... loading ...
حب الوطنی کوئی جبلی شے نہیں ، اسے ماں کی گود میں پلتے بچے کی طرح پرورش دی جاتی ہے۔ اِسے قومی وقار اور افتخار کی علامت بنا کر دکھایا جاتا ہے۔ قومی سرگرمیوں کے محور کے طور پر اِسے رومان پرور ماحول میں رکھا جاتا ہے۔ مگر پاکستان کے اداروں اور سیاست دانوں نے اِسے اپنے اختیارات کی جنگ میں بیرونی قوتوں سے تال میل کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے۔ وہ خود اپنی ہی بنائی پالیسیوں کی ذمہ داری تک لینے سے گریزاں رہتے ہیں۔ اس نے ملک کو چار کھونٹ ، بارہ باٹ کردیا ہے۔ایک تتر بتر ملک ، جسے منتشر الخیال لوگ اپنی مرضی سے جہاں چاہے ہانکتے پھرتے رہتے ہیں۔ ہر ایک نے اپنی اپنی حرکتوں کو ایک تقدیس کے ہالے میں لے رکھا ہے۔ عسکری حلقوں کے پاس قومی مفاد نام کی ایک تلوار ہے ، جو کسی کا سرتن سے جُدا کردینے تک کی گنجائش اور جواز پیدا کرلیتی ہے، یہاں تک کہ اس پر بات بھی نہیں کی جاسکتی۔ اسی طرح سیاست دانوں کا ایک انگڑ کھنگڑ ہے۔ جن کی اَنگش بَنگش گفتگو کی اپنی اپنی توجیہات ہیں۔ جو جمہوریت کی تعظیم میں مباح بنا دی گئی ہے۔ اس پر کسی نوع کا اعتراض بنام جمہوریت گالم گلوچ تک کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے۔ اس کا تائیدی حلقہ بھی بہت وسیع ہے کیونکہ یہ سارا کاروبار دولت کی ریل پیل اور دستر خوان کی وسعت سے چلتا ہے۔ جن سے سب کی زبانیں تر بتر رہتی ہیں۔ پھر ان دونوں کے درمیان ایک کشمکش کی بھی نئی گروہ بندی ہے جس میں دلائل کی ایک سجی سنوری ست رنگی ہر فریق نے ایک دوسرے کی بد اعمالیوں پر بنا رکھی ہے۔ یہ اپنا جوا ز خود اپنی راست روی اور نیک اعمالی سے پیدا نہیں کرتے بلکہ دوسرے کی بد اعمالیوں سے کرتے ہیں۔ یہ دنیا کا ایک انوکھا دنگل ہے جو پاکستان میں لگا ہوا ہے۔ اس لڑائی کے تعصبات اتنے گہرے ہو چکے ہیں کہ اب سیاسی اور عسکری جدل میں دونوں فریقوں نے ایک دوسرے کے خلاف طاقت پانے کے لئے اپنے ہی ملک کے اندر دیکھنے کے بجائے باہر دیکھنے کی عمومی روش اپنا لی ہے۔ صرف دو مثالیں کافی ہو نگیں:
جنرل (ر) مشرف نے اقتدارپرقبضے کے بعد اس کی صرف پزیرائی کے لئے امریکا کی مرضی کو جوں کا توں اوڑھ لیا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر دہشت گردی برپا کرنے والی جنگ کا حصہ بن گئے۔ یہ ملک آج تک اِن شعلوں کی لپیٹ میں ہے اور اب اس جنگ نے اپنے وارث پیدا کر لئے ہیں۔ جو ریاست کے خلاف جنگ کا بیانیہ تک رکھتے ہیں۔ خلیل جبران کے الفاظ میں جو ایک ماں کی زبان سے ادا ہوئے تھے کہ ’’یہ جنگ مقد س کیوں نہیں اس میں تو میرا بیٹا شہید ہوا ہے۔‘‘ سیاسی وعسکری حلقوں کے تمام دعووں کے برعکس یہ ایک حقیقت ہے کہ اس جنگ کی کوئی اور چھور نہیں اور کامیابی کے تمام دعووں کے باوجود یہ ایک نہ ختم ہونے والی جنگ ہے جسے امریکا سمیت ہم سے زیادہ بڑی طاقتیں بھی ختم کرنے کے پورے ارادے اور طاقت کے باوجود ختم نہیں کرسکی۔ اس حقیقت کے خاموش اعتراف کے بعد اب وہ اس کا رخ موڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔مزید براں جنرل (ر) مشرف نے بھارت کے ساتھ مذاکرات کی جو بساط بچھائی تھی اور خورشید قصوری اپنی کتاب میں جس کے بالواسطہ جواز تراشتے نظر آتے ہیں، وہ بھی اتنی ہی مشکوک ہے جتنی کہ نوازشریف کی بچھائی بساط ہے۔ دروازۂ اقتدار کھلتے ہی عسکری یا سیاسی قیادت اُن کے حضور ایک ہوجاتی ہے۔
