ کشمیر‘‘کے ساتھ ملنے والی سرحدکے برعکس بین الاقوامی سرحد پر ہو رہی ہے ،ہندوستان کے ساتھ دوستی کے بیچ میں رکاؤٹ پاکستان کی نگاہ میں ’’کشمیری جہادی‘‘تھے پاکستان کی اطلاع کے لئے ان کی تعداد1990ء کے مقابلے میں اب آٹے میں نمک کے برابر رہ چکی ہے اور یہ ’’مسافرانِ راہِ حق‘‘بے بسی اور بے کسی کے عالم میں سرنڈر کے برعکس اپنی جانیں نچھاور کر رہے ہیں تاکہ پاکستان کے ان پرانے طعنوں کا قرض چکا دیا جا جائے جن میں یہ طعنہ بہت مشہور تھا کہ ’’کشمیری برہمن اور بزدل قوم ہے‘‘ گو کہ ہم آج پاکستانی حکمرانوں سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ چودہ سو سال کی اسلامی تاریخ میں ’’ عرب مجاہدین ،طالبان ،ملا عبدالسلام ضعیف اور عافیہ صدیقی جیسے مظلومین کو کفار کے ہاتھوں ڈالروں کے عوض بیچنے کا حرام ،مکروہ اور غلیظ دھندا‘‘کس نے کیاہے؟اگر چہ اس چھوت چھات کا واحد سبب یہ ہے کہ کشمیری عسکری اعتبار سے مظلوم ہیں ۔پاکستان کی ولادت سے پہلے بلکہ بہت پہلے ہمارے آباء واجداد نے مغلوں،افغانوں،سکھوں اور ڈوگروں سے جنگیں لڑیں مگر شکست مقدر اس لئے ٹھہری کہ ان کا مقابلہ کسی منتشر پاکستانی طالبان سے نہیں بلکہ اُس دور کی’’ منظم امریکی حکومتوں جیسی قوتوں‘‘ سے تھا جن کی ایک ٹیلی فون کال پرمشرف جیسا کمانڈو جرنیل ڈھیر ہو جاتا ہے گویا مظلومیت کوئی طعنہ نہیں اور قوت بھی کوئی اعزاز نہیں ہے۔ اعزاز وہ سچائی اور حقانیت ہے جس پر تنہا پیغمبر کھڑا ہوا ،اکیلے چیرا گیا ،پر سچائی نہیں بدلی ۔
آج کی سچائی یہی ہے کہ بھارت کی وسیع تجارتی منڈی تک کھلی رسائی کے لئے کشمیر کو رکاؤٹ سمجھا جا رہا ہے۔ لہذا بھارت سے ’’ہزار برس تک جنگ لڑنے کے دعویدار ملک کے نئے حکمران‘‘اس مرض کے علاج کے لئے بعض طویل اور مختصرپروگراموں پر عمل پیرا ہیں ۔اسی سلسلے کی کڑی نرم شرائط پر’’مجاہدین کشمیر ‘‘کی وطن واپسی کے آپشن کے ساتھ پاکستانی جہادی طبقے پر سخت پابندیاں لگانا بھی شامل ہے ۔حافظ سعید پر شور شرابے سے مایوس انڈیا نے جب مسعود ازہر کا نام لیا تو کئی وجوہ سے یہ بات راس آنے لگی۔ کشمیر میں آزادی پسند عوام یہ بات بہت اچھی طرح سمجھ رہے ہیں کہ پاکستان نے عسکریت سے خود کو بڑی حد تک الگ کرنے کے بعداب مسئلہ کشمیر کو ہی دفن کرنے کا باضابطہ آغاز ’’ترقی کے نام پر‘‘گلگت بلتستان کو پاکستان میں ضم کرکے شروع کردیا ہے ۔سا تھ ہی ساتھ حریت کانفرنس کے لیڈران کا گیلانی صاحب کے پلیٹ فارم پر جمع ہونے کے باوجود غیر مؤثر کرتے ہو ئے ان حضرات کی حوصلہ افزائی کرنا ضروری خیال کیا جا رہا ہے جن کی کشمیر میں کوئی خاص پہچان نہیں ہے یا وہ مشتبہ اور مشکوک کردار کے حامل لوگ ہیں ۔
