... loading ...
پوچھتے ہیں وہ کہ غالبؔ کون ہے؟
(اگر آپ لفظ غالب کے لغوی معنی کالم کے عنوان کی مناسبت سے نکالیں تو خاکسار کو کوئی اعتراض نہ ہوگا)
گجراتی زبان میں ان دنوں ساٹھ کی اوائل دہا ئی میں کراچی سے کل دو اخبار دن کے (ملت اور ڈان) اور ایک اخبار شام کا ہوتا تھا جس کا نام وطن تھا ۔ہمارے گجراتی اور میمن گھرانوں میں ان اخبارات کو بہت شوق سے پڑھا جاتا تھا۔برطانیہ کے ایک قدامت پسند صحافی ہنری فیر لائی نے انہیں برسوں میں اسٹیبلشمنٹ کی اصطلاح کو اپنے کالموں میں کثرت استعمال کی وجہ سے نئے معنی بخشے تھے۔
اہل گجرات جن کے ہاں ایک عرصے تک فوج اور ڈیرے دار طوائفوں کی طرح اعلیٰ تعلیم کو ترقی و کامیابی کی راہ میں بہت رکاوٹ سمجھا جاتا تھا،ان کے بڑے بوڑھے ا ن نامانوس اور گنجلک الفاظ سے بہت زچ ہوتے تھے۔ایسے ہی ایک صبح ناشتے کے دستر خوان پر مِلّت اخبار سے نگاہیں اٹھا کر نانا جان نے جھنجلا کر میمنی زبان میں ماموں سے پوچھا ’’ ہی گدھیڑی جو اسٹیبلشمنٹ آکھیر آئی کیر؟‘‘(یہ گدھے کا بچہ آخر اسٹیبلشمنٹ ہے کون؟) ماموں اس اچانک اور غصیلے سوال پر ہڑ بڑا گئے ۔یوں تو وہ آکسفورڈ انگلش ڈکشنری اور انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا پر بالکل ایسے ہی جان نچھاور کرتے تھے جیسے ان دنوں ایک رنگ کی پگڑی والے اپنی دعوت اسلامی اور پان، گٹکے پر کرتے ہیں ،ماموں کو اس وقت تو فوری کوئی جواب نہ بن پڑا مگر وہ والد محترم کے ذوق ِتجسس کی تشفی کے لیے لفظ اسٹیبلشمنٹ کے معنی کی کھوج میں لگ گئے ۔ ان دنوں نہ تو وکی پیڈیا آیا تھا نہ ہی کوئی وکی لیک سے خائف تھا۔
جہاں تہاں سے حضرت نے معنی نکال کر نانا کو بمشکل سمجھایا کہ اسٹیبلشمنٹ دراصل ایک ایسی غیر اعلانیہ طاقت ور اکائی ہوتی ہے جو بہ لحاظ تعداد اقلیت میں شمار ہوتی ہے مگر اثرانگیزی، قطعیت،معاملہ فہمی،زور آزمائی اور فیصلہ سازی میں اکثریت پر بھاری ہوتی ہے۔نانا جان نے یہ وضاحت سنی آنکھیں بند کرکے اپنی مرحوم ساس کی سفاکی اور دیگر اوصاف کے بارے میں سوچا تو اسٹیبلشمنٹ کی اصطلاح فوراً سمجھ میں آگئی وفور مسرت سے اپنے فہم و ادراک کا برملا اظہار بھی اپنی اہلیہ یعنی نانی جان سے کردیا ۔سننے میں آیا ہے کہ برخلاف اس کے کہ اس زمانے کی سبھی عورتیں رانی وکٹوریہ کے راج کے ہمہ وقت گن گاتی تھیں، اپنی والدہ کی برطانوی اسٹیبلشمنٹ سے اس گستاخانہ مماثلت کا سن کر نانی اماں، نانا جان کی اس بے لگام حس مزاح سے اتنی زچ ہوئیں تھیں کہ انہوں نے وصیت کی کہ انتقال کے بعد ان دونوں کو ایک قبرستان میں دفن نہ کیا جائے۔تابعدار اولاد نے بعینہ اس وصیت پر عمل بھی کیا۔
اب برطانیہ کا اسٹیبلشمنٹ کیا ہے؟ اتنی سی بوند جتنی تو بات ہے کہ بقول جگر مراد آبادی ع سمٹے تو دل عاشق، پھیلے تو زمانہ ہے۔ برطانیہ جہاں سیاست کبھی تو قدامت پسندی Conservative تو کبھی جدیدیت یعنی لیبر پارٹی کا عبایا پہن کر ٹھمکتی پھرتی ہے۔ وہاں اس اکائی کے دو سب بڑے محافظ ان کا راج پاٹ یعنی تاج برطانیہ اور دوسرا ہاؤس آف لارڈز یعنی ان کا دار الامرا ء ہے۔ہمارے دوست افضل رضوی کو ہمیشہ سے یہ اعتراض رہا کہ اگر پبلک ٹوائلیٹس کا خواتین کے زیر استعمال حصہ انگریزی لفظ Ladies سے منسوب ہوتا ہے تو دوسرا House of Lords کے نام سے منسوب ہونا چاہیے کیوں کہ لیڈیز کا انگریزی مذکر Gentlemen ہرگز نہیں بلکہ Lords ہے ۔
