... loading ...
بھارت میں پٹھانکوٹ کے ہوائی اڈے پر ’’نامعلوم افراد‘‘ کے حملے کے بعد خطے میں صورتحال ایک مرتبہ پھر کشیدگی کی جانب جاتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس حوالے سے بھارتی میڈیا ہاؤس نے انتہا پسند ہندو تنظیموں سے بھی زیادہ منفی کردار کا مظاہرہ کیا ہے ۔ اس کا اندازہ اس ایک بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس حملے کے بعد صرف چند گھنٹوں بعد ہی بھارت کی معروف صحافی برکھا دت اپنے ٹیوٹر پیغام میں اس واردات میں احتمال کی انگلی کو پاکستان کی جانب بڑھا دیتی ہیں۔ دونوں ملکوں کے پڑھے لکھے اور سنجیدہ حلقوں میں اس پیغام کو انتہائی حیرت سے دیکھا گیا ہے کہ ابھی جب سیکورٹی ایجنسیاں حملوں آور کے تعین میں کوئی بات دلیل کے ساتھ بیان کرنے سے قاصر ہیں تو پھر کس بنیاد پر الزامات کی انگلیاں پاکستان پر دراز کی جارہی ہیں؟سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان حملوں کا سب سے زیادہ فائدہ کن عناصر یا ملک کو ہے۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان اس وقت دنیا میں دہشت گردی کے خلاف خود سب سے بڑی جنگ لڑ رہا ہے اور اس میں بہت حد تک کامیاب بھی ہے۔ ایسی صورتحال میں جبکہ مشرق وسطی سے لیکر کر افغانستان سمیت ایک آگ لگی ہوئی ہوئی ہے پاکستان میں حالات کسی حد تک پرسکون ہوچکے ہیں جس میں یہاں کی سیکورٹی ایجنسیوں ، پاک فوج اور وطن کی حفاظت کے ضامن دیگر اداروں کی مالی اور جانی قربانیاں سرفہرست ہیں۔ان مخدوش حالات میں بھی پاکستان نے اپنی تاریخ کا سب سے بڑا تجاتی معاہدہ ’’معاشی راہ داری‘‘ کی شکل میں چین کے ساتھ کیا ہے۔ کیا ان حالات میں یہ سوچا جاسکتا ہے کہ پٹھانکوٹ جیسے واقعات کے پیچھے پاکستان ہوسکتا ہے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان دہشت گردی کی مزاحمت ہی کرسکتا ہے چاہے وہ بھارت میں ہو یا افغانستان میں ، وہ کسی طور بھی دہشت گردی کے الزامات کو بھی افورڈ نہیں کرسکتا۔
اب معاملہ آجاتا ہے کہ ایک طرف مودی صاحب پاکستان کا ’’اچانک‘‘ دورہ کرتے ہیں اور بنگلہ دیش اور افغانستان میں پاکستان کے خلاف زہر اگلنے کے باوجود پاکستان میں امن کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں۔ اب اگر بھارت میں تمام ادارے ایک پالیسی پر یکسو ہیں تو یہ چانکیائی سیاست کا عروج ہی کہا جاسکتا ہے یا دوسرے الفاظ میں بغل میں چھری اور منہ میں رام رام۔ لیکن اگر ہندو انتہا پسند حلقے جن میں بھارت کا میڈیا اور صحافتی حلقے بھی شامل ہے وہ پاکستان میں امن وسکون کی صورتحال کو حسد کی نگاہ سے دیکھ کر اس قسم کے ڈرامے پر اتر آئے ہیں تو یہ خود ان کے لئے مستقبل میں سب سے زیادہ خطرناک ثابت ہوگا۔لیکن اگر کچھ سنجیدہ بھارتی حلقے اس سلسلے میں انصاف پر مبنی موقف اپنانے کی بات کرتے ہیں تو انہیں اس ’’چور‘‘ کو اپنے ہاں تلاش کرنا ہوگا ۔