دوسری مثال کے طور پر آصف علی زرداری اور نوازشریف کے طرز عمل کو لے لیں! میمو گیٹ کوئی افسانہ نہیں تھا۔ دوسری طرف آصف علی زرداری پر یہ الزام ہے کہ وہ اپنے اقتدار کے مشکل دنوں میں افغان صدر حامد کرزئی کو اس پر اُکسار ہے تھے کہ وہ طالبان کے ذریعے پاک سرزمین پر حملے کرائیں تاکہ اُن پر عسکری دباؤ میں کمی آسکے۔ نواز شریف کی مثال بھی سامنے رکھیں۔ لوگ فراموش کرگیے کہ کارگل کی لڑائی کے بعد کیا ہوا تھا؟ یہ مان لیا جائے کہ عسکری قیادت نے تب اُنہیں اندھیرے میں رکھا تھا۔ تب بھی اُن کا اُس وقت طرزِ عمل کیا تھا؟ اُن دنوں فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کی کارگل کے حوالے سے گفتگو پر مبنی ایک آڈیو ٹیپ(سمعی فیتہ) منظر عام پر آئی تھی۔ نوازشریف پر یہ الزام عائد کیا گیا تھاکہ اِس فیتے کا رِساؤ (لیک)اُن کی جانب سے ہوا ہے اور ہاتھ مشاہد حسین سید کے استعمال ہوئے ہیں۔اُن ہی دنوں امریکی اخبارات میں پاک فوج کے خلاف ایک اشتہار بھی ’’روگ آرمی‘‘ کے نام سے شائع ہوا تھا۔یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ اس اشتہار کی ادائی نوازشریف کے امریکا میں مقیم دوست کی جانب سے ہوئی۔اب تازہ ترین صورتِ حال کے تناظر میں یہ معاملہ ایک واقعے کے طور پر ہمارے سامنے ہیں کہ نوازشریف نے بھارت سے تعلقات کے تناظر میں نریندرمودی کی لاہور آمد پر یہ بات کہی کہ اُنہوں نے وزیراعظم بنتے ہی یہ طے کر لیا تھا کہ وہ بھارت سے دوستانہ تعلقات اُستوار کرکے رہیں گے۔بات اتنی ہی نہیں ہے۔ نوازشریف نے ملک کے اندر ہر اُس طاقت سے دوستی کر لی ہے جو کسی بھی طرح فوج کے خلاف کسی بھی معاملے میں اُن کے لئے مسائل پیدا کرسکتی تھی۔ نوازشریف کے پچھلے دور میں جنگ گروپ کے خلاف احتساب بیورو کس طرح حرکت میں آیا تھا، یہ سب کو معلوم ہے۔ مگر اب یہ پورا ادارہ اُن کے ساتھ مثالی تعلقات کے منافع بخش دور میں ہے۔اب وہ ذرائع ابلاغ کے مختلف اداروں میں باہمی لڑائی کو بھی اسی تناظر میں فوراً ختم کرادیتے ہیں کیونکہ وہ ان ساری لڑائیوں کو اپنی جنگ کے لئے خطرناک سمجھتے ہیں۔ وزیراعظم بننے سے قبل جیو اور دنیا کے درمیان جب اسی نوع کا تنازع پیدا ہوا تو وہ اُنہوں نے خود دلچسپی لے کر ختم کرایا۔اب بھارت کے باب میں دیکھ لیجئے!نریندر مودی سے تعلقات کے حوالے سے اُنہوں نے ساجن جندال کو ذریعہ بنایا۔ وہ اُن کی تقریبِ حلف برداری میں بھی یکطرفہ فیصلہ کرکے بھارت تشریف لے گیے ۔ اور وہاں اُنہوں نے ساجن جندال کے گھر جا کر چائے پی۔ وہ بھارت سے کسی بھی حالت میں مذاکرات کے خواہاں ہیں۔ بھارت سے مذاکرات ازخود کوئی بُری شے نہیں۔ مگر وہ اِسے جس ذہنی کیفیت میں کر رہے ہیں اور جس مقصد کے تحت اِسے جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ اس سارے عمل کا مزہ کِرکِرا کردیتا ہے۔
یہ واقعاتی تصویر کشی دراصل بجائے خود کوئی موضوع نہیں۔ اصل موضوع یہ ہے کہ افراد کا ملک سے تعلق بھی اُن کے ذاتی مقاصد کے ماتحت ہوتا جا رہا ہے۔ اور اس میں عسکری اور سیاسی سطح پر کہیں سے بھی اقتدار میں آنے والوں کی کوئی تخصیص نہیں۔ اس خطرناک رجحان کا پورے ملک میں کسی بھی سطح پر کوئی تجزیہ نہیں ہورہا۔ یہ اس رجحان سے زیادہ سنگین معاملہ ہے کہ ہم ملک سے کسی شخص کے بلامشروط تعلق کا تناظر تک فراموش کردیں۔ اس کامطلب یہ ہے کہ ہم خود بھی اپنے چھوٹے چھوٹے دائروں میں اسی طرح کی نفسیات رکھتے ہیں۔ اسی باعث پاکستان سے تعلق رکھنے والے تمام افراد بیرونی دباؤ پر ہمارے لئے بوجھ بن گیے۔ بنگلہ دیش میں ہونے والی پھانسیوں پر کوئی حساسیت اسی لئے نہیں۔ اور جس طرح پہلے اچھے اور بُرے طالبان کی تفریق کی گئی اور پھر اُس تفریق کو بھی فراموش کردیا گیا، ٹھیک اسی طرح اب اچھے اوربُرے کشمیری کی تفریق کا دور ہے اور پھر یہ تفریق بھی فراموش کردی جائے گی ۔ انالﷲ وانا الیہ راجعون !!!!!
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...
کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...
کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...
[caption id="attachment_40669" align="aligncenter" width="640"] رابرٹ والپول[/caption] وزیراعظم نوازشریف کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا انمول تحفہ ملا ہے، جس کی مثال ماضی میں تو کیا ملے گی، مستقبل میں بھی ملنا دشوار ہوگی۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گِرد ایک ایسی دنیا تخلیق کر ل...