برطانوی اسٹیبلشمنٹ کا ایک بڑا خزینہ تو اس کے وہ ممبران ہیں جو منتخب نہیں بلکہ مقرر کئے جاتے ہیں۔ ان میں 26 تو ان کے پادری صاحبان ہیں۔ انہیں لارڈ اسپریچول کہتے ہیں۔( ہم بلاوجہ ہی اپنی اسلامک نظریاتی کونسل کی سر پھٹول پر دل میلا کر بیٹھے ہیں)ان کے علاوہ 92 لارڈ ٹیمپورل ہیں۔یہ خاندانی ممبر امراؤ ں کے ورثاء ہیں۔ اور ان کی رکنیت تاحیات چلتی رہتی ہے۔ انہیں ملکہ برطانیہ، وزیر اعظم کی تجویز پر مقرر کرتی ہے۔ان کی تعداد بھی مقرر نہیں اور حالیہ برسوں میں اُن کی تعداد ایوان زیریں کے ممبر صاحبان سے زیادہ ہے۔ پاکستان کے سینیٹ کے ممبرز بھی جن کی مدت رکنیت بہت کھینچ تان کر بھی محض چھ برس ہوتی ہے، بہت ممکن ہے وہ بھی اس دار الامرا ء کے اجزائے ترکیبی اور کیفیت دوام سے دل ہی دل میں حسد محسوس کرتے ہوں ع کس کو خبر ہے میرؔ ؔسمندر پار کی
کرسٹین کیلر
برطانیہ کے اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں شور و غوغا اس وقت بلند ہوا جب سرد جنگ کے زمانے میں 19برس کی ایک خوبرو ،درجہ سوم کی ماڈل اور عریاں شو کرنے والی غریب لڑکی کرسٹین کیلر اور اس وقت کے برطانیہ کے وزیر جنگ لارڈ پروفمو ایک جنسی اسکینڈل میں ملوث پائے گئے۔بات یہاں تک ہوتی تو خیر تھی مگر اس کو لارڈ پروفمو اور دیگر افراد سے متعارف کرانے کا سہراڈاکٹر اسٹفین وارڈ کے سر بندھا ۔ جو پٹھوں اور ہڈی کے ڈاکٹر یعنی Osteopathتھے۔کرسٹین کیلر اور ایک اور لڑکی مینڈی رائیس ڈیوس کے ذریعے ان کی رسائی برطانیہ امریکہ اور روس کے مقتدر حلقوں تک ہوگئی جنس اور جاسوسی کا بازار یہیں سے گرم ہوا ۔
سرد جنگ کا زمانہ تھا روس امریکابرسر پیکار تھے۔ ویت نام ، کیوبا ، کوریا سبھی اس کے لپیٹ میں تھے۔ ڈاکٹر اسٹفین وارڈ جن کے شفاخانے اور سوادو کمروں کے آستانے پر روسی جاسوس اور برطانوی جاسوس جو برطانیہ کے اعلی خاندانوں کے افراد تھے ، ایڈیٹر ز، اور دیگر اہم افراد باہمی ملاقاتیں کرتے تھے۔ کرسٹین کیلر اس کے فلیٹ پر ہی رہا کرتی تھی اور اس کے ساتھ ایسی پارٹیوں میں شامل ہوتی تھی جنہیں انگریزی زبان میں پاور پارٹیز کہا جاتا ہے ۔یہ بات آپ کے لیے باعث حیرت ہو کہ برطانیہ کی خفیہ ایجنسی ایم ۔آئی ۔ فائیو کے سربراہ راجر ھولیس بھی وہاں آتے تھے ۔ہالی ووڈ کے اداکار بھی اور صدر کینیڈی کے بہنوئی بھی۔ جیسے ہی یہ جنسی اسکینڈل طشت از بام ہوااور لارڈ ڈیننگ کی سربراہی میں ہونے والی تحقیقات کا آغاز ہوا تو اس کے نتیجے میں جاسوسی میں ملوث پائے جانے والے افراد میں سے تین تو بشمول رسوائے زمانہ جاسوس کم فل بی سبھی فرار ہوکر روس پہنچ گئے۔
ڈاکٹر اسٹفین وارڈ