جیش محمد پر پابندی اور دفاتر پر تالے لگانے کے بعد جہاد کونسل کی باری آ جانے پر بھی کوئی اچنبھامعلوم نہیں ہونا چاہیے اس لئے کہ ابھی چند برس قبل پاکستان نے طالبان کے قبول کردہ حکومت کے لوگوں کو چن چن کر گرفتار کیا اور سفیرافغانستان ملاعبدالسلام ضعیف کے علاوہ درجنوں لیڈروں کوامریکا کے حوالے کردیا ۔افغانستان کے کوہساروں ، میدانوں اور بستیوں پر بمباری کرنے والے جہاز پاکستان کے ائیر بیسوں سے اڑتے تھے !مگر پاکستان کے ٹیلی ویژن چینلز پر چیخنے والے بے غیرت دانشور تب ہر حکومتی دہشت گردی اور جرم کے لئے تاویلات کا وسیع دفتر کھولے ان جرائم پر پردہ ڈال رہے تھے اور حیرت یہ کہ آج یہی ’’بے شرم دانشور ‘‘طالبان سے لڑنے کے بجائے مذاکرات کی بات کرتے ہیں ۔خدشہ اس بات کا ہے کہ اگر پاکستان پر انڈیا اور امریکا نے ملکر دباؤ بڑھا دیا تو سید صلاح الدین احمد کیا یہ لوگ مسعود ازہر اور حافظ سعید کے ساتھ ساتھ حریت کانفرنس کے ’’پاکستانی چیپٹر‘‘ کو بھی بھارت حوالگی تک دائرہ وسیع کر سکتے ہیں اور ویسے بھی اے ،این ،آئی نے اس کے تمام ترلوازمات مکمل کر لئے ہیں ۔ہم کسی برائی اور شرکی امید نہیں کریں گے مگر ماضی کی وسیع اور المناک تاریخ کے تناظر میں بہت ناممکن اب ممکن نظر آنے لگتا ہے جس کی ایک خوفناک جھلک ہم آپ کو جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے بزرگ لیڈروں کی پھانسیوں پر مجرمانہ خاموشی کی صورت میں بھی دیکھ سکتے ہیں ۔
پاکستان کی میزبانی میں او آئی سی وزرائے خارجہ کا دو روزہ اجلاس آج(منگل کو) پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں شروع ہو گا، اجلاس میں مسئلہ کشمیر، مسلم امہ کو درپیش معاشی، سیاسی اور ثقافتی چیلنجز کیساتھ اسلامو فوبیا کے حوالے سے بھی غورکیا جائے گا۔ کانفرنس میں 150سے زائد قراردادیں منظور ہ...
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کبھی نہ کبھی تو افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم کرنا ہوگا، عالمی براردی کو افغان حکومت کے ساتھ ''کچھ لو اور دو'' کی بنیاد پر کام کرنا چاہیے۔امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان افغانستان اور طالبان حکومت سے متعلق بات ک...
حکومت کی طرف سے جاری کی گئی ملکی تاریخ میں پہلی بار قومی سلامتی پالیسی میں دفاع ، داخلہ، خارجہ اور معیشت جیسے شعبو ں پر مستقبل کا تصوردینے کی کوشش کی گئی ہے۔قومی سلامتی پالیسی میں سی پیک سے متعلق منصوبوں میں دیگر ممالک کو سرمایہ کاری کی دعوت دی گئی ہے، نئی پالیسی کے مطابق کشمیر ب...
وادیٔ نیلم میں مسافر بس کو بھاری ہتھیاروں سے نشانہ بنایاگیا ، تین شہری موقع پر شہید ، زخمیوں میں شامل سات افراد ہسپتال میں دم توڑ گئے گزشتہ روز ہندوستانی فوج نے اپنے 3 فوجیوں کی ہلاکت تسلیم کی تھی اور ٹوئٹ میں اس کارروائی پر شدید ردعمل دینے کی دھمکی دی تھی بھارتی افواج کی...