خطے کے مخدوش ترین حالات میں پاکستان کا چین کے ساتھ اقتصادی راہ داری کا معاہدہ کرکے اس پر تیزی کے ساتھ عملدآمد کرا دینا کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے جس انداز میں پختگی کا ثبوت دیا ہے وہ قابل تعریف ہے لیکن جس وقت یہ معاملہ شروع ہوا تھا اس وقت سے ہم یہ کہتے آئے ہیں کہ یہ منصوبہ بڑے بڑوں کو ہضم نہیں ہوگا خاص طور پر ہمارے پڑوسی بھارت کو ، اس لئے اس کو مکمل کرنے کے لئے پہاڑ جیسے عزم کی ضرورت ہے۔ اب پٹھانکوٹ جیسے واقعات کو استعمال کرکے بھارت کی حقیقی حکمران برہمن اشرافیہ ایک طرف مقبوضہ کشمیر اور پاکستان کے پانی سے دنیا کی توجہ ہٹانا چاہتی ہے تو دوسری جانب دنیا کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے عمل سے روکنا بھی مقصود ہے۔اس حوالے سے ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنا ہوگی کہ دنیا میں اب جنگیں صرف عسکری میدان میں ہی نہیں لڑی جاتیں بلکہ ان کا بڑا حصہ معاشی میدان بھی بن چکا ہے۔
پاکستان نے جس تیزی کے ساتھ بے پناہ قربانیاں دے کر اپنے آپ کو انتہا پسندی کے گڑھے سے نکالا ہے تو وطن عزیز کے دشمنون کو ایک آنکھ نہیں بھا رہا ۔ اس بات کو بھی ذہن میں رکھا جائے کہ جس وقت 1974ء میں لاہور میں بھٹو دور میں اسلامی سربراہ کانفرنس منعقد کی گئی تھی تو اس وقت اس بات کا پورا احتمال ہوچلا تھا کہ اب کم سے کم مسلم ممالک خصوصا امیر عرب ملکوں کی توجہ پاکستان کی جانب مبذول ہوجائے گی۔ اس وجہ سے دشمنان اسلام اور پاکستان یہ محسوس کرنے لگے تھے کہ اب اسلامی دنیا پاکستان کی سیاسی وعسکری قیادت میں دنیا کے ساتھ معاملات آگے بڑھائے گی۔ اس کانفرنس کے سب سے بڑے روح رواں سعودی عرب کے شاہ فیصل مرحوم اور پاکستانی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ مسلم دنیا کے اتحاد اور پاکستان کی معاشی خودمختاری کو خطرہ سمجھتے ہوئے امریکا بہادر نے بھارت کو جوہری دھماکے کا اشارہ کیا تھا۔ یوں اس کانفرنس کے انعقاد کے ٹھیک چار ماہ کے اندر اندر بھارت نے ایٹمی دھماکا کرکے مسلم دنیا کو واضح پیغام دینے کی کوشش کی تھی کہ مسلم اتحاد کو کسی طور بھی عالمی سطح پر ایک طاقت کے طور پر ابھرنے نہیں دیا جائے گا لیکن بعد کی تاریخ نے ثابت کیا کہ بھارت کا یہ ’’پیغام‘‘ خود اس کے گلے میں اس شکل میں گلے پڑ گیا کہ پاکستانی قوم نے خوف میں مبتلا ہونے کی بجائے خود یہ جوہری قوت حاصل کرنے کا اعلان کردیا اور اس وقت کے وزیر اعظم بھٹو نے یہ تاریخی جملہ کہا کہ ’’ہم گھاس کھا لیں گے لیکن جوہری قوت ضرور حاصل کریں گے‘‘۔ اب اگر بھارت پٹھانکوٹ جیسے واقعات کو پاکستان کے خلاف استعمال کرکے اس کی معاشی ترقی کے راستے میں روڑے اٹکانا چاہتا ہے تو یہ بھی اس کی تاریخی بھول ہی ثابت ہوگا ۔
جہاں تک واچپائی اور مودی صاحب کی ’’امن کوششوں‘‘ کا تعلق ہے تو ایک بات بطور پاکستانی ہمیں ذہن نشین رکھنا ہوگا کہ بھارت میں کانگریس کی حکومت ہو یا بھارتیہ جنتا پرٹی برسراقتدار ہو یا ہندو انتہا پسند جماعتوں کا معاملہ ہو حقیقت میں بھارت پر ’’برہمن اشرافیہ‘‘ یا دوسرے الفاظ میں برہمن اسٹیبلشمنٹ کا شروع سے راج ہے ۔ یہی برہمن اشرافیہ بھارت کے عسکری حلقوں پر راج کرتی ہے ۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ امریکی صدر ہو یا امریکا کے دیگر پالیسی ساز ادارے ہوں لیکن وہاں حکومت درحقیقت صیہونی لابی کی ہوتی ہے جو عالمی سطح پر امریکااور مغرب سے متعلق سارے امور کو اپنے ہاتھ میں رکھتی ہے۔جو حالات خطے میں اب پیدا ہوچکے ہیں اس میں پاکستان کی اہمیت میں گزشتہ چند برسوں سے اضافہ ہی ہوا ہے۔ افغانستان میں قیام امن کا معاملہ ہو یا مشرق وسطی میں جاری جنگوں کی صورتحال پاکستان کو اس سارے معاملے میں ایک حصے کے طور پر دیکھا جارہا ہے جبکہ عالمی صیہونی قوتیں پاکستان کے اس کردار کو محدود کرنے کے لئے اسے خطے کے معاملات میں الجھانے کی کوششوں میں ہیں۔