اس کے مرکزی کردار ڈاکٹر اسٹفین وارڈ نے اس خوف سے کہ انہیں برطانوی اسٹیبلشمنٹ اپنے اہم افراد کو بے گناہ ثابت کرنے اور بچانے کے لیے قربانی کا بکرا بنائے گا۔ اندیشہ ہائے دور داز کے تحت خواب آور گولیاں کھا کرخودکشی کرلی۔لاڑد پروفمو کی ہمارے صدرفیلڈ مارشل محمد ایوب خان سے بہت دوستی تھی،صدر خود بھی ایک مرتبہ اس طرح کی محفل شبینہ جس میں عریانی اوربے ہودگی کا ایک بازار گرم تھا شریک ہوئے تھے ۔یہ بکنگھم شائر کے ایک ایسے ولا میں منعقد ہوئی تھی جو برطانوی اسٹیبلشمنٹ کے اہم رکن لارڈ بل ایسٹر کی ملکیت تھا۔ پاکستان میں جب سن 1963 ء میں اس حوالے سے خبریں اردو انگریزی اخبارات میں لیک ہوئیں تو پاکستانی ہائی کمیشن کی لندن میں دوڑیں لگ گئیں اور صدر محترم کا سرکاری دورہ منسوخ ہوتے ہوتے بچا۔
لاڑد پروفمو ابتدا میں تو کرسٹین کیلر کے ساتھ جنسی طور پر ملوث ہونے سے انکار کرتے رہے ۔مگر بعد میں حکومت اور دار الامراء سے نہ صرف مستعفی ہوئے بلکہ اپنے ضمیر کے ہاتھوں تنگ ہوکر جرائم کے کفارے کے لیے جسے انگریزی میں ’’private atonement‘‘ کہتے ہیں وہ برطانیہ کی اشرافیہ کا ممبر اور لارڈ ہونے کے باوجود لندن کے مشہور خیراتی مرکز Toynbee Hall میں ایک مدت تک فرش پر جھاڑو پوچا کرتے دکھائی دیتے تھے۔
اس حوالے سے ڈاکٹر اسٹفین وارڈ کے خدشات درست ثابت ہوئے ۔مقدمے میں انہیں محض ایسے ایک گھٹیا کردارکے طور پر گردانا گیا جو کرسٹین کیلر اور مینڈی رائس ڈیوس جیسی طوائفوں کی آمدنی پر گزارا کرتا تھا۔اس فیصلے کو بہت سے تجزیہ کار برطانیہ کے طاقتور اسٹیبلشمنٹ کا انتقام گردانتے ہیں۔خود کرسٹین کیلر بھی بڑی بے باکی سے یہ الزام لگاتی ہے کہ برطانوی اسٹیبلشمنٹ ایک دوسرے کی نیک نامی کے تحفظ میں بے حد مصلحت پسند ،مکار اور بے رحم تھا ۔
ان کے ہاں جو اس سلسلے میں انکوائری کمیشن لارڈ ڈیننگ کی سربراہی میں بنا تھا۔ اس نے بہت توجہ اور شفقت سے اس کی تمام گواہی سنی اور اسے بہت آہستگی ،اعتماد مگر کمال پُرکاری سے یہ وارننگ دی کہ اگر وہ اپنی زبان بند نہیں رکھے گی تو اسے ایک ایسے زنداں میں ڈال دیا جائے گا جہاں وہ سورج کی روشنی دیکھنے سے ساری عمر محروم رہے گی۔لارڈ ڈیننگ جن کی اس اسکینڈل کے حوالے سے تحقیقاتی رپورٹ سن 1963 میں سامنے آئی ۔کرسٹین کیلر کے نزدیک ایک جھوٹ کا پلندہ ہے جس نے واقعات کے بیان میں اپنے زاویے ڈال کر اس اسکینڈل میں ملوث اہم کرداروں کو تحفظ فراہم کیا ۔اس بدنام زمانہ معصومہ کا یہ فقرہ بھی بہت اہم ہے کہ
’’Denning lived a lie from the summer of 1963 and I don’t know how his conscience allowed him to do so,
’’ڈیینگ اس جھوٹ کے ساتھ 1963 کے سرما سے مسلسل زندہ رہا میں نہیں جانتی کہ اس کے ضمیر نے اسے کیسے جینے دیا‘‘
اگر تحقیقاتی رپورٹوں میں بیان کردہ مصلحت پسندی اور بے ضمیری کی وجہ سے لوگوں کی اموات ہوتیں تو پاکستان کی عدلیہ اور انتظامیہ کے بہت اہم اور سرکردہ افراداپنی اپنی خواب گاہوں میں دم گھٹنے کی وجہ سے مردہ پائے گئے ہوتے۔ایک مصنف نے اپنی کتاب شیم میں لکھا تھا کہ’’ بے حیائی(بے ضمیری) ایک فرنیچر کی طرح ہوتی ہے آپ کو رفتہ رفتہ یہ آنکھوں میں نہیں کھٹکتی اور اس کے ساتھ رہنے کی عادت ہوجاتی ہے۔‘‘