پاکستان بار بار یہی بات دہرارہا ہے لیکن بھارت فوجی قبضے اورتسلط پراَڑاہوا ہے ،نتیجہ آنے تک مقد س اورجائزجدوجہد جاری رکھیں گے بھارتی مظالم کے آگے سینہ سپر87سالہ ناتواں بزرگ لیکن جواں عزائم اورمضبوط اعصاب کے مالک چیئرمین آل پارٹیز حریت کانفرنس انٹرویوپینل:شیخ امین ۔مقصود من...
ظلم و جبر پر عالمی برادری کی خاموشی افسوس ناک ہے،پاکستانی قیادت کو سمجھنا چاہیے مذاکرات اور قراردادوں سے مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوگا، مجاہدین کو وسائل مہیا کیے جائیں جب دنیا ہماری آواز نہیں سن رہی تو پھر ہمارے پاس آزادی کے لیے مسلح جدوجہد ہی آخری آپشن ہے،سید صلاح الدین کا ایوان صحا...
برہان وانی کی شہادت کے بعد بھارتی فوج کا خیال تھا کہ وہ انتہائی مطلوب حریت پسند رہنماکی موت کا جشن منا ئیں گے، مٹھا ئیاں با نٹیں گے اور نئی کشمیری نسل کو یہ پیغام دیں گے کہ بھارت ایک مہان ملک ہے اور اس کے قبضے کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو وہ ختم کرنا جا نتے ہیں۔ لیکن انہیں کشمیر...
اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے گزشتہ روز وزیراعظم کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کی اور بھارت کے جنگی جنون سے نمٹنے اور مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کی بھرپور مدد کرنے کے حوالے سے کوششوں کیلیے وزیر اعظم کابھر پور ساتھ دینے کا اعلان کیا۔اپوزیشن کے رہنماؤں نے اس ناز...
یوں توآج کل پورا برصغیر آپریشنوں اور اسٹرائیکوں کے شور سے پریشان ہے مگر کشمیر براہ راست ان کی زد میں ہے۔ یہاں حکومت نے آپریشن ’’کام ڈاؤن‘‘کا آغاز کرتے ہو ئے پورے کشمیر کو بالعموم اور جنوبی کشمیر کو بالخصوص سیکورٹی ایجنسیوں کے رحم و کرم پر چھوڑا ہے۔ انھیں مکمل طور پر کھلی چھوٹ ہے۔...
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد ان دنوں زبردست سفارتی اور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہو اہے ۔ گزشتہ دو ہفتوں سے پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی نے سفارتی حلقوں کو بہت زیادہ سرگرم کیا ہواہے ۔ پاکستان کے دفاعی اور سفارتی حلقوں کی شبانہ روز کاوشوں نے بھارت کو سفارتی اور دفاعی لح...
زندہ قوموں کی زندگی کارازصرف ’’خود احتسابی‘‘میں مضمر ہے۔ جو قومیں احتساب اور تنقید سے خوفزدہ ہو کر اسے ’’عمل منحوس‘‘خیال کرتی ہیں وہ کسی اعلیٰ اور ارفع مقصد کو حاصل کرنے میں بھی ناکام رہتی ہیں۔ احتساب ہی ایک ایسا عمل ہے جس سے کسی فرد، جماعت اور تحریک کی کامیابی اور ناکامی کا صحیح...
وزیراعظم پاکستان محمد نواز شریف کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 71ویں اجلاس سے خطاب کو جو پذیرائی کشمیر میں حاصل ہوئی ہے ماضی میں شاید ہی کسی پاکستانی حاکم یا لیڈر کی تقریر کو ایسی اہمیت حاصل ہوئی ہو۔ کشمیر کے لیڈر، دانشور، صحافی، تجزیہ نگار، علماء، طلباء اور عوام کو اس تقریر کا...