اس چیز کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ بھارت خطے میں امریکا اور اسرائیل کا سب سے بڑا اتحادی ہے اور چین کی جانب امریکا کی فرنٹ لائن بناہوا ہے ۔ اس لئے بھارت میں ہونے والے ہر معاملے پر امریکا براہ راست نظر رکھے ہوئے ہے ۔ مودی صاحب کا ’’اچانک‘‘ دورہ لاہور میں بھی یہی عالمی قوتیں پس پشت موجود ہیں تاکہ جزوقتی طور پر اسلام آباد اور دہلی کو شیرشکر کروا کر کابل میں اپنے مقاصد حاصل کئے جاسکیں۔ اس سلسلے میں بھارت کو افغانستان میں موجود لاکھوں ٹن لوہے کے اسکریپ کی شکل میں معاشی فوائد کی شکل دکھائی جارہی ہے جس کے لئے بھارت کو پاکستان کے اندر سے ایک زمینی راستہ درکار ہے ۔لیکن اگر اسی قسم کی الزام تراشیاں جاری رہیں تو افغانستان تو دور کی بات بھارتی واہگہ بارڈر تک نہیں پہنچ سکیں گے۔دوسری جانب جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اس وقت مشرق وسطی ایک بڑی جنگ کے دہانے پر آن پہنچا ہے ۔ شام کے معاملے میں روس کو خطے میں داخل ہونے پر مجبور کردیا گیا ہے ۔ لیکن عالمی سطح پر پاکستان کو اس خطے کے معاملات سے دور رکھنے کی کوششیں بھی جاری ہیں تاکہ پاکستان کی عسکری صلاحیتوں سے خطے کے دوست ممالک فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ اس سلسلے میں پاکستان کی سیاسی قیادت بھی حالات کے پورے ادراک سے قاصر رہی ہے۔ہونا تو یہ چاہئے کہ خطے کے موجودہ حالات کے تناظر میں پاکستان کی خارجہ پالیسی سفارتی سطح پر تیز دھار تلوار کی مانند ہو جس کی کاٹ تمام دنیا محسوس کرے ، کیونکہ جن عوامل کے بطن سے موجودہ حالات نے جنم لیا ہے اس میں سب سے زیادہ زخم خوردہ پاکستان ہے۔ پاک فوج اور ملکی دفاع کے ضامن دیگرادارے اس وقت وطن کی حفاظت کی خاطر چومکھی لڑائی لڑ رہے ہیں تو دوسری جانب سیاستدان نما نوسر باز ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں اور جب ان پر ہاتھ پڑنے کا مرحلہ آتا ہے توپاک فوج کو حالات میں پھنسا دیکھ کر اپنی نجات کے راستے تلاش کرتے ہیں۔اس لئے خارجی دشمنوں کے ساتھ ساتھ ریاست پاکستان کو ان داخلی دشمنوں پر بھی ہاتھ ڈالنا ہے اس لئے جہاں افغانستان اور بھارت کے امور پر گہری نظر رکھنا ضروری ہے وہاں مشرق وسطی کے معاملات اور حالات کے پس منظر پر بھی نگاہ رکھنا ہوگی۔ چین اور روس نے شمالی افریقا کے بعد جو بھاری سرمایہ کاری شام میں کی تھی اسے امریکا اور اس کے صیہونی صلیبی اتحادیوں نے خانہ جنگی کی شکل میں ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کرا دیا ہے۔ دوسری جانب ایران کوجوہری معاملات میں مذاکرات کا لالی پوپ دے کر اسے روس اور چین سے دورکرنے کی کوشش کی گئی ۔