وہ تو اپنی الزام تراشی میں اس حد تک آگے نکل گئی کہ اس نے ڈاکٹر اسٹفین وارڈ جسے وہ spymaster کے لقب سے یاد کرتی ہے،اس کے اسی گھر پر روس اور امریکا کا میزائل پروگرام زیر بحث رہتا تھا۔ مختلف ایجنٹوں کو اس کے سامنے رقم دی جاتی تھی۔اس کے ہاں اور دیگر محافل شبینہ میں جو کچھ سنا ہے ۔اس میں برطانیہ کی ملکہ الزبتھ کے شوہر کے پرنس فلپ کا معاشقہ ہیلن کورڈٹ کے ساتھ بالاخر ایک فرزند کی ولادت تک جاپہنچا تھا۔
جان ایف کینڈی اور ہیرلڈ میکملن
اس کے علاوہ بھی کچھ خواتین اور بھی پرنس فلپ کے حلقۂ احباب میں تھیں اور وہ اپنی گواہی میں اس حد تک آگے نکل گئی ہے کہ اس نے نو امریکی صدر جان ایف کینڈی کے قتل کے خدشات بھی ظاہر کیے تھے جو جج صاحب نے اور اس وقت کے وزیر اعظم برطانیہ ہیرلڈ میکملن جن کی بیوی کا ایک عاشق لارڈ بوتھ بائی اُ ن کی بھری محفلوں میں بے عزتی اور رسوائی کرتا تھا ۔وہ کہتی ہے کہ ایک محفل میں یہ سلسلہ تضحیک و تحقیر ا س قدر طول پکڑ گیاکہ وزیر اعظم نے روتے ہوئے لارڈ بوتھ بائی سے پوچھا کہ وہ صرف یہ اعتراف کرلے کہ وہ ان کی ایک عدد صاحبزادی مسز سارہ میکملن ہیتھ کاباپ ہے۔
لارڈ ڈیننگ نے جاسوسی اور ملکی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے سب الزامات وغیرہ رد کردیئے۔لیکن وزیر اعظم ہیرالڈ میکملن نے بھی محض اس کی غربت اورکم حیثیت اور دیگر ملوث افراد کے اشرافیہ سے تعلق رکھنے کی وجہ سے انہیں اس تضحیک کے ساتھ قابل یقین وعمل نہیں سمجھا کہ موصوف کہا کرتے تھے کہ
” I WAS DETERMINED THAT NO BRITISIH GOVERNMENT SHOULD BE BROUGHT DOWN BY THE ACTIONS OF TWO TARTS”
’’میں نہیں چاہتا کہ کوئی برطانوی حکومت دو طوائفوں کی بد اعمالیوں کی وجہ سے گھر چلی جائیــ‘‘
وزیر اعظم ہیرلڈ میکملن کے بڑے بول سامنے آئے ، موصوف نے کچھ دن بعد خرابی ٔ صحت کا بہانہ بنا کر استعفیٰ دیا اور ان کی لیبر پارٹی بھی اس سال الیکشن ہار گئی۔( جاری ہے)
[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...
ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...
[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...
ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...
بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...
[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...
[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...
پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...
[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...
[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...
معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...
میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...