پاکستان کے پالیسی ساز اداروں کو یہ بات ذہن میں رکھنا ہوگی کہ اس وقت تمام مشرق وسطی میں فرقہ واریت کی جس جنگ کو جان بوجھ کر ہوا دی گئی ہے وہ بھی منصوبے کی ایک بڑی کڑی ہے۔ ان تمام حالات کی بو سونگھتے ہوئے سعودی عرب نے امریکا کو ہاتھ پکڑانے سے انکار کردیا تھااور روس کی راہ لی تھی۔ سعودی وزیر دفاع کا دورہ ماسکو اس کی ایک اہم کڑی تھا جو خطے میں ایک ایسا واقعہ ہے جس کے بارے میں ایک برس قبل تک سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔یہی وہ حالات ہیں کہ روس چین کے ساتھ مل کر ایشیا میں اپنا بلاک مضبوط کرنا چاہتا ہے اور انہی عوامل کے تحت بہت پہلے شنگھائی تعاون تنظیم کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ اسے بھی ذہن نشین رکھا جائے کہ امریکانے ستر کی دہائی میں پاکستان کے ذریعے چین تک رسائی حاصل کی تھی آج اسی طرح چین کے ذریعے روس پاکستان تک رسائی حاصل کررہا ہے اور غالباً یہی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ امریکا اور اس کے صیہونی صلیبی اتحادی اس بات سے واقف ہیں کہ اگر کریمیا کے راستے روس بحیرہ روم میں داخل ہوکر اسرائیل کے سر پر لٹکتی ہوئی تلوار بن گیا تو مشرق وسطی کا سارا کھیل صیہونی دجالی قوتوں کے ہاتھوں سے نکل جائے گا۔ دوسری جانب پاکستان کو اس بات کا خاص خیال رکھنا ہوگا کہ آنے والے وقت میں پاکستان کو مشرق وسطی کے معاملات سے دور رکھنے کے لئے عالمی صیہونی قوتوں نے بھارت کو ہی پاکستان کے خلاف حرکت دینی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ مصلحت اندیش حکومت کی بجائے وہاں انتہا پسندانہ ہندو حکومت قائم کروائی گئی ۔ان حالات کا مقابلہ پاکستان چین اور روس کی مدد سے آسانی کے ساتھ کرسکے گا۔کیونکہ اقتصادی راہ داری اور گوادر کی شکل میں پاکستان میں چین کے مفادات بے پناہ ہوجائیں گے اور پاکستان کی سلامتی کو لاحق خطرات کی شکل میں وہ کبھی اپنی اقتصادی شہہ رگ بھارت کے ہاتھ میں دینے کے لئے تیار نہیں ہوگا۔ دوسری جانب روس کا جغرافیائی پچھواڑایا بیک ڈور ایریا افغانستان ہے جسے پاکستان کی مدد کے بغیر مستحکم نہیں کیا جاسکتا یہ روس کے لئے بہت ضروری ہے۔ اس لئے پاکستان کو ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے کہ وہ موجودہ حالات کے تناظر میں چین کی طرز پر روس سے بھی انتہائی مضبوط تعلقات استوار کرے۔
مشرق وسطی کی صورتحال میں نیا موڑ آگیا، سعودی عرب اور ایران سفارتی تعلقات بحال کرنے پر رضامند ہو گئے۔ایرانی میڈیا کے مطابق سعودی عرب اور ایران اپنے سفارتخانے کھولنے کی تیاری کررہے ہیں، رکن ایرانی پارلیمنٹ جلیل رحمانی نے گفتگو میں سفارتی تعلقات بحالی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ دونو...
کوئٹہ پولیس ٹریننگ مرکز پر حملے کی نگرانی افغانستان سے کی گئی، مقامی نیٹ ورک کو استعمال کیا گیا حساس اداروں نے تفصیلات جمع کرنا شروع کردیں ، افغانستان سے دہشت گردوں کی حوالگی کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے بھاری ہتھیاروں کے ساتھ کوئٹہ پولیس کے تربیتی مرکز پر ہونے والے خود کش حم...
امریکاکے بعد برطانیہ نے بھی پاکستان کودہشت گردوں کی پناہ گاہ قراردینے کا بھارتی دعویٰ یکسر مسترد کردیا برطانیہ میں مقیم بھارتیوں کی آن لائن پٹیشن پر پاکستان کی قربانیوں کے برطانوی اعتراف نے بھارتی غبارے سے ہوا نکال دی امریکا اوربرطانیہ دونوں ممالک نے بھارتی حکومت کے اشارے اور ...
بھارتی فوج کی جانب سیکنٹرول لائن پر دراندازی کے واقعے کے بعدجسے اس نے سرجیکل اسٹرائیک کانام دینے کی ناکام کوشش کی، بھارتی فوج کے سربراہ نے عالمی سطح پر بھارت کی اس مذموم کارروائی کی مذمت سے بچنے کیلیے اعلان کیاتھا کہ کنٹرول لائن پر جو واقعہ ہوا، اس کے بعد اب بھارت پاکستان کے خلاف...
اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے گزشتہ روز وزیراعظم کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کی اور بھارت کے جنگی جنون سے نمٹنے اور مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کی بھرپور مدد کرنے کے حوالے سے کوششوں کیلیے وزیر اعظم کابھر پور ساتھ دینے کا اعلان کیا۔اپوزیشن کے رہنماؤں نے اس ناز...
یوں توآج کل پورا برصغیر آپریشنوں اور اسٹرائیکوں کے شور سے پریشان ہے مگر کشمیر براہ راست ان کی زد میں ہے۔ یہاں حکومت نے آپریشن ’’کام ڈاؤن‘‘کا آغاز کرتے ہو ئے پورے کشمیر کو بالعموم اور جنوبی کشمیر کو بالخصوص سیکورٹی ایجنسیوں کے رحم و کرم پر چھوڑا ہے۔ انھیں مکمل طور پر کھلی چھوٹ ہے۔...
بھارت کنٹرول لائن پر در اندازی کی کوشش کو پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک کا نام دے کر دنیا بھر میں پاکستان کو بدنام کرکے مقبوضہ کشمیر کے عوام پر اپنے سفاکانہ مظالم پر پردہ ڈالنے کی کوششوں میں ناکامی اور اس ناکامی کے بعد سے مسلسل سرحدوں پر چھیڑ چھاڑ میں مصروف ہے، جس کا اندازہ اس ...
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد ان دنوں زبردست سفارتی اور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہو اہے ۔ گزشتہ دو ہفتوں سے پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی نے سفارتی حلقوں کو بہت زیادہ سرگرم کیا ہواہے ۔ پاکستان کے دفاعی اور سفارتی حلقوں کی شبانہ روز کاوشوں نے بھارت کو سفارتی اور دفاعی لح...
سولہ ستمبر 1977ء کی ایک سرد رات اسرائیلی جنرل موشے دایان پیرس کے جارج ڈیگال ائر پورٹ پر اترتا ہے، وہ تل ابیب سے پہلے برسلز اور وہاں سے پیرس آتا ہے جہاں پر وہ اپنا روایتی حلیہ بالوں کی نقلی وگ اور نقلی مونچھوں کے ساتھ تبدیل کرکے گہرے رنگ کی عینک لگاکر اگلی منزل کی جانب روانہ ہوتا ...
منصوبہ خطرناک تھا‘ پاکستان کو برباد کرنے کیلئے اچانک افتاد ڈالنے کا پروگرام تھا‘ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں فوجی آپریشن سے قبل کراچی‘ سندھ اور بلوچستان میں بغاوت اور عوامی ابھار کو بھونچال بنانے کا منصوبہ بنایا تھا تاکہ مقبوضہ کشمیر میں اس کی سفاکی اور چیرہ دستیاں دفن ہوجائیں اور ...
بدھ کی شب تقریباً ڈھائی بجے یا یوں کہیے کہ جمعرات کو علی الصبح جب کنٹرول لائن کے دونوں طرف کے شہری اپنے گھروں میں آرام سے سو رہے تھے بھارتی فوج نے یہ سوچ کر کہ شاید پاکستانی فوجی بھی خواب غفلت میں کھوئے ہوں گے کنٹرول لائن عبور کرنے کی کوشش کی لیکن پاک فوج نے اس کافوری جواب دیا، ب...
اوڑی حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیے جانے کے بعد بھارتی حکومت پر وہاں کے میڈیا اور انتہاپسند ہندو تنظیموں کا شدید دباؤ تھا کہ اس کا جواب دیا جائے گا۔ ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی نے جوش خطابت میں پاکستان کو دندان شکن جواب دینے کی بڑھکیں تو لگادیں مگر جب انہیں عملی جامہ پہانے ...